سوشل میڈیا اکاؤنٹس

محمود شام

محمود شام

پاکستان کے ممتاز صحافی، شاعر، ادیب اور تجزیہ کار جناب محمود شام 5 فروری 1940

آسان زندگی جنوبی ایشیا کا بھی حق ہے

کیا ہمارے موجودہ حکمرانوں نے طے کیا ہے کہ وہ کیسا پاکستان چاہتے ہیں اور اس ہدف کیلئے انہوں نے ایک سال کے عرصے میں کتنا فاصلہ طے کیا ہے منزل سے کتنی دور ہیں۔

حکمران تو ورقی اور برقی میڈیا پر بڑے بڑے اشتہارات اپنی تصویروں کے ساتھ دے کر قوم کو بتا دیتے ہیں کہ ان کے کارنامے کیا ہیں کیا یہ حکمران اپنے قریبی حلقوں میں تجزیہ کرتے ہیں کہ انکے بیانات اشتہارات اور رپورٹوں پر عوام میں سے کتنے فیصد اعتماد کرتے ہیں۔ سینکڑوں سال بعد تاریخ کے اوراق میں ہم جب یہ پڑھتے ہیں کہ فلاں مغل بادشاہ کے دور میں فلاں فلاں صوبے میں شورش نے سر اٹھایا تو فلاں شہزادے کو اس سرکشی کو کچلنے کیلئے بھیجا گیا ۔تاریخ ہمیں جنگوں میں شورش زدہ علاقوں کے بارے میں یہ تو بتاتی ہے کہ کس کی کامیابی ہوئی لیکن تاریخ کے طالب علم کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ جن اسباب کی بنا پر شورش برپا ہوئی ان کو دور کیا گیا یا نہیں کیا وہ اسباب حقیقی تھے یا کسی دشمن ملک کے اکسانے پر پروپیگنڈا کیا گیا یا کسی ہمسایہ ملک کے فنڈز ان لوگوں کو مشتعل کر رہے تھے لیکن جب طالب علم مغلیہ دور کا مطالعہ کرتے ہوئے آخری ایام تک پہنچتا ہے تو اسے اندازہ ہوتا ہے کہ وہی اسباب تھے جو ان طاقتور حکمران خاندانوں کو لے ڈوبے ۔

بر صغیر کی تاریخ میں یہ اتار چڑھاؤ ہمیشہ رہے ہیں لیکن بیسویں اور 21ویں صدی میں تو یہ خطہ جہاں دو ارب سے زیادہ انسان بستے ہیں وہاں مغل دور سے بھی زیادہ شورشیں ہو رہی ہیں صوبے خود مختاری کیلئے آوازیں بلند کرتے ہیں اسمبلیوں میں تقریریں بہت واضح ہوتی ہیں اسباب و علل کھل کر بتائے جاتے ہیں لیکن مرکزی حکمران انہیں اہمیت نہیں دیتے ۔زیادہ تر ہمسایہ ملکوں کی سازشوں کا الزام عاید کیاجاتا ہے ۔جنوبی ایشیا میں بھارت ،پاکستان، بنگلہ دیش ،نیپال، سری لنکا ،مالدیپ ،بھوٹان اور اب افغانستان بھی شامل ہے یہاں مغلوں کے بعد برطانوی حکمرانوں کا غاصبانہ دور رہا اس عرصے میں بھی آزادی کی تحریکیں چلیں۔ پھانسیاں ہوئیں۔ اجتماعی قبریں ملیں۔ انگریز جاتے جاتے کشمیر کا ایسا متنازع فیصلہ کر گئے کہ وہاں 77 سال سے محکومی جاری ہے۔ بھارت کی غاصبانہ حکمرانی کے باعث اس خطے میں اب تک حالات معمول پر نہیں ہیں۔ امریکہ یورپ آسٹریلیا میں انسانوں کو جتنی سہولتیں ملتی جا رہی ہیں زندگی جتنی آسان ہو رہی ہے۔ جنوبی ایشیا میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ان ممالک میں جسے نارمل کہا جاتا ہے وہ جنوبی ایشیا میں نارمل نہیں ہے ۔

اس خطے میں دانشوروں نے بھی کوئی اچھی روایات قائم نہیں کی ہیں۔ درباری مورخوں سے شکایت تو دنیا بھر میں رہی ہے لیکن 19 ویں صدی کے اواخر سے میڈیا کی اٹھان نے حالات کی سچی تصویر کشی شروع کی تو حکمرانوں پر دباؤ بڑھا ۔جمہوری ڈھانچے وجود میں آتے رہے۔ اکثریت کو فیصلہ سازی کا حق دیا گیا۔ یورپ نے کئی کئی سال تک جاری عالمی جنگوں سے سبق سیکھا ۔وہاں جمہوری حکومتوں کے تسلسل نے تعصبات اور اختلافات کو آہستہ آہستہ ختم کیا تو وہاں انسانی عظمت کو علاقائی تعصبات اور نسلی مخاصمتوں پر غلبہ حاصل ہوا اور اب یہی یورپی ممالک ہمارے نوجوانوں کے مراکز کشش ہیں۔ مجھے یہ ملال آج کیوں اپنی گرفت میں لے رہا ہے۔ جیکب آباد سے ایک خبر نے بہت متاثر کیا ہے دو کالمی خبر ہے کہ عید کے دن 400 ہندو خاندان پاکستان چھوڑ کر بھارت روانہ ۔جو کماتے ہیں لٹیرے لوٹ کر لے جاتے ہیں گھر اور کاروبار کچھ محفوظ نہیں۔ حالات ایسے ہو سکتے ہیں لیکن خبرکے مندرجات مرتب کرتے وقت اعداد و شمار کا دباؤ محسوس نہیں کیا گیا کہ 400 خاندان ایک ہی دن اور ایک ٹرین سے کیسے انڈیا روانہ ہو گئے ایک خاندان میں اگر ہم تین چار ارکان کا بھی تصور کریں تو 16 ,15 سو مسافر تو بنتے ہیں ۔

بھارت میں ایک بڑا حلقہ ایسی خبروں کا منتظر رہتا ہے اور پھر پاکستان میں ہندوؤں پر مظالم کی خبریں تراشنے، وی لاگ کرنے، بیانات جاری کرنے شروع کر دیے جاتے ہیں ۔میری اور میرے کئی رفقائے کار کی کوشش یہ رہی ہے کہ بر صغیر میں امن بھائی چارہ اور انسانی زندگی کیلئے آسانیاں پیدا کرنے کی طرف توجہ دلائی جائے ۔حکمرانوں کے ساتھ ساتھ یونیورسٹیوں اور تحقیقی اداروں کو بھی باور کروایا جائے۔ متعصب شدت پسند گروہوں کو موقع نہ دیا جائے کہ ایسی صورتحال سے فائدہ اٹھائیں۔

جیکب آباد پرامن اور ذمہ دار شہریوں کی سرزمین ہے ۔میں نے وہاں ہندو پنچایت کے لال چند صاحب سے فون پر بات کی انہوں نے کہا کہ ہندو برادری کی رشتہ داریاں ہیں اور بعض مقامات پر وہ اپنی رسومات کیلئے جانا چاہتے ہیں۔ عید کے دن صرف ایک خاندان وزٹ ویزے پر گیا ہے اور وہ واپس بھی آئے گا پہلے بھی لوگ جاتے رہے ہیں واپس آئے ہیں۔ لوٹ مار کی صورتحال صرف ہندو برادری کیلئے نہیں ہے یہ سب کیلئے ہے ۔پاکستان میں تھرپارکر میں مٹھی ایک ایسا شہر ہے جہاں ہندو برادری کی اکثریت ہے وہاں سے ڈاکٹر مہیش میلانی قومی اسمبلی کیلئے عام انتخابات میں کامیاب ہوئے ان سے بھی رابطہ ہوا تو انہوں نے کہا ہمارے علاقے میں ایسی کوئی بے چینی نہیں ہے ہم سب ایک دوسرے کے چارہ ساز ہیں۔ کچے میں ڈاکوؤں کی سرگرمی کے باعث مسلمان اور ہندو سب متاثر ہیں ان حالات کی وجہ سے نقل مکانی یورپی ممالک کی طرف بھی ہو رہی ہے ان خبروں کو اتنی اہمیت نہیں دی جاتی ۔ایک معروضی تبصرہ یہ تھا کہ موجودہ حکمرانوں کی نااہلی کے باعث سندھ کے بعض علاقوں میں امن و امان کی صورتحال بہت مخدوش ہے۔ ہندو تاجروں کو بھی اسی طرح تنگ کیا جاتا ہے جیسے مسلمان کاروباریوں کو ۔ ہندو برادری سماجی طور پر اپنے آپ کو کمزور سمجھتی ہے اس لیے وہ زیادہ متاثر ہو رہی ہے لیکن مجموعی طور پر یہ تاثر غلط ہے کہ ہندو خاندان پاکستان چھوڑ کر بھارت روانہ ہو رہے ہیں اس ضمن میں میری گفتگو ماہر قانون کلپنا دیوی ۔ ماہر نفسیات ڈاکٹر لوہانو سے بھی رہی۔

پاکستانی اکثریت ہر قسم کا جبر سہ چکی ہے ہم فوجی انداز حکمرانی براہ راست بھی دیکھ چکے ہیں اور بالواسطہ بھی۔ایسے خاندانوں کی طرز حکمرانی بھی بھگت چکے ہیں ،بھگت رہے ہیں جو صرف اپنے مفادات کی تکمیل چاہتے ہیں اور اکثریت کو زندگی کی سہولتیں نہیں دیتے ۔اس جدید تحقیقاتی جرنلزم کے دور میں ضرورت یہ ہے کہ پاکستان کی یونیورسٹیاں تحقیقی ادارے تمام اہم امور پر اپنے معروضی انداز میں تفصیلی رپورٹیں مرتب کریں۔ فوجی حکمرانی کا اپنا طریقہ کار ہوتا ہے۔ سیاسی حکمرانوں کا اپنا اور اب تیسرا عنصر سوشل میڈیا آگیا ہے جس میں حقائق بھی ہوتے ہیں لیکن اشتعال انگیز سرخیاں بھی۔ اس سے پورے جنوبی ایشیا میں ایک شورش کا سماں پیدا ہوتا ہے۔ مسائل حل نہیں ہوتے انسان کی حیثیت اور زندگی متاثر ہوتی ہے سارے خطے میں زندگی کوآسان بنانا وقت کا تقاضا ہے، اس خطے کی یونیورسٹیوں ،تحقیقی اداروں اور میڈیا کو اپنا یہ ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا چاہئے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *