کیسی پت جھڑ ہے کہ جاتی ہی نہیں
فصل گل روٹھ کے آتی ہی نہیں
کتنی بیزار ہے بلبل سر سے
اب کوئی گیت سناتی ہی نہیں
آنکھ صحرا ہے تو دل پتھر ہے
اب کوئی لاش رلاتی ہی نہیں
کس نے روکی ہے سمندر کی ہوا
بزم ہر شام سجاتی ہی نہیں
بانسری بھول گئی ہے تانیں
سوئی یادوں کو جگاتی ہی نہیں
دھند میں کھوئی ہوئی پگڈنڈی
اپنی انگڑائی دکھاتی ہی نہیں
اب تو گل مہر کی کوئی ٹہنی
ہاتھ پھولوں سے ملا تی ہی نہیں
بالکونی تو ہے اک اک گھر میں
عشق کی آگ لگاتی ہی نہیں
انگلیاں کیسی تھیں دستک والی
یہ تو دہلیز بتاتی ہی نہیں
سب بڑے شہر ہیں گہری چپ میں
خلق اب ہوںٹ ہلاتی ہی نہیں
آئینے توڑ رہی ہیں چڑیاں
چونچ اپنی ہے پہ بھاتی ہی نہیں
محمود شام
- پاکستان۔ اشارے نہیں۔ اشاریہ سازی - January 30, 2025
- جنرلوں کی رات کب ختم ہوگی (اٹھارویں قسط) - January 27, 2025
- سوشل میڈیا نے اجتماعی شعور پیدا کیا - January 26, 2025