سوشل میڈیا اکاؤنٹس

محمود شام

محمود شام

پاکستان کے ممتاز صحافی، شاعر، ادیب اور تجزیہ کار جناب محمود شام 5 فروری 1940

شامی خاتون کی ڈائری (پہلی قسط)

پیش لفظ

کبھی کبھی حقیقت ایک تخیالتی کہانی کے مقابلے میں زیادہ دلچسپ ہوتی ہے۔ ایک ذہین فلم ساز ایک اچھے کیمرا مین کی مدد سے ایک واقعہ کو غیر معمولی فلم میں تبدیل کردیتا ہے جو بہت سی فلموں سے زیادہ اثر انگیز ہوتی ہے۔ ایک غیر افسانوی بیانیہ اگرچہ شاعرانہ ہوتا ہے۔ لیکن حقیقت بیان کرنا زیادہ مشکل ہوتا ہے کیونکہ مصنف کا واحد سہارا اس کے الفاظ ہوتے ہیں۔ بہت کم قلم کاروں میں یہ وصف پایا جاتا ہے اور سمر یزبک ان میں سے ایک ہیں۔ اس شامی مصنفہ اور دستاویزی فلم ساز نے ایک سو دن تک مسلسل اپنے وطن میں گزرنے والے اس خونی انقلاب کی دستاویز بندی کی۔ وہ خود اس بھیانک تجربے سے گزری۔جب بھی اسے موقع مال اس نے ان گھنٹوں اور دنوں کا بیان اپنی طاقت ور زبان میں قلم بند کیا اور اپنے جذبات اس تحریر میں سمودئے۔ اس نے معصوم لوگوں کو اپنے اردگرد قتل ہوتے، شدید زخمی ہوکر سسکتے اور مرتے دیکھا ۔ حاالنکہ وہ خوف کا شکار تھی کہ وہ خود اور اس کی پیاری بیٹی کی زندگی خطرے میں ہے اور وہ اگلے دن کا سورج دیکھ بھی سکے گی یا نہیں۔اسے بار بار شامی سیکیورٹی فورسز کی جانب سے تفتیش اور پوچھ گچھ سے واسطہ پڑا۔ اس نے یہ سب شاعرانہ انداز میں لکھا دیا۔ اس شاعرانہ تحریر میں قارئین سمر یزبک کے ساتھ چلنے والی انتفادہ کے سچے تجربے سے گزارے اور انہوں نے اس تحریر کو اسی طرح محسوس کیا جس طرح یہ واقعات اپنی دہشت ناکی کے ساتھ رونما ہوئے۔

سمر یزبک اس انقلاب کی عینی شاہد ہے۔ اس نے اپنی زندگی کو دأو پر لگاتے ہوئے زخمی مظاہرین کی مرہم پٹی اور تیمار داری کی اور ان بچوں کی دیکھ بھال کی جن کے والدین کو سیکیورٹی اہلکار اٹھا کر لے گئے تھے۔ سب سے زیادہ حیرت انگیز اس کا خود اپنے قبیلے یعنی علویوں کے ساتھ طرز عمل تھا جس کا مظاہرہ انتہائی جرات کے ساتھ اس نے کیا۔ علوی اقلیت شام کی حکمراں تھی۔ اس نے علویوں کے خالف ٓاواز بلند کرکے اپنی زندگی خطرے میں ڈالی۔اپنے خاندانی گأوں میں اسے علویوں نے سازشی کا لقب دیا اور حکمرانوں کی تنظیم شبیہہ کے ٹھگ علوی ہر وقت اسے نقصان پہنچانے کی کوششوں میں مصروف رہتے تھے۔ علوی ملیشیا الشبیھہ کے ہرکارے پیشہ ور قاتل، مجرم
اور کرائے کے فوجی تھے جو معمولی معاوضہ پر حکمرانوں کے لئے ہر برا کام کرنے کو تیا ررہتے تھے۔وہ بچے بوڑھے اور عورت ہر ایک کو ذرہ برابر رحم کھائے بغیر قتل کردیتے تھے۔سمر کو یوں لگتا تھا کہ جیسے اپنے گأوں کی گلیوں میں اور سڑکوں پر اٹھنے واال اس کا ہر قدم ٓاخری ہے۔ٓاخر اس غیر معمولی عورت نے ایک کھاتے پیتے متمول علوی خاندان کی ٓاسائشوں کو چھوڑ دینے کا حوصلہ کیسے پیدا ہوا؟

یہ سب اس ڈائری میں بیان کیا گیا ہے۔ اس نے شام کے مظلوموں کے حق میں ٓاواز اٹھائی جو زیادہ تر غیر علوی تھے۔
سمر یزبک 1970 میں جبلہ کے ممتاز علوی خاندان میں پیدا ہوئی۔یہی وہ سال تھا جب بشار االسد کے باپ حافظ االسد نے حکومت کا تختہ الٹ کر ایک بدترین ٓامریت قائم کی جس کی بنیاد اپنے قبیلے اور فرقے پر تھی۔ شام جو کبھی ایک متحرک اور زندہ ملک تھا اسد خاندان کے باڑے میں تبدیل ہوگیا۔ سمر یزبک نے شروع میں مختصر کہانیاںاور ٹی وی ڈرامے تحریر کئے جن میں سے کچھ سرکاری ٹی وی پر نشر ہوئے۔ اس نے دستاویزی فلمیں بنائیں ۔ اس نے اپنے ناولوں کی وجہ سے شہرت حاصل کی جن میں وہ ان حدود سے تجاوز کرگئی جو حکمرانوں نے مقرر کی تھیں اورعلویوں کی منافقت، اور کرپشن کا پردہ چاک کیا۔اس کے ناولوں پر سرکاری دانش وروں نے سخت تنقید کی لیکن خود اس کا تعلق بھی علویوں سے تھا س لئے اسے کوئی سخت سزا نہ مل سکی۔سمر یزبیک نے خواتین کے حقوق کے لئے بھی ٓاواز اٹھائی۔ 15 مارچ 2011 کو شامی انقالب کا ٓاغاز ہوا لیکن اس سے بہت پہلے وہ علویوں کی ٓامریت کے خالف بغاوت کرچکی تھی۔کمزوروں اور مظلوموں کے ساتھ ا س کی ہمدردی اور یک جہتی بشاراالسد کے ساتھ براہ راست تصادم کا سبب بنی۔جوں ہی انقالب کا ٓاغاز ہوا وہ اس کا حصہ بن گئی اور احتجاجی تحریک میں شامل ہوگئی۔
علوی صدر حافظ االسد ہو یا بیٹابشار االسد ان کا مذہب سے تعلق ان کی منافقت کا شاہکار تھا۔ وہ جب دمشق کی جامع مسجد میں سنی مفتی کی اقتدا میں نماز پڑھتے تو یہ منافقت اپنی انتہا پر ہوتی۔کیونکہ مذہبی طور پر علوی سنیوں خاص کر امویوں کو اپنا بدترین دشمن تصور کرتے تھے اور شام کے سنی مفتی اموی تھے۔جب کوئی سنی علویوں کی مخالفت کرتا تو اسے گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا جاتا اور اگر وہ علوی ہوتا تو اسے شروع میں چپکے چپکے دھمکیاں دے کرباز رکھنے کی کوشش کی جاتی۔ یہی سب سمر یازبک کے ساتھ ہوا۔ اسے تمام مراعات سے محروم کردیا گیا اور اس پر سازشی اور غدار کا لیبل چسپاں کردیا گیا۔ سمر یازبیک کی پوزیشن کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ اسد ٓامریت کا جائزہ لیا جائے۔اسد نے دو کروڑ شامیوں کو قید خانوں میں ڈال رکھا تھا اور بشار االسد خود اس نظام کا قیدی تھا۔وہ جب بھی اصالحات کی بات کرتا تو جھوٹ بولتا کیونکہ وہ کچھ نہیں کرسکتا تھا۔ شاہراہوں اور گلیوں میں انصاف النے کے لئے ضروری تھا کہ وہ ان 15 جاسوسی اداروں کو ختم کرتا ، ایک الکھ سیاسی قیدیوں کا رہا کرتا اور 4,000 معصوم لوگوں کے قاتلوں کو سزا دیتا۔ اس کے بغیر تنخواہوں میں اضافہ یا صحت کی سہولتوں کی فراہمی بیکار تھی۔

وہ گیارہ سال سے مسلسل اصالحات کا نعرہ لگاتا رہا لیکن اس کے والد نے نا انصافی پر مبنی جو نظام بنایا تھا اسے درست کرنا ناممکن تھا۔ عرب ٓامروں کو یہ خیال رہتا ہے کہ وہ پیدائشی ہیرو ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ وہ ہمیشہ حکومت کرنے کے لئے پیدا ہوئے ہیں۔ اور اگر وہ مریں گے تو ایک شہید کی موت مریں گے خواہ انہیں بستر پر موت ٓائے یا اقتدار اور دولت کے حصول کی جنگ میں مارے جائیں ۔شہادت کا سرٹیفکیٹ تو ان کے لئے پکا ہے ہی۔حافظ االسد ، صدام حسین، قذافی اور علی صالح ان سب نے غربت میں ٓانکھ کھولی لیکن ان پر قسمت کی دیوی مہربان ہوگئی اور انہیں اقتدار مل گیا۔اقتدار میں ٓانے کے لئے انہوں نے شیطان کے ساتھ معاہدہ کیا۔انہوں نے مملکت کو تباہ کرکے مافیا کی قسم کے ادارے کی بنیاد رکھی جس کی مدد سے وہ حکومت کرتے رہے۔ایوان اقتدار کے تمام عہدے ان کے بھائیوں، بیٹوں اور دیگر عزیزوں میں تقسیم تھے۔ جب عزیزوں کو عہدے مل گئے تو دیگر اقربا کی باری ٓائی اور انہیں بھی نوازا گیا۔ اس طرح اقتدار کا اہرام تعمیر ہوا۔جو حکومت جتنا زیادہ عرصہ اقتدار میں رہی اتنا ہی زیادہ عوام پر ظلم کرنے میں کامیاب رہی۔حافظ االسد کا اقتدار 40 سال تک قائم رہا۔ بشار االسد کا باپ زیادہ ذہین تھا اور جانتا تھا کہ علوی اقلیت تن تنہا حکومت نہیں کرسکتی۔ ا س لئے اس نے کچھ سنی لیڈروں کو بھی مال بنانے کے مواقع دئے لیکن سیاسی اقتدار میں حصہ نہیں دیا۔ اس لئے اسالم پسندوں کی جنگ صرف علویوں سے نہیں تھی۔ یہ نظام ایسا تھا جس میں مراعات یافتہ سنی یا عیسائی جنرل ہمیشہ ایک علوی کارپورل کے تحت کام کرتے تھے۔یہ فوج کا قاعدہ نہیں تھا لیکن مافیا کا طرز یہی تھا۔ اس نظام میں ٓاگے بڑھنے کی شرط وفاداری تھی۔اس لئے اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں تھی کہ صرف “یس مین” ہی ترقی کرسکتے تھے۔کیونکہ صدر صرف ایسے لوگ چاہتا تھا جو اس کی پالیسیوں کی تائید کریں۔صدر کی تصویریں بڑی سے بڑی ہوتی جارہی تھیں۔ دریائے فرات پر ٓابی ذخیرہ اور قومی الئبریری کو صدر کے نام سے منسوب کردیا گیا تھا۔کتابوں میں اسے ایک ہیروکے طور پر پیش کیا جارہا تھا۔اس کی تعریف میں شاعر نظمیں لکھ رہے تھے۔میڈیا اس کے سامنے حالت رکوع میں تھا اور اسے ایک عظیم قومی شخصیت بناکر پیش کررہا تھا۔قذافی، صدام، اور اسد کو کس طرح اپنی ذہانت کے بارے میں کوئی شبہ ہوسکتا تھا۔تمام عرب ڈکٹیٹروں کے درمیان ایک قدر مشرک تھی۔الجزائر کے بن علی سے لے اسد تک ہر ڈکٹیٹر اپنے اہرام میں بلند ترین مقام پر تھا اور عوام کے جذبات سے قطعی ناواقف تھا۔ وہ کبھی تصور بھی نہیں کرسکتے تھے کہ یہ کیڑے موڑے اور چوہے)یعنی عوام( کبھی ان کے خالف اٹھ

کھڑے ہوں گے۔بشار االسد کو یہ تصور ہی نہیں تھا کہ کوئی انقالب پرامن بھی ہوسکتا ہے۔ اس لئے ان مظاہروں کے لئے وہ مغرب کو ذمہ دارتصور کرتا تھا۔اس طرح اس نے اپنے استعماری ذہن کی جھلکیاں دکھائیں۔ مجھے 15 مارچ 2011 تک یہ اندازہ نہیں تھا کہ عوام کے اندر اس ظالمانہ اقتدار کے خالف کیا کھچڑی پک رہی ہے۔کوئی تصور نہیں تھا کہ کچھ ہونے واال ہے۔تمام سیکریٹ سروسز ، سرکاری ادارے، اپوزیشن، اور جالوطن شامی لیڈر سب بے خبر تھے۔ اگر کوئی دعوی کرتا تھا تو وہ جھوٹ بولتا تھا۔انقالب کا ٓاغاز جنوب کے ایک دھول ٓالود غریب قصبے درعا سے ہوا۔قصبے کے معصوم نوجوانوں نے دیواروں پر یہ نعرہ لکھ دیا،” ڈأون ودھ کرپشن” ۔درعا کی میونسپل سیکرٹ سروس کے سربراہ عاطف نجیب نے جو صدر اسد کا عزیز تھا ان نوجوانوں کو گرفتار کرلیا اور بدترین ٹارچر کا نشانہ بنایا۔ جب بچوں کے والدین نے اپنے بچوں کے بارے میں دریافت کیا تو انہیں بھی گرفتار کرلیا گیا۔ان کو بھی ٹارچر کیا گیا۔یہ واقعہ اونٹ کی پیٹھ پر تنکا ثابت ہوا۔ اس واقعہ کے خالف قصبے میں مظاہرے ہوئے۔ یہ مظاہرے اسد کے خالف نہیں تھے بلکہ مظاہرین ایک سرکاری افسر کی زیادتیوں کےؒ خالف احتجاج کررہے تھے۔ لیکن سیکرٹ سروس نے پرامن مظاہرین پر فائر کھول دیا۔ اس کے بعد حاالت مزید خراب ہوئے اور صدر نے قصبے میں فوجی دستے بھیج دئے۔جنہوں نے پرامن مظاہرین کو گولیوں کا نشانہ بنانا شروع کیا۔ لیکن اس سے مظاہرے بند نہیں ہوئے۔ اب مظاہرے روز کا معمول ہوگئے۔ یہاں سے تحریک دوسرے قصبوں کی جانب پھیلنے لگی۔ان قصبوں میں لوگ روزانہ مظاہرے کرتے اور درعا کے قصبے کے شہریوں کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کرتے۔دیکھتے ہی دیکھتے یہ مزاحمت کھلی بغاوت کی شکل اختیار کرگئی۔ سمر یازبیک ان واقعات کو قریب سے دیکھ رہی تھی اور ان مظاہروں میں شریک تھی۔اسد کی سیکرٹ سروسز پہلے ہی اس کے پیچھے تھیں اس لئے وہ زیر زمین جانے پر مجبور ہوگئی۔ وہ چھپ کر کارکنوں سے ملتی، ان کی کہانیاں سنتی جو ظلم و ستم کی داستانوں سے بھری ہوتی تھیں۔ اس نے ان کہانیوں کو عربی زبان میں تحریر کرنا شروع کیا جو بعد میں “ویمن ان کراس فائر” کا حصہ بنیں۔ دوسرے کارکنوں کی طرح سمر بھی گرفتار ہوئی، اسے ٹارچر کیا گیا اور اس پر بدترین ظلم اور تشدد کیا گیا۔ اس کے خالف ہینڈ بلز نکالے گئے۔ سمر بہت جلد میڈیا کی توجہ کا مرکز بن گئی اور عالمی سطح پر اس کا نام لیا جانے لگا۔ سرکاری میڈیا سے اس کے کردار پر کیچڑ اچھالی جانے لگی۔ جب سمر نے محسوس کیا کہ اس کی اور اس کی بیٹی کی جان خطرے میں ہے تو اس نے ملک چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ اس کی سب سے قیمتی چیز ڈائری تھی جو اس کتاب کی شکل میں شائع ہوئی اور جس میں انقالب کی جدو جہد کو بیان کیا گیا تھا۔ سمر نے انقالب کی ایک ایک تفصیل بیان کی کہ کس طرح شامی سیکرٹ سروس ان لوگوں کو تالش کرتی رہتی ہے جو مزاحمت کے اصل ہیرو ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *