سوشل میڈیا اکاؤنٹس

محمود شام

محمود شام

پاکستان کے ممتاز صحافی، شاعر، ادیب اور تجزیہ کار جناب محمود شام 5 فروری 1940

شامی خاتون کی ڈائری (آٹھویں قسط)

آج میرے دن کا آغاز اس اخباری سرخی سے ہوا، “ایک اسپتال سے تعلق رکھنے والے باخبر ذرائع کے مطابق سیکورٹی فورسز نے درعا سے 182 شہریوں کی لاشیں ہفتے کو دمشق میں تشرین اسپتال منتقل کیں۔” اتوار کو اسی اسپتال میں مزید 62 لاشیں منتقل کی گئیں۔ اس طرح لاشوں کی مجموعی تعداد 242 ہوگئی۔ اسی اسپتال میں 81 فوجیوں کی لاشیں بھی منتقل کی گئیں جن کو زیادہ تر سر کے پیچھے گولی مار کر قتل کیا گیا تھا”۔

یہ خبریں عجیب و غریب تھیں۔ سیکورٹی فورسز ہر جگہ شہریوں کے قتل عام میں ملوث تھیں۔ لیکن اتنے سارے فوجیوں کو کس نے قتل کیا؟ ظاہر ہے ان فوجیوں کو قتل کرنے والے لوگ وہ تھے جن پر فوجی اعتبار کرتے تھے اور اسی وجہ سے ان کو قریب آنے کی اجازت دی۔ ان خبروں سے ہر طرف غیریقینی صورت حال پیدا ہوگئی تھی۔ کسی کی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا ہورہا ہے؟

ان فوجیوں کے قاتل کون تھے؟ اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا۔ عام شہری نہتے تھے اور وہ اس طرح شامی فوجیوں کو قتل نہیں کرسکتے تھے۔ میں نے ایک فوجی سے جب یہ سوال کیا جس کے بہت سے ساتھی ہالک ہوئے تھے تو اس نے بتایا اس کے ساتھیوں کو کسی نشانچی نے گولی کا نشانہ بنایا تھا۔ اس مقصد کے لیے اسنائیپر رائفل استعمال کی گئی تھی۔ میں نے اس فوجی سے جواب میں کہا کہ ایک نہ ایک دن تم کو معلوم ہو جائے گا کہ تم کو گولی کا نشانہ بنانے والے کون لوگ تھے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ تمہارے ایسے دوست ہوں جن کے بارے میں تم سوچ بھی نہیں سکتے۔ لیکن حقیقت یہ تھی کہ میری اطلاعات کے مطابق بہت سے ایسے فوجی ڈویژنوں کو سزا دی جارہی تھی جو شہریوں پر گولی چلانے سے انکار کردیتے تھے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ فوجی دستہ بھی ایسے ہی فوجیوں پر مشتمل ہو جنہوں نے کسی وقت حکمراں خاندان کے احکامات کی خلاف ورزی کی ہو اور شہریوں کا قتل عام کرنے سے انکار کردیا ہو۔ میں اس فوجی سے مزید سوالات کرنا چاہتی تھی لیکن میں نے محسوس کیا کہ وہ میرے سوالوں سے پریشان ہوگیا ہے۔ میں نے اس سے مزید سوال کرنے کا ارادہ ترک کردیا۔

یہ صبح کا وقت تھا اور سورج کی کرنیں گہرے سبز درختوں سے چھنتی ہوئی زمین پر پہنچ رہی تھیں۔ اچانک ایک سفید رنگ کی سوزوکی میرے قریب آئی جس میں چہرے پر نقاب چڑھائے تین افراد سوار تھے۔ ان میں سے دو کے ہاتھوں میں مشین گنیں تھیں۔ انہوں نے اچانک ایک جانب فائرنگ شروع کردی۔ سڑک کے دوسری جانب میں نے دو افراد کو زخمی ہو کر گرتے دیکھا۔

کار سوار یہ دیکھنے کے لیے نہیں رکے کہ ان کی فائرنگ سے کتنے لوگ ہلاک یا زخمی ہوئے؟ سوزوکی تیزی سے آگے بڑھ گئی۔ ظاہر ہے ان لوگوں کا مقصد صرف دہشت پھیلانا تھا۔ آج کچھ قانونی ماہرین نے ایک رپورٹ جاری کی جس کے مطابق روزانہ اوسطًا 500 افراد کو گرفتار کیا جارہا ہے۔

دمشق میں ایک بزنس اسکول کے باہر مظاہرہ کرنے والے بہت سے طلبہ کو گرفتار کیا گیا۔ التال کے شہر میں سیکورٹی فورسز نے 800 افراد کو گرفتار کیا۔ یعفور ریجن میں 30 ٹینک اور چھ فوجی قافلے ادمشق کی جانب جاتے ہوئے دیکھے گئے۔ دریا میں گھروں پر چھاپے اوگرفتاریاں جاری رہیں۔

بنیاس میں ہزاروں مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ “درعا کے شہر کا فوجی محاصرہ ختم کیا جائے”۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *