سوشل میڈیا اکاؤنٹس

محمود شام

محمود شام

پاکستان کے ممتاز صحافی، شاعر، ادیب اور تجزیہ کار جناب محمود شام 5 فروری 1940

شامی خاتون کی ڈائری (پانچویں قسط)

مجھے پہلی مرتبہ یہ اندازہ ہوا کہ دنیا وسیع نہیں بلکہ تنگ ہے۔ میں نے آج اپنا نیا سفر شروع کیا تاکہ ان خبروں کی تصدیق کرسکوں جو افواہوں کی طرح پھیل رہی تھیں۔ ایک نجی ٹیلیویژن کے اسکرین پر آج ان لوگوں کے چہرے دکھائے گئے جن کو البائدہ کے گاؤں میں اپنے گھروں سے نکال دیا گیا۔ یہ گاؤں ابھی تک فوج اور پولیس کے گھیرے میں تھا۔ جو لوگ مظاہرے کے لئے چوک پر جمع ہوئے ان کو سیکیورٹی فورسز نے پکڑ کر اوندھا زمین پر گرا دیا۔ ان کے ہاتھ پیچھے باندھ دئے گئے اور ان کے چہرے مٹی میں تھے۔ انہیں سر اٹھانے کی اجازت نہیں تھی۔ جو سر اٹھانے کی کوشش کرتا تھا اس کو فوجی بوٹوں سے مارا جاتا تھا۔ کچھ دیر کے بعد ان کو فوجی ٹرکوں میں لے جایا گیا جس کے بعد ان کو غائب کردیا گیا۔ سرکاری ٹیلیویژن نے ان کے بارے میں خبریں جاری کیں کہ وہ سب سازشی اور غدار تھے۔ کیونکہ ان کے قبضے سے ہتھیار نکلے تھے۔ لیکن جب ایک غیر جانبدار ذریعہ سے یہ وڈیو جاری ہوئی تو پتہ چلا کہ یہ عام دیہاتی تھے جو پرامن مظاہرے کررہے تھے۔ ان کے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھے۔ ایک میری دوست نے بتایا کہ جب بانیاس میں مظاہرہ شروع ہوا تو اچانک نہتے پرامن مظاہرین پر فائرنگ شروع ہوگئی۔ درجنوں لوگ ہلاک اور زخمی ہوئے۔ باقی مظاہرین کو سیکیورٹی فورسز نے گرفتار کرلیا۔
میں آج یہ دیکھنے کے لئے نکلی کہ بانیاس میں کیا ہورہا ہے؟ میں نے بہت سی سڑکوں سے بانیاس کی جانب جانے کی کوشش کی لیکن ہر راستہ بند ملا۔ فوجی ٹرکوں نے ٹریفک کا راستہ روک  رکھا تھا اور لوگوں سے واپس جانے کے لئے کہہ رہے تھے۔ میں نے ایک فوجی افسر سے دریافت کیا کہ حقیقت میں بانیاس میں کیا ہورہا ہے؟ وہ مجھے سخت پریشان اور مایوس نظر آتا تھا۔ اس نے مجھے کوئی تشفی بخش جواب نہیں دیا۔ تھوڑی دیر میں ایک اور شخص قریب آیا تو میں نے اس کو روکنے کی کوشش کی۔ وہ رک گیا۔ اس نے پولیس یونیفارم پہنا ہوا تھا۔ میرے استفسار پر اس نے بتایا کہ “یہاں کچھ مسلح گروپ سرگرم ہیں جو عام شہریوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ جب بھی کوئی مظاہرہ ہوتا ہے تو ان پر کچھ نشانچی فائر کرتے ہیں جو قریبی عمارتوں میں چھپ جاتے ہیں۔ یہ لوگوں کی دی ہوئی خبریں ہیں”۔ میں نے جواب میں کہا کہ “البائدہ کے لوگوں کے پاس ہتھیار نہیں ہیں۔ لیکن ان نہتے لوگوں کو ہلاک کیا جارہا ہے اور ان کے گھروں کو لوٹا جارہا ہے جبکہ فوج اور پولیس ان کی حفاظت کرنے سے قاصر نظر آتی ہے۔ یہ کیسا ظلم ہے کہ بعد میں فوج یا پولیس انہی لوگوں کو گرفتار کرکے سرکاری ٹی وی پر پیش کرتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ ان کے پاس سے ہتھیار ملے تھے”۔ پولیس افسر نے میری بات کا کوئی جواب نہیں دیا اور کندھے جھٹک کر آگے بڑھ گیا۔ مایوسی اس کے چہرے سے بھی عیاں تھی۔ کار اس کے ساتھ ہی آگے رینگ رہی تھی۔ اس نے کار کو اپنے قریب دیکھا تو رک گیا اور کار کا دروازہ کھولا اور مجھ سے بولا، “میڈم! خدا کے لئے آپ اس علاقے سے نکل جائیں۔ آپ یہاں محفوظ نہیں ہیں”۔ یہ کہہ کر وہ آگے بڑھ گیا۔ جو کچھ اس نے زبان سے نہیں کہا تھا وہ سب اس کے چہرے پر لکھا تھا۔ ایک اور شخص نے بتایا کہ اس پولیس افسر کا بھائی ایک بس میں سفر کررہا تھا جب اس بس پر فائرنگ کی گئی۔ جس کے نتیجہ میں اس سمیت بہت سے لوگ ہلاک ہوگئے۔ اس بس پر حملہ کرنے والے نامعلوم گروہ سے تعلق رکھتے تھے۔ میں نے اس سے کہا کہ “البائدہ کے لوگوں کے مطابق سیکیورٹی فورسز کے کچھ لوگ بھی قانون شکن گروہوں کی طرح حملے کررہے ہیں”۔ وہ اس بات پر چونک گیا اور بولا یہ کس نے کہا؟  میں نے جواب میں کہا کہ میں نے یہ بات کسی اخبار میں پڑھی تھی۔ وہ بولا، “سب لوگ جانتے ہیں کہ یہ قانون شکن گروہ کن لوگوں کا ہے لیکن کوئی اس کا نام نہیں لے سکتا، لوگ ان سے خوف زدہ ہیں کیونکہ وہ انتہائی ظالم لوگ ہیں”۔
میں نے کہا کہ “لوگ ان سے کیوں خوف زدہ ہیں”۔ اس نے کہا کہ “یہ گروہ سنیوں کے گھروں پر حملے کرکے انہیں لوٹ رہا ہے اورانہیں قتل کر رہا ہے۔ سیکیورٹی فورسز ان کو ہاتھ نہیں لگاتیں۔ پولیس افسر ان سے ڈرتے ہیں۔”
میں نے کہا کہ “پولیس ان سے کیوں ڈرتی ہیں؟” اس نے میری بات کا جواب نہیں دیا اور بات بدل دی۔ اس نے کہا کہ “اس کا گھر علویوں کی ایک بستی میں ہے۔ علویوں میں یہ افواہ پھیلائی جارہی ہے کہ سنی ان کے گھروں پر حملہ کریں گے اور انہیں لوٹ کر قتل کردیں گے۔ اس وجہ سے حالات کسی بھی دن قابو سے باہر ہوجائیں گے۔ کیونکہ کوئی نامعلوم قوت سنیوں اور علویوں کو باہم لڑانے کی پوری کوشش کررہی ہے”۔
میں کہا کہ “آپ درست کہہ رہے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ قوت اپنے مقصد میں کامیاب ہوتی نظر آتی ہے”۔  اس نے علویوں میں سے کچھ لوگوں کے نام لئے اور بتایا کہ انہوں نے ہتھیار اٹھا لئے ہیں اور دوسروں کو بھی اس کے لئے مجبور کر رہے ہیں۔ یہ لوگ صدر بشار الاسد کے کسی رشتہ دار کے لئے کام کرتے ہیں جو ایک اعلی عہدہ دار بھی ہے”۔
وہ جس بہادری اور جرات سے یہ سب انکشافات کررہا تھا اس کی وجہ جلدی میری سمجھ میں آگئی۔ وہ یہ ملک چھوڑنے کا فیصلہ کرچکا تھا اس نے اپنے بچوں کو پہلے ہی ملک سے باہر بھیج دیا تھا۔ اس نے کہا کہ “آپ کو لوگ زیادہ کھل کر سچ نہیں بتائیں گے کیونکہ وہ خوف زدہ ہیں”۔ اس نے اپنے بارے میں بتایا کہ “وہ عربی کا ٹیچر ہے اور بانیاس سے یونان جارہا ہے”۔
“انٹر نیٹ پر یہ سب کہانیاں موجود ہیں”۔ میں نے کہا۔ وہ ہنسا اور بولا، “کتنے لوگوں کے پاس انٹر نیٹ ہے”۔ اس نے اپنا رخ پھیر لیا اور مجمع میں غائب ہوگیا۔ میں نے ٹیکسی ڈرائیور سے کہا کہ “ہمیں کوئی راستہ تلاش کرنا پڑے گا جس سے ہم قصبے کے وسط میں ہونے والے مظاہرے تک پہنچ سکیں”۔ ڈرائیور نے کہا کہ “وہ زیادہ آگے نہیں جائے گا کیونکہ وہاں نشانچی ہوسکتے ہیں جو شہریوں کو گولی کا نشانہ بناتے ہیں”۔
کچھ آگے ایک اور پولیس افسر کھڑا تھا جو لوگوں کو تیزی سے گزرنے کا اشارہ دے رہا تھا۔ میں نے ٹیکسی اس کے قریب رکوائی اور اس سے کچھ پوچھنا چاہا۔ اس نے تیز آواز میں کہا کہ جلدی کرو۔ اس علاقے سے جلدی نکلو۔
“تم اتنے خوف زدہ کیوں ہو؟” میں نے کہا۔
“اس لئے کہ نامعلوم سمت سے آنے والی کوئی بھی گولی آپ کو لگ سکتی ہے۔ وہ لوگ صرف شہریوں کو نشانہ نہیں بناتے بلکہ فوج اور پولیس کے افسران کو بھی نشانہ بناتے ہیں”۔ اس نے کہا۔
یہ کون لوگ ہیں؟” میں نے دریافت کیا۔
وہ میرے اس سوال پر مزید ناراض ہوگیا اور بولا، ” مجھے نہیں معلوم”۔
“کیا ان نشانچیوں کا تعلق الشبیہہ سے نہیں ہے؟”۔ میں نے پوچھا۔
“کون الشبیھہہ؟” وہ بولا۔
“الشبیہہ کے بارے میں کون نہیں جانتا؟” میں نے کہا اور ڈرائیور کو آگے بڑھنے کا اشارہ کیا۔ ڈرائیور نے تیزی سے کار چلادی۔  تھوڑی دیر میں بانیاس پیچھے رہ گیا تھا اور ہم جبلہ کے قریب پہنچ رہے تھے۔ یہاں سے آگے ایک بین الاقوامی سڑک تھی جہاں سے بیرون ملک جانے والی گاڑیاں گزرتی تھیں۔ ہم پہاڑی راستوں سے سفر کرکے دوبارہ بانیاس کے قریب پہنچ رہے تھے۔یہاں بھی شہر میں داخل ہونے والا راستہ بند تھا اور پولیس تعینات تھی۔پولیس چیک پوائنٹ پر  پولیس افسر نے کہا کہ بین الاقوامی سڑک سے بانیاس جانا بے حد خطرناک ہے کیونکہ راستے میں مرقب کا قلعہ ہے جس پر نشانچی بیٹھے ہیں جو گزرنے والوں کو نشانہ بناتے ہین۔ لوگوں کی حفاظت کے لئے فوج بلائی گئی ہے۔
“یہ اچھی بات ہے کہ فوج شہریوں کی حفاظت کررہی ہے۔ لیکن فوج نے قلعہ ان نشانچیوں سے خالی کیوں نہیں کرایا”، میں نے سوال کیا۔ وہ میرے سوال سے پریشان ہوگیا اور غصے میں بولا،”آپ یہاں سے دمشق واپس چلی جائیٰں۔ ورنہ آپ کو ان پہاڑوں کے اوپر سے جانا پڑے گا”۔ میں نے پہاڑوں کے اوپر جانے والی سڑک پر سفر کرنے کا فیصلہ کیا۔ ٹیکسی روانہ ہوئی۔ پہاڑوں کے پچھلی طرف کا منظر انتہائی حسین تھا اور میری اس سفر کی ساری کلفت دورہوگئی۔  یہ ایک انتہائی حسین و جمیل سر سبز و شاداب وادی تھی۔ ڈھلانوں پر پھل دار درخت تھے اور خودرو جنگلی جھاڑیوں میں حسین و جمیل پھول کھلے ہوئے تھے۔ ٰیوں لگتا تھا جیسے سبز کمخواب میں سرخ موتی ٹنکے ہوئے ہیں۔دور تک یہی منظر تھا۔ یہاں شروع میں کچھ گاؤں عیسائیوں اور علویوں کے تھے اور اس کے بعد سنیوں کے گاؤں تھے۔ یہ سلسلہ سمندر تک چلا گیا تھا۔ جب ہم ظاہر صفرہ اور قرقاطوی سے گزرے تو ہمیں نیچے البائدہ نظر آیا۔ایک کمسن لڑکا ایک چٹان کے پیچھے سے نمودار ہوا اور اس نے ہم کو اس طرح روکا جیسے وہ پہرہ دے رہا ہو۔  اس کا چہرہ سرخ و سفید تھا اور ہونٹوں پر معصوم مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی۔ وہ کسی مصور کی بنائی ہوئی پینٹنگز کی طرح نظر آتا تھا۔ اس نے مجھ سے میرا شناختی کارڈ مانگا جو میں نے اس کو دیا۔اس نے ہم سے پوچھا کہ ہم کہاں جانا چاہتے ہیں۔ ہم نے اسے اپنی منزل کے بارے میں بتایا۔ اس نے کارڈ مجھے واپس کردیا اور ہمیں آگے جانے کا اشارہ دیا۔
“تم کس کے ساتھ ہو؟”۔ میں نے اس سے پوچھا۔
“میں آپ کے ساتھ ہوں”۔ اس نے سادگی سے کہا۔ کئی دن میں پہلی مرتبہ مجھے ہنسی آئی اور میں نے زور دار آواز کے ساتھ قہقہہ لگایا۔ ڈھلان اور تنگ سڑک کی وجہ سے ہمارا سفر بہت سست تھا۔ ہم ایک گاؤں میں داخل ہوئے۔ یہاں پرسرار قسم کی خاموشی تھی۔ چیک پوائنٹ یہاں بھی تھے لیکن ان پر صرف مقامی پولیس تھی۔ یہاں رہنے والے لوگ سادہ دل دیہاتی تھے۔ بظاہر سب ٹھیک لگتا تھا لیکن جب میں نے ایک دیہاتی سے پوچھا تو خوف کی لہر اس کے چہرے پر دوڑ گئی۔ اس نے بتایا کہ پہاڑوں کی بلندی سے ان پر فائرنگ ہوتی ہے۔یہ نامعلوم لوگوں کے مسلح گروہ ہیں۔
“شاید اسی وجہ سے فوج کو بلایا گیا ہے تاکہ وہ تم لوگوں کی حفاظت کرسکے”۔ میں نے کہا۔
“آپ سمجھ نہیں رہیں” دیہاتی نے کہا” وہ لوگ ہمیں قتل کرکے ہمارے گھروں کو لوٹنا چاہتے ہیں”۔
“کیا آپ لوگ اپنے گھروں کی خود حفاظت نہیں کرسکتے”۔ میں بولی۔
وہ چند لمحے خاموش رہا پھر بولا،”وہ ہماری لاشوں پر ہی گزر کر ہمارے گھروں تک پہنچ سکیں گے”، اس نے کہا۔
“میں نے سنا ہے کہ یہ شبیہہ کے جنگ جو ہیں جو لوگوں کو قتل کررہے ہیں”۔ میں نے کہا۔
وہ تھوڑا سا رکا پھر بولا ،”وہ کوئی بھی ہوں ہم اپنی حفاظت کریں گے، اب ہمارے گھروں میں عورتوں کے سوا کوئی نہیں”۔
چیک پوائنٹس پر سیکیورٹی فورسز اور پولیس کے علاوہ مقامی امن رضاکار بھی پہرہ دے رہے تھے، ہم ایک چیک پوائنٹ پر کھڑے تھے کہ پیچھے سے ایک کار آئی۔ میں نے دیکھا کہ اس کار میں مسلح نوجوان بیٹھے تھے۔ میں اس وقت پولیس افسر سے پوچھ رہی تھی کہ ہم لوگوں کو اس قدر تلاشی کا سامنا کیوں کرنا پڑ رہا ہے۔ پولیس افسر نے میرے پیچھے والی کار کو دیکھا اور مجھے اپنی ٹیکسی کنارے کرنے کا اشارہ دیا۔ اس کے بعد میرے پیچھے والی کار کو رکنے کا اشارہ دیا۔ اگر میری ٹیکسی آگے نہ ہوتی تو شاید وہ بغیر رکے نکل جاتے، لیکن راستہ نہ ہونے کی وجہ سے انہیں رکنا پڑا۔ پولیس افسر نے ان سے کاغذات کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے ایک کاغذ دکھایا جو یقینی طور پر ایک سرکاری اجازت نامہ تھا۔ پولیس افسر نے ان کی کار کی تلاشی نہیں لی اور انہیں جانے کا اشارہ دیا۔ وہ تیزی سے آگے نکل گئے۔ ان کے چہرے قاتلوں والے اور سپاٹ تھے۔ میں ایسے چہرے دمشق اور کئی دوسری جگہوں پر دیکھ چکی تھی۔ ان کی آنکھوں میں مروت، رحم، احسان نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ جب پولیس افسر نے انہیں جانے کی اجازت دی تو میں حیران رہ گئی۔ میری چھٹی حس کہہ رہی تھی کہ یہ چاروں قاتل ہیں اور الشبیہہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ میں نے پولیس افسر سے پوچھا کہ “تم نے ان لوگوں کو جانے کی اجازت کیوں دی؟ ان کے پاس ہتھیار تھے اور وہ شکل ہی سے مجرم لگ رہے تھے”۔ پولیس افسر نے سکون کے ساتھ میرا سوال سنا لیکن کوئی جواب نہیں دیا۔
“تم نے میرے لیپ ٹاپ کی تلاشی بھی لی جیسے میں نے اس میں کوئی مشین گن چھپا رکھی ہے، لیکن تم نے انہیں بغیر تلاشی کے جانے دیا”۔میں نے چلا کر کہا۔
“ان کے پاس وزارت داخلہ کا اجازت نامہ تھا، وہ کسی سیکیورٹی اسائنمنٹ پر تھے”، پولیس افسر پرسکون لہجے میں بولا” میڈم! اب آپ یہاںفوراً چلی جائیں”۔
مجھے اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا۔  میںنے ایک مرتبہ پھر چلا کر کہا،”وہ لوگ مجرم تھے، ان کے ہاتھوں میں ہتھیار تھے”۔
پولیس افسر نے میری بات کا کوئی جواب نہیں دیا اور میری طرف سے پیٹھ کرلی۔ اس کے نائب پولیس کانسٹبل اس صورت حال پر بہت پریشان نظر آرہے تھے۔ ان میں سے ایک میرے قریب آیا اور بولا ،”بہن ! پرسکون ہوجائیں۔ ہم اس قسم کے معاملات میں کچھ بھی نہیں کر سکتے۔
البائدہ پہنچ کر صورت حال واضح ہوگئی۔یہ چیز اب تاریخ کا حصہ بن چکی ہے کہ کس طرح لوگوں کو جانوروں کی طرح گاڑیوں میں بھر کر لے جایا گیا۔جب عورتیں باہر آئیں تو ان کے ساتھ بدسلوکی کی انتہا کردی گئی۔ چھوٹے بچوں کو بھی نہیں بخشا گیا۔بائیدہ کی گلیاں اور سڑکیں معصوم شہریوں کے خون سے سرخ کردی گئیں۔ شہیدوں کی لاشیں کئی دن سڑکوں پر پڑی رہیں لیکن انہیں دفنانے والا کوئی نہیں تھا۔
علویوں کی آبادیوں میں افواہوں کا بازار گرم تھا لیکن اس کی تصدیق کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا ۔ لیکن انہیں سرکاری پروپیگنڈے کے ذریعہ اس قدر خوفزدہ کیا گیا کہ وہ سنیوں کو اپنا دشمن تصور کرنے لگے۔باقاعدہ منصوبہ بندی کے ذریعہ علویوں اور سنیوں کے درمیان فسادات پھیلانے کی سازش کی گئی جس میں حکمراں ملوث تھے۔جب سنیوں کی بستیاں جلائی گئیں تو ان کی جانب سے جوابی حملے کئے گئے اور اس طرح فساد پھیلانے کی حکومت کی منصوبہ بندی کامیاب رہی۔ بہت کم علوی اس فساد سے الگ رہے۔ جب اسلام پسند سنی آبادیوں کی حفاظت اور مدد کے لئے نمودار ہوئے تو انہوں نے نہتے علویوں پر حملے نہیں کئے۔ انہوں نے عام شہریوں کو محض اس بنا پر تشدد کا نشانہ نہیں بنایا کہ وہ علوی ہیں۔
آج جمعہ ہے اور مجھے پتہ چلا ہے کہ لطاکیہ میں15 مظاہرین شہید ہوئے۔ سیکیورٹی فورسز نے مظاہرین کو عباسین اسکوائر تک پہنچنے سے روکنے کے لئے فائرنگ کی۔الراستن میں مظاہرین نے حافظ الاسد کا مجمسہ گرادیا۔ملیشیانے مظاہرین میں گھنسنے کی مکوشش کی اور سادے لباس میں مسلح افراد کو بھیجا لیکن اب مظاہرین پہلے سے زیادہ ہوشیار ہوگئے تھے اور انہوں نے ان سادے لباس والے اہلکاروں سے ان کے ہتھیار چھین لئے۔الزمیرمیں سیکیورٹی فورسز نے پوری شہری آبادی کو یرغمال بنا رکھا تھا۔دوما ابھی تک محاصرے میں تھا۔ بانیاس خالی ہوچکا تھا۔الشبیھہ اور سیکیورٹی فورسز نے مل کر دوکانوں میں لوٹ مار کی۔سٹی ہال اور پوسٹ آفس کو آگ لگادی گئی۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ بعض علاقوں میں اب پولیس اور سیکیورٹی فورسز پر بھی فائرنگ شروع ہوگئی تھی۔لیکن اس کا نشانہ وہ پولیس افسر بن رہے تھے جو مظاہرین پر گولی چلانے کے احکامات نہیں مانتے تھے۔ ان پولیس افسروں میں علوی بھی تھے اور سنی بھی۔ خفیہ ہاتھ اپنا کررہا تھا اور اس کی کوشش تھی کہ سنیوں اور علویوں کے درمیان بڑے پیمانے پر فسادات ہوں تاکہ بشار الاسد کو اقتدار کی جنگ میں علویوں کی مکمل حمایت حاصل ہوسکے۔(جاری ہے)
29 اپریل 2011:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *