سوشل میڈیا اکاؤنٹس

محمود شام

محمود شام

پاکستان کے ممتاز صحافی، شاعر، ادیب اور تجزیہ کار جناب محمود شام 5 فروری 1940

شامی خاتون کی ڈائری (نویں قسط)

یہ دہشت ناک ایام اسی طرح جاری رہے۔ میری دوستوں کا کہنا تھا کہ میں کسی کارٹون کردار کی طرح گلیوں میں ٓاوارہ گھومتی دکھائی دیتی تھی اور میرا حلیہ بھوتوں والا ہوتا۔ میں سڑکوں پر پریشان حال، بدحواس اور خوف زدہ اپنی انگلیوں کو دانتوں سے دبائے چلتی پھرتی رہتی۔ میں لوگوں کو مرتے ہوئے دیکھتی اور سوچتی کہ یہاں موت کتنی ارزاں ہے اور زندگی کتنی سستی ہے۔ میرا حال کسی جنگلی پہاڑی ڈھالن پر جھکے ہوئے پودوں کی طرح تھا۔ میری کمر اب پہلے سے بھی زیادہ جھکی رہتی اور مزید کچھ دنوں تک میں اسی طرح چلتی پھرتی تو شاید میری کمر پر کوب بھی نکل آتا۔ مجھے اپنے حوصلوں کی کمزوری پر دکھ محسوس ہوتا اور میں ہر وقت شرمسار رہتی۔ میں یہ سوچتی کہ گولیاں جب جرات مند اور بہادر لوگوں کے سینوں سے گزرتی ہیں تو اس لمحے ان کے چہروں کی چمک نہیں جاتی۔ لیکن خود میرا حال یہ تھا کہ جب میں آنکھیں بند کرتی تو مجھے مردوں کے چہرے دکھائی دیتے، خون آلود الشیں ناچتی
دکھائی دیتیں اور ہر گزرنے واال لمحہ مجھے خوف اور دہشت کی گہرائیوں میں دھکیل رہا ہوتا۔ مجھے بار بار اپنے سونے کی جگہیں تبدیل کرنی پڑتی تھیں کیونکہ شامی انٹیلی جنس کے کارندے اور الشبیہہ کے غنڈے ہر وقت میری تالش میں رہتے تھے۔ ایسے لوگ بہت کم تھے جن کے ضمیر زندہ تھے اور جنہوں نے اس جدوجہد میں حصہ لینے کے لیے اپنے گھروں کو چھوڑ دیا تھا۔ پھر بھی مجھے معلوم تھا کہ میرے بہت سے دوست مردوں اور خواتین نے شامی جیلوں میں طویل عرصہ گزارا تھا اور وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے۔
اب وہ دوبارہ گرفتاری سے بچنے کے لیے ِادھر اُدھر بھاگتے پھرتے رہتے تھے کیونکہ وہ شامی حکومت کے وحشیانہ نظام انصاف پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ میرے لیے زیادہ مسائل اس لیے پیدا ہوئے کہ مجھے ایک جانب اپنی رہائش گاہوں پر حملوں، چھاپوں اور اپنی گرفتاری سے بچاؤ کی کوششیں کرنی تھیں اور دوسری جانب اپنی بیٹی کی حفاظت بھی کرنی تھی جس کو سرکاری اہلکار مسلسل تنگ کرتے رہتے 

 تھے۔  ُا

ن کی کوشش ہوتی تھی کہ  ُانہیں ُاس کے ذریعے میرا پتہ مل جائے۔ وہ مجھے کھل کر سازشی اور جاسوس کہا کرتے تھے۔
میں 

چاہتی تھی کہ

اُن سیاہ ایام سے نجات پاسکوں۔ جب میں نے اپنی بیٹی کو اپنے گھر میں بالکل تنہا چھوڑ دیا 

تھا 
 میں گاؤں میں گزارے ہوئے
کیونکہ مجھے خدشہ تھا کہ شامی انٹیلی جنس میرے ساتھ اس کو بھی گرفتار کرلے گی۔ ہم خوف اور دہشت کے ماحول میں زندگی
گزار رہے تھے۔ میں اپنی بیٹی کے مستقبل سے خوفزدہ تھی اور میں نے ُاس کو اور ُاس کی زندگی کو خطرے میں ڈال دیا تھا۔ میری

سرگرمیوں کی وجہ سے میرے خاندان کے ساتھ جو کچھ ہورہا تھا انہوں نے ان سب تکلیفوں کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا تھا۔ خاص
طور پر میرے بھائی کو اس قدر تنگ کیا گیا اور دھمکیاں دی گئیں کہ ایک ایسا وقت آگیا جب وہ سنجیدگی سے خودکشی کے بارے میں
سوچنے لگا کیونکہ گاؤں کے لوگ اور خود ہمارے اپنے عقیدے سے تعلق رکھنے والے افراد ُاس کی بہن کو اپنے فرقے کا باغی اور سازشی قرار
سے میری وجہ سے تکلیفیں برداشت کرنی پڑ رہی تھیں۔ میری

دیتے تھے۔ جب بھی مجھے ُاس کا خیال آتا تو میرا دل دھڑکنا بھول جاتا۔ ُا

ن لوگوں کو کس طرح تحفظ فراہم کروں؟ تمام علوی اب یہ تصور کررہے تھے کہ اگر سنی کامیاب ہوگئے

سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ میں ُا
تو وہ علویوں کا قتل عام کریں گے اور بشاراالسد اور ُاس کے سرکاری کارندوں نے آمریت کے خالف اس جدوجہد کو کتنی آسانی سے فرقہ وارانہ جنگ میں تبدیل کردیا تھا۔ میں اس قدر پریشان تھی کہ مجھے اپنی ڈائری لکھنے کے لیے وقت نہیں ملتا تھا اور جب میں قلم
ٹھاتی تھی تو میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ میں کیا لکھوں اور کیا چھوڑ دوں۔ لیکن تھوڑے ہی عرصے میں مجھے یہ احساس
ُا
ہونے لگا کہ میری یہ ڈائریاں زندہ رہنے میں میری مدد کررہی ہیں۔ وہ میرے لیے ایک سہارا ثابت ہورہی ہیں۔ مجھے اپنے حوصلوں کو بلند
رکھنا تھا۔ اس کے لئے ضروری تھا کہ میں لکھتی رہوں۔ مجھے اپنا گھر چھوڑ کر بہت تکلیف ہوئی تھی اور میں پوشیدہ رہنے کے لیے
شہر کے نواح میں ایک نامعلوم مقام پر ٹوٹے پھوٹے گھر میں منتقل ہوگئی تھی۔ مجھے اس کا یقین تھا کہ وہ مجھے گرفتار کرنا نہیں
ن کا مقصد لوگوں کو یہ یقین کرنے پر آمادہ کرنا ہے کہ میں نے جو کچھ

چاہتے لیکن میری اچھی شہرت کو داغدار کردینا چاہتے ہیں۔ ُا
لکھا ہے اور اس حکومت کے خالف جو رپورٹیں بھیج رہی ہیں وہ سب جھوٹ ہے۔ مظاہروں میں جس طرح گولیاں چالئی جاتی ہیں اور
نہتے افراد کو قتل و غارتگری کا نشانہ بنایا جاتا ہے ُاس بارے میں میری بھیجی ہوئی رپورٹیں دنیا بھر کے ذرائع ابالغ اور الیکٹرونک میڈیا
نشر کررہے تھے لیکن وہ خود میرے لوگوں پر یہ تاثر دینا چاہتے تھے کہ میں کسی غیرملکی سازش کا حصہ ہوں اور مجھے یہ سب
لکھنے کے لیے خطیر رقم ادا کی جاتی ہے۔ حکومت کے حامی مبصرین ریاستی ٹیلی ویژن پر میرے بارے میں ان ہی خیاالت کا اظہار کیا کرتے
ن کی باتوں کو کیسے قبول کرسکتی تھی جب میں نے خود اپنی آنکھوں سے معصوم مردوں، عورتوں اور بچوں کے الشے

تھے۔ لیکن میں ُا
کے قاتلوں کو قتل و غارت گری کرتے دیکھا تھا۔ میں نے ’الشبیہہ‘گرتے دیکھے تھے۔ جب میں نے خود بشاراالسد کی حامی علوی ملیشیا
خود ان مسلح گروہوں کو دیکھا تھا جن کا کام ہی قتل عام کرنا تھا۔ میں بیشتر مظاہروں میں خود گئی اور میں نے دیکھا کہ ان میں
پرامن مظاہرین شریک ہوتے تھے اور کسی کے پاس کوئی ہتھیار نہیں ہوتا تھا لیکن ریاستی ٹیلی ویژن مسلسل ان کے بارے میں یہ جھوٹا
پروپیگنڈا کرتا رہتا تھا کہ یہ غیرملکی ہیں جو مظاہرے کررہے ہیں۔ تھوڑے عرصے کے بعد میرے لیے یہ مشکل ہوگیا کہ میں اپنی بیٹی کو
گھر میں بند کر کے مختلف مظاہروں میں شرکت کے لیے جاسکوں کیونکہ وہ مجھے باہر جانے سے روکتی تھی اور مسلسل رونا دھونا
مچائے رکھتی تھی۔ سیکورٹی سروسز کے اہلکار مجھے بہت اچھی طرح پہچانتے تھے کیونکہ میں ٹیلی ویژن کے مختلف پروگراموں
میںمیزبانی کرتی رہی تھی۔ تھوڑے ہی عرصے میں مجھے اندازہ ہوگیا کہ جب میں کسی مظاہرے میں کھلم کھال شریک ہوں گی تو
مجھے وہاں سے اٹھا کر براہ راست جیل بھیج دیا جائے گا۔ سچی بات یہ تھی کہ میں جیل جانے سے ہر ممکن طور پر بچنے کی کوشش
کرتی تھی۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ میں اپنی بیٹی کے کیریئر کو ہر حال میں بچانا چاہتی تھی۔ اس کے عالوہ میرے قید ہو جانے کا
ن سے ملنا جلنا چھوڑ دیا

اس تحریک آزادی کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ تاہم میں اپنے خاندان کے لوگوں سے بالکل کٹ چکی تھی۔ میں نے ُا

ن کو زیادہ نقصان پہنچنے کا سبب بنتی۔

ن سے مل کر ُا

تھا۔ میں جانتی تھی کہ ان پر میرے سلسلے میں کس قدر دباؤ ڈاال جارہا ہے اور میں ُا
لیکن میں نے اس فرقہ وارانہ بلیک میل کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے اور پوری مضبوطی سے ہر ظلم اور ہر دھمکی کا مقابلہ کرتی رہی۔
میرے سامنے دو ہی راستے تھے کہ میں تمام خطروں کے باوجود اپنا کام جاری رکھتی یا کسی نہ کسی طرح شام سے فرار ہو جاتی۔ میرے لیے
گھر سے بھاگ جانا کوئی نئی بات نہیں تھی۔ میرے شوہر نے مجھے جب طالق دی تھی تو ُاس وقت میری عمر صرف 16 سال تھی جبکہ
میری بیٹی دو سال کی تھی اور میں اپنے گاؤں سے فرار ہو کر دمشق چلی گئی تھی۔ میں کسی خاص سیاسی گروہ یا سیاسی جماعت کی
کبھی حمایت نہیں کرتی تھی۔ میں صرف اپنی آزادی پر یقین رکھتی تھی۔ میں پوری غیرجانبداری سے سوچتی اور لکھتی تھی لیکن اس
چھوٹی سی دنیا میں ایک عورت کے لیے زندہ رہنا بہت مشکل تھا جسے اپنے ساتھ اپنی بیٹی کی بھی حفاظت کرنی ہو۔ مجھے یہ دنیا اتنی
چھوٹی لگتی تھی کہ میں اس سے باہر ہاتھ نکال کر آسمان کو چھو سکتی تھی۔ درحقیقت میری جیسی عورت ہمیشہ زندگی کو مشکل بنا
دیتی ہے۔ میں نے چند دن پہلے سڑکوں پر نکلنے کا فیصلہ کیا۔ تاہم میری پوری کوشش رہی کہ میں مظاہروں کو دور سے دیکھوں۔ میں
خواتین کے مظاہرے میں شریک ہوئی جو الصالیحیہ ضلع کے وسط میں آرنس اسکوائر پر ہوا جس میں کوئی 500 عورتیں شریک تھیں۔
اس مظاہرے میں بشاراالسد کی حکومت سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ قتل و غارتگری بند کردے اور درعا کا محاصرہ ختم کردے۔ یہ بے حد
اہم مظاہرہ تھا کیونکہ اس مظاہرے کا اہتمام شامی عورتوں نے کیا تھا۔ مجھے اس مظاہرے میں الزمی طور پر شریک ہونا چاہیئے تھا۔
میری دوستوں میں سے ایک لڑکی نے مجھے اس مظاہرے میں تنہا جانے سے روک دیا۔ اگرچہ کہ وہ شامی حکومت کے خالف ان مظاہروں
میں غیرجانبدار تھی۔ لیکن صرف میری خاطر وہ اس مظاہرے تک آئی۔ ہم ڈھائی بجے دوپہر الصالیحیہ کے شاپنگ سینٹر میں پہنچے۔
مارکیٹ میں غیرمعمولی بھیڑ تھی اور زیادہ تر خریدار خواتین تھیں۔ ُاس وقت ملک میں اقتصادی حاالت بگڑنا شروع ہوچکے تھے۔ تاجر
ن کا کاروبار تباہ ہو جائے

اور دکاندار سیاسی ہنگاموں سے سخت پریشان تھے۔ ایک دکاندار نے مجھ سے کہا کہ اگر یہ حاالت جاری رہے تو ُا
گا اور وہ دیوالیہ ہو جائیں گے۔ میں اور میری دوست بازار میں گھوم رہے تھے یہاں دکانیں کھلیں ہوئیں تھیں لیکن ہماری کوشش تھی
نہیں اس مظاہرے کے بارے میں علم تھا یا ان مظاہروں کو
ُا
کہ کسی طرح ہمیں یہ پتہ چل سکے کہ سیکورٹی فورسز کس جگہ ہیں؟ کیا
پوشیدہ رکھا گیا تھا؟ حکومت کی جانب سے مظاہروں کے خالف سخت کارروائی کے واقعات کے بعد اب مظاہروں کے منتظمین یہ اعالن
نہیں کرتے تھے کہ وہ کہاں جمع ہورہے ہیں اور کس جگہ مظاہرہ کریں گے؟ جگہ کا فیصلہ آخری وقتوں میں کیا جاتا تھا تاکہ
سیکورٹی فورسز کو مظاہرین کو منتشر کرنے کا موقع نہ مل سکے۔ جب ہم بازار میں گھوم رہے تھے تو ہر ایک ُاس مظاہرے کے لیے الگ
الگ جگہوں کی نشاندہی کررہا تھا۔ اب تک یہاں کوئی پولیس یا فوج نظر نہیں آتی تھی۔ کافی دیر بازار میں گزارنے کے بعد ہمیں پتہ چال
ن کی حفاظت کے لیے بہت سے نوجوان

کہ یہ مظاہرہ آرنس اسکوائر پر تھا۔ خواتین کے بڑے بڑے گروپ اس اسکوائر کی جانب جارہے تھے۔ ُا
بھی وہاں منڈال رہے تھے۔ تھوڑی دیر کے بعد ہم مظاہرین کے درمیان پہنچ گئے۔ ُاس وقت تک یہاں بہت زیادہ خواتین جمع نہیں ہوسکی
تھیں اور ان کی تعداد بمشکل 60 ہوگی۔ تاہم خواتین کے جتھے مختلف گلیوں سے اس چوک کی جانب آرہے تھے۔ ان خواتین میں ہر عمر اور
ن کی زیادہ تعداد بے پردہ خواتین پر مشتمل تھی۔ آج سے دو دن پہلے یہاں برقع پوش خواتین کا بھی

ہر قسم کی عورتیں شامل تھیں اور ُا

ٹھائے ہوئے تھیں جن پر نعرے لکھے

ن سے مختلف تھا۔ اس مظاہرے میں شریک خواتین مختلف بینر ُا

ایک مظاہرہ ہوا تھا لیکن یہ مظاہرہ ُا
ہوئے تھے۔ قتل و غارتگری بند کرو، درعا کی ناکابندی ختم کرو، لوگوں کو زندہ رہنے دو، قتل مت کرو۔ خواتین کی یہ ریلی آگے کی جانب
بڑھ رہی تھی اور ٓاہستہ ٓاہستہ مظاہرہ کرنے والی عورتوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا تھا۔۔ کچھ دیر کے بعد میں نے محسوس کیا کہ
مظاہرین میں سنسنی اور افراتفری پھیل رہی ہے۔ میں خطرے کی بو سونگھ رہی تھی۔ میں مظاہرین کے درمیان تھی۔اچانک میں نے
کئی مظاہرین کے پیچھے ہوگئی اور مجھے احساس ہوا کہ

دیکھا کہ سادے لباس میں ایک شخص میری جانب اشارہ کررہا تھا۔ میں فورًا
مجھے پہچان لیا گیا ہے۔ میں نے تیزی سے پیچھے کی جانب بھاگنا شروع کیا۔ سیکورٹی فورسز کے سادہ لباس والے کارندے خواتین کو مارپیٹ
کر ایک جانب ہٹاتے ہوئے مجھ تک پہنچنے کی کوشش کررہے تھے۔ وہ مجھے پکڑنے کی کوشش کررہے تھے۔ میری نظروں کے سامنے انہوں

ُا ُا

نگلیاں توڑ دیں اور دوسری عورت کو گرفتار کرنے سے پہلے ُاس کے چہرے پر کئی تھپڑ مارے۔ مارپیٹ اور گرفتاری سے بچنے

نے ایک لڑکی ُا

دھر بھاگنے لگیں۔ سادہ لباس میں یہ لوگ ہم پر اس طرح حملے کررہے تھے جیسے ہم شامی نہیں بلکہ اسرائیلی ہیں

کے لیے عورتیں ِادھر ُا

ن کو اس مظاہرے کی خبر اتنی جلدی کیسے ہوگئی تھی؟ کیا شام کی

اور شامی فوجیں اپنے وطن کا دفاع کررہی ہیں۔ میں حیران تھی کہ ُا
آدھی آبادی سیکورٹی فورسز کا حصہ تھی۔ کیا شامی انٹلیجنس کے لوگ کتوں کی طرح ہر گلی میں سونگھتے پھرتے تھے۔ شام کے لوگ
خوب جانتے تھے کہ یہ کون لوگ تھے؟ سادے لباس میں جو لوگ گرفتاریاں کررہے تھے وہ کسی کو بھی قتل کرسکتے تھے یا اغوا کر کے
ٹھالیے جاتے اور پھر کبھی واپس نہ

ٹارچر کرسکتے تھے۔ اس کا نہ تو کوئی مقدمہ درج ہوتا نہ کسی پر فردجرم عائد ہوتی بس کچھ لوگ ُا
آتے۔ اس دوران بھاگتے بھاگتے اپنی ایک دوست لڑکی اور اس کے ایک ساتھی کو دیکھا جو خود بھی سادہ لباس والوں سے بچنے کے لیے ایک
جانب دوڑ رہے تھے۔ انہوں نے دور سے مجھے دیکھا اور بھاگتے ہوئے میرے قریب پہنچے۔ پھر انہوں نے مجھے بازوؤں سے پکڑا اور تیزی
نہوں نے مجھے ایک تاریک گلی

ٹھانے کے لیے بھاگ رہے تھے۔ ُا

سے گلی میں گھس گئے۔ انہیں معلوم تھا کہ یہ سادہ لباس والے مجھے ُا
میں چھوڑ دیا اور پھر یہ دیکھنے کے لیے واپس لوٹے کہ دیگر مظاہرین کے ساتھ کیا سلوک ہورہا ہے؟ میں نے خود کو مسجد الحمراء کے
سامنے پایا۔ وہاں کچھ اور لوگ بھی موجود تھے جو مجھ سے ملتجیانہ لہجے میں کہہ رہے تھے کہ میںجلد از جلد اس عالقے سے نکل جاؤں
نہیں گرفتار کررہی ہیں۔ میں نے

کیونکہ قریب کی گلیوں میں سیکورٹی فورسز موجود ہیں جو لوگوں کو زدوکوب کررہی ہیں اور ُا
یہاںایک ٹیکسی پکڑلی اور ڈرائیور سے کہا کہ آرنس اسکوائر کے قریب لے جائے۔ میں اپنی آنکھوں سے خود دیکھنا چاہتی تھی کہ دوسری
عورتوں کے ساتھ کیا سلوک ہورہا ہے؟ اس دوران سیکورٹی فورسز نے مظاہرے کو توڑ دیا تھا۔ مظاہرین مارکیٹ کیعالقے سے دور بھاگ گئے
تھے یا پھر گرفتار ہوگئے تھے۔ میں نے ٹیکسی ڈرائیور سے یہاں رکنے کو کہا اور اپنے مو بائل سے اپنی ایک دوست کو ٹیلی فون کیا کہ میں
اس حصے میں کھڑی ہوئی ٹیکسی میں بیٹھی ہوں اور اگر انہیں وہاں سے بھاگنے کی ضرورت پیش آئے تو وہ یہاں آجائیں۔ ُاس نے
مجھے بتایا کہ وہ ایک محفوظ جگہ پر ہے اور وہاں سے مظاہرین کو دیکھ سکتی ہے۔ میں نے فون بند کردیا تو میری نظر ُاس گوشے کی
جانب پڑی جہاں سیکورٹی فورسز موجود تھیں۔ ایک عورت گلی کا جانب بھاگ رہی تھی۔ اچانک اس گلی سے تین سادے لباس والے ایجنٹ
نمودار ہوئے۔ انہوں نے ایک نوجوان کو پکڑا ہوا تھا اور اسے بری طرح زدوکوب کررہے تھے۔ وہ اس کے چہرے پر مسلسل ضربیں لگا رہے
تھے۔ ُاس کے چہرے پر تھپڑوں کی بارش کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں تھا کہ ُاس کی جی بھر کر بے عزتی کی جائے کیونکہ ہر شحص
صرف اپنے چہرے ہی سے پہچانا جاتا ہے۔ چہرہ اس کی شناخت ہوتا ہے۔ چہرے پر مارنے کا مطلب ُاس کی شناخت کو مٹانے کے سوا کچھ
نہیں۔ وہ اسے اس کے بالوں سے پکڑ کر گھسیٹ رہے تھے وہ کبھی اسے ٹھوکریں مارتے اور کبھی گالیاں دیتے۔ کچھ فاصلے پر لوگ
سے بچانے کے لیے آگے آنے کی ہمت نہیں پاتے تھے۔ یہ سارا منظر

کھڑے ہو کر یہ سارا منظر دیکھ رہے تھے لیکن وہ خوفزدہ تھے اور ُا
میں نے جواب میں کہا کہ ’کیااس لڑکے کو مارنے لوگ سرکاری اہلکار ہیں؟‘ٹیکسی ڈرائیور بھی دیکھ رہا تھا۔ ُاس نے بڑبڑاتے ہوئے کہا
مجھے نہیں معلوم لیکن اگر وہ اس ٹیکسی کو تھوڑا سا قریب لے جائے تو شاید ہمیں اس سوال کا جواب مل جائے۔ لیکن ٹیکسی ڈرائیور نے
تھوڑے ’اگر تھوڑا قریب جاؤ گے تو میں تم کو ُدگنا کرایہ دونگی۔ ‘ٹیکسی کو آگے نہیں بڑھایا وہ خوفزدہ تھا۔ میں نے اس سے کہا کہ
فاصلے پر سیکورٹی فورسز کے اہلکار ایک سفید رنگ کی وین میں بیٹھے دکھائی دے رہے تھے۔ وہ اس نوجوان کو خاموشی سے پٹتے ہوئے
دیکھ رہے تھے۔ سادے لباس والوں نے نوجوان کو پیٹتے ہوئے وین میں ڈالنے کی کوشش کی لیکن وہ ناکام رہے۔ کیونکہ نوجوان کافی مضبوط
سے بری طرح پیٹتے رہے اور ُاس کا سروین کے کناروں سے ٹکراتے تھے۔ باآلخر وہ اس کو وین کے اندر دھکیلنے میں

جسم کا مالک تھا۔ وہ ُا
کامیاب ہوگئے۔ یہ دیکھ کر میرے حلق سے چیخ نکل گئی۔ ایک سیکورٹی اہلکار نے میری جانب دیکھا۔ میں نے ُاس سے نظریں ماللیں۔ مجھے
احساس ہوا کہ یہ ایک قاتل کی آنکھیں تھیں جن سے خون ٹپک رہا تھا۔ میں نے اس سے پہلے اس طرح کے لوگ دمشق میں کبھی نہیں
سے متوجہ پا کر دہشت کی ایک لہر میرے رگ و پے میں دوڑ گئی اور میں نے ڈرائیور سے کہا کہ

‘دیکھے تھے۔ اپنی جانب ُا

یہاں سے فورًا
ہماری ٹیکسی چلنا شروع ہوئی تو ُاس وقت بھی اس کی قاتل نظریں ہم پر جمی ہوئی تھیں۔ اگر مجھے چند لمحے دیر ہو جاتی تو ’نکل چلو۔
شاید وہ دوڑ کر اپنے دونوں ہاتھوں سے میری گردن دبوچ لیتا۔ تاہم ٹیکسی ڈرائیور نے بروقت گاڑی چالدی تھی اور ہم بچ کر نکل گئے تھے۔
دہشت سے میرا پورا جسم کانپ رہا تھا۔ کچھ یہی حال میری دوست لڑکی کا بھی تھا۔ ٹیکسی جب اس گلی سے باہر نکلی تو میں نے ڈرائیور
سے اپنے ایک دوست کے دفتر کا پتہ بتایا۔ میرا خیال تھا کہ ہم ُاس کے دفتر میں کچھ دیر چھپ کر رہ سکتے تھے اس درمیان میں حاالت
معمول پر آجاتے۔ اس چوک پر میں نے دیکھا تھا کہ پولیس اہلکار اور سیکورٹی والے عورتوں کو اس طرح زدوکوب کررہے تھے اور انہیں
ٹھوکروں کا نشانہ بنا رہے تھے جیسے وہ کوئی جانور ہوں۔ کچھ خواتین سیکورٹی فورسز کے جال سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئی تھیں
ن کو بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اس وقت دمشق میں ہر طرف مظاہرے ہورہے

لیکن کچھ کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔ گرفتاری سے پہلے ُا
تھے۔ ہر جگہ ملٹری چیک پوائنٹس بنے ہوئے تھے۔ جگہ جگہ ٹینک کھڑے کر کے رکاوٹیں بنائی گئی تھیں۔ ہر طرف سیکورٹی فورسز کے
ن میں اور ٹھگوں اور قاتلوں

اہلکار وردیوں میں اور بغیر وردی میں گھومتے پھرتے رہتے تھے۔ ان میں سے جو سادے لباس میں ہوتے تو ُا
میں کوئی فرق نہ ہوتا۔ لوگ گھروں تک محدود ہوگئے تھے۔ جو لوگ اشد ضرورت میں گھروں سے باہر نکلتے تو ان کا واسطہ ان ٹھگوں
سے پڑتا۔ ایسے حاالت میں جب میں گھر واپس پہنچی تو میری طبیعت پر سخت دکھ اور غم کا غلبہ تھا۔ جب بھی میں آنکھیں بند کرتی
مجھے وہ مناظر دکھائی دینے لگتے جن میں کمزور عورتوں پر مضبوط جسم والے اہلکار تشدد کرتے دکھائی دیتے۔ میں آج گرفتار ہونے سے
بال بال بچی تھی اور اب خود کو ذہنی طور پر کسی نئی جگہ منتقل کرنے کے لیے تیار کررہی تھی۔ کیونکہ مجھے خوف تھا کہ کہیں ایسا
نہ ہو کہ کسی نے ہماری ٹیکسی کا تعاقب کرلیا ہو اور انہیں میرے اس ٹھکانے کا پتہ مل جائے۔ اگال دن جمعہ کا تھا اور یہ جمعہ اس
احتجاجی تحریک کے لیے ایک سنگ میل ثابت ہوا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *