سب سے پہلے تو میں تمام پارٹی جس میں پاکستان پیپلز پارٹی جے یو آئے ایم کیو ایم اور جتنی بھی پارٹیز جنہوں نے ہمارے حق میں بات کی ہے میں ان کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ میں جناب کا بھی شکر گزار ہوں اپنے دوستوں کی طرف سے کہ آپ نے جس پریشر کی اندر یہ پروڈکشن آرڈر ایشو کیا مگر ان ساری چیزوں کے باوجود سر آج دل بہت بھاری ہے بڑی تکلیف ہے اور تکلیف اس لیے ہے کہ میں کوئی ایسی بات نہیں کروں گا سر۔ جلسہ ہوا جلسے کے بعد ہم پہ ایف آئی آر کر دی گئی یہ رونا ہونا میں یہاں پر نہیں کروں گا جلسے ہوتے رہیں گے آگے بھی ہوں گے ایف آئی آرز بھی ہوتی رہیں گی ایف آئی آرز ہوتی رہی ہیں سر اپوزیشن پر ایف آئی آرز ہوتی ہے اور ہمیشہ جھوٹی ایف آئی آرز ہی ہوتی ہیں۔ بد قسمتی سے یہ اس ملک کی روایت ہے۔ اور میں اس کی تفصیل میں نہیں جاتا ہوں ایک ایسا جلسہ جو این او سی کے بعد ہوا اس میں آپ نے ایف آئی آرز اگر دیکھیں تو ہمارے چیر مین کے ہاتھ میں پسٹل پکڑا دیا گیا چیر مین گوہر کے ہاتھ میں اور ہمارے چیف منسٹر کے ہاتھ میں کلیشن کوف پکڑا دی گئی اور تو اور ہمارے ایک سینئر لائیر ہیں شعیب شاہین صاحب۔ ہمارے دوست نے اس دن عدالت میں کہا کہ بٹیرہ نہیں اٹھا سکتے ان کے ہاتھ میں 9mm کا پسٹل اٹھا دیا اور آتشی اسلحہ اور پتہ نہیں کیا کیا چیزیں۔ بڑی مضحکہ خیز سی وہ ایف آئی آر ہے۔ یہ اس جلسے کے حوالے سے ہے سر جسے بہت سے چینلز نے لائیو بھی دکھایا یہ وہ جلسہ ہے جس کی فوٹیجز لائیو سٹریمنگ سوشل میڈیا پہ فیس بک پہ ٹوٹرز پہ ہوتی رہیں کون کس وقت آیا کس وقت گیا کس نے کتنے منٹ تقریر کی وہ سب کو پتا ہے اس کے اوپر یہ چار پانچ مزاحیہ قسم کی ایف آئی آرز دے دی گئی ہیں لیکن میں اس پر نہیں جا رہا اس لیے کہ یہ ہوتا رہے گا۔ عدالتیں موجود ہیں سر ہمیں انصاف کی توقع ہے اور وہ ہمیں وقتا فوقتا انصاف دیتی بھی ہیں انصاف ملتا بھی ہے اور ہم اپنی وہ جنگ جو ہے جو ایک سیاسی جدو جہد ہے وہ بھی جاری رکھیں گے اور ہمیں ان پرچوں سے ان ایف آئی آرز سے کوئی نہیں ڈرا نہیں سکتا کہ ہم اپنی اس جدو جہد سے ایک قدم بھی پیچھے ہٹیں۔ پاچ نہیں پانچ سو ایف آئی آرز بھی کر لو پاکستان تحریک انصاف کی یہ جدو جہد جاری رہے گی جب تک کہ عمران خان صاحب بار نہیں آ جاتے۔
سر آج جو تکلیف ہے ایف آئی آر کی نہیں ہے گرفتاری کی نہیں ہے اس بات کی بھی شاید اتنی تکلیف نہیں ہے کہ میرے شریف ترین چیرمین کو کس طریقے سے آپ کی اس پارلیمنٹ کے دروازے پر اسلام آباد پولیس نے گرفتار کیا شاید اس بات کی بھی اتنی تکلیف نہیں ہے کہ کس طرح میرے بھائی شیر افضل کو اس پارلیمنٹ کے گیٹ پے بدتمیزی بیہودگی کے ساتھ بے غیرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک ایم این اے کو اتنے ایم این ایز کے سامنے اس طریقے سے اٹھایا گا شاید مجھے اس کی بھی تکلیف نہ ہو شاید مجھے میرے اس بھائی زبیر جو ہمارا ایم این اے ہے وزیرستان سے کتنے سینسٹو علاقے سے جہاں پہ پولیٹکل سسٹم میں آ کے الیکشن لڑ کے یہاں پہنچنا کوئی آسان بات نہیں ہوتی اس کے ساتھ اسلام آباد میں کیا کیا اسلام آباد پولیس نے وہ وزیرستان جہاں نفرتوں کی آگ جل جل کے کہاں تک پہنچ چکی اس وزیرستان کی ایم این اے کے ساتھ اس گیٹ پہ کیا کیا شاید مجھے اس کی بھی تکلیف نہ ہو مجھے اس کی بھی تکلیف نہیں کہ میرا چیف باہر کھڑا اسلام آباد پولیس کے افسران کو یہ کہتا رہا کہ تمہیں کس ایم این اے کی ضرورت ہے بتاؤ جتنے ایم این اے اندر موجود ہیں جس کی تمہیں ضرورت ہے وہ باہر آجاتا ہے لگاؤ اس کو ہتھکڑی اور یہاں سے لے جاؤ مجھے اس کی بھی تکلیف نہیں کہ میرے چیف کو باہر باہر کہا گیا اندر جاؤ جب کوئی باہر ائے گا تو ہم اس کو پکڑ لیں گے۔
اگر مجھے تکلیف ہے تو مجھے اس بات کی تکلیف ہے سر کہ آپ کی اس پارلیمنٹ کو جس کے آپ بادشاہ ہیں جہاں آپ کا قانون چلتا ہے جہاں آپ کا حکم چلتا ہے جہاں ہم آپ کی پارٹی سے ہیں یا نہیں ہم آپ کو قابل احترام سمجھتے ہیں ہم آپ کے ان قوانین کے تحت چلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پارٹیاں مختلف سہی لیکن آپ کی اس قیادت کو مانتے ہیں۔ اس پارلیمٹ کے دروازے پر رات 11-12 بجے تالے لگا دیے گئے۔
سر ایک آپ کو بات بتاتا چلوں۔ ہمیں یہ بتایا جاتا رہا کہ شیخ وقاص اکرم کی ضرورت ہے۔ اوکے گرفتاری دیتے ہیں۔ حامد رضا کی ضرورت ہے۔ زین قریشی کی ضرورت ہے۔ تین آدمیوں کی ضرورت تھی۔
آپ تحریک انصاف کے ان دلیر ایم این ایز کو دیکھ لیں ان کے نام یاد رکھ لیں یہ جو باقی لوگ ہمارے ساتھ پکڑے گئے ان میں سے کوئی ایم این اے کسی ایف ائی آر میں موجود ہی نہیں تھا اور یہ سب سر اپنے اپنے لاجز میں چلے گئے تھے جب انہیں پتہ لگا کہ ان کے تین بھائی جو ہیں وہ وہاں پہ موجود ہیں یہ سب لاجز سے واپس آئے۔ یہ اسی پولیس سے گزر کے گئے تھے واپس آئے۔ میں انہیں کہتا رہا نسیم شاہ صاحب کو کہا میں نے اویس جھکڑ کو کہا میں نے احد شاہ کو کہا میں نے یوسف خان کو کہا میں نے زبیر صاحب کو کہا میں نے ان سب کو کہا کہ چلے جاؤ واپس تم ہمارے ساتھ کیوں پھنستے ہو اور خدا کی قسم کیا یہ لوگ ہیں انہوں نے کہا کہ ہم اپنے بھائیوں کو یہاں اکیلا نہیں چھوڑیں گے آپ سے رابطہ ہوا سر بار بار رابطہ ہوا ہماری خواہش تھی کہ اپوزیشن چیمبر کھول دیا جاتا سن لیں آپ سب لابیز کھول دی جاتیں کیونکہ بیٹھنے کی جگہ کوئی نہیں تھی اس پارلیمنٹ میں جس کے ہم حصہ بن کے بڑے فخر سے اتراتے ہیں باہر کہ ہم ممبر نیشنل اسمبلی اف پاکستان ہیں۔ مگر اسی پارلیمنٹ کے اندر ہمیں کسی نے بیٹھنے کے لیے کوئی کمرہ کھول کے نہیں دیا۔ انہوں نے کہا کہ چابیاں نہیں ہیں کسی نے کہا کہ بندہ نہیں ہے کسی نے کہا کہ سی ڈی اے کے یہ ماتحت ہے سی ڈی اے والے چلے گئے۔ سی ڈی والوں کی سر کوئی حیثیت ہے؟
بہرحال اس پر بھی لعنت کرو وہ بھی تکلیف نہیں ہے رات گزار لی سر مسجد میں ہمارے کچھ دوست موجود تھے خیر میں اس پہ آتا ہوں تکلیف اس بات کی ہے کہ سر 11 12 بجے تالا لگا دیا گیا آپ کی پارلیمنٹ کے گیٹ کو۔ تالا۔ نہ کوئی آئے نہ کوئی جائے۔ زین قریشی صاحب کو کچھ میڈیسن چاہیے تھی انہوں نے اپنے ڈرائیور کو کہا کہ لے آؤ وہ ڈرائیور گیا تو پھر واپس نہیں آ سکا اندر آنے کی اجازت نہیں تھی ہمیں کچھ دوستوں نے کہا کہ آپ نکل آئیں ان کے ارادے ٹھیک نہیں ہیں آپ کے علم میں ہے پتہ لگا کہ اس طرف رینجرز کی گاڑیاں کھڑی ہیں اور اس کے اوپر تالا لگا ہوا ہے پتہ لگا کہ یہاں پولیس نے جگہ جگہ پہ گھیر لیا ہے کوئی باہر نہیں جا سکتا ہم نے کہا ٹھیک ہے پارٹی نے یہ فیصلہ کیا ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ ہم سب یہیں رکیں گے کیونکہ صبح اجلاس ہے یہیں سے ہم صبح اپنے چیمبرز میں منہ ہاتھ دھو کے اجلاس میں بیٹھ جائیں گے پارٹی کا یہ فیصلہ تھا کہ ایم این ایز نہیں آئیں گے مگر ہم چار پانچ لوگ جو ہیں یہاں بیٹھ کے اگر اس قسم کی کوئی لیجسلیشن ہوتی ہے تو اس کے اوپر ضرور بات کریں گے اپنی حیثیت نہیں اس کو روکنے کی کوشش کریں گے اس لیے وہاں موجود تھے ورنہ ہمارا چیف یہاں موجود ہے زندہ جیتا جاگتا یہ باہر پولیس کو کہہ کے آیا کہ بتاؤ تمہیں کس ایم این اے کی ضرورت ہے وہ خود گرفتاری دے گا سو اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ہم یہاں چھپے بیٹھے ہیں تو یہ بات بالکل غلط ہے ہم پارٹی ڈسجین کے تحت ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ صبح ہم یہیں سے اجلاس اٹینڈ کریں گے اس کے بعد ہم اکٹھے جا کے باہر گرفتاری دے دیں گے اچانک میں اپنے پیپلز پارٹی کے دوستوں کو کیونکہ انہوں نے ہماری سپورٹ کی بتاؤں کہ اچانک ٹائم گزر گیا تین بجتے ہیں تین بج گئے تین بجے میرے محافظ میرے ذاتی محافظ اندر آئے اور انہوں نے مجھے بتایا کہ باہر پانچ چھ گاڑیاں کالے شیشوں میں ایک ڈبل کیبن اور ایک جیپ آ کر رکی ہے اور اس میں سے نقاب پوش اترے ہیں اور وہ پرائیویٹ کپڑوں میں ہیں۔ ہم اس بھرم سے بیٹھے تھے کہ اس ہاؤس میں اس بلڈنگ میں ہمیں کوئی نہیں پکڑ سکتا ہے۔ ہم میں کوئی چور یا ڈاکو تو تھا نہیں سر۔ ٹھیک ہے تو ہمیں کوئی یہاں سے لے جائے گا ہمیں تو پتہ تھا کہ ہم تو آپ کی کسٹوڈین شپ میں ہیں سر۔ آپ کی کسٹوڈین شپ میں اس ہاؤس کے اندر ہے تو ہم تو اسی بھرم میں وہاں بیٹھے ہوئے تھے۔
جب محافظوں نے کہا کہ وہ آئے ہیں تو میں نے انہیں کہا کہ اگر وہ ہمیں گرفتار کرنے کی کوشش کریں اور ایسی کوئی سچویشن بنے تو تم لوگوں نے بیچ میں نہیں آنا یہ کوئی جھگڑا نہیں ہے لڑائی نہیں کرنی میں نے اپنے محافظوں کو روکا کہ تم لوگوں نے بیچ میں نہیں آنا ہم میں سے ایک نے فیصلہ کیا کہ کیونکہ یہ پرائیویٹ کپڑوں میں نقاب پوش ہیں پتہ نہیں کن اداروں سے ہیں تو آپ لوگ یہاں سے موو ہو جائیں۔ کوئی فرسٹ فلور پہ چلا گیا سر کوئی سیکنڈ پہ ابھی اپ کا یہ جو فلور ہے یہ پتہ نہیں فورتھ ہے کہ تھرڈ آئی ڈونٹ نو یہ سب سے اوپر والے میں میں اور زین قریشی صاحب پہنچ گئے کمرے دروازے لاک تھے سر ایک ہمیں دروازہ مل گیا کھلا۔ میں اور یہ شریف آدمی ہم اس کمرے میں گئے اور ہم نے اندر سے لاک کر دیا۔ ساتھ ہی بجلی چلی گئی۔ پورے تین بجے جیسے ہی یہ پارلیمنٹ میں داخل ہوئے بجلی آف کر دی گئی۔ ہم نے کہا ٹھیک ہے۔ گھنٹہ گزر گیا ہم وہیں پہ۔ آدھا گھنٹہ اور گزر گیا بجلی آ گئی ہم نے سمجھا کہ جیسے جیسے روشنی ہوگی اس کے بعد دوڑ دیں گے اپ کو پتہ ہے روشنی میں تو مطلب ہے بے شرمی جو ہے وہ اندھیرے میں ہی ہوتی ہے نا جی۔ بے غیرتی اس طرح تو کوئی نہیں ہوتی تو ہمیں یہی تھا کہ چلو صبح صبح منہ ہاتھ دھو کے یہاں بیٹھ جائیں گے۔ مگر وہ سیانے لوگ تھے سر۔ تھوڑی دیر بعد چھن چھن چھن چھن شروع ہو گئی سر۔ قریشی صاحب کو کھانسی آ گئی۔ میں نے کہا لاحول ولا قوۃ۔ اس وقت کھانسی۔ خیر وہ آئے انہوں نے کہا جناب آپ نکلیں باہر یا ہم یہ دروازہ توڑتے ہیں۔ بہرحال جناب میرے ویکھ کے مسکرائے میں بھی مسکرایا۔
مینوں اکھا جناب شیخ صاحب اگے لگو میں نے کہا میں کہا بھائی اندے بیا پیار نال اندے ب کوئی نہیں سر سی پھر بھی تہاڈا خیال کیتا ہے تسیں ساڈا کیتا نہ کیتا سی تہاڈا ب بچایا جی وہ دروازہ توڑ دیتے تو نیشنل اسمبلی کا نقصان ہو جاتا سر ہم نے یہاں بھی آپ کا خیال کیا۔ دروازہ کھولا سر تین چار لوگ جینز شینز میں تھے۔ وہ کھڑے سب انگریزی وچ گفتگو کیتی۔ سانوں بھی آندی اے چوٹی موٹی۔ ادھر سے چلے اب۔ آگے مڑے تو اگے آٹھ دس اور کھڑے تھے اور سارے ماسک والے تھے۔ نیچے آ گئے۔ جب آپ اپ کی ہم سیڑھیوں سے نیچے اترے جو اپ کا مین انٹرنس ہے اندر جہاں پہ یہ مشین پڑی ہوئی ہے وہاں آلریڈی چار پانچ ماسک مین موجود تھے کوئی بڑا عملہ شملہ کوئی نہیں کرسیاں تے بیٹھے ہوئے۔ انہوں نے کہا جی ابھی آپ باہر نہ جائیں لائٹ آ گئی تھی انہوں نے کہا لائٹ دوبارہ بند کراؤ لائٹ دوبارہ بند کی گئی انہوں نے اپنے دوستوں کو کہا کہ اپنی ٹارچز آف کریں۔
انہوں نے راستے میں کہا موبائل؟ ہم نے کہا نہیں ہے۔ ایم این اے دی گل یقین نہیں آیا۔ جب ہم سب نیچے ائے انہوں نے دوبارہ لائٹ بند کرائی تو پھر انہوں نے کہا جی تسی کھڑے نہ ہو تو سی عزت نال بہ جاؤ میں کہا جتے لے جانا لے جاؤ گے سر انہوں نے کہا کہ آپ کو ہم پروٹوکول سے لے کے جائیں گے میں نے کہا یہ کوئی پروٹوکول نواہی نہ ہو جائے۔ چلو بیٹھ گیا۔ انہوں نے بڑا شکوہ کیا انہوں نے کہا ہم نے 30 دن اتنی ایکسرسائز نہیں کی جتنی شیخ وقاص نے دو گھنٹے میں کرائی۔
بہرحال میں نے ان سے پوچھا کہ باقی ہمارے دوست۔ تو انہوں نے کہا باقی سارے ٹھکانے لگ گئے۔ آپ آخری ہیں۔ پھر انہوں نے ہم سے پوچھا کہ دستی کدھر ہے میں نے کہا دستی بڑا کمال نکلا۔ ان کو مل نہیں سکا۔ اچانک پھر ایک لینڈ کروزر آئی تو وہ لینڈ کروزر شیر افضل مروت صاحب کی تھی۔ جس میں ہمیں پروٹوکول سے لے جا رہے تھے۔ انہوں نے دو بندے آگے بٹھائے ایک ہمارے ساتھ بٹھایا اور ہمیں وہ لے گئے۔ اور پھر وہ یہ جو آپ کا یہ دروازہ ہے کیبنٹ کی طرف سے نکلتا ہے۔ جہاں سے جب ہم نے نکلنے کی کوشش کی تو بتایا گیا سیکیورٹی کی طرف سے کہ وہاں تالا ہے وہاں زنجیر ہے اور آگے رینجرز کی گاڑی کھڑی ہے۔ مگر جدو سانو ل جان والے نے تردد کیتا زنجیر سی دروازہ کھلا تھا ہمیں وہاں سے وہ لے گئے سر کیبنٹ گزار کے جو پچھلا دروازہ ہے وہاں سے گاڑی باہر نکلی تو وہاں اسلام آباد پولیس نے گاڑی روک لی اب وہاں بحث چل نکلی وہ کہیں جی تہانوں لے جانا ہے وہ کہنے نہیں جی اسی لے جانا ہے۔
اب یہ پہلی دفعہ ہے کہ مجھے اسلام آباد پولیس دیکھ کے خوشی ہوئی میں نے کہا لے جاؤ تسی لے جاؤ سانو لے جاؤ۔ خیر ایس ایچ او تکڑا نکلیا اس نے ہمیں گاڑی میں بٹھا لیا۔ پھر ہمیں یہ عام جو پولیس موبائل ہوتی ہے سر انہوں نے اس پہ بٹھایا اور ہمیں یہ لے گئے تھانہ یہ جو اپ کے سیکرٹیرین کا تھانہ ہے وہاں پہ شیر افضل صاحب موجود تھے یہ سر ساری کہانی ہے۔ اگلی کہانی سے میں نہ بور کرنا چاہتا ہوں کسی کو پھر تو ہم پولیس کے حوالے تھے اور پھر پرچے دیے جا رہے تھے اور جن لوگوں کو صرف ہماری وجہ سے پکڑا گیا وہ جو اتنا لیٹ ایف ائی آر اور سارا کچھ جمع تفریق ہوئی کیونکہ یہ ہمارے ساتھ پکڑے گئے تھے ہماری محبت میں ہمارے ساتھ دیتے ہوئے تو ان کے رول ڈیفائن ہو رہے تھے کسی نے اٹھائی ہے کسی نے بٹھائی ہے یہ جو بے چارے بعد میں تھے ان کو فکس کیا جا رہا تھا۔ سر ہم پاکستان میں رہتے ہیں اب بات اصل کرنے کی ہے لوگ یہاں آئے دن کہتے ہیں میرے فلانا پرچہ ہوگیا۔ ارے لعنت کرو جی پرچیاں تے پرچے ہوندے رہن گے۔ سر یہ میونسپل کمیٹی کا حال ہے یہ ضلع کونسل ہے ضلع کونسل میں بھی یونین کونسل چیئرمین کسی تھانیدار کو اندر نہیں گھسنے دیتے اپنے ممبر کو گرفتار نہیں ہونے دیتے۔ بار کونسلوں میں وکیل چھوٹے ضلعوں کی بات کر رہا ہوں بڑے ضلعوں کی بات نہیں کر رہا ہوں پانچ پانچ چھ سو وکیل کسی ادارے کو نہیں گھسنے دیتے۔ ہم کیا ہیں سر۔ ہم مذاق بن کر رہ گئے ہیں۔ اور جو یہ کہتا ہے کہ ہمارے ساتھ بھی یہ ہوا۔ آپ نے یہ کیا۔ آپ نے وہ کیا۔ میں نے کہا کہ جو گورنمنٹ والوں نے کہا میں اس طرف نہیں جاؤں گا سب ٹھیک کہا ہوگا مگر جو یہ ہوا ہے یہ میری ذات کے ساتھ نہیں ہوا ہے یہ پارلیمنٹ کے ساتھ ہوا ہے زیادتیاں ہوئی ہوں گی حکومت نے آپ کے ساتھ کی ہوں گی جب آپ اپوزیشن میں ہوں گے ہمارے لوگوں نے کی ہوں گی۔ دوسرے نے کی ہوں گی۔ تیسرے نے کی ہوگی ایک کو پکڑا ہوگا دوسرے کو پکڑا ہوگا تیسرے کو پکڑا ہوگا 10 جعلی ایف آئی آر کی ہوں گی اس پارلیمنٹ کا کیا قصور ہے اس پارلیمنٹ کا تماشہ کیوں بنایا ہے اس پارلیمنٹ کا مذاق کیوں بنایا ہے اس پارلیمنٹ کو ضلع کونسل سے بھی نیچے کر دیا گیا ہے سر کیا قصور ہے آپ کا۔ کیا قصور ہے ہمارا سر سوال یہ نہیں ہے کہ ہمارے ساتھ ظلم ہو رہا ہے سوال یہ ہے ہمیں یہ پتہ چلنا چاہیے فار ٹائمز ٹو کم کہ کون اس پارلیمنٹ میں داخل ہوا۔ اور کیوں اس نے ایسا کیا۔ یہ اعتماد ان کو حکومت نے دیا؟ اسپیکر نے دیا؟ سیکرٹری نیشنل اسمبلی نے دیا؟ کس نے دیا؟
کون سے بدمعاش چور اچکے یہاں پہ آپ کے سامنے بیٹھے ہیں؟ جلسہ لیٹ کر دیا؟ سات بجے ختم ہونا تھا دس بجے تک چلا دیا۔ کیا ظلم کر دیا سر۔ آپ کہتے رہے کہ جلسہ نہیں ہوگا نہیں ہوگا نہیں ہوگا ہم نے کر دیا۔ اس کی اتنی بڑی سزا یہ سزا ہمیں نہیں ملی سر۔ یہ احمد چٹھا بیٹھا ہے 50 پرچے ہیں اس پر۔ عمر ایوب یہاں سے اٹھ کے گیا ہے یہ نئے پرچوں کے ساتھ 90 پرچے بنتے ہیں اس پہ بلال حجاز یہاں سے گئے 48 پرچے ہیں درجنوں میرے پہ پرچے ہیں 52 پرچے اس خاتون کے اوپر یہ ہماری لیڈر۔ پرچیاں تہ کوئی گل ہی نہیں اے۔ روٹین بن گیا ساڈے واسطے۔ جو اس پارلیمنٹ کے ساتھ ظلم ہو گیا لڑتے رہیں گے اور لڑتے رہیں حکومت اپوزیشن نے لڑنا ہے یہ وہ جگہ ہے جو آپ کو اور ہمیں عزت دیتی ہے۔ اور سر مجھے میں آپ کو بتاؤں مجھے اندازہ ہے کہ آپ پہ کتنا پریشر ہے بٹ سر یہ جو اللہ تعالی عزتیں دیتا ہے نا سر یہ اللہ تعالی عزتیں دیتا ہے جب آپ پریشر کے اندر چیزوں کو کرتے ہیں مجھے پتہ ہے آپ نے کس ہمت سے یہ کیا ہے مگر سر اگر ایک اور ہمت کر لیں اگر ایک اور ہمت کر لیں تو تاریخ رقم ہو جائے گی کہ سر ایک واری ای پتہ کر لو یہ کون سا انجنا تہاڈے گھر دے وچ سن لائی یہ کون سر مجھے آپ یہ بتائیں ایک آدمی کے گھر کوئی گھسا ہے کوئی عزت دار آدمی یا خود مر جاتا ہے یا اس کو مار دیتا ہے یہاں تو پورے پاکستان کے دس لاکھ کے نمائندے تہاڈے یہاں ہیں۔ اور پھر یہاں بھی نہیں رکے سر پھر یہاں بھی نہیں رکے مقصد کیا تھا اتنا ایک سیم سٹیپ کہ جلسے کے پرچوں کے لیے پارلیمنٹ میں گھس گئے کیڑی دفعہ لگی ہوئی سی۔ اس کے بعد ہمارا ایک ایم این اے سعد اللہ وہ نہیں قابو آ رہا تھا اس کی بیوی کو کل ہماری گرفتاری کے بعد اس کی بیٹی کو اس کی خالہ کو اٹھا کے لے گئے جب تک وہ پیش نہیں ہوا ان کو ریلیز نہیں کیا سر یہ ماوا بہنا چکن دی روایت کب سے آ گئی ہے۔ سر یہ ریکویسٹ ہے۔ سب کی عزت کے لیے۔ صرف میری عزت کے لیے نہیں ہے۔ پرچے ورچے چھوڑ دیں آپ۔ جیل جاتے ہیں تو جانے دیں۔ لیکن ان کی عزت کے لیے میری عزت کے لیے آپ کی اپنی پارٹی کے لوگوں کی عزت کے لیے سر یہ پتہ چلانا ضروری ہے کہ وہ کون تھے اور پھر صرف پتہ نہیں چلانا ان کو کیفر کردار تک پہنچانا ضروری ہے۔ سر میں جس وقت کوسار تھانے گیا میں نے اس سے کہا بھائی میرا چند ایک کون سا پاک ہے۔ اس نے کہا توانوں پتہ سی۔ لیکن مینو نہیں پتہ تو دس۔ تو پھر تہانوں پتہ ہے اس کے بعد آج میں جن چند سینیئر لوگوں کو ملا او یار یہ کون سا مزید پتہ ہے یہ ساری گونگے بنے ہوئے ہیں۔ تو جن کا پتہ ہے خدا کے لیے ان سے بات کرے وہ بھی انہی سکولوں میں انہی کالجز میں پڑھے ہیں انہوں نے بھی وہی فلسفہ پڑھا ہے انہوں نے بھی وہی پاکستان سٹڈیز پڑھی ہے انہوں نے وہی معاشرتی علوم پڑھی ہے جو آپ نے اور میں نے پڑھی ہے انہیں کہا ہے پاکستان تا ساڈا ہے یہ ملک دا ساڈا ہے اس ملک کا کچھ خیال کریں سر بس صرف آپ سے اخری بات اور آخری بات کے ساتھ ختم کرتا ہوں کہ یہ جو 10 ستمبر ہے نا سر اس کو آپ بلیک ڈے ٹکلیئر کریں سر بلیک ڈے ٹکلیر کریں اور یہ انشور کریں کہ یہ آئندہ کبھی کسی کے ساتھ نہ ہو میں آپ میرے بھائی ہیں سر آپ سے میرا تعلق بھی ہے نفرتیں اس حد تک بڑھ گئی ہیں اور آپ گواہ ہیں اس بات کے میرے بیٹے نے مجھے پتہ چلا کہ ہمارے ایک اور نون لیگ کے ایک بچے کو کہا کہ تمہارے باپ نے میرے باپ کو اندر ڈال دیا حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں مگر آپ یہ دیکھیں کہ وہ بات پہنچی آپ تک بھی پہنچی سر مجھ تک بھی پہنچی سکول میں سکول تک پہنچی سو کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ نفرتیں آگے سے آگے سے آگے جا رہی ہیں کل ایک دوسرے کے گریبان یہی لوگ جا کے پکڑیں گے تسیں سانوں جیل جاندے ہو اسی ساڈے تے پرچے اور دے چھڈو اپنے حو تقدس بچاؤ سر اپنے گھر نوں بچاؤ اس عزت نو بچاؤدی عزت بچاؤ سادی عزت بچاؤ اپنے اےی لاج رکھو کہ اپ کے پاس۔ دنیا کو دکھایے سر کہ آپ کے پاس طاقت ہے اور اس ہاؤس کے پاس طاقت ہے۔
- اگلی اننگز عوام کی ہے - October 31, 2024
- بچوں کے ادب کی الف لیلہ کی آمد - October 27, 2024
- امریکی انتخابات - October 25, 2024