سوشل میڈیا اکاؤنٹس

محمود شام

محمود شام

پاکستان کے ممتاز صحافی، شاعر، ادیب اور تجزیہ کار جناب محمود شام 5 فروری 1940

کوئٹہ انکوائری کمیشن رپورٹ (پانچویں قسط)

11 دہشت گردی کے ایک مقدمے کا فیصلہ:

11.1 ہائی کورٹ کا فیصلہ:بلوچستان ہائی کورٹ کے ایک ڈویژنل بنچ نے اپنے فیصلے میں جو میرا تحریر کیا ہوا تھا اور جب میں بلوچستان ہائی کورٹ کا چیف جسٹس تھا فیصلہ دیا۔یہ مقدمہ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن بخلاف حکومت بلوچستان (پی ایل ڈی 2013 بلوچستان75 ) تھا۔اس کے پیراگراف 42 میں کہا گیا:

’’(vii) ہم حکومت پاکستان اور حکومت بلوچستان کو ہدایت کرتے ہیں کہ وہ دہشت گردی کے جرائم کے ذمہ داروں کو سزا دینے اور دہشت گردوں کی نگرانی کے لئے معلومات کے تبادلے کی موثر میکانیت تخلیق کریں اور اس سلسلے میں باہم تعاون کریں؛

(viii) ہم حکومت پاکستان اور حکومت بلوچستان کو ہدایت کرتے ہیں کہ وہ باہم تعاون کرتے ہوئے دہشت گردی کے بھیانک جرائم اور ان کی مرتکب دہشت گرد تنظیموں کے بارے میں معلومات کا ایک ڈیٹا بنک بنائیں جن میں ان کے نام، سرپرستوں، پتے، تصویریں، انگوٹھے کے نشانات،ڈی این اے، ٹیلیفون نمبرز، ہتھیاروں اور دیگر دھماکہ خیز اشیا کی اقسام کے استعمال کی تفصیلات درج ہوں۔

(ix) ہم ہدایت کرتے ہیں کہ اس ڈیٹا بنک تک تمام سینیئر تفتیش کاروں کو رسائی فراہم کی جائے تاکہ وہ مختلف جرائم اور مجرموں کے درمیان مماثلتیں اور روابط کا تعین کرسکیں تاکہ ان کی تلاش، گرفتاری، اور ان کے خلاف قانونی کارروائی سہل ہوسکے؛

(x) ہم وفاق پاکستان کو بذریعہ وزارت داخلہ/ دفاع ہدایت کرتے ہیں کہ وہ فرنٹیئر کانسٹبلری کوہدایت کریں جو بلوچستان میں تعینات ہے قانون نافذ کرنے والی مقامی ایجنسیوں اور اداروں کے ساتھ جب بھی ضرورت ہو فوری تعاون کرے اور طلب کرنے پر مدد کو پہنچے۔اس سلسلے میں ایک طریقہ کار مرتب کیا جائے کہ کس طرح مقامی ایف سی اور مقامی پولیس و دیگر ایجنسیوں کے درمیان تعاون کو فروغ دیا جائے۔

(xi) ہم ہدایت کرتے ہیں کہ صوبے میں دہشت گردی کے سلسلے میں ایک خصوصی سیل/ یونٹ / ڈویژن قائم کیا جائے اور ان جرائم کی تفتیش سینیئر اور تجربہ کار پولیس افسران سے کرائی جائے اور تمام ادارے بشمول لیویز فورس ہر سطح پر ان سے تعاون کریں؛

(xii) ہم ہدایت کرتے ہیں کہ شدید جرائم اور دہشت گردی کے سلسلے میں مقامی پولیس/ لیویز فوری طور پر مقامی پولیس اسٹیشن، پولیس ہیڈکوارٹر اور سیکریٹری داخلہ کے دفتر کو مطلع کرے اور وہ فوراً وزارت داخلہ کو اس کی اطلاع دیں؛

(xiii) ہم وفاقی حکومت اور حکومت بلوچستان کو ہدایت کرتے ہیں کہ فوری طور پر کوئٹہ میں ایک فارینسک لیب قائم کی جائے؛

(xiv) ہم ان جرائم کا نشانہ بننے والوں کے ورثا کو براہ راست معاوضے کی ادائیگی کی ہدایت کرتے ہیں اگر یہ معاوضہ ابھی تک ادا نہ کیا گیا ہو؛

(xv) ہم وزارت طلاعات، پریس اینڈ پبلی کیشنز ڈیپارٹمنٹ، انٹیلیجنس بیورو،اسپیشل برانچ، اور وفاقی و صوبائی تمام انٹیلیجنس ایجنسیوں اور صوبوں کو ہدایت کرتے ہیں کہ وہ انتہا پسندوں اور نفرت پر مبنی لٹریچر کی گہری نگرانی کریں اور ایسے واقعات کی فوری اطلاع متعلقہ حکام کو دیں تاکہ ان کے خلاف قانون حرکت میں آسکے؛

(XVI) ہم حکومت پاکستان اور حکومت بلوچستان کو ہدایت کرتے ہیں کہ وہ اس کی یقین دہانی کرائے کہ انسداد دہشت گردی کے قانون کے سیکشن11-Bکے تحت ممنوعہ تنظیموں اور جن کے بارے میں کوئی احکامات جاری ہوئے ہوں، ان کو سیکشن 11-D کے تحت اپنے نظریات کو فروغ دینے اور پروپیگنڈا کرنے کی اجازت نہ دی جائے اور انہیں 11-W کے تحت قانون کی سخت پابندی کی ہدایت کی جائے اور برقیاتی و طباعتی میڈیا کو بھی پابند کیا جائے؛

(xvii) ہم بلوچستان پروہبیشن آف ایکسپریسنگ میٹرز آن والز آرڈی ننس، 2001 کی سختی سے پابندی کرانے کی ہدایت کرتے ہیں اور اس کے سیکشن 2 کی خلاف ورزی کے مرتکب افراد کے خلاف سخت کارروائی کی ہدایت کرتے ہیں؛

(xviii) ہم تمام مقامی کونسلوں کو ان کے سربراہوں/ منتظمین کے ذریعہ ہدایت کرتے ہیں کہ فوری طور پر اپنے اپنے دائرہ کار کے علاقوں میں آرڈی ننس کے سیکشن 3 کے تحت تمام وال چاکنگ مٹانے کی کارروائی کریں۔ یہ وال چاکنگ مندرجہ انداز میں مٹائی جائے:

(الف) اینٹوں کی دیواروں سے بذریعہ تار کے برش یا گرائینڈر کے ذریعہ؛

(ب) رنگ کی ہوئی دیوار پر اسی رنگ کے پینٹ(روغن) کے ذریعہ؛

(ج) سیمنٹ کے پلاستر کی دیوار پر سیال سیمنٹ کے ذریعہ؛ اور

(د) مٹی کی دیوار سے مٹی کا لیپ کرکے۔

(xix) ہم تمام ڈپٹی کمشنروں کو جو بلوچستان میں خدمت گزار ہیںاس یقین دہانی کی ہدایت کرتے ہیں کہ ان کے دائرہ کار کے اندر تمام افسران آرڈی ننس کے سیکشن 3 کے تحت فرائض انجام دیں، ناکامی کی صورت میں ان کے خلاف انتدابی کارروائی کی جائے؛ اور

(xx) ہم سیکریٹری لوکل گورنمنٹ، حکومت بلوچستان اور بلوچستان کے تمام ڈویژنوں کے کمشنروں کو ہدایت کرتے ہیں کہ وہ اس آرڈی ننس کی تعمیل کے بارے میں ڈپٹی کمشنروں سے مسلسل رپورٹس لیں‘‘۔

11.2 دہشت گردی کے مقدمہ کے فیصلے کی ترسیل و اشاعت:دہشت گردی کے مقدمہ کے فیصلے پر فوری عمل درآمد کی غرض سے تمام متعلقین کو اطلاع دینے کے لئے ہائی کورٹ خصوصی اضافی اقدامات کرے اور اس مقصد کے لئے فیصلے کے تین پیرے تقسیم کئے جائیں۔ پیرا نمبر ایک سے 42 تک نقول حکومت پاکستان کو بذریعہ کابینہ سیکریٹری، سیکریٹری خارجہ، سیکریٹری دفاع، سیکریٹری اطلاعات۔ انسپکٹر جنرل ایف سی بلوچستان کو ارسال کی جائیں۔ سیکریٹری دفاع اور سیکرٹری داخلہ کو مزید ہدایت کی گئی کہ وہ اس فیصلے کی نقول انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی)، انٹیلیجنس بیورو اور ایف آئی اے کو برائے اطلاع و عمل درآمد ارسال کریں۔سیکریٹری اطلاعات ان پیروں کو تمام قومی اخبارات اور میڈیا چینلوں کو فراہم کرے‘‘۔

افسوس ناک امر یہ ہے کہ نہ تو وفاقی حکومت اور نہ ہی بلوچستان صوبائی حکومت نے عدالت عالیہ کے اس فیصلے پر عمل درآمد کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ اگر انہوں نے ان ہدایات پر عمل کیا ہوتا تو دہشت گردی کی کارروائیوں میں کمی آسکتی تھی اور بڑی حد تک ان حملوں سے بچا جا سکتا تھا۔ فیصلے پر عمل درآمد میںاس لاپرواہی کا ارتکاب کرکے یہ لوگ بلوچستان ہائی کورٹ کی توہین کے مرتکب بھی ہوئے۔

یہ رپورٹ ماہ نامہ اطراف میں قسط وار شائع ہونے کے بعد “بلوچستان سے بے وفائی” کے نام سے کتابی شکل میں بھی دستیاب ہے۔ سینیئر صحافی اور تجزیہ کار محمود شام کی یہ کتاب اور دیگر کتابیں 03008210636 سے حاصل کی جا سکتی ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *