سوشل میڈیا اکاؤنٹس

محمود شام

محمود شام

پاکستان کے ممتاز صحافی، شاعر، ادیب اور تجزیہ کار جناب محمود شام 5 فروری 1940

شامی خاتون کی ڈائری (دوسری قسط)

یہ سچ نہیں ہے کہ موت جب ٓاتی ہے تو وہ ٓاپ کی بصیرت چھین لیتی ہے۔ یہ بھی سچ نہیں کہ محبت کی تمنا موت کی خواہش کے مماثل نہیں۔ شاید ان کا تقابل ان کے خالی پن میں کیا جاسکے اگرچہ دونوں تغافل میں گم ہیں۔ محبت میں دوسرے شخص سے رابطہ رہتا ہے اور موت میں خود اس سے۔ انسان ہمیشہ یہ سمجھتا رہا ہے کہ موت میں زندگی سے زیادہ عزت ہے۔ حد یہ ہے کہ وہ لوگ بھی جو چند لمحے پہلے ہمارے ساتھ تھے جب مر کر غائب ہوتے ہیں تو تاریکی کا حصہ بن جاتے ہیں۔

میں یہ نہیں کہہ سکتی کہ میں اس وقت سکون سے ہوں لیکن میں خاموش ہوں۔ میرا دل اس طرح دھڑک رہا ہے جیسے کہیں دور سے توپوں کی دھمک سنائی دے جو فائرنگ کی ٓاواز سے زیادہ ہم ٓاہنگ ہوتی ہے۔ جو دہشت سے چلنے والے بچوں اور بین کرتی عورتوں سے زیادہ واضح ہوتی ہے۔ میری ماں کی طرح جو چل چل کر مجھے گلیوں میں جانے سے منع کیا کرتی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ ہر طرف قاتل ہیں۔ ہر طرف موت ہے۔ گأوں میں۔ شہر میں۔ ساحل پر۔

ہر طرف قاتل پھیلے ہوئے ہیں، وہ پڑوسیوں کے گھروں کا گھیراؤ کرچکے ہیں اور انہیں دھمکیاں دے رہے ہیں کہ انہیں کس طرح ذبحہ کریں گے۔ اس کے بعد ہمارا نمبر ہے۔ وہ ہمارے ساتھ بھی یہی سلوک کریں گے۔ وہ ہم سب کو قتل کردیں گے۔ میں اس کی عادی نہیں۔ میں تو اس طرح کی زندگی کی عادی بھی نہیں۔ میں اس ماحول سے تعلق نہیں رکھتی۔ میں ایک ٓازاد جنگلی وحشی جانور کی طرح فرار کے راستے ڈھونڈ رہی ہوں، یہاں کچھ نہیں سوائے میرے وجود کہ جو مجھے اپنی موجودگی کا احساس دالرہا ھٹ کر رہ گئی تھی۔ میں بس یہ چاہتی ہے۔ جب انقلاب شروع ہوا تو میں اپنے گھر کی کھڑکی سے سب کچھ دیکھ رہی تھی۔ میری ٓاواز ُگ تھی کہ جبر کا یہ لمحہ جلدی سے گزر جائے۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہ ماحول میرے اعصاب کو اس قدر کمزور کردے گا کہ میں ٹوٹ جاؤں گی۔ میں جو خود کو بہت بہادر سمجھتی تھی خوف کے عالم میں زندگی سے چمٹ جأوں گی۔

خوف ! کیسا خوف ! کس کا خوف؟ لوگ یہاں اتنے خوفزدہ کیوں ہیں؟ خوف جو سانسوں میں بس گیا ہے۔ ہر طرف خوف ہی خوف ہے۔ اندر بھی باہر بھی۔ جب میں اور میری بیٹی پندرہ سال پہلے دمشق میں ٓائے تھے تو میرے بیگ میں ایک چاقو تھا جسے میں نے کبھی بیگ سے باہر نہیں نکالا۔ لیکن یہ ہمیشہ میرے ساتھ ہی رہتا تھا۔ اس کا پھل چھوٹا لیکن تیز دھار والا تھا۔ یہ میں نے خود حفاظتی اقدام کے لئے رکھا تھا۔ میں کہا کرتی تھی کہ کسی نے مجھ پر حملہ کرنے کی کوشش کی تو میں اس کا ڈٹ کر مقابلہ کروں گی۔ میں نے اس چاقو کو بہت کم استعمال کیا لیکن جب ضرورت پڑی تو اپنے دشمنوں کے چہرے کے سامنے لہرایا۔ لیکن پھر میں یہ سوچنے لگی کہ اگر کسی نے میری عصمت پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی تو اس سے پہلے میں یہ چاقو اپنے دل میں اتار لوں گی۔

جب میں اپنے دوستوں کے ساتھ مظاہروں میں جاتی تھی تو ہر وقت خدشہ رہتا تھا کہ سرکاری نشانچی ہمیں گولیوں سے اڑا دیں گے۔ یہ وہی فوج تھی جس نے اپنے ہی ملک کے شہریوں کی گردنوں میں طویل عرصے سے غلامی کے طوق ڈالے ہوئے تھے۔ اپنے وطن کی عورتوں کی عزت نہیں کرتے تھے اور انہیں طوائفیں کہہ کر پکارتے تھے۔ جو اپنے ہی شہریوں کو سازشی قرار دے کر ان کے خون سے وطن کی زمین سرخ کردیتے تھے۔ میں سوچتی تھی کس طرح ایک انسان قتل کرنے والی مشین میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ ٓاخر ان کے بال، ٓانکھیں اور دماغ سب کچھ ہمارے ہی تو جیسا ہے لیکن وہ قاتل کیوں بن گئے۔ پلک جھپکتے میں حقیقت خواب بن جاتی ہے لیکن حقیقت تلخ ہوتی ہے۔ ناول لکھنے کے لئے تصورات کی ایک دنیا بسانی پڑتی ہے۔ لیکن تصورات اور خیالات سے حقیقت زیادہ تلخ ہوتی ہے۔

جب بثینہ شعبان ٹی وی اسکرین پر ٓاتی تھی تو میری ماں سب بچوں کو چپ کرا دیتی تھی اور کہتی تھی کہ خاموشی سے سنو وہ کیا کہہ رہی ہے۔ وہ ہمیشہ سازشیوں اور فرقہ پرستوں کا تذکرہ کرتی۔ یہ سب سن کر میری ماں خوف زدہ ہوجاتی اور چال کر کہتی ،”کھڑکیاں بند کردو!” ۔ اب میں ظلم کا شکار ہونے والے بچوں کے لاشے دیکھتی ہوں۔ مجھے اس بچے کا چھوٹا سا چہرہ یاد ہے جس نے المرجہ اسکوائر میں مظاہرے کے دوران اپنے خاندان کے لوگوں کو فوج اور پولیس کے ہاتھوں پٹتے دیکھ کر مداخلت کی اور اس کے نرم و نازک جسم کو فوجیوں نے ادھیڑ کر رکھ دیا۔ میں نے ٹی وی پر ایک شخص کو کہتے سنا کہ درعا کے شہیدوں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا، اس کا بدلہ لیا جائے گا۔ میں ان شہیدوں کے خون پر شرمندہ ہوگئی۔ کیا اپنے شہریوں کو خون سے نہلانے والے شہید تھے؟ میں بے چین ہوکر بالکنی پر نکل گئی۔

لیموں کے پودوں سے اٹھنے والی خوشبو نے مجھے پھر زندگی سے معمور کردیا۔ سکون کی لہر میرے رگ و پے میں دوڑ گئی۔ بظاہر شہر میں سکون تھا لیکن سکون کا سینہ وقفے وقفے سے گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے چھلنی ہوتا رہتا تھا۔ سادہ لباس والے سرکاری جاسوس سڑکوں پر ہر وقت رہتے تھے اور وہ جس گھر کی طرف اشارہ کردیتے سیکیورٹی فورسز اس گھر کے دروازے توڑ کر اندر گھس جاتیں۔ لوگوں کو محض شبے کی بنیاد پر سڑکوں پر گھسیٹا جارہا ہوتا۔ بچے اپنے بڑوں کا یہ حال دیکھ دہشت سے چال رہے ہوتے۔ سڑکوں پر لوگوں کو اس طرح بھونا جاتا جیسے وہ انسان نہیں جانور ہیں۔ اب لوگوں نے اپنے گھر بار سمیٹ کر یہاں سے بھاگنا شروع کردیا تھا۔ ہر طرف خوف کی فضا تھی۔ اچانک سادہ لباس لوگوں کے گروہ نمودار ہوتے اور خالی گھروں کے تالے توڑ کر لوٹ مار شروع کردیتے۔ پولیس اور فوج ان کی طرف سے پیٹھ پھیر لیتی کیونکہ یہ وہ لوگ تھے جو حکومت سے تعاون کررہے تھے۔ اس تعاون کے بدلے میں انہیں
لوٹ مار کی ٓازادی دی گئی تھی۔ مجھے شہر سے نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں ٓاتا تھا۔ حد یہ ہے کہ میں ہوائی جہاز یا سمندر کے راستے بھی نہیں جا سکتی تھی۔ میں جب بھی باہر نکلتی مجھے یوں لگتا کہ جیسے ہر ایک مجھے گھور رہا ہے۔ مجھے ہر طرف سے نظروں کے تیر چھلنی کئے ڈالتے۔ میں سب فریقوں کو جانتی تھی۔ دمشق ایک مہربان شہر نہیں ایک جنگل بن گیا تھا۔

میں سوچتی کہ میں اس شہر میں کیوں ہوں؟ کیا میں مرنے کا انتظار کررہی ہوں؟ مجھ پر کوئی اعتماد کرنے کو تیار نہیں تھا۔ نہ سنی نہ علوی۔ میرے خاندان کے لوگ مجھ کو شک کی نظر سے دیکھتے تھے۔ میں خود اپنے خاندان میں غیر تھی۔ میں خون ٓالود گوشت کا ایک لوتھڑا تھی جس پر کمبل ڈال دیا گیا تھا۔ میں بیک وقت گولیوں اور دعأوں کی بلند ٓاوازیں سنتی۔ قتل و غارت گری پر اکساتی نفرتیں اور نعرے ایک حقیقت تھے، موت بے حقیقت تھی۔ موت اب دو ٹانگوں پر چلنے والی مخلوق بن چکی تھی۔ میں اپنے معاشرے، اپنے قبیلے، اپنے فرقے کی باغی تھی اس لئے وہ میری جان لینا چاہتے تھے لیکن میں تین مرتبہ ان کے چنگل میں پھنس کر بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئی۔ میں ان سے خوف زدہ نہیں تھی اس لئے نہیں کہ میں بہت بہادر تھی۔ اس لئے کہ میں اب عادی ہوگئی تھی اور میں نے خوف و دہشت سے سمجھوتہ کرلیا تھا۔

آج جمعہ کا مبارک دن ہے۔ شام کے شہروں میں ہزاروں لاکھوں لوگ اس ظلم و جبر کے خلاف احتجاج کرنے باہر نکلے ہیں۔ صرف درعہ میں دو لاکھ افراد اپنے شہیدوں کا غم منا رہے ہیں۔ پورا قصبہ قریبی قبرستان کی جانب جاتا ہے۔ ان پر فائرنگ ہوتی ہے اور 15 افراد مزید شہید کردئے جاتے ہیں۔ حمص میں تین افراد کو گولی ماردی گئی۔ درجنوں لطاکیہ میں ہالک اور زخمی ہوئے۔ دمشق کے المیدان ضلع میں مظاہرین پر فائرنگ ہوئی درجنوں ہالک اور زخمی ہوئے۔ فوج ہر اس شے پر فائر کررہی ہے جو حرکت کرتی نظر ٓاتی ہے۔ السمانیان میں فوج نے قتل عام کیا اور 20 شہری مار ڈالے۔ میں اب موت سے خوف زدہ نہیں۔ ہم موت کے درمیان سانس لے رہے ہیں۔ میں کافی پیتے ہوئے موت کا انتظار کررہی ہوں۔ اگرچہ مجھے پتہ ہے کہ میں خود اپنی قبر پر پھول نہیں ڈال سکوں گی۔

5 اپریل 2011

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *