سوشل میڈیا اکاؤنٹس

محمود شام

محمود شام

پاکستان کے ممتاز صحافی، شاعر، ادیب اور تجزیہ کار جناب محمود شام 5 فروری 1940

آپ کے خیال میں امریکی ووٹرز نے 2024 میں بھی عورت کو کیوں حکمرانی نہیں دی؟

تمام تر جدیدیت کے باوجود امریکن معاشرہ عورت کے حوالے سے قدامت پرستی کا شکار ھے اور پھر اگرچہ امریکن عملی طور پر عیسائیت سے دور سہی لیکن عورت کے حوالے سے مذہبی ھو جاتے ہیں جہان وومن کا مطلب woe for men لیا جاتا ھے

Jaweria Yasmin mirpur Azad jammun kashmir

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امریکی ووٹرز بحیثیت صدر خاتون کو اسٹیٹ کے لیے مناسب نہیں سمجھتے وجہ شاید ماضی کے صدورکے جنسی اسکینڈل ہوں۔
جب کہ ہمارے سامنے جرمنی کی چانسلرانجیلا کی مثالی خدمات بحیثیت سربراہ مملکت موجود ہے آئرن لیڈی امریکہ میں بھی ہوسکتی ہے لیکن شاید معاشرتی سطح پر امریکی عوام کا شعور ابھی پدرسری روایات سے جڑا ہے

ڈاکٹر ذکیہ رانی شعبہ اردو کرا چی یونیورسٹی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس سے ثابت یہ ہوا کہ اندر سے امریکی قدامت پسند ہی ہیں۔ انھیں دوسرے ملکوں میں عورت کی حکمرانی چاہئیے اپنے یہاں نہیں۔
سعودی عرب کو اپنی آنکھیں کھولنی چاہئیں۔
اس دوران امریکہ میں مقیم جس کسی سے بات ہوئ وہ کاملہ کے اس لئے خلاف تھے کہ ان کی پارٹی نے ٹرانس جینڈر کو سپورٹ کیا ہے اور ہر شخص آزاد ہے اپنی جنس کے ساتھ جو چاہے سلوک کرے۔
مسلمانوں نے فلسطین کی وجہ سے بھی کاملہ کو ووٹ نہیں دیا

شہناز احد سینئر صحافی ۔مصنفہ۔کراچی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

2024,امریکی عوام اور عورت
عالیہ زاہد بھٹی

وہ امریکہ جو خواتین کے حقوق کا علمبردار بنا پھرتا ہے اور جسے حقوق نسواں کے بل پاس کروا کر معاشی اور معاشرتی طور پر خواتین کے دل جیتنا اچھا لگتا ہے اور اپنی مرضی کے حقوق و فرائض عورتوں پر لاگو کرکے یہ کہنا کہ ہم عورتوں کے ساتھ ہیں اسی امریکہ کو عورت کی بات ماننے سے اس حد تک نفرت ہے کہ وہ اس صنف کو حکمران نہیں دیکھنا چاہتے وہ عورت کو مادر پدر آزاد معاشرے کی جنس بنادینے کے لئے ہمہ وقت متحرک ہیں اور ان کی بولیاں لگا کر انہیں “معاشی” سرگرمیوں میں “حصہ دار ” بھی بناتے ہیں مگر حوا کے کردار میں چھپا شیطان انہیں آج 2024 میں بھی بہکا پھسلا کر یہ کہتا ہے کہ عورت ایک پروڈکٹ تو ہو سکتی ہے لیکن یہ عورت حکمران بن کر حکم دینے کے لائق نہیں ہے بائبل کا تصور عورت 2024 کی امریکی عوام پر حاوی ہے ۔

بقلم عالیہ زاہد بھٹی
6 نومبر 2024

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

579ء میں ٹالیڈو کی مجلس نے پابندی لگائ اگر کسی مذہبی عہدیدار کے گھر میں اجنبی عورتیں پائ گئیں اور ان کی وجہ سے زرا بھی شک و شبہ ہوا تو عہدیدار کو سزا دی جائے گی اور عورتوں کو بطور غلام فروخت کر دیا جائے گا ۔
ایلویرا “کی مجلس نے پابندی لگائ کہ کوئ راہب اپنی بیٹیوں کو بھی گھر میں نہیں رکھے گا ۔
848ء میں پیرس کی مجلس نے یہ پابندی لگادی کہ عورتیں کسی ایسی مجلس میں نہ جائیں جہاں راہب موجود ہوں چرچ کے اطراف میں نہ رہیں کسی راہب کے گھر جائیں تو کالے کپڑے میں خود کو لپیٹ کر جائیں ۔

البرٹ دی گریٹ کہتا ہے “عورت مرد کے مقابلے میں اخلاقی طور پہ کمزور ہے چونکہ عورت میں مرد سے زیادہ سیال مادہ ہوتا ہے وہ آسانی سے حرکت کر سکتا ھے لہذا کم قوت برداشت کے باعث عورت غیر مستقل مزاج ہوتی ہے۔ وفادار بھی نہیں ہوتی۔
یہ عظیم عہدیدار عورت کے چہرے میں گناہ کا سب سے بڑا خطرہ دیکھتے تھے ان کے خیال میں عورت اپنی جنس کی وجہ سے شیطان کو دعوت دیتی تھی کہ وہ اسے استعمال کرے ، چونکہ مرد میں یہ کمزوریاں نہیں ہوتیں تو وہ شیطان سے محفوظ رہتا یے ۔
(عورت اور تاریخ” از ڈاکٹر مبارک علی)
یہ چہرہ ہے ان نام نہاد لبرل ہونے کے دعویداروں کا، حد افسوس یہ ہے کہ ان (امریکہ)کی 249سالہ تاریخ میں ایک بھی خاتون نہیں جس کو انھوں نے اپنے اوپر حکومت کرنے کے لیے چنا ہو ،
دیکھا جائے تو آج جب امریکہ میں سینتالیسویں صدر کا انتخاب ہو چکا یے تو ان اڑھائی سو سالوں میں کچھ بھی نہیں بدلا
کملا ہیرس ایک مضبوط اعصاب کی تعلیم یافتہ خاتون ہیں اور ریپبلکنز جیسے بنیاد پرستوں کے مقابلے میں ان کا عورت ہونا اور دوسرا افریقی ایشیائ نژاد امریکی ہونا جرم ہے ۔
اس کے علاوہ کملا ہیرس انتہا پسندی کی طرف مائل ہوتے معاشرے میں ایک کمزور امیدوار تھی۔ جو پرکشش قسم کا کوئ روڈ میپ بھی نہ دے پائیں ۔جبکہ ان کے مدمقابل ٹرمپ جیسے سفید فارم، بنیاد پرست انسان کی پالیسیز پہلے دور میں بھی صرف اور صرف امریکی مفادات کا تحفظ دیکھ رہی تھیں اور یہی انتہا پسندی اسے دوبارہ بھی وائٹ ہاؤس میں لے آئ ہے ۔یقینا یہ دنیا میں بڑھتی انتہا پسندی کا ہی ایک آئینہ ہے ۔

تحریر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نازیہ آصف گجرات

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میری بیٹی کے خیال میں یہ سوال ہم کرسکتے ہیں کیونکہ ہم پاکستانی ہیں
جبکہ امریکی صنفی اعتبارِ سے نہیں سوچتے
میرے خیال میں بات عورت کی حکمرانی کی نہیں
امریکی عوام اپنے صدر کے انتخاب میں انکی پالیسیوں اور گزشتہ دور کی مثبت اقدامات کو مدنظر رکھتے ہیں

صنوبر صبا کوئٹہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میڈیا مانیٹرنگ ، جماعت اسلامی میڈیا سیل کے شعبہ نشرواشاعت کا ایک ذیلی شعبہ ہے ۔
اس شعبے کے تحت الیکٹرانک میڈیا، خصوصاً ٹی وی ڈراموں اور شوز کی مانیٹرنگ کی جاتی ہے ، ان نشریات کا منفی اور مثبت پہلوؤں سے جائزہ لیا جاتا ہے ، ضرورت پڑنے پر متعلقہ ذمہ داران مثلاً پیمرا اور وفاقی وزارت مذہبی امور کی توجہ خصوصی پہلوؤں پر دلائی جاتی ہے نیز رائے عامہ کی ہمواری کا کام بھی کیا جاتا ہے ۔

میرے خیال سے امریکہ جیسے ملک میں بھی اب تک ایسے طبقات موجود ہیں جو مردوں اور عورتوں کے دائرہ کار کو الگ سمجھتے ہیں لیکن ان کی تعداد پندرہ سے اٹھارہ فیصد ہی ہے ، ایسا لگتا ہے کہ امریکہ میں بھی سیاسی حلقوں میں خواتین کے لیے جگہ بنانا آسان نہیں ہے ۔بہرحال خاتون امیدواران ابھی عوام کی توجہ اور اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں رہیں ۔ امریکی عوام نے یقیناً پارٹیوں کی پالیسی کی بنیاد پر ووٹ دئیے ہیں ۔

نیر کاشف

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس کی وجہ کملاہیرس کاعورت ہونا نہیں ،میرے خیال میں ان کے دور حکومت کی’فلسطین سے متعلق وہ پالیسیاں اور منافقانہ بیانات ہیں جو باضمیر اور
انسانیت کا احترام کرنے والے امریکی ووٹرز کو پسند نہیں ائے لہزا انہوں نے اس خاتون کو حکمرانی کے لائق نہیں سمجھا

ہر عورت کے سینے میں ممتاہوتی ہے فطرت کے عین مطابق تو یہی ایک خاص خصوصیت ہے جو عورت کو اعلیٰ مقام عطا کرتی ہے فلسطین کے معصوم بچوں کے قتل عام بارےجب ایک صحافی اس خاتون سے سوالات کررہا تھا تو اس خاتون کا جواب تھا جنگ میں تو ایسا کچھ ھوتاہےاور یہ کہتے ہوئے ان کی ہنسی نہیں رک رہی ووٹرز نے بھی محسوس کرلیا ھوگا کہ شخصیت کے لحاظ سے بھی یہ حکمرانی کے پیمانے پر پوری نہیں اترتیں

سعیدہ افضل

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *