کسی بھی شخصیت کے دنیا سے اٹھ جانے پر تاریخ یہ دیکھتی ہے کہ اسے دنیا جس حالت میں ملی تھی۔ وہ اسے پہلے سے بہتر حال میں چھوڑ گیا یا بدتر۔
خوش پوش، ہر لمحہ ایک مسکراہٹ لبوں پر، پرنس کریم الحسینی، آغا خان چہارم 13دسمبر 1936 پیدائش جنیوا سوئٹزر لینڈ سے وفات 4فروری 2025، لزبن پرتگال۔ رحلت کی خبر سے بہت سی یادیں تازہ ہو گئیں۔ پاکستان تو آنا جانا ہر پاکستانی حکمران کے دور میں رہا ہے۔ وہ آغا خان برادری کے49 ویں امام تھے لیکن عام پاکستانیوں کی نظر میں ایک انسان دوست، جو اپنی برادری کی فلاح و بہود کیلئے ہمیشہ کوشاں رہے۔ انہیں اکثر ممالک میں ایک سربراہ مملکت کا رتبہ دیا جاتا تھا۔ افریقہ، ایشیا اور پاکستان میں بالخصوص ان کی تعلیم اور صحت کے شعبے میں بہت سرمایہ کاری بھی ہے۔ روزنامہ ’جنگ‘ کے رپورٹر کی حیثیت سے 11نومبر1985 کو ہم نے کئی گھنٹے آغا خان اسپتال یونیورسٹی کی افتتاحی تقریب میں جنرل ضیاء الحق اور جناب آغا خان چہارم کے ساتھ بسر کیے۔ اسپتال کے سب شعبوں کا دورہ کیا، بتایا گیا کہ آغا خان نے 300ملین امریکی ڈالر صَرف کیے ہیں اور حکومت پاکستان نے 84 ایکڑ سے زیادہ انتہائی مہنگی اراضی تحفتۃً دی ہے۔ پاکستان کی تاریخ گواہی دیتی ہے کہ اب اچھے علاج کیلئے اکثر پاکستانی اسی اسپتال کا رخ کرتے ہیں۔ شفا تو اللہ تعالیٰ کے ہاتھوں میں ہے۔
صدر پرویز مشرف کے دور میں جب انتہا پسندی اور دہشت گردی زوروں پر تھی تو دنیا میں امن کے قیام کی خاطر۔ آغا خان پاکستان کے دوروں میں اس حوالے سے بھی ملاقاتیں کر رہے تھے۔ ہمیں ’جنگ‘ کے گروپ ایڈیٹر کی حیثیت سے بھی اس محترم اور انسان دوست ہستی سے دوبار غیر رسمی ملاقاتوں کا موقع ملا۔ پہلی بار گورنر ہاؤس کراچی میں ملاقات میں ’ڈان‘ کے ایڈیٹر سلیم عاصمی بھی موجود تھے۔ موضوع انتہا پسندی ہی تھا۔ میں اکثر ایسی شخصیتوں سے سفارت کاروں سے تبادلہ خیال میں سرد جنگ کے دور کی ذہانت، نظریات کے پھیلاؤ کی یاد دلاتا تھا۔ سوویت یونین اپنی عظیم ادبیات کو مختلف ممالک کی زبانوں میں ترجمہ کر کے ایشیا افریقہ یورپ میں قریباً مفت تقسیم کرتی تھی۔ ان کے مختلف ملکوں میں فرینڈ شپ ہاؤس ہوتے تھے جہاں بائیں بازو کے شاعر ادیب صحافی ٹریڈ یونین رہنما جمع ہوتے تھے۔ یہیں وسیع و عریض لائبریریاں بھی ہوتی تھیں۔ اسی طرح امریکہ۔ یو ایس آئی ایس (یونائیٹڈ اسٹیٹس انفارمیشن سروس) کے ذریعے مقامی زبانوں میں اپنے رسالے سیربین۔ اپنی تازہ ترین اطلاعات کمیونزم کے خلاف اپنی پروپیگنڈہ کتابیں بانٹتا تھا۔ کمیونسٹ منحرفین کے ناول کتابیں راتوں رات شائع کر کے افریقہ ایشیا میں نشر کیے جاتے تھے۔ میں نے اس حوالے سے آغا خان سے عرض کی تھی کہ آپ کی برادری کو بھی چاہئے کہ دنیا میں اعلیٰ انسانی ادب کے ترجمے مقامی زبانوں میں شائع کر کے کم نرخوں پر دستیاب کیے جائیں۔
ایک سال بعد ہماری دوسری ملاقات اسلام آباد میں ایوان صدر میں ہوتی ہے۔ وہاں میں اپنی سابقہ ملاقات کے نکات باقاعدہ ٹائپ کر کے لے گیا تھا۔ خواہش یہی تھی کہ دنیا بھر میں انسانوں کے ذہن، جانیں اور املاک انتہا پسندی سے محفوظ کیے جائیں۔ مظلوم فلسطینیوں اور کشمیریوں کے حالات بھی اس حوالے سے موضوع سخن رہے۔ ہر ادارے ہر برادری میں ایک اسٹیبلشمنٹ ہوتی ہے۔ جو صرف اپنے انداز سے ہی کام کو آگے بڑھاتی ہے۔ یقیناً اسی طرح کی ملاقاتیں دوسرے ملکوں میں بھی ایڈیٹروں سے رہتی ہونگی۔ لیکن مجموعی طور پر اگر جائزہ لیا جائے تو آغا خان چہارم نے 1957سے 2025تک دنیا میں پاکستان میں کتنی تبدیلیاں دیکھیں۔1971کے پُر آشوب حالات میں مشرقی پاکستان میں موجود آغا خانی برادری کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ جہاں جہاں بھی ایسی ابتلائیں غالب آتیں آغا خان کی اپنی سفارتی قوت اور رابطوں سے انکی برادری محفوظ رہتی تھی۔
……….
اس وقت جب ڈونلڈ ٹرمپ منتخب امریکی صدر، بھارت کے منتخب اور متعصب وزیر اعظم نریندرمودی کی طرح اپنی برسوں سے ذہن میں سموئی بدمست پالیسیوں کو دنیا پر مسلط کر رہے ہیں۔ اندازہ تو نہیں ہو رہا ہے کہ دنیا میں ان پالیسیوں کے خلاف کہیں متاثر ممالک کا سربراہی اجلاس ہو رہا ہو۔ میکسیکو اور کینیڈا تو باہمی تبادلۂ خیال کر رہے ہیں کہ اس وقت ’’ٹرمپ زدگان‘‘ کی سب سے پہلی صف میں وہی کھڑے ہیں۔ ان کی معیشت بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ ادھر افغانستان کے طالبان نے ٹرمپ کو جواب دینے کی جرأت کی ہے۔ اور کہا ہے کہ امریکی فوجیوں کا چھوڑا ہوا اسلحہ مال غنیمت ہے۔ ہم کیوں واپس کریں۔ اس سے یہ احساس بھی واضح ہوتا ہے کہ طالبان نے امریکہ کو باقاعدہ شکست دی ہے۔ صدر بائیڈن کی ہدایت پر امریکیوں نے رضاکارانہ انخلا نہیں کیا ۔
غزہ پر قبضے کے اعلان سے ظاہر ہوتا ہے کہ فتح کا نشہ امریکی صدر کو زیادہ ہی بد مست کر گیا ہے۔ اس کے جواب میں اسلامی ممالک کے سربراہوں کو مل بیٹھنا چاہئے۔ صرف بیانات سے ٹرمپ اور نیتن یاہو کے ارادوں کو پسپا نہیں کیا جا سکتا۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے عراق کے صدر صدام حسین، لیبیا کے معمر قذافی، سعودی عرب کے شاہ فیصل، ذوالفقار علی بھٹو، اسماعیل ہانیہ، ایران کے صدر کی ہلاکت اور بہت سے المیے برپا کیے ہیں۔ اس لیے بعض حکمران عافیت اسی میں سمجھتے ہیں کہ اپنی پناہ گاہوں میں بیٹھے رہیں۔ تاریخ کے ہم نے بہت سے ادوار دیکھے ہیں۔ لیکن جس طرح ایک سال میں مسلسل غزہ میں فلسطینیوں کو قتل کیا گیا۔ ان کے گھر مسمار کر دیئے گئے۔ اسپتالوں کو بموں سے اڑا دیا گیا۔ نومولود ہزاروں بچے شہید کر دیئے گئے۔ مقصود فلسطینیوں کی نسلیں ختم کرنا ہے۔ جس کی تصدیق اب صدر ٹرمپ کے بیان نے بھی کر دی ہے۔ گورے ایک بار پھر اپنی نسلی برتری مسلط کرنا چاہتے ہیں۔
اسرائیل اور اس کے سرپرست امریکہ برطانیہ کی طویل منصوبہ بندی۔ مستقبل کے روڈ میپ کے مقابلے میں اسلامی ممالک کے سربراہوں کو بھی اپنی منصوبہ بندی کرنا چاہئے۔ یہود و نصاریٰ تو ملت واحد بن رہے ہیں۔ ان کے ساتھ دوسرے غیر مسلم بھی اپنی طاقت شامل کر رہے ہیں ان کے پاس نیٹو کی افواج بھی ہیں۔ یورپی یونین ہے۔ مسلمان ممالک آپس میں بر سر پیکار ہیں۔ ایٹمی اسلامی ریاست اپنے مسائل میں الجھی ہوئی ہے۔ پہلے ہمارے ہاں عوامی جذبات کے مظاہرے فلسطینیوں اور دوسرے مظلوموں کےلئے ہوتے تھے۔ اب وہ جذبات صرف سوشل میڈیا پر موجزن دکھائی دیتے ہیں۔ مسلمان ملکوں میں کوئی ایسے مدبر اور بصیرت رکھنے والے دانشور دکھائی نہیں دے رہےجو مغرب کی اس سیاسی، معاشی، نظریاتی یلغار کا معروضی تجزیہ کرکے اپنی حکومتوں کو راستہ دکھا سکیں۔ اقبال کی حسرت کوئی پوری نہیں کر رہا ہے۔
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر
کیا ہم سب پورے فلسطین کے غزہ بننے کے منتظر ہیں۔
- خطہ روشن خیال ہورہا ہے - February 20, 2025
- ہنس اور مور تو کہاں ہیں آج - February 16, 2025
- حقیقی آزادی۔ اقتصادی آزادی - February 13, 2025