کبھی میں حال کے ماتھے پہ سجا رہتا ہوں
کبھی ماضی کے خرابوں میں چھپا رہتا ہوں
کتنی صدیاں ہوئیں چمکنے نہیں دیتا ہے ضمیر
پاس دریا ہے مگر تشنہ کھڑا رہتا ہوں
بات ہو جائے تو لگتا ہے مکمل ہوں میں
ربط کٹ جائے تو ہونٹوں پہ رکا رہتا ہوں
رات دن یہی کوشش کہ رہوں بھیڑ میں گم
اپنا ہی سامنا ہونے سے ڈرا رہتا ہوں
اپنی پہچان کی خواہش تھی کبھی زوروں پر
جب سے پہچان لیا خوف زدہ رہتا ہوں
چھتیں گرتی ہوئی لگتی ہیں پلازاؤں کی
چیختا رہتا ہوں ملبے میں دبا رہتا ہوں
پہلے خوش بو تھا مہکتا تھا دلوں میں اب تو
شام اک درد ہوں رگ رگ میں رچا رہتا ہوں
- بہت اہم۔ حساس۔ منہ بولتا اتوار - November 24, 2024
- ہمارے سخت جان مگر مہربان شہر - November 21, 2024
- ہر شہری کا روزگار۔ ریاست کی ذمہ داری - November 17, 2024