سوشل میڈیا اکاؤنٹس

محمود شام

محمود شام

پاکستان کے ممتاز صحافی، شاعر، ادیب اور تجزیہ کار جناب محمود شام 5 فروری 1940

شہریات سیکنڈری اسکول سے پڑھائی جائے

ہر شہر ایک قلعہ ہے۔
ہر شہر ایک جنت ہے۔
شہر کس طرح انسانوں کو آغوش میں لیتے ہیں۔ پیدائش سے لے کر پرورش۔ تعلیم۔ روزگار۔ بچوں کی کفالت اور پھر جب مٹی بلاتی ہے تو یہی شہر دوگز زمین بھی فراہم کرتے ہیں۔
شہر ہماری محبوبائیں ہیں۔ شہر سے اسی طرح عشق کریں۔ جیسے ہیر رانجھے میں تھا۔ جیسے سوہنی مہینوال ۔جیسے مرزا صاحباں۔ شہر انسان پیدا کرتے ہیں۔ انسانوں کو تراشتے ہیں۔ اپنی ضرورتوں کے مطابق ان کی تربیت کرتے ہیں۔ شہر آپ کو بھوکا نہیں سونے دیتے۔ شہر آپ کو گھر آپ کا قلعہ عنایت کرتے ہیں۔ شہر آپ کو ایک شناخت دیتے ہیں۔ آپ کتنی ہجرتیں کرلیں ملک بدل لیں۔ لیکن آپ نے جہاں آنکھ کھولی۔ جو ماں کی گود کے ساتھ آپ کی دوسری آغوش بنے۔ وہ بستیاں آپ کو نہیں بھولتیں۔ اپنے قلمی نام کے ساتھ آپ یہ لاحقہ فخر کے ساتھ استعمال کرتے ہیں۔ جگر مراد آبادی۔ فکر تونسوی۔ رئیس امروہوی۔ کیفی اعظمی۔ ساحر لدھیانوی۔
76 سال میں جہاں اس عظیم مملکت میں سیاسی اور فوجی حکمرانوں نے اور بہت سے ظلم کیے۔ وہاں ہمارے شہروں پر بھی بہت ستم ڈھائے گئے۔ 1947 میں ہمیں شہر بہت منظم صورت میں۔ اچھی ٹرانسپورٹ۔ ذمہ دار بلدیاتی افسران۔ با شعور انتظامیہ کے ساتھ ملے تھے۔ ان کو بتدریج پیسے کی ہوس میں برباد کیا گیا۔ بلدیاتی ادارے رفتہ رفتہ بے اثر کردیے گئے۔ جاگیرداروں۔ زمینداروں۔ سرداروں۔ سرمایہ داروں ۔ نو دولتیوں۔ مذہبی استحصالیوں۔ ریاستی اداروں نے شہری انتظامیہ سے اختیارات بتدریج چھین لیے۔ نام نہاد جمہوری دَور میں قومی صوبائی اسمبلیوں کے ارکان۔ وزرائ۔ تجاوزات سے دولت کماتے رہے۔ نئے پلاٹ اپنے نام الاٹ کراتے رہے۔ پھر رہائشی علاقوں کو کمرشل مارکیٹوں میں بدلا گیا۔ فلاحی پلاٹوں پر تجارتی تعمیرات ہوئیں۔ پھر مزید بربادی یہ ہوئی کہ گندم۔ چاول۔ گنا۔ سبزیاں۔ کپاس پیدا کرنے والی یعنی سونا گلنے والی زمینوں پر ہاﺅسنگ اسکیموں کا سلسلہ شروع کردیا گیا۔
اکیسویں صدی میں انسان کی رہائش میں زیادہ سے زیادہ سہولتوں اور آسانیوں پر زور دیا جاتا ہے۔ ابھی تو دنیا میں سفر بہت زیادہ ہورہا ہے۔ پھر انٹرنیٹ کی سہولت سے بھی آپ ان ملکوں ان شہروں کی خصوصیات سے آگاہ رہتے ہیں۔ جو وہاں انسانوں کو فراہم کی جاتی ہیں۔ اکثر گھرانوں کے نوجوان۔ سنگا پور۔ ملائشیا۔ آسٹریلیا۔ یورپ۔ امریکہ۔ کینیڈا میں آباد ہیں۔ وہ آکر بتاتے ہیں۔ یا اہل خانہ وہاں جاتے ہیں۔ کیسی صاف ستھری سڑکیں۔ کھلے فٹ پاتھ۔ باغات۔ پبلک ٹائلٹ۔ تفریح گاہیں۔ سنیما۔ عجائب گھر۔ درسگاہیں۔ شہر میں داخل ہونے کے خوبصورت دروازے۔ علاج معالجے کی سہولتیں۔ مریض دوست اسپتال ۔ لائبریریاں۔ کھانے پینے کی اشیا ملاوٹ سے پاک۔
اب پاکستان کی آبادی 25کروڑ بتائی جارہی ہے۔ زیادہ انسان بڑے شہروں میں بستے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے سب سے زیادہ نائب شہر قائد میں مقیم ہیں۔ 3کروڑ کی تعداد ہے۔ دیہی علاقوں سے شہروں کو منتقلی ہمیشہ جاری رہتی ہے۔ ہر انسان قابل قدر ہے۔ وہ کسی ماں کا لاڈلا۔ کسی باپ کا سہارا۔ اپنے بچوں کا نگہباں۔ اپنی ریاست کا اثاثہ۔ اس لیے ریاست کا فرض ہے کہ وہ اس کے روزگار۔ حقوق۔ صحت۔ خوراک کی ذمہ داری احسن طریقے سے انجام دے۔
’اطراف‘ کے شہر نمبر میں ان ہی ذمہ داریوں کے حوالے سے بڑے چھوٹے شہروں کا جائزہ لیا گیا ہے۔ ہر شہر میں آلودگی کی شکایت ہے۔ پینے کا صاف پانی نہیں ملتا۔ گندے پانی کی نکاسی کے انتظامات درست نہیں ہیں۔ انگریز کے دَور میں ہر شہر میں سرکاری ٹرانسپورٹ میسر تھی۔ اپنے منظور نظر افراد کو۔ ٹرانسپورٹ مافیا کو نوازنے کے لےے گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس ختم کردی گئی۔ ریاست اپنی بنیادی ذمہ داریوں سے پیچھے ہٹتی گئی۔ پینے کا پانی۔ گندے پانی کا نکاس۔ کچرے کی صفائی۔ سب کچھ ٹھیکے پر دے دیا گیا۔
’اطراف‘ ویسے تو ہر شُمارے میں شہریوں کو۔ حکمرانوں کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلاتا ہے۔ شہر نمبر کے ذریعے واہگہ سے گوادر تک انسان زندگی کو آسان بنانے کے لےے زیادہ سے زیادہ شہری سہولتیں میسر کرنے کے لیے ہم ایک تحریک چلانا چاہتے ہیں۔ میرا شہر میری دنیا ہے۔ ہر شہر کے کچھ حقوق ہیں۔ ہر شہر کا اپنا مزاج ہے۔ شہر ترقی کرے گا ملک ترقی کرے گا۔
ہم چاہتے ہیں کہ ہر شہر میں شعور کی ایسی لہر دوڑائی جائے کہ شہری اپنے شہر کو زیادہ سے زیادہ آرام دہ۔ سہولت کار۔ صاف ستھرا بنانے کے لیے متحرک ہوں۔ اپنے شہر میں انہیں جو کمی نظر آئے۔ اسے دور کرنے کے لیے سینہ سپر ہوجائیں۔ ہر شہر میں میڈیا اس حوالے سے پروگرام کرے۔ صفحات چھاپے۔
سب سے ضروری امر یہ ہے کہ شہریات۔ شہری مطالعے۔ سیکنڈری اسکول سے پڑھائے جائیں۔ شہریات میں اعلیٰ تعلیم بھی دی جائے۔ شہریات میں پی ایچ ڈی کروائی جائے۔ بلدیاتی اداروں میں اعلیٰ ادنیٰ ملازمتیں۔ شہریات پڑھنے والوں کو دی جائےں۔میئر۔ چیئرمینوں۔ کونسلروں کے لیے شہریات کے شارٹ کورسز شروع کیے جائیں۔ ہر شہر کے بلدیاتی ادارے میں منتخب کونسل کے علاوہ درد مند شہریوں کی ایک مشاورتی کونسل بھی غیر سرکاری طور پر قائم کی جائے۔
شہروں کی آبادی کی حد اس کے وسائل کے مطابق طے کی جائے۔
ہم لندن۔ دوبئی۔ دمام۔ برسلز۔ پیرس۔ ٹورنٹو۔ بریڈ فورڈ۔ برمنگھم۔ لاس اینجلز۔ نیو یارک۔ ہیوسٹن کا رُخ کرنے کی بجائے اپنے شہر میںہی روزگار کے ایسے مواقع۔ اور شہری سہولتیں کیوں نہ فراہم کریں۔ ایک دو صدیاں پہلے ہمارے خطّے ہی انسانوں کے لیے دلکش ہوتے تھے۔ ہم تو پانچ ہزار دس ہزار سال پہلے سے موہجو دڑو۔ مہر گڑھ میں ایک تہذیب اور تمدن کے مراکز تھے۔

اکتوبر2023

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *