مسلم دنیا کی سازشوں سے بھرپور بدقسمت تاریخ کا ایک اور باب ایرانی صدر ابراہیم رئیسی، ایرانی وزیر خارجہ، گورنر تبریز اور آیت اللہ خامنہ آی کے ترجمان کو ہیلی کاپٹر کے حادثے میں شہید کر کے بند ھو گیا۔ ایرانی قانون کے تحت نائب ایرانی صدر نے قائم مقام صدر کا عہدہ سنبھال لیا ھے اور پچاس روز میں نئے صدارتی انتخابات کے ذریعے نئے صدر کا انتخاب عمل میں آئے گا۔ لیکن علاقائ اتحاد کی کوششوں کو دوبارہ شروع کرنے کے لئے ایک طویل وقت درکار ھو گا اور تمام علاقئ قؤتوں کو ایک صفحے پر لانا بھی ایک نئ جدوجہد ھو گی۔ اور خواب خرگوش میں رھنے والی مسلم دنیا سمیت باقی دنیا کی توجہ اس حادثے کی طرف لگا کر غزہ سمیت دوسرے محاذوں پر دوسرے مقاصد کے حصول کے لئے کوششیں فیصلہ کن مراحل میں ھونگی۔ تاریخ کے طالبعلم اس بات کو بخوبی سمجھتے ھیں کہ دیکھنے میں تو یہ محض صرف ایک سربراہ مملکت کی حادثاتی شہادت ھے لیکن اس کے ہمہ گیر مضمرات تاریخ میں ایک طویل عرصے تک محسوس کئے جائیں گے۔اس حادثے پر مسلم دنیا کے بعض حلقوں کو افسوس نہیں ھوا تاھم ان کو ابھی اندازہ نہیں کہ جسم کے ایک حصے پر لگنے والی ضرب کچھ عرصے بعد جسم کے باقی حصے کو بھی متاثر کرتی ھے !
کچھ عرصے سے نئے علاقائ اتحاد بننے کی کوششیں ھو رھی تھیں اور حالیہ دنوں میں علاقائ اور عالمی واقعات کی وجہ سے ان کوششوں میں ایک تیزی آئ تھی جن کے لئے یہ شہداء دیگر علاقائ ممالک کے ساتھ سرگرم اور مثبت کردار ادا کر رھے تھے۔غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت پر بھی ان کے اثرات تھے۔ اور ایسے کرداروں کو منظر سے ہٹانے سے مخالف قؤتوں کا کام آسان ھو جاتا ھے۔
چند ماہ قبل جب پاکستان اور ایران کو ایک دوسرے کے ساتھ ایک دوسرے کے علاقے میں دھشت گردوں کے خلاف کاروائ کر کے جنگ کے دھانے پر لا کر کھڑا کر دیا گیا تھا اس وقت چین کی معاملہ فہمی اور فوری مداخلت سے ہم ایک ایسی جنگ سے بچ گئے جو دونوں برداراسلامی ممالک کو ھی نہیں بلکہ دنیا بھر میں مسلمانوں کی ختم ھوتی ھوئ دفائ اور معاشی قؤت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاتی اور مسلمانوں کی اکثریت کو ایک طویل ترین عرصے تک پتا بھی نہیں چلتا کہ کیا قیامت بیت گئ !
ابراہیم رئیسی انقلاب ایران کے ہراول دستے میں شامل رہے پھر مقامی پراسیکیوٹر تعینات ھوئے، پھر تہران کے پراسیکیوٹر کے منصب پر فائز ھوۓ اور پھر منصف کی نشست تک پہنچے اس کے بعد اقتدار میں آئے تو صدارت تک پہنچے۔ ایک انقلابی سیاسی رہنما بننے کے طویل سفر نے انہیں اس مرتبے کا آھنی لیڈر بنا دیا تھا جہاں وہ ایران ھی نہیں علاقائ اور عالمی سیاست پر بھی اثر ڈال رھے تھے۔ انہیں قدامت پسند لیڈر کہا جاتا تھا لیکن انہی کے دور میں کئی برس بعد چین کی کوششوں سے سعودی عرب سے ایران کے تعلقات بحال ہوئے۔ بین الاقوامی تعلقات کو سمجھنے والے یہ بات جانتے ھیں کہ ان تعلقات کی بحالی دو ایک دن کی یا چند دوروں کی وجہ سے ممکن نہیں ھوتی۔ تعلقات کی بحالی کے ان فیصلوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے مہینوں سالوں کی پس پردہ کوششیں اور رائے عامہ کو ہموار کرنے کا ایک طویل سفر ھوتا ھے۔
ایرانی صدر اور وزیر خارجہ دونوں حال ہی میں پاکستان بھی آئے تھے ۔ انہیں آیت اللہ خامنہ آی کا جانشین بھی سمجھا جاتا تھا.
دیگر ممالک کی طرح ایرانی صدر اور اہم حکومتی شخصیات کے لئے ایک سیفٹی پروٹوکول ھوتا ھے۔ ایرانی سیفٹی پروٹوکول کے تحت ایرانی صدر عام طور MI-17 ہیلی کاپٹر استعمال کرتے تھے جسے ایرانی پاسداران انقلاب اپنی نگرانی میں صدر کے لئے استعمال کرتے تھے لیکن اس دورے کے لئے ایرانی صدر رئیسی کے لئے ایک پرانے امریکی ہیلی کاپٹر کو استعمال کیا گیا۔ حالانکہ اس سفر کے لئے ھیلی کاپٹر کے بجائے جہاز کا استعمال زیادہ موزوں ھوتا کیونکہ اس سفر کے دوران ھیلی کاپٹر کو جنگل اور پہاڑیوں کے طویل علاقے سے گزرنا تھا اور یہ ھیلی کاپٹر اس سفر اور موسم کے لئے سیفٹی پوائنٹ سے موزوں نہیں تھا خراب موسم کے باعث حد نگاہ صرف محض چند میٹر تھی۔اس بدقسمت سفر میں ایرانی وزیر خارجہ کو بھی اسی ھیلی کاپٹر میں بٹھا دیا گی۔ حیرت انگیز طور پر سیکیورٹی کے عملے نے ان تبدیلیوں پر اعتراض بھی نہیں کیا۔ یہ معاملہ ایسا ھی تھا جیسا کہ 1988 میں پاکستانی صدر کےC-130 جہاز کا بہاولپور سے پرواز کے وقت تھا جس میں پروٹوکول کی خلاف ورزی کرتے ھوئے متعدد اہم شخصیات ایک ھی جہاز میں اپنے آخری سفر پر روانہ ھوئ تھیں۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ھے کہ موجودہ حالات میں اتنی اہم شخصیت کے ایرانی سیفٹی کے عملے نےاتنی بڑی فاش غلطی کس کے ایماء پر کری !
حادثے کےکچھ دیر بعد ایرانی ادارے صدر کے ھیلی کاپٹر کو تلاش کرنے کی کوششیں کر رھے تھے۔ اتنی اہم شخصیت کا ھیلی کاپٹر ایسے آلات سے لیس نہیں تھا جو ایرانی حکام کو اس کی حرکات اور حادثے کی صورت میں جائے وقوع کا فوری پتہ دیتا۔ جبکہ اس دوران میں اسرائیلی ذرائع ایرانی صدر اور دیگر مسافروں کی ہلاکت کا عندیہ دے رھے تھے۔
حالیہ پاک ایران سرحدی تنازعہ شائد علاقے کی ایک اور ایران عراق جنگ ثابت ھوتی جس میں دونوں مسلم ممالک کی فوجی دفاعی، اقتصادی اور افرادی قؤت کو بھرپور نقصان پہنچا کر مسلم دنیا کے اور مشرق وسطیٰ کے دو اہم اسلامی ممالک کو ختم کر دیا گیا تھا۔ پاک ایران سرحدی تنازعہ چین کی مداخلت اور مرحوم ایرانی صدر رئیسی اور کچھ پاکستانی دور اندیشوں کی بصیرت اور مثبت سوچ کی وجہ سے حل ھو گیا اور پاک ایران جنگ کا خطرہ ٹل گیا ورنہ دونوں ممالک میں موجود بیرونی ایجنٹوں اور بعض بڑی طاقتوں نے تو مسلم ممالک کو تباہ کرنے کے اس سلسلے کو آخری مرحلے میں پہنچانے کی پوری کوشش کری تھی۔ یہ اسی سلسلے کی کڑی ھے جس کی ابتداء میں شاہ فیصل کی شہادت کے بعد سازش کے ذریعے ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار تک پہنچا کر، پھر اگلے مراحل میں عراق کو پھر لیبیا اور دیگر اہم اسلامی ممالک کو تباہ کیا گیا اور دیگر اسلامی ممالک میں اپنی من پسند حکومتیں بنوائ گئیں۔ جہاں ابھی تک تبدیلی نہیں لائ جاسکی ان ممالک کو اندرونی خلفشار میں مبتلاء کر دیا گیا ھے۔
پاکستان بھی ان ممالک میں سے ایک ھے جہاں ابھی تک مکمل کنٹرول نہیں ھو سکا جسکی وجہ سے پاکستان کو بھی مستقل خلفشار میں رکھا جا رھا ھے۔
ایرانی صدر اور وزیرخارجہ کی شہادت سے علاقائ اتحاد کی کوششوں کو شدید نقصان پہنچا ھے جو چین کی کوششوں سے نہ صرف اس علاقے میں شروع ھوئ تھیں بلکہ بین الاقوامی اقتصادی اتحاد کے دائرے کو افریقہ تک پھیلایا گیا۔ اس حادثے کے بعد علاقائ اتحاد کی کوششوں کو جو دھچکا لگ چکا ھے اس کو پورا ھونے میں ایک طویل وقت اور کوششیں درکار ھونگی جب تک اس علاقائ اتحاد مخالف قؤتیں اپنے دوسرے منصوبوں پر عمل پیرا ھونگی تاکہ علاقائ اتحاد کی کوششوں کو مکمل طور پر سبوتاژ کیا جاسکے۔ مشرق وسطیٰ میں پچھلے چھ ماہ سے اسرائیل کی غزہ میں جاری بربریت اور دوسری طرف عرب اسلامی ممالک سے اسرائیل کے دوستانہ روابط بھی کچھ انہی کوششوں کا حصہ ھیں۔ پاکستان پر بھی اسرائیل سے تعلقات استوار کرنے کے لئے اندرونی اور بیرونی سفارتی دباؤ کے علاوہ اقتصادی دباؤ بھی ھے۔ اگرچہ عرب ممالک اور اسرائیل کے تعلقات میں بہتری کے بعد پاکستان پر اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کا واحد جواز پاکستان کا فلسطینی ریاست کے قیام کا اصولی موقف اور پاکستان کی برسوں پرانی کشمیر پالیسی ھے۔
کافی عرصہ قبل نیویارک میں ایک دن ہم کچھ صحافی دوستوں کو اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب مرحوم جمشید مارکر نے پاکستان مشن میں ڈنر پر بلایا۔ جمشید مارکر پاکستان کے چند قابل ترین اور زیرک سفارتکاروں میں سے ایک تھے۔ اس ملاقات میں جمشید مارکر صاحب نے آف دی ریکارڈ بات چیت کرتے ھوئے کئ باتیں کہیں۔ وھیں یہ بھی کہا تھا کہ ہمارا اسرائیل سے کوئ براہ راست تنازعہ نہیں رھا۔ہماری اسرائیل سے اصولی لڑائ ھے اور ہمیں تو اس میں نقصان ھی ھوا ھے۔میں نے بھی اس ملاقات کی رپورٹ اپنی نیوز ایجنسی کو بھیجی۔ وھاں اس رپورٹ کو چند اخباروں میں سنسنی خیز خبر بنا دیا گیا ان کی گفتگو کی باتیں پاکستان کے چند اخبارات میں اس طرح سے شائع ھو گئیں جیسے شائد جمشید مارکر صاحب نے اسرائیل کو تسلیم کر کے پاکستان اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات قائم کے لئے کہا ھو۔ حقیقت میں جمشید مارکر صاحب نے پاکستان کے اصولی موقف کے خلاف کوئ بات نہیں کہی تھی۔ رپورٹ کے شائع ھونے کے بعد پاکستان میں حسب معمول بھونچال آنا شروع ھو گیا اس بیان پر پارلیمنٹ میں بھی بحث ھوئ اور وضاحتیں بھی طلب کر لی گئیں۔ اس وقت کے پاکستان کے اقوام متحدہ کے مشن کے پریس اتاشی نے مجھے فون کر کے میری رپورٹ پر استفسار کیا اور بتایا کہ میری رپورٹ سے پاکستان میں جمشید مارکر صاحب کی بات چیت کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا ھو گئ ھیں۔میں نے اپنی رپورٹ کی کاپی وضاحت کے ساتھ پریس اتاشی کو فیکس کری اور میں نے اس سلسلے میں نیوز ایجنس کو بھی وضاحت لکھ کر بھیجی کہ وضاحت کی جائے کہ جمشید مارکر نے براہ راست اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات نہیں کری تھی۔نیوز ایجنسی کی طرف سے اور پاکستانی مشن برائے اقوام متحدہ کی جانب سے وضاحتوں کے بعد یہ معاملہ ٹھنڈا پڑا۔
آج اگر ہم دیکھیں تو مشرق وسطی میں عرب اسرائیلی تعلقات کی تیزی کے ساتھ بحالی کے باوجود، غزہ میں جاری اسرائیل کی وحشیانہ کاروائیوں نے پاکستان کے اصولی موقف کو درست ثابت کر دیا ھے۔ اسرائیل کو تسلیم کر کے تو پاکستان کا کشمیر پر موقف بھی ختم ھو جائیگا۔
سن 1965 کی پاک بھارت جنگ سے قبل کے حالات پر بائیں بازو کے بیشتر رہنماؤں نے اس تنازعے سے احتراز برتنے کا مشورہ دیا تھا ان کے خیال میں بھارت اور پاکستان کے درمیان اگر جنگ ھوئ تو اس سے علاقے کی صورتحال اور دونوں ممالک کے تعلقات ھی خراب نہیں کرے گی بلکہ دونوں طرف بڑے پیمانے پر نقصان ھو گا اور ھتھیار فراہم کرنے والی طاقتیں فائدہ اٹھائیں گی۔لیکن اس بات پر کان نہیں دھرے گئے اور پاک بھارت جنگ سترہ روز تک جاری رھی۔ اس سے پہلے کہ یہ جنگ دوسرے محاذوں پر پھیل کر مزید تباھی و بربادی پھیلاتی، روس کی مداخلت نے جنگ کو مزید پھیلنے سے بچا کر دونوں ملکوں کو مزید نقصان سے بچا لیا تھا۔ اس دفعہ پاک ایران تنازعے کو بڑھنے سے بچانے میں ہمسایہ ملک چین نے یہ کردار ادا کر کے علاقے میں اہم کردار ادا کیا اور علاقے میں نہ صرف بڑی تباھی کو ھی نہیں روکا بلکہ دونوں ملکوں کو اور بالخصوص پاکستان کو مزید معاشی بدحالی کی طرف جانے سے بچایا۔ اس پرامن تصفیئے میں پاکستان کا فائدہ زیادہ ھوا کیونکہ پاکستان کسی طور پر بھی اس وقت مزید معاشی ابتری کا متحمل نہیں ھو سکتا۔
اس تنازعے سے ایران اور پاکستان کے براہ راست نقصان سے بڑھ کر اسلامی دنیا کے دو اہم ممالک بڑی تباھی کی طرف چلے جاتے اور یہ پچھلی تین دھائیوں قبل شروع ھونے والے نئے ورلڈ آرڈر کو مکمل کرنے کی طرف ایک بڑی پیشرفت ھو جاتی۔اسلامی دنیا میں ترکی، ایران اور پاکستان کے علاوہ کوئ اور ایسی طاقت نہیں نظر آتی جو اسلامی دنیا کو کوئ لیڈرشپ فراہم کر سکتے ھیں ۔باقی اسلامی ممالک ماضی قریب میں اسلامی ممالک کو کوئ لیڈرشپ اور vision نہیں دے سکے۔باقی اسلامی دنیا میں شور تو بہت ھے لیکن حقیقت میں صرف تال ھے۔
آج کی دنیا میں ایران، ترکی اور پاکستان اسلامی بساط میں تین اہم اسلامی ملک ھیں۔ ان کے درمیان علاقے کی دوسری طاقتوں کے ساتھ معاشی، دفاعی اور مخلصانہ تعلقات تمام اسلامی دنیا اور ان کے پرخلوص دوستوں کے ساتھ نہایت اہم ھیں۔ بدلتی ھوئ عالمی صورتحال اور اتحادات میں ہمارا موجودہ دیانتدارانہ کردار، ہمارے اور علاقے کے دوسرے دوست ممالک اور اسلامی ممالک کے مستقبل
کا فیصلہ بھی کرے گا اور مستقبل پر دور رس اثرات مرتب کرے گا !
تحریر: عاصم متین خان، نیویارک۔
- ہمارے سخت جان مگر مہربان شہر - November 21, 2024
- ہر شہری کا روزگار۔ ریاست کی ذمہ داری - November 17, 2024
- پارلیمنٹ کی برتری کیسے حاصل ہوسکتی ہے - November 14, 2024