درعا کے محصور شہر پر اولے بھی اس طرح گر رہے تھے جس طرح گولیوں کی بارش ہورہی تھی۔ سیاہ گھٹا کے نیچے ژالہ باری کے
ساتھ شہر پر انسانوں کے ہاتھوں الئی ہوئی تباہی اور بربادی تھی۔ میدانوں اور گلیوں میں بکھرے ہوئے زخمی آہستہ آہستہ موت کا شکار
ہورہے تھے۔ نوجوانوں کی مائیں بے بسی سے انہیں مرتے ہوئے دیکھ رہی تھیں۔ جن کی جان لبوں پر تھی ان کی آنکھیں بند ہونے سے پہلے
مائیں ان کے گلے میں پانی کے قطرے ٹپکا رہی تھیں۔ لوگ مکانوں کی کھڑکیوں سے باہر جھانک کر چوک کے اردگرد پھیلی ہوئی لاشوں
کو دیکھ رہے تھے۔ بجلی بند تھی اور سڑکوں اور گھروں میں روشنی نہیں تھی ۔ تاریکی میں مردوں کے جسموں کو تیز بارش اس
طرح گر رہی تھی جیسے قدرت نے خود انہیں غسل دینے کا انتظام کیا ہو۔ شہیدوں کے جسموں سے بو پھوٹ رہی تھی۔ لوگ حسرت بھری
نظروں سے اپنے پیاروں کے ان لاشوں کو تک رہے تھے جو کبھی زندگی کی خوشگوار حدت سے معمور تھیں لیکن اب مٹی اور خون میں
لتھڑی ہوئی تھیں۔ میرے گھر کی کھڑکی سے باہر اولوں کا طوفان آیا ہوا تھا اور یہ رونق واال شہر آہستہ آہستہ موت کا شکار ہورہا تھا
اور مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے میرا دل گوشت کا لوتھڑا نہیں دھات کا کوئی ٹکڑا ہے جو دھرکنا بھول گیا ہے۔ مائیں اپنے چھوٹے بچوں
کو تھپک کر سلانے کی کوشش کررہی تھیں لیکن ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور ان کے جسم درد بھرے جذبات سے لرز رہے
تھے۔
میں اس وقت اپنے گھر میں نہیں تھی۔ دمشق سے تھوڑے فاصلے پر یہ جگہ بذریعہ کار ایک گھنٹے کی مسافت پر تھی۔ ہم نے اخبارات
میں اس علاقے میں ہونے والی قتل و غارت گری کے بارے میں دل دہلا دینے والی کہانیاں پڑھیں۔ پورے پورے خاندانوں کو ٹینکوں، فوجیوں
اور نشانچیوں نے گھیر لیا تھا۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے شامی فوج اسرائیلی فوج کے خالف کوئی ٓاپریشن کررہی ہو لیکن اس کا نشانہ خود
اپنے شہری تھے۔ عورتیں خوف سے لرزتے ہوئے اپنے گھروں میں چھپی بیٹھی تھیں اور فائرنگ کی آوازوں میں کوئی وقفہ نہیں تھا۔
جو بھی اپنے گھروں سے قدم باہر نکالنے کی ہمت کرتا شہادت اس کا مقدر ہو جاتی۔ انتہا یہ ہے کہ کوئی شخص گلیوں اور میدانوں می
پھیلی ہوئی الشوں کو دفنانے کے لیے بھی گھر سے باہر نہیں نکل سکتا تھا۔ یہ الشیں درعا شہر میں العمری مسجد کے باہر پھیلی ہوئی
تھیں۔ جب لوگوں نے حکام سے مطالبہ کیا کہ مرنے والوں کو دفنانے کی اجازت دی جائے تو اس وقت بہت سے زخمی گھروں کے اندر چھپے
بیٹھے تھے اور کچھ ابھی تک کسی طبی امداد کے بغیر گلیوں میں پڑے ہوئے تھے۔ میرے علم میں آیا کہ شامی فوج نے بہت سے اسپتالوں
اور دواخانوں پر بھی بمباری کی اور انہیں تباہ کردیا تاکہ لوگوں کو طبی امداد نہ مل سکے۔ وہ اسپتالوں کو کیوں آگ لگا رہے تھے اس
کی وجہ سمجھ میں آنے والی نہیں تھی؟ ظاہر سی بات تھی کہ لوگ اپنے زخمیوں کو عالج کے لیے وہیں لے جاتے۔ اس شہر کے بہت سے
رہنے والے یہ بدترین حاالت پیدا ہونے سے پہلے سرحدیں عبور کر کے لبنان یا اردن چلے گئے تھے۔ کیا ایسے حاالت میں تصور کیا جاسکتا تھا
کہ لوگ جمعہ کو بھی مظاہرہ کرنے باہر نکلیں گے جو تمام شامی شہروں میں ہوا کرتے تھے۔ کیا کوئی اپنے گھروں سے باہر نکلنے کی
ہمت کرے گا کیونکہ ہر گلی میں مکانوں کی چھتوں پر فوج یا شبیہہ ملیشیا کے نشانچی چھپے بیٹھے تھے جو بندوقوں اور مشین گنوں سے
مسلح تھے۔ گلیوں کے سروں پر ٹینک کھڑے تھے جن کی توپوں کا رخ گھروں کی جانب تھا۔
گزشتہ جمعہ کو میں دمشق گئی جو بھوتوں کا شہر دکھائی دیتا تھا۔ یہ وہ خوبصورت، حسین اور جمیل دمشق نہیں تھا۔ اگرچہ تمام
شامی شہروں میں لوگوں سے اپیل کی جارہی تھی کہ وہ گھروں سے باہر آئیں لیکن ہر چھوٹے بڑے شہر کے چوک پر سیکورٹی فورسز
کھڑی ہوئی تھیں۔ ان فوجیوں کی تعداد ہزاروں تھی۔ میں اپنی ایک سہیلی کے ساتھ جوبار جانے والی سڑک پر آئی اور اباسین اسکوائر
کی جانب جانے کی کوشش کرنے لگی۔وہ کار ڈرائیو کررہی تھی۔ یہاں دہشت ناک خاموشی تھی۔ کوئی شخص سڑکوں پر نہیں تھا۔ جب ہم
چوک پر پہنچے تو ہم نے بڑی تعداد میں فوجیوں کو وہاں پھیلتے ہوئے دیکھا۔ ابھی مظاہرہ شروع ہونے کا وقت نہیں آیا تھا۔ میری سہیلی
ڈرائیونگ کر رہی تھی اور ہم دمشق کی سڑکوں پر زندگی کی عالمات ڈھونڈ رہے تھے۔ مجھے ایسا لگتا تھا کہ جیسے میری آنکھیں
مجھے دھوکا دے رہی ہیں۔ اس خالی شہر میں سوائے موت کی چیخوں کے اور کچھ نہیں تھا اورہر چوک پر قاتل آنکھیں جمع ہورہی
تھیں۔ یہ فوجی سرکاری بسوں سے اتر رہے تھے ان کے ہاتھوں میں بندوقیں، زنجیریں اور دوسرے ہتھیار تھے۔ میں نے اپنی زندگی کے
40 سال شام میں گزارے لیکن میں نے ابھی تک ایسے بے روح چہرے نہیں دیکھے تھے جن کی آنکھوں سے نفرت جھلکتی ہو اور جن کے
جسم گوشت پوست کے بجائے لکڑی سے بنے محسوس ہوں۔ آخر ان 40 سالوں نے قاتلوں کی یہ دہشت زدہ کرنے والی نسل کب پیدا کی؟
دوپہر کے بعد اسی اباسین اسکوائر پر صورت حال بالکل بدل گئی۔ سیکورٹی فورسز کی تعداد میں بہت اضافہ ہوگیا۔ گلیوں سے کسی کو
چوک پر آنے کی اجازت نہیں دی جا رہی تھی۔ جگہ جگہ فوجی چیک پوائنٹ بنے ہوئے تھے۔ جوبار روڈ کی جانب جانے والے تمام راستے بند
کردیے گئے تھے۔ لوگ مظاہرے کے لئے آہستہ آہستہ جمع ہونا شروع ہی ہوئے تھے کہ گولیاں چلنے لگیں۔ الغب لتانی اباسین اسکوائر سے زیادہ
دور نہیں تھا۔ میری سہیلی نے مجھے بتایا کہ الغب لتانی پر کچھ عیسائیوں نے مظاہرہ کیا۔ ان کی تعداد ایک درجن سے زیادہ نہیں تھی۔ ان
میں سے ایک نے اپنی قمیض اتار کر پھینک دی اور سیکورٹی فورسز سے کہا کہ میرے سینے پر گولی مارو۔ وہ بمشکل ایک منٹ کھڑا رہا
ہوگا کہ گولی چلنے کی آواز آئی اور نوجوان زمین پر گر گیا۔ اس کے بعد فوجیوں کی جانب سے کہا گیا کہ تمام مظاہرین یہاں سے بھاگ
جائیں ورنہ ان کا بھی یہی حشر ہوگا۔ اس دوران 5 نہتے نوجوان شامی فوجیوں کی گولیوں کا نشانہ بن چکے تھے۔ لیکن سرکاری ٹیلی ویژن
نے جو رپورٹ جاری کی اس کے مطابق شامی سیکورٹی فورسز نے 5 باغیوں کو پکڑا جو مسلح تصادم میں مارے گئے۔ میں یہ سوچ کر
حیران تھی کہ وہ نوجوان جس کے پاس کوئی ہتھیار نہیں اور وہ شامی فوج کے ظلم کے خالف احتجاج کر رہا تھا۔ اس نے احتجاج کرتے
ہوئے اپنی سینہ گولیوں کے سامنے پیش کردیا تھا اس نے کیسے سمجھ لیا تھا کہ شامی فوجی اس پر گولی نہیں چالئیں گے جو علوی تھے
اور صرف بشار االسد کے وفادار تھے ۔ میں مزید سوالوں کا جواب حاصل کرنے کے لیے برزہ کی جانب شام کے وقت گئی۔ یہاں ایک چیک
پوائنٹ تھا۔ جب ہماری کار چیک پوائنٹ کے قریب پہنچی تو کئی مسلح افراد نے ہمیں گھیر لیا ان کا تعلق شبیہہ ملیشیا سے تھا۔ ان میں ایک
جوان کی عمر 25 سال سے زیادہ نہیں تھی۔ اس کی مشین گن کی نال کا رخ سیدھا ہماری جانب تھا اور اس کی آنکھوں سے خون ٹپک
رہا تھا۔ میری سہیلی نے بتایا کہ ہم خود علوی ہیں۔لیکن یہ کہنے کا اس پر کوئی ا ثر نہیں ہوا۔شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ ابھی تک
حکومت بشار االسد کے خالف ٓازادی کی جدوجہد کو فرقہ ورانہ رنگ دینے میں کامیاب نہیں ہوئی تھی اور سنی اکثریت کے ساتھ بڑی تعداد
میں علوی بھی جدوجہد میں شامل تھے۔ چیک پوائنٹ سے آگے گولیاں چلنے کی آواز آرہی تھی۔ اس کا مطلب یہی تھا کہ وہاں قتل و
غارتگری جاری تھی۔ انہوں نے ہمیں برزہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی۔ گزشتہ جمعہ کو جب میں اپنی ڈائری لکھنا چاہتی تھی
تو مجھ پر شدید جذبات کا حملہ ہوا اور میں کوشش کے باوجود ایک بھی سطر نہیں لکھ سکی۔ تحریر پر توجہ مرکوز کرنا ناممکن تھا۔
جب میں لکھنے لگتی تو سڑکوں پر پھیلے ہوئے الشے میری نظروں کے سامنے ناچنے لگتے۔ جب میں لکھنے میں ناکام ہوگئی تو گھر سے
نکل کر اپنی دوست کے گھر کی جانب روانہ ہوئی۔ میں اپنے گھر میں بہت کم وقت گزارتی تھی کیونکہ مجھے پکڑے جانے کا خطرہ تھا۔
شامی جاسوس اور انٹلیجنس کے لوگ ہر وقت میری تلاش میں رہتے تھے۔ میرے لیے شہر میں نقل و حرکت مشکل ہوگئی تھی۔ میں علوی
تھی اور خود میرے فرقے کے لوگ مجھے سازشی اور غدار تصور کرتے تھے۔ کیونکہ میں ان لوگوں کے خالف مسلسل لکھتی رہتی تھی۔
چنانچہ یہ لوگ مخابراتی ویب سائیٹ پر میرے بارے میں لکھا کرتے تھے کہ میں امریکی ایجنٹ ہوں اور اس وجہ سے بشاراالسد کی
حکومت کی مخالفت کرتی ہوں۔ میرے ہاتھ میری بیٹی اور میرے خاندان کی وجہ سے بندھے ہوئے تھے کیونکہ میرے ہاتھ نہ آنے کی وجہ سے
اب ان کو دباؤ کا نشانہ تھا۔ میں خود اپنے گاؤں میں نہیں جاسکتی تھی کیونکہ مجھے اپنے فرقے اور ملک کا غدار قرار دیدیا گیا تھا۔
مجھ پر لکھنے اور چھاپنے کی پابندی لگادی گئی تھی۔ سارے قتل و غارت گری کے واقعات میرے اردگرد ہورہے تھے اور میں ان کا پورا
علم رکھتی تھی اور ان کی رپورٹیں میڈیا کو بھیجا کرتی تھیں۔ ایک دن مجھے اطالع ملی کے میرے کئی دوستوں کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔
اس کے بعد درعا کے شہر کا گھیراؤ کرلیا گیا۔ یہ گھیرأو ابھی تک جاری تھا۔ جمعہ کی صبح کو میری آنکھ کھلی تو آسمان پر گھٹا
چھائی ہوئی تھی اور سخت بارش جاری تھی۔ آسمان سے گرنے والے اولے گولیوں کی طرح میری کھڑکی سے ٹکرا رہے تھے۔ سیکورٹی
فورسز کی جانب سے گرفتار کیے جانے کے خدشے کے باوجود اس دن میں اپنے گھر واپس آئی۔ میں صرف یہ دیکھنا چاہتی تھی کہ میری
بیٹی خیریت سے ہے یا نہیں؟ وہ بے حد خوف زدہ تھی۔ اس نے بتایا کہ اس کو موبائیل پر دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ اس سب کے باوجود میں
نے پہلے سے زیادہ فعال ہونے کا فیصلہ کیا۔ میں ان لوگوں کے ساتھ شامل ہوگئی جو زیر زمین چلے گئے تھے اور انقالب کے لیے کام کر رہے
تھے۔ کسی اخبار میں کوئی خبر حکومت کی مرضی کے بغیر شائع نہیں ہوسکتی تھی کوئی چینل سچی بات نشر نہیں کرسکتا تھا۔ صرف
غیرملکی چینل واحد سہارا تھے۔ لیکن جو نوجوان کسی چینل کے لیے رپورٹنگ کرتے تھے ان کو گرفتار کرلیا جاتا تھا۔ اس جمعہ کو اردن کے
ساتھ شامی سرحد کو بند ہوئے پانچ دن ہوچکے تھے۔ درعا میں صرف ایک ہفتے میں50 افراد کو شہید کیا گیا تھا۔ درعا اور الرمسا کے
درمیان سرحد بند ہو جانے سے اشیائے ضرورت کی آمدورفت بند ہوگئی۔ اب درعا کے شہری تاریکی میں زندگی گزار رہے تھے۔ ان کے پاس
کھانے کو بھی کچھ نہیں تھا۔بازار کئی ہفتے سے بند تھے۔ گھروں میں پینے کا پانی بھی نہیں تھا۔ سپالئی بند ہونے کی وجہ سے بچوں
کے دودھ کی شدید قلت تھی جبکہ گلیوں میں شامی فوجی اور شبیہہ ملیشیا کے درندے منتظر بیٹھے تھے۔ دو دن پہلے شامی اسمبلی کے ایک
ممبر کا بیٹا چینل پر آیا اور اس نے اپنی آنکھوں میں آنسو التے ہوئے سوال کیا کہ درعا میں کچھ بھی ہوا ہو لیکن پانی اور بجلی کیوں بند
کردیاگیا ہے؟ لوگوں کو فاقے کرنے پر کیوں مجبور کیا جارہا ہے؟ انہیں اپنے پیاروں کو جو گولیوں کا نشانہ بنے ہیں ان کی الشیں دفن کرنے
کی اجازت کیوں نہیں دی گئی؟ جو زخمی ہیں ان کو طبی امداد کیوں فراہم نہیں کی جارہی؟ درحقیقت بشاراالسد کی حکومت درعا کے
شہریوں کو سبق پڑھانا چاہتی تھی، خواہ اس دوران شہر کا ہر شخص ماردیا جائے۔ یہ جمہوریت اور ٓازادی کا مطالبہ کرنے کی سزا تھی۔
دمشق میں فوج گشت کر رہی تھی۔ درعا کا رابطہ باہر سے ٹوٹ چکا تھا اور شہر کو بجلی کی فراہمی کاٹ دی گئی تھی۔ لوگ نشانچیوں
کے خوف سے گھروں میں چھپے بیٹھے تھے۔ لبنان اور اردن کی سرحد پر بھی شامی فوج تعینات کردی گئی تھی۔ عمودہ اور لطاکیہ میں
حکومت مخالف مظاہرے ہوئے اور ہمیشہ کی طرح فوج نے فائرنگ کر کے مظاہرین کو خاک و خون میں نہالدیا۔
میں کئی دن ایک گاؤں میں چھپے رہنے کے بعد اپنے گھر واپس آئی اور اپنی بیٹی کے ساتھ بیٹھ کر اس کا حوصلہ بڑھانے لگی۔ اس نے اپنی
آنکھوں میں آنسو التے ہوئے مجھے سے کہا کہ ” وہ آپ کو قتل کردیں گے۔ وہ ہر ایک سے کہہ رہے ہیں کہ وہ قتل کرنے کے لیے آپ کو
تالش کر رہے ہی؟ ہر ایک آپ کا مذاق اڑا رہا ہے، آپ کی توہین کر رہا ہے اور آپ کو غدار کہہ رہا ہے۔ جبکہ یہاں ہینڈبل بانٹے گئے ہیں جن
میں آپ پر غداری کا الزام لگایا گیا ہے”۔
میری بیٹی بے حد خوفزدہ تھی۔ میں نے اس کو یقین دالیا کہ میں اس کو اکیال چھوڑ کر نہیں جاؤں گی۔ پھر میں نے انٹرنیٹ پر آن الئن
جا کر یہ جاننے کی کوشش کی کہ شامی شہروں میں کیا ہورہا ہے؟ لیکن میری بیٹی نے مجھے کمپیوٹر کے سامنے سے ہٹا دیا اور کہا کہ میں
انٹر نیٹ پر نہ بیٹھوں، صرف اس کے سامنے بیٹھی رہوں۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور وہ مجھ پر الزام لگا رہی تھی
کہ میں بار بار اسے تنہا چھوڑ کر چلی جاتی ہوں۔ میں اسے بتا رہی تھی کہ میرے ساتھ کیا ہورہا ہے؟ سیکورٹی فورسز میری تالش میں
ہیں اور وہ میرے اپنے فرقے کو اکسا رہے ہیں کہ مجھے قتل کردیں۔ میری بیٹی کا کہنا تھا کہ میرے سوا اس کا کوئی نہیں ہے اور اگر
میں قتل ہوگئی یا شامی فوجی مجھے پکڑ کر لے گئے تو وہ تنہا کیا کرے گی؟ مجھے معلوم تھا کہ وہ کس کیفیت سے گزر رہی ہے۔ میں نے
اس کو تھپک کر سلانے کی کوشش کی۔ جب وہ سوگئی تو میں اپنے کمرے میں جا کر بیٹھ گئی اور رو کر اپنا دل ہلکا کرنے لگی۔ کیونکہ
میں نہیں چاہتی تھی کہ وہ میرے آنسو دیکھے۔
شامی فوج نے تمام شامی شہروں میں چوکوں پر لوگوں کے جمع ہونے پر پابندی لگا دی تھی۔ جگہ جگہ کرفیو لگادیا گیا تھا۔ دمشق کے
ضلع المیدان میں شہری جمعہ کی نماز کے بعد باہر جمع ہوئے اور انہوں نے حکومت کے خالف مظاہرہ کیا۔ تھوڑی ہی دیر کے بعد شامی فوج
اور سیکورٹی اداروں کے ایجنٹ اور الشبیہہ کے رضاکار 10 بسوں میں بھر کر وہاں پہنچے اور انہوں نے مظاہرین کو زدوکوب کرنا
شروع کردیا۔ مظاہرین کی تعداد ایک ہزار کے لگ بھگ تھی۔ درجنوں کی تعداد میں لوگوں کو گرفتار کرلیا گیا۔ تمام مظاہرین غیرمسلح
تھے۔ جب فوج ان پر الٹھی چارج کرتی یا آنسو گیس کے شعلے پھینکتی تو وہ منتشر ہو جاتے لیکن دوبارہ جمع ہو کر آزادی کے نعرے لگانے
لگتے۔ یہ اتفاق تھا کہ اس دن کوئی گولی نہیں چلی لیکن سیکڑوں کی تعداد میں لوگوں کو گرفتار کر کے لے جایا گیا جنہیں کبھی رہائی
نصیب نہیں ہوئی۔ میں خونریزی دیکھ دیکھ کر تنگ آچکی تھی۔ ہر جمعہ کو مجھے دل دہالدینے والی خبریں ملتیں۔ میں ہر وقت اس
طرح تناؤ کی حالت میں رہتی کہ میری رات کی نیند جاتی رہتی۔ میں نیند کی گولیاں کھائے بغیر سو نہیں سکتی تھی۔ درعا میں مظاہرین
کا استقبال بھاری فائرنگ سے ہوا۔ چھتوں پر نشانچی بیٹھے ہوئے تھے۔ جو شخص گھر سے باہر نکلتا اسے وہ گولی مار دیتے۔ بجلی اور پانی
بند تھا۔ کوئی دکان کھولنے کی اجازت نہیں تھی اور گھروں میں بچے بھوک سے بلک رہے تھے۔ دمشق کے نواحی علاقے سقبا میں بھی
مظاہرے ہوئے جن کو سختی سے کچل دیا گیا۔ تھوڑی دیر بعد مجھے خبر ملی کہ اردن کی فوج نے شام اردن سرحد پر پوزیشن سنبھال لی ہے۔
میرا دل اچھل کر منہ تک آگیا۔ میں خوف زدہ ہوگئی کہ وہاں اردنی فوج کیوں تعینات کی گئی؟ اس وقت شام اردن سرحد پر بہت بڑی
تعداد میں شام سے نقل مکانی کرنے والے مہاجرین کے قافلے نظر آرہے تھے۔ یقینی طور پر یہ فوج ان کو روکنے کے لیے تعینات نہیں کی گئی
تھی۔ لیکن میں اس معاملے میں کچھ نہیں کہہ سکتی تھی۔ میں پاگل عورت کی طرح پورے گھر میں گھوم رہی تھی۔ میں گلی میں
نہیں نکل سکتی تھی۔ باقی دنیا سے میرا آن الئن رابطہ بھی منقطع ہوگیا تھا اور میں انٹرنیٹ بھی نہیں لگا سکتی تھی۔ تھوڑی دیر کے
سازشی عورت، االله صدر بشاراالسد کے ساتھ ہے اور تم راستہ‘‘بعد مجھے اپنے بچپن کے ایک دوست کا ایس ایم ایس مال۔ اس نے لکھا تھا
میں نے اس کے ایس ایم ایس کا کوئی جواب نہیں دیا۔ رات گئے انٹرنیٹ رابطہ بحال ہوا۔ جس سے پتہ چال شام کے تمام بڑے ’’بھول گئی ہو۔
شہروں میں مظاہرے ہوئے۔ مظاہرین آزادی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ دمشق کا جنوبی راستہ فوج نے بند کردیا تھا اور المعدمیہ میں فوج
لگادی گئی تھی۔ حمص کے لوگ ابھی تک زیتون کی شاخ لیے کھڑے تھے۔ رپورٹس کے مطابق سخت بارش اور طوفان کے باوجود لوگ
گھروں سے باہر نکلے اور انہوں نے مظاہرے کیے۔ میں بے حد پریشان تھی اگرچہ ابھی تک قتل و غارت گری کی کوئی خبر نہیں آئی تھی۔
تاہم لطاکیہ کے نواح میں الصریبہ میں بھاری فائرنگ کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ ابھی تک یہ نہیں پتہ چل سکا تھا کہ کتنے
لوگوں کا خون بہا۔ پہلی مرتبہ پورا دمشق گھروں سے باہر نکل آیا تھا۔ سیکورٹی فورسز نے ان کو منتشر کرنے کے لیے ہر ذریعہ اختیار کیا
لیکن لوگ واپس جانے کو تیار نہیں تھے۔ مظاہروں کا خاتمہ خون ریزی کے بغیر نہیں ہوسکا۔ جبلہ سے آنے واال اطلاعات کے مطابق سینکڑوں
مظاہرین جن میں عورتیں بھی شامل تھیں باہر نکلے۔ ان کے سامنے شامی فوج کا چوتھا ڈویژن موجود تھا۔ میں شہر کی گلیوں میں پلی
بڑھی تھی اور مجھے یہ جان کر سخت تکلیف ہورہی تھی کہ شبیہہ کے غنڈے اور سرکاری لوگ علویوں کو سنیوں کے خالف بھڑکا رہے
اگرچہ سنیوں کے عالقوں میں علویوں پر کوئی حملہ نہیں ’’سنی علویوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیں گے۔‘‘تھے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ
کیا گیا تھا۔ لیکن حکومت کی پوری کوشش تھی کہ اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے آزادی کی اس جنگ کو علوی سنی جنگ میں تبدیل کردے۔
کے شہر میں بڑے بڑے مظاہرے ہوئے۔ حکومت ان مظاہروں سے خوف زدہ تھی کیونکہ یہ شام کا دوسرا سب سے بڑا شہر (Alleppo (الیپو
تھا اور بنیادی طور پر یہاں سب سے بڑی مزاحمتی تحریک تھی۔ 1980 کے عشرے میں جب حافظ االسد کی حکومت کے خلاف یہاں سے
تحریک اٹھی تو شامی فوج نے بڑے پیمانے پر قتل و غارت گری کی اور ہزاروں لوگوں کو قتل کر کے اس تحریک کو کچل دیا۔ شہر پر
مظاہرین کا قبضہ تھا جب کہ فوج اور الشبیہہ ملیشیا شہر سے باہر مورچہ زن تھی۔ میں خود اپنے گھر میں محصور تھی۔ میں گھر سے
باہر نکلنا چاہتی تھی لیکن میری بیٹی کے آنسوؤں نے مجھے روک رکھا تھا۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ وہ خود کو غیرمحفوظ تصور کرے۔
لیکن یہاں جس قسم کا ماحول تھا اس میں کسی کو محفوظ رہنے کی یقین دہانی کیسے کرائی جاسکتی تھی؟ میں سوچ رہی تھی کہ مجھے
یہاں طویل عرصے تک ٹھہرنا نہیں چاہیئے۔ کیونکہ وہ میری تالش میں کسی بھی وقت یہاں چھاپہ مارسکتے تھے۔ دو دن کے بعد میں
گھر سے نکل کر دمشق کے وسط کی جانب جارہی تھی۔ عرب اور غیر عرب چینل لندن میں شہزادہ ولیم اور کیٹ کی شادی کی خبریں نشر
کر رہے تھے۔ میں نے اپنی بیٹی سے کہا تھا کہ میں کھانے کا کچھ سامان لینے جارہی ہوں اور جلد واپس آجاؤں گی۔ اس دوران میں وہ
مسلسل روتی اور چلتی رہی اور کہتی رہی آپ کہاں جارہی ہیں؟ آپ باہر نہ جائیں! ٓاپ باہر نہ جائیں! اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی
برسات جاری تھی اور میں اس کو یقین دالنے کی کوشش کررہی تھی کہ میں ضرور واپس آؤں گی۔ میں شام کو گھر سے باہر اس وقت
نکلی جب مجھے پتہ چال کہ فوج کی فائرنگ سے 62 مظاہرین ہلاک ہوئے ہیں۔
- نظریات کی معدومی۔ ایک آفاقی منصوبہ - April 10, 2025
- آسان زندگی جنوبی ایشیا کا بھی حق ہے - April 6, 2025
- ہلال عید کی جھلک.. کئی سبق - April 3, 2025