سوشل میڈیا اکاؤنٹس

محمود شام

محمود شام

پاکستان کے ممتاز صحافی، شاعر، ادیب اور تجزیہ کار جناب محمود شام 5 فروری 1940

کوئٹہ انکوائری کمیشن رپورٹ (گیاروہیں قسط)

23 ایمبولینسیں

23.1 کئی عینی شاہدین نے شکایت کی کہ زخمیوں کو دیگر اسپتالوں کو منتقل کرنے کی ضرورت تھی لیکن ایمبولینسیں بروقت دستیاب نہیں تھیں۔ کمیشن کو بتایا گیا کہ اسپتال کے پاس سات ایمبولینسیں ہیں۔ ان میں سے ایک خراب ہے لیکن اسے ٹھیک کرانے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ حقیقی معنوں میں یہ ایمبولینسیں نہیں ہیں بلکہ دوسری گاڑیوں کو ایمبولینسوں میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ ان میں جان بچانے والے آلات نہیں ہوتے اور نہ ضروری دوائیں ہوتی ہیں۔ نہ ان کے ساتھ طبی عملہ ہوتا ہے۔

23.2 ایمبولینس کمپاؤنڈ کی حالت خراب ہے اوریہ جنک، ملبے اور کاٹھ کباڑ سے بھرا ہوا ہے۔ یہاں دو ایمبولینسیں ایسی کھڑی تھیں جن میں سے ایک جاپان نے دی تھی اور جو ناکارہ ہوچکی تھی۔ ایک ایسی ایمبولینس بھی دیکھی گئی جس پر رجسٹریشن پلیٹ نہیں تھی جبکہ اس پر اکثر پولیس والے سفر کرتے تھے۔

23.3 دو کے سوا تمام ایمبولینسیں بغیر رجسٹریشن کے تھیں۔ کسی ایمبولینس کے استعمال کا کوئی ریکارڈ دفتر میں نہیں رکھا جاتا تھا۔ رجسٹریشن نمبر نہ لگانے کی ایک ہی وجہ سمجھ میں آئی کہ ان ایمبولینسوں کا غلط استعمال کیا جا سکے۔

23.4 جب محکمہ صحت سے دریافت کیا گیا تو بتایا گیا کہ محکمے نے صوبے میں گاڑیوں کے لئے 122 ایمبولینسوں کی رجسٹریشن پلیٹس حاصل کی تھیں۔ یہ پلیٹیں گاڑیوں پر کیوں نہیں لگائی گئیں اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔ اس سے ظاہر ہوا کہ محکمہ صرف وہی کام کرتا ہے جس کی شکایت میڈیا میں آجائے یا کمیشن دریافت کرے یا حکم جاری کرے۔

23.5 اسپتال میں ڈاکٹروں اور دیگر عملے کی کاروں کی پارکنگ کی کوئی جگہ مختص نہیں۔ گاڑیوں کو کوئی داخلہ اسٹکرز جاری نہیں کئے جاتے اور کوئی بھی گاڑی اسپتال کی حدود میں داخل ہوسکتی ہے۔اور اسے کہیں بھی پارک کیا جا سکتا ہے۔اس کے نتیجہ میں مریضوں اور زخمیوں کو اسپتال پہنچانے میں سخت تکلیف کا سامنا ہوتا ہے۔

24 اسپتال کا میڈیکل سپرنڈنٹ:

24.1 میڈیکل سپرنڈنٹ یا ایم ایس اسپتال کے کسی عملے کے خلاف تادیبی کارروائی نہیں کرسکتا اور گریڈ 17 تک کے ملازمین کی صرف شکایت ڈائرکٹر جنرل ہیلتھ سروسز کو بھیج سکتا ہے۔ وہ اگر چاہے تو تادیبی کارروائی کرتا ہے ورنہ نہیں۔ایم ایس اور ڈی جی ہیلتھ ایک ہی رینک کے ہیں اور ایم ایس کو اختیارات سے محروم رکھنے کی کوئی معقول وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ گریڈ 17 سے اوپر کے افسروں اور ڈاکٹروں کے خلاف تادیبی کارروائی صرف سیکریٹری ہیلتھ کرسکتا ہے۔ یہ وجہ تھی کہ ایم ایس یا ڈی جی ہیلتھ بائیو میٹرک اٹینڈنس سسٹم کو توڑنے والے ڈاکٹروں کے خلاف کوئی کارروائی نہ کرسکے۔

24.2 سیکریٹری ہیلتھ نے اسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر عبدالرحمان کو اس نے عہدے سے ہٹا دیا کیونکہ وہ کمیشن سے تعاون نہیں کررہا تھا۔ اس کی جگہ ڈاکٹر فرید احمد سلیمانی کو ایم ایس بنادیا گیا۔ایم ایس کا عہدہ گریڈ 20 کا ہوتا ہے جبکہ موجودہ اور گزشتہ ایم ایس گریڈ 19 کے ہیں۔ڈاکٹر فرید کا اپنا ریکارڈ اچھا نہیں۔ انہوں نے تھرڈ ڈویژن میں میٹرک اور انٹر کیا اور ایم بی بی ایس میں دو پرچوں میں فیل تھے۔

24.3 ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کے منیجمنٹ کیڈر میں تقرری کے لئے پبلک ہیلتھ میں ڈپلوما یا ماسٹرز ضروری ہے۔ڈاکٹر فرید احمد سلیمانی نے انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ہیلتھ سے ماسٹرز ڈگری لی ہے لیکن مجھے اس کی اہلیت میں شبہ ہے۔میری رائے میں انسٹی ٹیوٹ کی تربیت اور سند ایک بڑے اسپتال کا ایم ایس بننے کے لئے کافی نہیں۔

25 کمبائنڈ ملٹری اسپتال، کوئٹہ:

25.1 جب سنڈیمن اسپتال میں دھماکے ہوئے تو بہت سے مریضوں کو کمبائینڈ ملٹری اسپتال منتقل کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ لیکن محسوس ہوا کہ وہاں مریضوں کا علاج اور دیکھ بھال موزوں نہیں ہوئی۔ بہت سے مریضوں کو فوری ابتدائی طبی امداد کی ضرورت تھی اسی وجہ سے زخمیوں کو وہاں منتقل کیا گیا۔ اس اسپتال کا فاصلہ کوئٹہ سے بہت ہے اور یہ کنٹونمنٹ ایریا میں واقع ہے جہاں آمد و رفت کی پابندیاں ہیں۔ایم ایس، ہیلتھ سیکریٹری اور دیگرلوگوں کا کہنا تھا کہ وہاں سہولتوں کے باوجود زخمیوں کو دیکھ بھال نہیں ملی اور کئی جانوں کا نقصان ہوا۔ اگر وہاں کے بجائے زخمیوں کو بولان میڈیکل کالج اسپتال یا شیخ زائد اسپتال منتقل کیا جاتا تو بہتر تھا کیونکہ اس سے زیادہ آپریشن تھیڑ وہاں تھے۔ لیکن لوگ اپنے عزیزوں کو اس لئے وہاں لے گئے کہ وہ سویلین سرکاری اسپتالوں پر اعتبار نہیں کرتے تھے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ شہریوں کو دھماکے کے بعد خود فیصلے کرنے کے لئے تنہا چھوڑ دیا گیا جس کا انہیں نقصان اٹھانا پڑا حالانکہ یہ فیصلہ سنڈیمن اسپتال کے ڈاکٹروں کے کرنے کا تھا کہ شدید زخمی کو کہاں منتقل کیا جائے؟ اس کے نتیجہ میں شدید زخمیوں کو بروقت طبی امداد نہ مل سکی اور تاخیر کے سبب بہت سے جان سے گزر گئے۔

25.2 سی ایم ایچ اسپتال میں زخمیوں کے علاج کی صورت حال یہ تھی کہ عملے کی جانب سے انتہائی لاپرواہی کا مظاہرہ کیا گیا۔عینی شاہدین نے بتایا کہ ایک اینڈو ٹریکیل ٹیوب غنی جان آغا ایڈووکیٹ کی گردن میں داخل کی گئی لیکن ٹریکیوٹومی کے نتیجہ میں ان کی موت واقع ہوگئی۔ٹریکیوٹومی کیوں ضروری تھی اس کی کوئی وضاحت نہیں کی گئی؟

آرمی چیف نے کوئٹہ کنٹونمنٹ کا دورہ کیا جس سے سی ایم ایچ میں آمد و رفت غیر ضروری طور پر متاثر ہوئی۔ شدید زخمیوں کو انستھیسیا دینے والے دو ٹیکنی شین سی ایم ایچ میں داخل نہ ہوسکے جبکہ زخمی علاج کے لئے تڑپتے رہے۔حالانکہ ان کے علاج کو ترجیح دی جانی چاہیئے تھی۔بدقسمتی سے ہمارے ملک میں وی آئی پی کلچر اس قدر جڑ پکڑ چکا ہے کہ کسی کو لوگوں کی جانوں کی پرواہ نہیں۔

26 دہشت گردی کی مالی لاگت

26.1 انسانی زندگی انتہائی قیمتی ہے اور دہشت گردوں کے ہاتھوں جانے والی ہر جان کا کوئی بدل نہیں۔ حکومت زخمیوں اور ہلاک شدگان کے قانونی وارثوں کو معاوضہ ادا کرتی ہے، ان کے علاج معالجے پر فنڈز خرچ کرتی ہے، تباہ ہونے والی املاک کی قیمت قومی خزانے سے ادا کرتی ہے2001 سے 2016 تک پاکستان میں $118,300,000,000  یا 125کھرب روپے کا نقصان ہوا۔ مزید نقصان یہ ہوا کہ غیر ملکی سرمایہ کاروں نے سرمایہ کاری ترک کردی۔ حکومت کا قرضے لینے کا تناسب بڑھ گیا۔ دہشت گردی نے صرف زندگیاں ہی نہیں چھینیں بلکہ معیشت کو بھی تباہ کیا۔ جگہ جگہ دیواریں تعمیر کرنی پڑیں۔ گارڈز روم تعمیر کرنے پڑے۔ بلٹ پروف اور بم سے محفوظ گاڑیاں خریدنی پڑیں۔ اور یہ سب اخراجات قومی خزانے سے کرنے پڑے۔ اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے اپنی 2015-16 کی سالانہ رپورٹ میں ان نقصانات کی نشاندہی کی۔اکنامک سروے آف پاکستان کے ایک تخمینے کے مطابق 2002 سے 2016  تک 118.3 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ جو پاکستان کے بیرونی قرضوں کا دگنا ہے۔

26.2 سنڈیمن اسپتال کوئٹہ پر دو حملوں میں (جو 8 اگست 2016 کو ہوئے) ایک ارب 2 4 کروڑ 34 لاکھ 22 ہزار روپے کا نقصان ہوا۔

26.3 بدقسمتی سے وفاقی حکومت اور بلوچستان حکومت دونوں اس رقم کا معمولی سا حصہ بھی دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے خرچ کرنے کو تیار نہیں۔ اس تیاری کے لئے باقاعدہ تحقیقات اور تفتیش پر خرچ کرنے، دہشت گردی، دہشت گردوں اور دہشت گرد تنظیموں کی معلومات پر مبنی ڈیٹا بنک بنانے، انسدادی اقدامات کرنے، فارنسک سائنس لیب کے قیام، اسپتالوں میں جان بچانے والی فرسٹ ایڈ کٹس کی فراہمی،جان بچانے والے آلات کی فراہمی، اور اسپتالوں کے لئے ایمبولینسوں کی خریداری انتہائی ضروری ہے۔

27 ناقابل اعتبار حکومت بلوچستان:

27.1 جب سنڈیمن اسپتال میں خود کش حملہ ہوا تو وزیر داخلہ بلوچستان نے فرمایا کہ انہیں 99 فی صد یقین ہے کہ ان حملوں کے پیچھے دو پڑوسی ملک ہیں۔ کیا اس کے معنی یہ تھے کہ اب حملوں کے محرکین اور سرپرستوں کی تلاش بند کردی جائے۔

27.2 وزیر اعلی بلوچستان نے 10 نومبر 2016 کو اعلان کیا کہ حملے کے ماسٹر مائنڈ گرفتار کرلیئے گئے ہیں۔ 11 نومبر کو ڈی آئی جی کوئٹہ نے اعلان کیا کہ وزیراعلی کا اعلان غلط ہے اور کسی ماسٹر مائنڈ کو گرفتار نہیں کیا گیا۔چونکہ ڈی آئی جی نے وزیراعلی کی تردید کردی تھی اس لئے ایڈووکیٹ جنرل اور حکومت بلوچستان کے نمائندے پنجے جھاڑ کر ڈی آئی جی کے پیچھے پڑ گئے تاکہ اس کا بیان بدلوا سکیں لیکن ناکام رہے۔

27.3 اسی دن 11 نومبر کو حکومت بلوچستان کے ترجمان نے ایک بیان جاری کرکے معاملے کو مزید الجھا دیا۔ اور کہا کہ وزیراعلی نے لفظ ماسٹر مائنڈ استعمال نہیں کیا تھا اس کے بجائے سہولت کار کہا تھا۔ جب کمیشن نے ڈی آئی جی کو بلایا تو انہوں نے صاف صاف کہا کہ کوئی سہولت کار، ماسٹر مائنڈ، یا 8 اگست 2016 کے اس حملے کے سلسلے میں کسی شخص کو گرفتار نہیں کیا گیا۔ ایک مرتبہ پھر ایڈووکیٹ جنرل اور حکومت بلوچستان کے نمائندے آئے اور انہوں نے ڈی آئی جی کا بیان بدلوانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔

27.4 وزیراعلی بلوچستان کے اس بیان، پھر اس کی وضاحت در وضاحت نے ناصرف وقت ضائع کیا بلکہ حکومت بلوچستان کے بارے میں بے اعتباری کو بڑھا دیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب 5 دسمبر 2016 کو وزیر داخلہ نے پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ حرومزئی میں پانچ دہشت گرد مارے گئے تو میڈیا نے یقین نہ کیا اور اس خبر کو مناسب کوریج نہیں دیا۔ڈان نے تو یہ خبر ہی شائع نہ کی۔

27.5 دہشت گردوں نے سب سے پہلا قتل سچ کا کیا۔ وزیر اعلی نے یہ نہیں سوچا کہ اگر واقعی ماسٹر مائنڈ پکڑا گیا یا کوئی سہولت کار پکڑا گیا تو وہ کون ہے اور اس کی شناخت کیا ہے؟ ان کی تعداد کیا ہے؟ان کو کس نے پکڑا؟ وہ کہاں رکھے گئے ہیں؟ ایسے ہی درجنوں سوالات پیدا ہوئے۔ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے۔

27.6 جب حرومزئی میں پانچ دہشت گرد مارے گئے تو دہشت گردوں کی سرپرست تنظیم نے سچ کو جھٹلانے کی پوری کوشش کی۔جنگ کوئٹہ نے 8 دسمبر 2016 کو این این آئی نیوز ایجنسی کے حوالے سے لشکر جھنگوی العالمی کا بیان شائع کیا کہ ان کے ساتھیوں میں سے کوئی کسی پولیس مقابلے میں نہیں مارا گیا بلکہ انہیں گرفتار کرنے کے بعد قتل کیا گیا۔ اپنے بیان کی تائید میں انہوں نے وزیر اعلی بلوچستان کے بیان کا حوالہ دیا کہ ان لوگوں کو پہلے پکڑا جا چکا تھا۔

27.7 لشکر جھنگوی العالمی کا بیان اخبار میں شائع ہوا اس لئے کمیشن کے لئے اس پر رائے دینا ضروری ہے۔ کمیشن اپنے 11 اور 12 نومبر کو پہلے ہی تعین کرچکا تھا کہ کسی ماسٹر مائنڈ یا سہولت کار کی گرفتاری کا وزیر اعلی کا بیان غلط تھا۔ ایسی صورت میں ایجنسی این این آئی کو لشکر جھنگوی العالمی کا بیان جاری کرنے سے پہلے اور جنگ کوئٹہ کو شائع کرنے سے پہلے سوچنا چاہیئے تھا۔ حقیقت یہ تھی کہ (1) مشتبہ افراد کے ٹھکانوں پر چھاپہ مارا گیا اور انہوں نے فوراً فائرنگ شروع کردی (2) قانون نافذ کرنے والے ادارے کے دو اراکین زخمی ہوئے جن میں سے ایک کے سر میں گولی لگی دوسرے کی ہڈی ٹوٹ گئی (3) ٹھکانے سے دو کلاشنکوفیں اور تین پستول برآمد ہوئے اس کے علاوہ بم دھماکے میں استعمال ہونے والا تار (پرائما کورڈ)، وائر لیس سیٹ، اور دوسرا سامان برآمد ہوا۔پانچوں دہشت گردوں کا گزشتہ حملوں سے تعلق ثابت ہوگیا اور اس کی تصویریں بھی موجود ہیں۔

27.8 وفاقی حکومت نے 11 نومبر 2016 کو لشکر جھنگوی العالمی کو ممنوعہ قرار دے کر اس پر پابندی لگادی تھی اس لئے ان کے بیانات شائع کرنا انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 11W کے تحت قابل سزا جرم ہے۔ممنوعہ تنظیم کا بیان شائع کرکے ایجنسی اور جنگ اخبار دوسرے قوانین کی خلاف ورزی کے مرتکب بھی ہوئے۔ پاکستان پینل کوڈ میں ایک مکمل باب مذہب سے متعلق جرائم کا ہے (بابXV) اس کے علاوہ مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے حوالے سے بہت کچھ سیکشن 298 PPC میں موجود ہے۔ ایجنسی اور اخبار نے قاتلوں کو شہید لکھا، معصوم شہریوں کے خودکش دھماکے میں بہیمانہ قتل کو جہاد قرار دیا، خود کش حملوں اور قتل وغارت گری کو اسلامی نظام کے قیام کا مشن قرار دیا ۔ اس سے دین اسلام کی توہین ہوئی اور پاکستان کے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچی۔ پی پی سی میں ایک اور باب مجرمانہ اذیت دہی، توہین اور تکلیف پہنچانے کے بارے میں ہے جسے باب XXII میں احاطہ کیا گیا ہے اور اسے جرم قرار دیا گیا ہے۔ اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کسی شخص کو ریاست کے خلاف جرم پر اکسانا سیکشن 505 پی پی سی کے سب سیکشن (1) کی دفعہ (سی) کے تحت قابل سزا جرم ہے۔ اس بیان میں جو زبان استعمال کی گئی وہ اس قانون کے تحت قابل مواخذہ ہے۔ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 19 میں آزادی تقریر و اشاعت میں کسی جرم پر اکسانے کی اجازت نہیں دی گئی یا اسلام کی عظمت کو تباہ کرنے کی بھی اجازت نہیں۔

27.9 نیوز ایجنسی اور اخبار نے مختلف قوانین کی خلاف ورزی کی، اور اخبار نویسوں نے شائع کرنے سے پہلے خبر کی تصدیق یا توثیق کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ دہشت گردوں نے جو بیان بھیجا انہوں نے اسے شائع کردیا۔ ان صحافیوں نے ان شہیدوں کی تکلیف اور ان کے پسماندگان کے دکھوں کی پرواہ بھی نہیں کی جو ان دہشت گردوں کے ہاتھوں مارے گئے۔ انہوں نے اس طرح خودکش دھماکے میں شہید ہونے والوں کے عزیزوں ، احباب اور دوستوں کے جذبات کا کوئی خیال نہیں رکھا۔ صحافیوں میں ایسی بے حسی اور انسانی جان سے غیر دلچسپی کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔

یہ رپورٹ ماہ نامہ اطراف میں قسط وار شائع ہونے کے بعد “بلوچستان سے بے وفائی” کے نام سے کتابی شکل میں بھی دستیاب ہے۔ سینیئر صحافی اور تجزیہ کار محمود شام کی یہ کتاب اور دیگر کتابیں 03008210636 سے حاصل کی جا سکتی ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *