سوشل میڈیا اکاؤنٹس

محمود شام

محمود شام

پاکستان کے ممتاز صحافی، شاعر، ادیب اور تجزیہ کار جناب محمود شام 5 فروری 1940

درس گاہیں جامع ملکی پالیسیاں مرتب کریں

لاکھوں شہیدوں کی قربانیوں سے حاصل کردہ عظیم مملکت پاکستان کو درپیش سنگین مسائل میں جیسے جیسے اضافہ ہو رہا ہے۔ ویسے ویسے ہم سب پاکستانیوں کی ذمہ داریاں بھی بڑھ رہی ہیں۔ کیونکہ یہ مسائل ہمیں ہی حل کرنا ہیں۔ ہم یعنی 24کروڑ پاکستانی، ہم اساتذہ، ہم دانشور، ہم قلم کار، ہم ہنر مند، ہم تاجر، ہم صنعت کار، ہم بلوچ، ہم سندھی، ہم پنجابی، ہم سرائیکی، ہم مہاجر،ہم پختون، ہم گلگتی، ہم کشمیری، ہم طالب علم، ہم مائیں ،بہنیں، بیٹیاں۔

ہمارے حکمران اور ریاستی ادارے مجبور ہیں، بے بس ہیں بلکہ ان مسائل کی کاشت کے ذمہ دار ہیں۔ اس لیے ہمیں اپنی طرف دیکھنا ہے اپنی اولادوں پرنظر ڈالنی ہے، اپنے ان نو جوانوں کو ساتھ ملانا ہے۔ جو باہر جانے کیلئے بے تاب ہیں۔ واہگہ سے گوادر تک سر سبز زمینیں، سونا تانبا لیے پہاڑ، گیس تیل چھپائے ریگ زار ہمارے ہیں، ہم انکے ہیں، ہمیں ہی یہ خزانے محفوظ کرنا ہیں۔آج اتوار ہے۔ اپنے بیٹوں بیٹیوں،پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں، بہوئوں دامادوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر بیٹھنے اور تبادلہ خیال کرنے کا دن، پھر نماز عصر کے بعد محلے داری کا مشن،اپنے ہمسایوں سے دکھ بانٹنے کی شام ، ایسا کرنے والوں سے پوچھیں تو سہی کہ اپنی گلی کے مکینوں سے بات چیت کرنے کے بعد دل کو کتنی تسکین ہو تی ہے، دنیا اپنی اپنی لگتی ہے، تنہائی کا خوف جاتا رہتا ہے، دکھ درددور ہوتے ہیں، آگے بڑھنے کی تمنا عود کر آتی ہے۔

انٹر نیٹ کے ذریعے دنیا بھر کے ترقی یافتہ معاشروں میں زندگی کی آسانیاں دیکھنے والے نو جوان کہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ جمہوری تو کیا مہذب بھی نہیں رہا ۔گزری صدیوں کے قبائلی معاشروں والی صورت حال نظر آتی ہے۔ عزیر و اقارب کو زر، زمین، زن کے معاملات پر خون میں نہلایا جا رہا ہے۔ طاقت وراپنی بات منوانے کیلئے نوجوانوں بزرگوں کی مشکیں کس رہے ہیں۔ پہلے زور آور گھوڑوں پر آ کر چاردیواری پھلانگتے تھے۔ اب ویگووں، ڈالوں میں آتے ہیں مگر ڈھاٹے اسی طرح منہ پر باندھے ہوئے۔ آنکھوں میں وہی سولہویں صدی کی وحشت، وہ غاروں میں لے جاتے تھے، کپڑے اتارتے تھے، اب عقوبت خا نے بنے ہوئے ہیں، بے لباسی سے اب بھی تسکین ملتی ہے۔

معاشرے کو جمہوری اور مستحکم بھی بنانا ہے اور مہذب بھی، بہت مشکلات ہیں، سولہویں صدی سے اکیسویں صدی تک کی مسافت طے کرنا ہے،ہمارے پرکھوں کی روحیں پکار رہی ہیں۔ گوادر، کوئٹہ، تربت، بنوں، صوابی، سوات، جڑانوالہ، ملتان، ڈیرہ غازی خان، بہاولپور، فیصل آباد، جہلم، کراچی، گھوٹکی کے قبرستانوں سے صدائیں آرہی ہیں۔ ہمیں ایک صراط مستقیم اختیار کرنی ہے۔ بد زبانی سے لوگوں کو دور کرنا ہے، غربت کی لکیر سے نیچے تڑپتے، کڑھتے، ہم وطنوں کو اپنے ساتھ شاہراہِ حیات پر لانا ہے۔ دولت کی ہوس ہمیں اخلاقیات کی پاتال میں لے گئی ہے۔ بڑے بڑے بک رہے ہیں۔ دولت تو دامن میں بھر رہی ہے مگر ذہن بانجھ ہو رہے ہیں، برسوں کے تجربے کسی کام نہیں آ رہے۔

کہتے ہیں کہ مسائل کا حل قانون کا یکساں نفاذ ہے۔ مگر بااثر لوگ تو اپنی ناجائز حرکتوں کے تحفظ کیلئے اسمبلیوں میں قانون بنا دیتے ہیں۔ پھر عدالتوں کو فیصلے اپنے ضمیر کے مطابق نہیں، قانون وقت کے تحت کرنا ہو تے ہیں۔ ایسے تہذیب شکن قانون کا یکساں نفاذ تو اور زیادہ خطرناک ہے۔ پہلے ایک جرم کھلم کھلا کیا جا تا ہے پھر اس جرم کو ہی قانون کی شکل دے دی جاتی ہے۔ ہمارے گلی کوچوں میں محاورے پیروں تلے روندے جارہے ہیں۔ ضرب الامثال اپنی آبرو کھورہی ہے۔ کہاوتیں بال بکھرائے ننگے سر نکڑوں پر بیٹھی رورہی ہیں۔ عدالتیں اپنی ذمہ داری پارلیمنٹ کی طرف منتقل کردیتی ہیں، پارلیمنٹ انہی انتخابیوں سے معمور ہیں، جو اکثریت کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھا کر یہاں تک پہنچے ہیں۔ پارلیمنٹ میں قانون سازی اپنے مفادات، اپنی مراعات کے حصول کیلئے ہوتی ہے، آئین میں ترامیم اپنی ناجائز طاقت کو جائز بنانے کیلئےکی جاتی ہیں۔

جمہوریت کی بنیادی طاقت سیاسی جماعتیں ہیں۔ پاکستان ایک سیاسی جماعت کی جدو جہد سے حاصل ہوا تھا۔ پھر پاکستان کی تاریخ میں مختلف بحرانوں کے خاتمے کیلئے، مارشل لا کی مزاحمت، جمہوریت کی بحالی کیلئے سیاسی جماعتوں کے کارکنوں نے ہی جانیں قربان کی ہیں، جیلیں بھری ہیں مگر ابھی بتائیے کہ ہم تین چار سال سے مسلسل آئینی، قانونی، سماجی، اقتصادی، زرعی بحرانوں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ کسی سیاسی پارٹی نے ماضی کی طرح اپنی ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس طلب کیا، ان بحرانوں پر سنجیدگی سے غور کیا، اپنے ارکان کی سنجیدہ تجاویز سنیں۔ان دنوں ٹیکنالوجی نے سیاسی، سماجی، اقتصادی بیداری کیلئے سوشل میڈیا جیسا طاقت ور میدان میسر کر دیا ہے۔ قومی سیاسی جماعتیں اس میدان کو حالات بدلنے کیلئے کیوں استعمال نہیں کر رہی ہیں، سوچنا پڑتا ہے کہ کیا ان جماعتوں میں اہلیت نہیں رہی، کیا وہ قوم میں بیداری نہیں چاہتی ہیں، کیا وہ دس کروڑ ہم وطنوں کو غربت سے باہر نکال کر لانا نہیں چاہتی ہیں، پارٹی کارکنوں کے کنونشن، ضلعی صوبائی اور قومی سطح پر کیوں منعقد نہیں کیے جاتے، سیاسی جماعتیں اپنے کارکنوں کی ذہنی جسمانی توانائی کو ملکی حالات معمول پر لانےکیلئے کیوں برتنا نہیں چاہتی ہیں۔

سب سے تشویشناک امر یہ ہے کہ ریاستی اداروں پر عوام کو اعتماد نہیں رہا۔ ریاست تو عوام ہی ہوتے ہیں، گویا ریاست کو اپنے آپ پر اعتماد نہیں رہا۔

ان ساری معروضات سے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ چند سو سیاستدان اور کچھ ریاستی ادارے۔ ملک کو آگے لے جانے میں ناکام ہوئے ہیں یا جان بوجھ کر نہیں لے جانا چاہتے کہ ان کے مفادات اسی بحرانی حالت میں پورے ہوتے ہیں۔ اس لیے اب اس دائرے سے باہر والے ہی ملکی حالت کو معمول پر لا سکتے ہیں۔ یہ مسائل سب سے زیادہ ہمیں ہی مضطرب کررہے ہیں۔ اس لیے ہمیں ہی یہ ذمہ داری پوری کرنی ہے۔ ہم سے مراد، ہم بزرگ، نوجوان، کالج، یونیورسٹیاں، دینی مدارس، تحقیقی ادارے، انسٹی ٹیوٹ، میڈیا ہائوسز، تاجروں، صنعت کاروں کی انجمنیں ہیں، ہمارے سامنے ملائشیا، ترکی، انڈونیشیا، تھائی لینڈ، چین، روانڈا کی مثالیں ہیں۔ ہمارے ماہرین وقتاً فوقتاً الگ الگ شعبوں کے مسائل کا حل بتاتے رہتے ہیں۔ ضرورت اس وقت یہ ہے کہ پاکستان کے ان مختلف النوع مسائل کو سامنے رکھ کر ایک مجموعی حل تلاش کیا جائے۔ یہ روایتی فرسودہ طریقوں سے نہیں، آج کے جدید طور طریقوں اور ٹیکنالوجی سے نکالنا ہو گا۔ ملک کو اس وقت جامع پالیسیوں کی ضرورت ہے۔ جامع مذہبی پالیسی، جامع اقتصادی پالیسی، جامع زرعی پالیسی، جامع صنعتی پالیسی، جامع درآمدی پالیسی، جامع برآمدی پالیسی، جس میں مستقبل کی کم از کم آئندہ دس پندرہ سال کی بصیرت ہو۔ اجتماعی قیادت درکار ہے، کوئی ایک ادارہ، کوئی ایک شخص مسیحا نہیں بن سکتا۔ کسی ایک یونیورسٹی کو چاہئے کہ ان شعبوں کے ماہرین کو بلا کر دو تین دن کی کانفرنس منعقد کرکے سیر حاصل بحث کرکے ایک میثاق جاری کرے۔ اس سے حکمرانوں اور ریاستی اداروں پر مسائل حل کرنے کا زور بڑھے گا، ورنہ یہ بحران اور زیادہ سنگین ہوتا جائے گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *