سوشل میڈیا اکاؤنٹس

محمود شام

محمود شام

پاکستان کے ممتاز صحافی، شاعر، ادیب اور تجزیہ کار جناب محمود شام 5 فروری 1940

آنکھیں ہی نہیں دل بھی اندھے

’’بہت سی بستیاں ہیں جنہیں ہم نے تہ و بالا کر دیا۔ اس لیے کہ وہ ظالم تھیں پس وہ اپنی چھتوں کے بل اوندھی پڑی ہیں اور بہت سے آباد کنوئیں بے کار پڑے ہیں۔ اور بہت سے پکے اور بلند محل ویران پڑے ہیں۔ کیا انہوں نے زمین میں سیر و سیاحت کی جو ان کے دل ان باتوں کے سمجھنے والے ہوتے یا کانوں سے ہی ان (واقعات) کو سن لیتے۔ بات یہ ہے کہ صرف آنکھیں ہی اندھی نہیں ہوتیں بلکہ وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔‘‘(القرآن۔ سورۃ الحج۔ 46-45۔ترجمہ:مولانا محمد جونا گڑھی)

اللّٰہ اکبر۔ ’’ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔‘‘

کیا ہم اسی انہونی کا سامنا نہیں کر رہے ہیں۔ ہم میں سے اکثر خاص طور پر اربا ب اختیار کو یاد نہیں رہا ہے کہ اللّٰہ سب کو دیکھ رہا ہے۔ ہمارے دائیں بائیں فرشتے بیٹھے ہیں۔ ہمارا ایک ایک عمل قلمبند ہو رہا ہے۔ یہاں ہم اخبارات کو، ٹی وی چینلوں کو ڈرا دھمکا کر منع کر دیتے ہیں کہ کوئی خبر کوئی تصویر عام لوگوں تک نہ پہنچنے پائے۔ مگر یہ سب کچھ ہمارے نامۂ اعمال میں درج ہو رہا ہے۔ ہم یہاں سٹی کورٹوں، سیشن ججوں کو پابند کر دیتے ہیں کہ وہ آئین کے مطابق فیصلے نہ کریں۔ لیکن جو اصل عدالت ہے، وہاں تو سب رپورٹیں جمع ہو رہی ہیں۔ قرآن کہہ رہا ہے کہ ’’صرف آنکھیں ہی اندھی نہیں ہوتیں۔ بلکہ وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔‘‘

اے ہمارے مالک، ہمارے قادر، ہماری غفلتوں سے درگزر۔ ہماری خامشی، ہماری بے حسی کو حرکت میں، طاقت میں بدل دے۔ ہم پر ایسے حکمران مسلط نہ ہونے دے، جن کی آنکھیں اندھی ہو گئی ہیں، جن کے دل سینوں میں اندھے ہوگئے ہیں۔ ان چند گروہوں اور خاندانوں کے اندھے پن کی سزا کروڑوں کو نہ ملے۔ اے عادل، اے رحیم، اے کریم، اب خلق خدا اضطراب میں ہے۔ دن رات بہت مشکل سے گزر رہے ہیں۔ غزہ میں ہر روز بے گناہ مارے جا رہے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بھی بندۂ مجبور کے اوقات بہت تلخ ہیں۔ سرمایہ پرستی کا سفینہ ڈوبتا ہی نہیں، جاگیردار، سرمایہ دار، سردار اور طاقتور ایک ہو گئے ہیں۔ کروڑوں بے یار و مددگار پھر رہے ہیں۔ اے پروردگار دو جہاں، سب ہاتھ بلند کیے، اشکبار آنکھوں سے تیرے کرم، تیرے رحم کے منتظر ہیں۔

آج اتوار ہے۔ اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں، بہوئوں دامادوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر بیٹھنے۔ اسکولوں دفتروں، ملکوں، خاندانوں کے معاملات پر کھل کر باتیں کرنے کا دن۔ قومیں اسی طرح بنتی ہیں۔ امانت ایک نسل سے دوسری نسل کو اسی طرح منتقل ہوتی ہے۔ اب تو معلومات اور اطلاعات کی فوری ترسیل اور حصول عاجلہ کیلئے تیز رفتار آلات ایجاد ہوچکے ہیں۔ 24 کروڑ میں سے 18کروڑ کے پاس فون ہے۔ اکثر کے پاس اسمارٹ فون ہیں، جن پر سوشل میڈیا نے اطلاعات کی تند و تیز ہوائیں چلا رکھی ہیں۔ اب بے خبر کوئی نہیں ہے لیکن فی زمانہ بے خبر ظاہر کرنے میں ہی عافیت ہے۔ اس لیے اکثر یہ ظاہر کرتے ہیں کہ انہیں صحیح خبریں نہیں مل رہی ہیں۔

فغاں کہ مجھ غریب کو حیات کا یہ حکم ہے

سمجھ ہر ایک راز کو مگر فریب کھائے جا

فریب مسندوں سے دیے جا رہے ہیں، اعلیٰ عہدوں سے مکر کے جال پھیلائے جا رہے ہیں، سیانے نوجوانوں کو یہی مشورے دے رہے ہیں کہ یہی ظاہر کرو کہ ہم فریب کا شکار ہو رہے ہیں۔ بصری فریب، سمعی فریب، ذہنی فریب لیکن غضب ہو اہل مغرب پر۔ کافروں پر کہ ایسی ایسی ایجادات ہر روز کر رہے ہیں کہ اب سخت سے سخت ریاستیں بھی حقیقت نہیں چھپا سکتی ہیں۔ ریاست اور طاقت کتنے کمزور ہو گئے ہیں کہ مارشل لاکا اعلان سن کر جنوبی کوریا کے صابر شاکر اور بہت مرنجاں مرنج، کام سے کام رکھنے والے بھی سڑکوں پر نکل آئے۔ مارشل لا پیدا ہوتے ہی مر گیا۔ جیسے ہمارے ہاں نومولود چند روز یا کچھ گھڑیوں میں دم توڑ دیتے ہیں۔ مارشل لاکا دبدبہ 60اور 70کی دہائی میں ہیبت اثر ہوتا تھا۔ اب اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

اب دیکھئے میں ایک عجیب کرب سے گزر رہا ہوں۔ پہلے تو ہمیں یہ کہہ کر فریب دیا جاتا تھا کہ یہ میلے ٹھیلے، گھڑ دوڑ، اونٹوں، گھوڑوں کی دوڑیں۔ موسیقی کی محفلیں، مشاعرے، ادبی تہوار، ریاستیں اس لیے ان کا اہتمام کرواتی ہیں کہ رعایا کی توجہ اصل مسائل سے ہٹی رہے۔ نوجوان، ردیفوں، قافیوں، افسانوں، ناولوں، داستانوں میں کھوئے رہیں۔ لیکن ہو یہ رہا ہے کہ مادری زبانوں کا میلہ ہو۔ عالمی اُردو کانفرنس، کتاب میلہ، سندھو میلہ، سرائیکی میلہ، پشتو ادبی فیسٹیول، کشمیری ادبی میلہ، پنجابی ادبی مذاکرے ان سب میں نوجوان بڑی تعداد میں شریک ہو رہے ہیں۔ اپنے ذہنوں کو قلعی کرواتے ہیں۔ ان کے استدلال کی طاقت دو چند ہو جاتی ہے۔ وہ اعلیٰ معیاری افسانے پڑھتے ہیں۔ ناولوں کی ورق گردانی کرتے ہیں۔ نسلوں کی جدوجہد ان کے ذوق مطالعہ کی نذر ہوتی ہے۔ محاوروں، داستانوں، مقابلوں کی صدیاں بازوئوں میں انہیں لے لیتی ہیں تو وہ دنیا کو ایک نئے جذبے سے دیکھتے ہیں۔ ہر چند کہ بعض مبصرین کو یہ شکایت رہتی ہے کہ ان ادبی میلوں میں وہی چہرے ہوتے ہیں جو ہر سال ہی اسکرین کی زینت بنتے ہیں۔ نئی نسل کے شعراء ناول نگاروں افسانہ نویسوں کو آگے نہیں لایا جاتا۔ لیکن اس گِلے کے باوجود۔ یہ ادبی میلے خرد افروزی کا سر چشمہ ہیں۔ نسلوں کے درمیان خلا ختم ہو رہے ہیں۔ زندگی معروضی انداز میں گزارنے کی امنگ پیدا ہوتی ہے۔ ان تین تین روزہ یا اس سے زیادہ دنوں کی محفلیں مزاحمت کو جلا دیتی ہیں۔ ایک فطری عمل یہ ہوتا ہے کہ ایک طرف افتخار عارف، کشور ناہید، زہرہ نگاہ، نور الہدیٰ شاہ کی فکر بلند۔ دوسری طرف اپنے وزیر اعظم، وفاقی وزراء، وزرائے اعلیٰ کی اخلاقی پستیوں سے آتی آوازیں سننے میں آتی ہیں۔ نوجوان جب دونوں کا تقابلی موازنہ کرتے ہیں۔ تو مایوس ہو جاتے ہیں۔ ادب میں ہم جس معیار پر پہنچ چکے ہیں ریاست ان آفاق پر کیوں نہیں ہے۔ آج کی نسل کے پاس سوشل میڈیا میں ایسے آلات موجود ہیں۔ جو فوراً یہ طے کر دیتے ہیں کتنا بجٹ ہے کتنے ادارے کتنے شعبے۔ وہ بھی یہی نتیجہ، یہی بیلنس دکھارہے ہوتے ہیں۔ مگر آنکھیں ہی نہیں دل بھی اندھے ہو جاتے ہیں۔

ہمارے ارباب اختیار حل و عقد تک کیا ان فیسٹیولز، ان میلوں، سیمیناروں، کانفرنسوں کی آنچ نہیں پہنچتی ہے۔ کیا ادبیات پاکستان، نیشنل بک فائونڈیشن، وزارت تعلیم ، وزارت اطلاعات، پیمرا والے ان بلند پایہ مذاکروں کی تفصیلات سے وزیرا عظم سیکرٹریٹ کو، دوسرے اداروں کو مطلع نہیں کرتے تاکہ ان کی فکر، ان کا شعور بھی اپنے وطن کے نقادوں، دانشوروں، ناول نگاروں، شعرائے کرام تک پہنچ جائے۔ ان میں صرف اُردو کے قلمکار نہیں، پنجابی، سندھی، بلوچ ،پشتون، کشمیری، بلتی اور سرائیکی سب شامل ہیں۔ معاشرہ آگے نکل رہا ہے۔ ریاست پیچھے رہ گئی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *