’’مجھ پر یہ واضح ہوگیا ہے اس مملکت کو آئندہ الیکشن میں حقیقی نمائندگی میسر آنی چاہئے۔ اگر مجھے اپنی پارٹی کی اندرونی لڑائیوں سے ہی نمٹنا ہے تو میں آئندہ انتخابات میں اپنی قوم کی بہترین امید نہیں ہوسکتا۔ اس لیے میں نے دستبردار ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ گزشتہ رات کھانے پر میں نے اپنے بچوں، اہل خانہ کو اپنے اس عزم سے آگاہ کردیا تھا۔ جو اب آپ کے سامنے ظاہر کررہا ہوں۔ میں پارٹی کی قیادت سے۔ وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہونا چاہتا ہوں۔ جب تک پارٹی نئے لیڈر کے انتخاب کے ملک گیر عمل کو مکمل نہیں کرلیتی میں یہ عہدے سنبھالے رکھوں گا۔ نئے لیڈر کی آمد کے ساتھ ہی میں اس منصب سے ہٹ جائوں گا۔ پھر اس نئے رہبر کی قیادت میں پارٹی اگلے الیکشن کی تیاری کرے گی اور الیکشن میں حصّہ لے گی۔‘‘
یہ ہے کینیڈا کے چیف ایگزیکٹو وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کا پیر 6جنوری 2025کو خود گدی چھوڑنے کا اعلان۔
پاکستان میں ایسے رضاکارانہ اعلان بہت کم دیکھنے میں آئے ہیں۔ رضاکارانہ رسوائیاں تو حاصل کی جاتی ہیں یا پھر غیر سیاسی قوتیں ایسے اعلانات کرواتی ہیں۔ اپنے ملک میں یہ احساس اور اظہار تو عام دیکھنے میں آیا ہے کہ کب نظم و نسق سنبھالنا ہے۔ یہ شعور اور ادراک کبھی نہیں آیا۔ جب کسی حکمران نے، پارٹی لیڈر نے پارٹی کی قیادت یا وزارتِ عظمیٰ سے استعفیٰ دیا ہو۔جسٹن ٹروڈو کے والد بھی بہت مقبول اور وزیر اعظم رہے۔ جسٹن بھی 9سال سے بہت ہر دلعزیز تھے۔ لیکن پارٹی میں اندرونی کشمکش بڑھ رہی تھی۔ اب پارٹی صدر سچت مہرا نے کہا ہے کہ پارٹی کی بورڈ آف ڈائریکٹرز کی میٹنگ ہوگی۔ جس میں پارٹی کے نئے لیڈر کے انتخاب کا اوقات نامہ طے کیا جائیگا۔ اعتراف کیا گیا ہے کہ لبرل پارٹی ملک بھر میں جسٹن ٹروڈو کی دس سالہ قیادت پر شکر گزار ہے۔ ایک وزیر اعظم کی حیثیت سے وہ کینیڈا میں ہمہ گیر تبدیلیاں لے کر آئے۔
یہ ہے اپنی پارٹی کا دبائو۔ اپنے ہاں یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ یہاں اکثر پارٹیاں پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیاں ہیں۔ موروثی ادارے ہیں اس لیے پارٹی لیڈر پر اندرونی نہیں ہمیشہ بیرونی دبائو پڑتا ہے۔ کینیڈا کو اب امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی طرف سے کینیڈا درآمدات پر 25فیصد ٹیکس عائد ہونے کے اثرات کا دبائو ہے۔ جس سے کینیڈا کی معیشت بری طرح متاثر ہو گی۔ پارٹی کو یہ شکایت ہے کہ ٹروڈو نے اس معاملے کو سنجیدگی سے طے نہیں کیا۔
ٹرمپ اپنے مخصوص انداز میں دھمکی دے رہے ہیں کہ اگر کینیڈا امریکہ میں ضم ہوکر 51ویں ریاست بن جائے تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ کینیڈا اور امریکہ کے درمیان 1775اور 1812میں باقاعدہ جنگیں بھی ہو چکی ہیں۔کینیڈا نے اپنی تاریخ میں زیادہ تر وقت امریکہ کے دبائو میں ہی گزارا ہے۔ کینیڈا پاکستان کی طرح دولت مشترکہ کا رُکن ہے۔ وہاں اب بھی شاہ برطانیہ کا ایک نامزد گورنر جنرل ہوتا ہے۔ بادشاہ چارلس سوم کینیڈا کے بادشاہ ہیں۔ میری سائمن کینیڈا کی پہلی مقامی خاتون گورنر جنرل ہیں۔ اس سے پہلے گورنر جنرل لندن سے آتے رہے ہیں۔ کینیڈا میں امریکہ کی اکثر برائیاں نہیں ہیں۔ نسلی فسادات نہیں برپا ہوتے۔ کینیڈا کا زمینی رقبہ بہت ہے۔ اسلئے وہاں انسانوں کی ضرورت رہتی ہے۔ دنیا بھر سے تارکین وطن کی آمد کا خیر مقدم کیا جاتا ہے۔ کینیڈا میں زندگی کی عمدگی اور معیار کا بہت خیال رکھا جاتا ہے۔ کینیڈا کے مقبول ترین وزیر اعظم اور سیاسی لیڈر نے پارٹی میں اپنی عدم مقبولیت اور متنازع ہوتی شخصیت کا احساس خود کیا ہے اور وقت پر دستبردار ہونے کی ہمت کر لی ہے۔ انہیں کرسی چھوڑتے وقت کوئی پشیمانی نہیں ہے۔ نہ ہی کسی انتقامی کارروائی کا خطرہ ہے۔کینیڈا ان ممالک میں سے ہے جہاں حکمرانی کا ایک نظام قائم ہوچکا ہے، بلدیاتی ادارے ہوں، صوبائی یا وفاقی، وہاں آئین، قانون اور سسٹم کی پابندی کی جاتی ہے۔ کوئی بڑا صنعت کار ہو، جاگیردار، سردار، سب قانون کے سامنے ایک ہیں۔ کینیڈا کی یونیورسٹیاں آزاد ہیں۔ حکومتی کارکردگی پر تنقید ہوتی رہتی ہے۔ فوج ہے۔ مگر وہ سول معاملات میں کبھی مداخلت نہیں کرتی۔ وہاں عام طور پر کسی کو خبر نہیں ہوتی کہ مسلح افواج کے چیف کون ہیں۔ وہاں کی عدالتیں ذیلی، صوبائی، وفاقی اپنے آئین کے مطابق اپنے فرائض انجام دیتی ہیں۔ بلدیاتی نظام بہت موثر ہے۔ ہمارے دو بیٹے وہاں ہیں۔ اسلئے اکثر آنا جانا رہا ہے۔ سب سے اچھا نظام لائبریریوں کا ہے۔ ہر شہر میں ایک بڑی لائبریری، پھر اس کی شاخیں، مختلف حصوں میں اور ایک چھوٹی لائبریری ہر محلے میں۔ لائبریری سے کتابیں، وڈیوز جاری بھی ہوتی ہیں۔ تارکین وطن کے لیے زبان سکھانے کی کلاسز بھی۔ آپ ٹیوشن لے رہے ہیں دے رہے ہیں جگہ نہیں ہے۔ تو آپ لائبریری میں بیٹھ سکتے ہیں۔ مختلف ملکوں، نسلوں، زبانوں کے لوگ اس ملک میں آباد ہورہے ہیں۔ اپنا کلچر محفوظ رکھتے ہوئے وہ ایک نئے کلچر کی تشکیل کر رہے ہیں۔
پاکستان بھی کینیڈا کی طرح دولت مشترکہ کا رُکن ہے۔ ہم دولت مشترکہ کے ہر سربراہی اجلاس میں شریک ہوتے ہیں۔ 56آزاد ممالک اس کے ممبر ہیں۔ جن میں ایشیا، افریقہ، شمالی امریکہ، آسٹریلیا، براعظموں سے تعلق رکھنے والی اقوام شامل ہیں۔ مقاصد میں اوّلین حیثیت جمہوریت کے فروغ ، انسانی حقوق کے تحفظ، اور قانون کی یکساں حکمرانی کو حاصل ہے۔ دولت مشترکہ اپنے ممالک کے نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم کیلئے وظائف بھی جاری کرتی ہے۔ یہ ادارہ بیسویں صدی کی پہلی دہائیوں میں بہت سرگرم رہا ہے۔ جب افریقہ ایشیا کے ممالک آزاد ہورہے تھے۔ امریکہ اپنا سامراجی دبائو جوں جوں بڑھاتا گیا ہے۔ دولت مشترکہ اور اس قسم کی تنظیمیں اپنا اثر کھوتی رہی ہیں۔ امریکہ کی تو پوری دنیا میں مداخلت بڑھ رہی ہے۔ جمہوریتوں کے تختے الٹنا، کمزور حکمرانوں کو ملکوں پر مسلط کرنا امریکہ کا ستون بن گیا ہے۔ ہم جنرل ضیا کے دَور میں ستمبر 1978میں سینٹرل جیل کراچی میں قیدی کی حیثیت سے افطار کر رہے تھے۔ ممتاز بھٹو اور حفیظ پیرزادہ ساتھ تھے۔ اقبال فضل کشمیر والا میزبان تھے۔ اگر چہ وہ بھی قیدی تھے۔ لیکن انہیں اپنے سرمائے کی وجہ سے باہر سے اشیا منگوانے کی سہولت تھی۔ وہاں ایک امریکی رسالہ چیف ایگزیکٹو آیا۔ امریکہ سے شائع ہونیوالے اس رسالے میں آنجہانی ہنری کسینجر کا انٹرویو تھا۔ جس میں انہوں نے برملا اعتراف کیا تھا کہ ترقی پذیر ممالک میں امریکہ کیلئے وہاں کے آرمی چیف ہی چیف ایگزیکٹو ہوتے ہیں۔
دولت مشترکہ میں یہ اختیار صرف سول اور منتخب حکمرانوں کا مانا جاتا تھا اور زور اس بات پر ہوتا تھا کہ نو آزاد ملکوں میں تعلیم کی اشاعت، انسانی حقوق کا تحفظ جاری رہے، زندگی کی سہولتیں کم نہ ہوں، قانون کا نفاذ یکساں رہے۔ہم دولت مشترکہ میں ہیں۔ پارلیمانی نظام چلا رہے ہیں لیکن ان دونوں سے عوام کو جو سہولتیں ملنی چاہئیں، پاکستانی ان سے محروم ہیں۔ انسانی حقوق کی پامالی سر فہرست ہے۔
- رضاکارانہ دستبرداری۔ یا رضاکارانہ رسوائیاں - January 9, 2025
- عدالتی کارروائی، غیر شفاف، خلاف آئین و قانون - January 6, 2025
- 2024۔ غزہ میں کیسے گزرا - January 2, 2025