سوشل میڈیا اکاؤنٹس

محمود شام

محمود شام

پاکستان کے ممتاز صحافی، شاعر، ادیب اور تجزیہ کار جناب محمود شام 5 فروری 1940

تینوں بڑی پارٹیاں مرکزی اجلاس طلب کریں

مسائل قومی سطح پر بھی بہت سنگین ہیں۔ بین الاقوامی طور پر بھی ایک ہنگامہ برپا ہے اسٹاک ایکسچینج مارکیٹیں بیٹھ رہی ہیں اور پھر سے جی اٹھ رہی ہیں ۔

پاکستان میں دو سیاسی پارٹیاں حکمرانی کر رہی ہیں لیکن ان اہم ملکی اور عالمی مسائل پر ان کی طرف سے کوئی پالیسی بیان جاری نہیں ہوتا اور نہ ہی کسی پارٹی نے سینٹرل کمیٹی یا مجلس عاملہ کا ہنگامی اجلاس بلایا ہے ۔کیا یہ مسائل ان سیاسی پارٹیوں کیلئے اہم نہیں؟ ان کے حل کی راہ تلاش کرنا کیا یہ اپنی ذمہ داری نہیں سمجھتیں اور کیا شراکت اقتدار میں یہ اقتصادی سماجی سیاسی بین الاقوامی امور ان کے دائرہ اختیار میں نہیں ہیں۔

پاکستان کی سیاست کے تاریخ کے ادنیٰ طالب علم کی حیثیت سے میں تو صورتحال کو ہمیشہ سیاسی پارٹیوں کے نقطہ نظر سے ہی دیکھتا ہوں۔ بہت سے بحرانی دور یاد آتے ہیں تو کبھی پیپلز پارٹی کی سنٹرل کمیٹی کی میٹنگیں، کبھی عوامی لیگ کی ،کبھی نیشنل عوامی پارٹی اور کبھی جماعت اسلامی کی میٹنگیں یاد آتی ہیں۔ عام پاکستانی ملک اور بیرون ملک ان میٹنگوں کے اعلامیوں قراردادوں کے منتظر رہتے تھے ۔غیر ملکی میڈیا بھی ان اعلامیوں کو اہمیت دیتا تھا اور یہ پارٹیاں اپنے ان فیصلوں کی روشنی میں ہی قدم اٹھاتی تھیں۔ اب یہ میٹنگیں تو نہیں ہوتیں لیکن ان قومی اور عالمی مسائل پر کور کمانڈرز میٹنگ فارمیشن کمانڈر میٹنگ میں ضرور غور کیا جاتا ہے اور اسکے بعد ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز پبلک ریلیشنز کی پریس کانفرنس بھی بالعموم بہت اہم خبروں کو جنم دیتی ہے۔

میں تو بلا خوف تردید یہ کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان میں قومی سیاسی پارٹیوں نے سیاسی جماعتوں کی حیثیت سے سوچنا سمجھنا اور عمل کرنا چھوڑ دیا ہے کیونکہ زیادہ تر پارٹیاں موروثی ہو چکی ہیں۔ پارٹی کی سربراہی کسی کاروباری کمپنی کی یا کسی قبیلے کی طرح اولاد کو ہی منتقل ہونا ہوتی ہے۔ اس لیے پارٹیوں کے سینئر ترین تجربہ کا ر رہنما بھی کبھی یہ نہیں سوچ سکتے کہ انہیں پارٹی کی سربراہی مل سکتی ہے اس لیے وہ ’’جی حضور‘‘ تک ہی محدود رہتے ہیں۔ سالہا سال سے یہ تجربہ ہو رہا ہے اور ہم چونکہ بادشاہوں کے وارث ہیں اس لیے ہم بھی شہزادیوں شہزادوں کو ہی پارٹی سربراہی کا اہل سمجھتے ہیں۔ فیصلہ سازی بھی انہی بنیادوں پر ہوتی ہے پارٹیوں کے سالانہ کنونشن جماعت اسلامی کے علاوہ کسی کے باقاعدگی سے نہیں ہوتے۔ عہدے داروں کے انتخابات ورکرز کنونشن میں نہیں ہوتے۔ پارٹیوں میں آزادانہ سوچ رکھنے والوں کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے ۔ہم 40 برسوں سے جن اقتصادی سماجی سیاسی بدحالیوں کا شکار ہیں ان کی بنیاد مارچ 1985کے غیر جماعتی انتخابات میں رکھی گئی۔ جمہوری عمل کو فیصلہ سازی کی اہلیت سے بے دخل کر دیا گیا۔ ایک تو یہ سارا عرصہ شراکت اقتدار کا ہے۔ سیکورٹی اور خارجہ پالیسی سے متعلق اہم فیصلے غیر سیاسی ادارے کرتے رہے ہیں۔ پھر ایک ایسی بڑی تعداد اسمبلیوں میں وجود میں لائی گئی جو الیکشن جیتنے کیلئے کسی پارٹی ٹکٹ کی محتاج نہیں بلکہ پارٹیاں انہیں اپنی گود بخشنے کے لئے بے تاب رہتی ہیں۔

آج اتوار ہے۔ اپنے بیٹے بیٹیوں، پوتے پوتیوں، نواسے نواسیوں، بہوؤں دامادوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر اکٹھے ہونے اور ملکی عالمی مسائل پر گفتگو کرنے اور نوجوانوں سے کچھ سیکھنے کا دن۔ موبائل فون کی اسکرین انہیں ہم سے زیادہ باخبر تو رکھتی ہے۔ ضرورت یہ ہوتی ہے کہ ہر عمر کے لوگ ان تازہ ترین خبروں کا پس منظر اور ان کے آئندہ اثرات پر بات کریں تو ان خبروں کا مختلف زندگیوں پر اثر کسی منطق کے تحت ہو سکتا ہے۔ حالات صرف پاکستان میں ہی معمول کے مطابق نہیں ہیں۔ پوری دنیا میں ایک تہلکہ مچا ہوا ہے۔ عالمی دارالحکومت واشنگٹن میں ایک صدر نے اپنے ایگزیکیو آرڈرز کے ذریعے دنیا بھر کو پریشان کر رکھا ہے۔ امریکی پوری دنیا میں تو جمہوریت کا درس دیتے ہیں حکومتیں بدلتے ہیں لیکن خود امریکہ میں اس وقت ایک شخصی حکومت چل رہی ہے۔ کسی دن آرڈر جاری ہوتے ہیں کسی دن واپس لے لیے جاتے ہیں۔

امریکہ میں جب ایسا اضطرابی عالم ہو تو پوری دنیا اس سے متاثر ہوتی ہے۔ ٹرمپ کا نشانہ کون ہے چین یا تیسری دنیا؟ مشرق وسطیٰ سے تو اب کوئی خوف نہیں ہے وہاں تو خلفشار برپا کر کے مقبول عوامی حکمرانوں کو سپرد خاک کر دیا گیا ہے۔ مضبوط عرب سیاسی پارٹیاں دم توڑ چکی ہیں۔ وہاں امریکیوں نے اسرائیل کو علاقے کا عملا ًکماندار بنا دیا ہے۔ خطرہ اور مقابلہ اب صرف چین سے ہے۔ جمہوریت سیاسی پارٹیوں کی فعالیت سے آگے بڑھتی ہے۔ سیاسی پارٹیاں اپنے مفکرین سے نظریات کا تحفظ کرنے والے لیڈروں کے دم سے فعال ہوتی ہیں۔ اس ہفتے پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک نظریاتی قد آور لیڈر تاج حیدر ایک مختصر علالت کے بعد انتقال کر گئے۔ وہ مفکر تھے صاحب مطالعہ تھے مصنف تھے اور بہت اچھے مقرر بھی۔ اس طرح پی پی پی فکری طور پر مزید کمزور ہو گئی۔ 1967میں جب پارٹی کی بنیاد رکھی گئی۔ کیسے کیسے نظریاتی لیڈر تھے۔ خود ذوالفقار علی بھٹو ‘، محمود علی قصوری، جے اے رحیم،ڈاکٹر مبشر حسن، میر علی احمد تالپور، حنیف رامے، معراج محمد خان، مختار رانا، شیخ محمد رشید، قاضی محمد بخش دھامرا، قاضی غیاث الدین جانباز، علی جعفر زیدی۔ پارٹی کی سنٹرل کمیٹی میں باقاعدہ سیاسی مباحث ہوتے تھے۔ کئی کئی روز یہ بحثیں چلتی تھیں۔ پھر فطری بنیادیں کمزور ہوتی گئیں۔ موروثیت بڑھتی گئی۔

مسلم لیگ نون نے پنجاب میں اپنی جڑیں مضبوط کیں انتخابات بھی جیتے لیکن فکری بنیادوں پر یہ مضبوط فعال پارٹی نہیں بن سکی۔ اسکی سینٹرل کمیٹی کے اجلاسوں میں فکری مباحث کی روایت نہیں پنپ سکی۔

ان دنوں حالات نے اور ان دونوں پارٹیوں کی غیر فکری صورتحال نے پاکستان تحریک انصاف کو مقبول ترین سیاسی جماعت بنا دیا ہے لیکن بانی چیئرمین کے پس دیوار زنداں ہونے کے سبب یہ تنظیمی طور پر اور فکری بنیادوں پر مضبوط نہیں ہے بلکہ پارٹی کے اندر کی ٹوٹ پھوٹ اور کشمکش کی خبریں عام طور پر پھیلائی جاتی ہیں۔ ان سب مشکلات کے باوجود ایک بنیادی نظریے کو تو فروغ مل رہا ہے کہ واہگہ سے گوادر تک پاکستانیوں کی اکثریت سیاسی مسائل کا حل سیاسی بنیادوں پر تلاش کرنے کے حق میں ہی ہوتی جا رہی ہے۔

امریکی صدر کے فیصلوں نے جو عالمی اضطراب پیدا کر رکھا ہے اس کے تناظر میں وقت کا تقاضا تو یہ ہے کہ مسلم لیگ نون،پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان تحریک انصاف اپنی اپنی سینٹرل کمیٹیوں کے اجلاس منعقد کریں اور اس عالمی صورتحال پر تفصیل سے غور کیا جائے۔ ہر رکن کو کھل کر بولنے دیا جائے کیونکہ واشنگٹن کے فیصلے اسلام آباد اور پنڈی دونوں کو متاثر کر سکتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *