بھارت کے ایک ارب سے زیادہ انسان امن چاہتے ہیں ۔سارک کی علاقائی تنظیم کو آسیان یورپی یونین کی طرح آگے بڑھتادیکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن بھارتیہ جنتا پارٹی اپنا پاکستان مخالف جنون ترک کرنے کو تیار نہیں ہے ۔اگلے الیکشن میں نریندر مودی کو سابقہ کامیابیوں جیسی امید نہیں ہے ان کی متعصبانہ پالیسیاں ہندوتوا بھارت کے بنیادی نظریے سیکولرازم سے متصادم ہیں۔ اس لیے آہستہ آہستہ فضا بی جے پی کے خلاف ہو رہی ہے خود بی جے پی میں بھی نریندر مودی کی قیادت پر اعتبار کم ہو رہا ہے۔
دنیا آگے بڑھ رہی ہے۔ انسان 21ویں صدی کی تیسری دہائی میں ہے لیکن بھارت کے وزیراعظم علاقے کو پھر 1965ءمیں لے جانا چاہتے ہیں اور اس بار وہ کشیدگی کو پہلے مرحلے میں ہی انتہا پر لے گئے ہیں۔ 1948 ,1965 ,1971 کی جنگیں ہوئیں لیکن سندھ طاس معاہدہ کبھی معطل نہیں کیا گیا یہ دونوں ملکوں کی معیشت اور خاص طور پر کسانوں کیلئے بنیادی اہمیت رکھتا ہے ۔
جستجو یہ ہونی چاہیے کہ بھارتی وزیراعظم نے اس آبی جنگ کیلئے یہ وقت کیوں چنا۔ ایک طرف تو امریکی صدر ٹرمپ کے ایگزیکیوٹو آرڈرز نے دنیا کو تباہی کے کنارے پر پہنچا دیا ہے ۔ٹرمپ بھارت کو اس خطے میں تھانے دار بنانے کی پرانی امریکی اسکیم پر عمل پیرا ہیں۔ امریکی نائب صدر اپنی بھارتی نژاد بیگم کی بدولت انڈیا کیلئے بہت زیادہ نرم بلکہ محبوبانہ رویہ رکھتے ہیں۔
پاکستان کے اندرونی حالات کو مودی نے پاکستان کی کمزوری سمجھ لیا۔ مجموعی صورتحال کو اپنے حق میں سمجھ کر ایسے انتہائی قدم اٹھا لیے گئے ہیں جن کی ہمت کسی بھارتی وزیراعظم کو نہیں ہوئی تھی ۔
اب پاکستان کو کیا کرنا چاہیے روایتی عسکری سفارتی سیاسی جوابی بیانات اپنی جگہ ہیں۔ پہلے تو پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت کو بھارتی جارحانہ اقدامات کا سنجیدگی سے جائزہ عالمی اور علاقائی تناظر میں لینا چاہیے صرف جذباتی بیانات نہیں بلکہ پہلے تو قوم کو اعتماد میں لیا جائے اور بتایا جائے کہ مودی کی اس جارحیت کے اصل اسباب کیا ہیں۔بھارت میں پاکستان کا ہائی کمیشن یقیناً کئی ماہ سے بھارتی حکمرانوں کی پاکستان پالیسی میں تبدیلیوں پر سائفر بھیج رہا ہوگا۔ قوم کو ان امور سے بھی آگاہ کیا جائےکہ مودی اور بی جے پی کی اس وقت مقبولیت کا کیا گراف ہے کن ریاستوں میں وہ اب بھی سیاسی طور پر مستحکم ہیںاور کتنی ریاستیں انکے ہاتھ سے نکل چکی ہیں۔ کانگریس کی مقبولیت کتنی بحال ہوئی ہے اسکے پاس کتنی ریاستیں ہیں۔
یہ بھی ذہن میں رہے کہ پہلے 1948 ,1965 اور 1971 کی تینوں جنگیں کانگریس کے دور میں لڑی گئی ہیں۔ بی جے پی کے دور میں سرحدوں پر کشیدگی ہوئی تھی لیکن وہ عالمی اداروں کی مداخلت سے ٹل گئی تھی۔ اس لیے یہ نہ سوچا جائے کہ بھارت کی کوئی بھی سیاسی پارٹی پاکستان کیلئے نرم گوشہ رکھتی ہے۔ میں نے تو ابھی ایک دو ہفتے پہلے ہی ٹرمپ کی ٹیرف دہشت گردی کے پیش نظر یہ امکان ظاہر کیا تھا کہ کیا پاکستان روس چین اور ایران امریکہ کے مقابلے میں ایک ہو سکتے ہیں ۔ہمیں سفارتی طور پر فعال ہونا ہوگا۔ایرانی قیادت سے ملاقات ضروری ہے، اسی طرح چینی قیادت سے بھی مشاورت کی جائے۔
ا سے صرف بھارت کی گیدڑ بھبکی نہ سمجھا جائے یہ کسی عالمی سازش یا نیو گریٹ گیم کا حصہ ہو سکتا ہے۔ دنیا کو پھر بلاکوں میں تقسیم کرنے کی کوشش ہو سکتی ہے۔ مسلمانوں کے خلاف مغرب کی ایک جامع حکمت عملی بھی ہو سکتی ہے ۔
پاکستان کو پہلے تو اس کا مقابلہ سفارتی سطح پر کرنا ہوگا ۔وزارت خارجہ کی طرف سے تو شاید اسلام آباد میں مقیم غیر ملکی سفیروں کو اس بھارتی جارحیت پر بریف کیا جا چکا ہے۔ ہمارے خیال میں وزیر خزانہ وزیر زراعت وزیرآب پاشی کی طرف سے بھی الگ الگ ایسی میٹنگیں سفیروں کے ساتھ ہونی چاہئیں۔
دنیا بھر میں متعین پاکستانی سفیروں کو بھی اسلام آباد طلب کر کے ان سے مشاورت کی جائے وہ اپنے اپنے تعیناتی ملک کی امریکی بھارتی پالیسیوں کے بارے میں موقف سے آگاہ کریں۔ انہیں وزیراعظم وزیر خارجہ یہ ذمہ داریاں سونپیں کہ وہ جہاں متعین ہیں وہاں کے انتظامی سربراہ صدر، وزیراعظم ،وزیر خارجہ اور سیکرٹری خارجہ کو بھارت کی اب تک کی طویل جارحانہ تاریخ سے آگاہ کریں اور یہ موقف شدت سے اختیار کیا جائے کہ جنوبی ایشیا میں علاقائی تعاون کی تنظیم سارک اب تک اس لیے فعال نہیں ہو سکی کہ بھارت ان سات ملکوں سے تعاون نہیں ان پر تسلط چاہتا ہے۔ کشمیر پر غاصبانہ تسلط کے بعد وہ آئین میں ایسی تبدیلیاں کر چکا ہے جس سے کشمیر کی وہ آئینی حیثیت نہیں رہی جو اقوام متحدہ نے متعین کی تھی ۔
پاکستان میں اندرونی سطح پر بھی معاملات ابتر ہیں۔ ریاست اور عوام کا ایک دوسرے پر اعتماد مجروح ہوا ہے۔ مرکزی اور صوبائی حکومتیں اپنا کردار ادا نہیں کر رہی ہیں۔ ایک طرف افغانستان کی طرف سے دہشت گردوں کی سرپرستی دوسری طرف بھارت کے یہ جارحانہ اعلانات۔ اس صورتحال میں سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ ریاست کے ادارے ایسے رویے اختیار کریں کہ عوام میں مقبول ہوتے جائیں۔ بھارت جیسے عیار دشمن کی ایسی دھمکیوں کے بعد پاکستان میں سیاسی سماجی اتحاد کی فضا پیدا کرنا ضروری ہے۔ واہگہ سے گوادر تک ایک سازگار ماحول پیدا کیا جائے ۔سوشل میڈیا میں جو منظر نامہ دکھائی دیتا ہے اس کے پیش نظر ضروری ہے کہ اپنے اپنے حلقے میں مقبول قیدیوں کو رہا کر کے ان کے حامیوں کی ریاست مخالف فکر کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے۔ اڈیالہ جیل سے لے کر ہڈ ڈسٹرکٹ جیل تک کے قیدیوں کو ملک میں یکجہتی پیدا کرنےکیلئےرہا کر دیا جائے ۔
وزیراعظم کو اب ایک فعال اور سرگرم شیڈول بنانا ہوگا اور بیانات بہت ہی احتیاط سے دینا ہوں گے۔ انہیں چاہیے کہ ملک میں ایک اعتماد اور استحکام قائم کرنے کیلئےسب سے پہلے عمران خان سمیت تمام اپوزیشن لیڈروں سے اس اہم اور سنگین صورتحال پر مشاورت کریں۔ 1965ءکی جنگ سے پہلے ایوب خان نے بہت زیادہ مخالف لیڈروں سے بھی مشاورت کی تھی پھر وزیراعظم روزانہ زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی نمایاں شخصیتوں سے رہنمائی لیں ایک انتہائی اہم شعبہ یونیورسٹیاں ہیں جہاں لاکھوں طالب علم پڑھ رہے ہیں ان کے وائس چانسلر اور شعبہ بین الاقوامی امور کے سربراہوں سے بھی رہنمائی لی جا سکتی ہے۔ بزنس مینوں ،خواتین اینکر پرسنز وکلا، اہل قلم، علماء کرام، مشائخ عظام سے بھی ملیں ۔
جنوبی ایشیا اس وقت کسی کشیدگی ‘،طاقت کے عدم توازن کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔یہ سامراجی ممالک کی سازش ہو سکتی ہے نریندر مودی اس کا آلہ کار بن رہے ہیں ۔
- جنوبی ایشیا میں نیو گریٹ گیم کا آغاز - April 27, 2025
- اردو میں خود نوشت قابلِ ستائش - April 24, 2025
- ٹرمپ کیا نئی گریٹ گیم کے سر خیل ہیں؟ - April 20, 2025