سوشل میڈیا اکاؤنٹس

محمود شام

محمود شام

پاکستان کے ممتاز صحافی، شاعر، ادیب اور تجزیہ کار جناب محمود شام 5 فروری 1940

اسوۂ حسنہ ہی واحد روڈ میپ

امت مسلمہ مجموعی طور پر انتہائی ابتری کا سامنا کر رہی ہے۔ پاکستان سمیت تمام مسلم ممالک بحرانوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ ہمارے عظیم پیغمبر، ہمارے حبیب، ہمارے حاشر، ہمارے کامل، ہمارے کفیل، ہمارے خاتم الرسل، ہمارے بشیر، ہمارے قدیر، ہمارے یٰسین، ہمارے مزمل، ہمارے حضور اکرم ﷺ اپنی امت کیلئے ہمیشہ مضطرب رہتے تھے۔ اب کاشغر سے نیل کے ساحل تک امتیوں پر جو گزر رہی ہے پہلے کبھی ایسی افراتفری اور خود غرضی نہیں ہوئی ہو گی۔ شہنشاہ ہیں، بادشاہ ہیں، امیر ہیں، حاکم ہیں، صدر ہیں، وزرائے اعظم۔ ربیع الاول کا میلادی مہینہ ہے۔ مگر کوئی دربار مصطفیؐ میں فریاد نہیں کر رہا ہے۔ ایک دوسرے کے ہمسائے ہیں لیکن اتحادی غیر مسلموں کے ہیں، یہودیوں کے ہیں، ہمسائے ہیں مگر آپس میں سلام دعا کیلئے بھی تیار نہیں ہیں۔

شہر روشنیوں سے سبز ہیں، عام کلمہ گوئوں کی اکثریت اپنے اللہ، اپنے پروردگار سے اپنے پیارے نبی ؐ کے توسط سے دل کی گہرائی سے گڑ گڑاتے ہوئے مناجات کر رہی ہے کہ ہمیں دوسری قوموں کا محتاج نہ ہونے دے۔ اپنے خزانوں سے ہمیں مالا مال کر، ہمیں آئی ایم ایف کا مفتوح نہ ہونے دے، ہم اپنے لوگوں کیلئے خود فکر مندی کا اظہار کریں۔ ان کیلئے رزق کے دروازے کھولنے کی استدعا اس رحیم و کریم سے کریں، واشنگٹن سے نہ کریں۔50 سے زیادہ ممالک ہیں، جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ بہت سے ممالک معدنی وسائل سے مالا مال ہیں، تیل گیس کی دولت رکھتے ہیں، سونا تانبا قیمتی پتھر ہیں، سمندر کی تہوں میں خزانے چھپے ہوئے ہیں، دریا ہیں میٹھے پانی سے لبریز، زمینیں ہیں بہت زرخیز، انتہائی شیریں پھلوں کے باغات ہیں مگر دلوں میں کڑواہٹیں ہیں۔ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بنے ہوئے ہیں۔ آپس میں کوئی اقتصادی دفاعی معاہدے نہیں ہیں۔ کافروں کی انگیخت پر کلمہ گو ایک دوسرے کی گردنیں اڑاتے ہیں۔ بم دھماکے کرتے ہیں، اپنے ہی ہم مذہبوں کی معیشت زراعت کو نقصان پہنچاتے ہیں۔

ہم پر ایسے حکمران مسلط کردیے گئے ہیں جو یہود و نصاریٰ کی غلامی میں مطمئن ہیں۔ اپنے مسلمان بھائی بہنوں کو اذیتیں پہنچا کر خوش ہوتے ہیں۔ غیر مسلموں سے اس کی داد اقتدار کی طوالت میں پاتے ہیں۔ اپنی دولت کافروں کے ملکوں میں لے جاتے ہیں۔ عمر بھر کماتے ہیں۔ ان سر زمینوں میں جو لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ کی صدائوں سے گونجتی ہیں مگر یہاں سے حاصل کردہ سرمایہ، اثاثے،کافروں کے بینکوں میں جمع کروا کے ان کی اقتصادی طاقت بڑھاتے ہیں۔

منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک

ایک ہی سب کا نبی دین بھی ایمان بھی ایک

حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک

کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک

دل کی گہرائی سے میں محو فغاں ہوں کہ اے خدائے بزرگ و برتر۔ اپنے محبوبؐ کے صدقے ہم مسلمان ملکوں کو ایسے حکمران عطا کر جو عالم اسلام کو ایک مضبوط، مستحکم، منظم طاقت بنانے کیلئے اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامیں۔ حرمین شریفین کے پاسبانوں کو سوز و ساز رومی، پیچ و تاب رازی عطا کر، ذوالفقار علی کی دھاروں سے نواز۔ جنہیں بے پایاں دولت سے مالا مال کیا ہے، انہیں بازوئے حیدر بھی عنایت کر دے۔ غیر مسلموں کے دفاعی اتحاد نیٹو کے مقابلے میں امت مسلمہ کو اپنی دفاعی فورس تیار کرنے کی توفیق دے۔ ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کیلئے تو افریقہ، ایشیا، یورپ کے مسلمان حکمراں نیو یارک جانے کیلئے بے تاب ہوتے ہیں۔ کیا 12 ربیع الاول کو روضۂ رسولؐ پر اکٹھے حاضر ہوکر اپنے اتحاد، اپنی خوشحالی کیلئے ہاتھ نہیں اٹھا سکتے۔ مدینے والے کے وسیلے سے فلسطین کیلئے تحفظ کی کوششیں نہیں کر سکتے۔ ایک چھوٹا سا ملک اسرائیل پچاس سے زیادہ اسلامی ممالک پر کیسے حاوی ہو گیا ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ تو اپنی سمندری، زمینی،فضائی فتوحات سے گونج رہی ہے۔ اب ہمیں کس عنصر نے۔ کن عوامل نے کمزور کردیا ہے۔

کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تونے

وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارہ

یہ سبز قمقمے، جھالریں، عقیدتیں، دستاریں، سبز لباس، ریلیاں یقینا عشق رسولؐ آخر الزماں کا اظہار ہیں۔ لیکن نئی نسل کو آج بتانے کی ضرورت ہے کہ وہ آسماں کیا تھا۔ ہم جسکے ٹوٹے ہوئے تارے ہیں۔ نوجوانوں کو آگاہ کریں۔ اس میراث سے، علم و فضل کی اس معراج سے جہاں سے بوریہ نشیں اقصائے عالم پر چھاگئے تھے۔ وہ کیا روڈ میپ تھا، وہ کیا ایجنڈا تھا، وہ کیا منشور تھا۔ آج ہمارے نوجوان ہمارے معاشروں میں مطمئن نہیں ہیں۔ وہ غیر مسلم ملکوں کے قونصل خانوں کے سامنے ویزے کی قطار میں لگے ہیں۔ آج ’اسٹارٹس اپ‘ کا بہت چرچا ہے۔ کیا ہماری ذمہ داری نہیں ہے کہ ہم چھٹی ساتویں، آٹھویں عیسوی صدی سے لے کر تیرہویں صدی تک کے ’اسٹارٹس اپ‘ کا ذکر کریں۔ ان دنوں کے ’ماسٹر ٹرینر‘ کی ورکشاپوں کی تفصیلات آج کی زبان آج کی اصطلاحات میں اپنی اولادوں تک پہنچائیں۔

آج اتوار ہے اپنے بیٹوں بیٹیوں پوتوں پوتیوں نواسوں نواسیوں بہوئوں دامادوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر بیٹھنے کا دن۔ آج ان سے اسوۂ حسنہ پر بات کریں۔ اس کی تفصیل جانیں،آخر وہ کیا نکات تھے جن پر عمل کرتے ہوئے مسلمان دنیا کے آخری کونے تک مقبول ہوتے گئے۔غیر مسلم اس عظیم ’رول ماڈل‘ کو تسلیم کرتے ہیں۔ مگر ہم اس ’پروجیکٹ‘ سے غافل رہتے ہیں۔ جس کا آغازخالق کائنات نے مدینے سے کیا۔ آج اکیسویں صدی کی تیسری دہائی میں عالم بشریت جن چوراہوں پر کھڑا ہے وہاں اس سالار کارواں، سب سے بڑے انسان، سب سے بڑے جرنیل، سب سے بڑے انسان دوست، سب سے بڑے سپہ سالار، سب سے بڑے رہبر امن، سب سے بڑے ماہر معیشت، سب سے بڑے حاکم،حکمتِ عملی کے سب سے بڑے ماہر، سماجی ہم آہنگی کے سب سے بڑے علمبردار ، سب سے بڑے ریفارمر کی تعلیمات، اصلاحات، حکمت، فراست، تدبر، منصوبہ بندیوں سے اپنے نوجوانوں کو با خبر کریں۔ شکریہ سید عزیز الرحمن کا کہ ایوان سیرت زوار اکیڈمی پبلشرز کے زیر اہتمام ’جامع اُردو کتابیات سیرت‘ کی دو جلدوں کے ایک ہزار سے زیادہ صفحات میں دس ہزار سے زیادہ ان تصنیفات کے کوائف یکجا کیے ہیں جو سرور کائنات ،فخر موجودات حضرت محمد ﷺ کی سیرت کے ان مختلف پہلوئوں کا احاطہ کرتی ہیں جن کا ذکر ہم نے اوپر کیا ہے۔ سلام ان تمام مصنّفوں کو، محققوں کو۔ مجھے ’’کتابیات سیرت‘‘ سے اک ولولۂ تازہ ملا ہے۔ یقیناً دوسری زبانوں میں بھی ایسی ہی کتابیات مرتب کی گئی ہوں گی۔

اسوۂ حسنہؐ ہی ہمیں ایک فعال طاقت بنا سکتا ہے۔ ورنہ روز قیامت آج کے تمام مسلم حکمرانوں کو غزہ کے شہداء خاص طور پر بچے حضور اکرم ؐ کے سامنے بہت ندامت سے دوچار کریں گے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *