ہر گزرتا لمحہ یہ کہہ رہا ہے کہ پاکستانیوں پر عرصہ حیات تنگ ہونے والا ہے۔
ہوائیں پورب سے آرہی ہوں یا پچھم سے۔ وہ ببانگ دہل خبردار کررہی ہیں کہ وقت اورخطرناک ہونے والا ہے۔ زر مبادلہ کے کم ہوتے ذخائر خطرے کی گھنٹے بجارہے ہیں۔
ڈالر کے مقابلے میں روپے کی گرتی ہوئی حیثیت کاروباری حلقوں کے دروازے پیٹ رہی ہے۔
روزمرہ کی انتہائی بنیادی ضرورت کی اشیائ۔ محمد بخشوں۔ اللہ دینوں۔ گلزار خانوں۔ نوید بلوچوں کی پہنچ سے دور ہورہی ہیں۔
خضدار۔ شہداد کوٹ۔ بہاولپور۔ چیچہ وطنی۔ ہری پور ہزارہ۔ طورخم میں روزگار کے مواقع معدوم ہورہے ہیں۔کوئی ادارہ سویلین یا عسکری۔ کوئی حاکم صوبائی یا وفاقی اپنے اخراجات کم کرنے کو تیار نہیں ہے۔
صدر۔ وزیر اعظم۔ اور دوسرے شعبہ جاتی سربراہوں کے معمولات اورمصروفیات سے یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ انہیں ہر روز اپنی گرتی اقتصادیات کا احساس ہے یا نہیں۔ یہ اپنے اپنے جہازوں میں اسی طرح اپنے تام جھام اپنے لشکروں کے ساتھ سفرکررہے ہیں۔
ایوان صدر۔ وزیر اعظم ہاﺅس۔ وزرائے اعلیٰ ہاﺅسوں اور دیگر شعبوں کے سربراہوں کے ایوانوں میں معمول کے اللے تللے اسی طرح چل رہے ہیں۔
کراچی۔ لاہور۔ حیدر آباد۔ کوئٹہ۔ پشاور۔ اسلام آباد۔ ملتان میں رات کے کھانے کے لےے تخت۔ اسی طرح بچھے ہیں۔ سینکڑوں قمقمے۔ ٹیوبیں جگمگارہی ہوتی ہیں۔ کئی کئی گھنٹے تک یہ علاقے بقعہ ¿ نور رہتے ہیں۔ یہاں تو یہ اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ بجلی کے بل زیادہ ہوگئے ہیں۔
کوئی سیاسی۔ سماجی رہنما۔ ٹی وی چینل۔ سوشل میڈیا کوئی بھی یہ سمجھانے کی ضرورت محسوس نہیں کررہا ہے۔ جب غیر معمولی حالات ہوں تو ہمارے رویے بھی غیر معمولی ہونے چاہئیں۔ صرف جب بجلی کا بل آئے اس وقت یہ تشویش نہیں۔ بلکہ غیر ضروری بلب۔ ٹیوبیں۔ پنکھے چلاتے وقت یہ یاد رہنا چاہئے۔ کسی کمرے میں کوئی نہیں ہے تو وہاں کوئی بلب نہ جلے۔ گھروں کے باہر۔ چھتوں پر چراغاں کا سماں نہ ہو۔
آپ کی آمدنی۔ ضرورت کی چیزوں کے سامنے روز کم ہورہی ہیں۔ مزید قرضے لے کر ملک چلایا جارہا ہے۔ پچھلے قرضے بھی ادا ہونے ہیں۔ کہیں کسی کان سے سونا نہیں نکل رہا ہے۔ تیل گیس کے کہیں نئے کنوئیں نہیں کھد رہے۔ زرعی زمینیں سیلاب میں دھنسی ہوئی ہیں۔ ایک فصل برباد ہوئی ہے۔ دوسری کاشت نہیں ہوسکی۔ کئی لاکھ گھر بننے ہیں۔ ہر طرف خرچے ہی خرچے ہیں۔ کہیں آمدنی منافع کا کوئی امکان نہیں ہے۔ کارخانے مینوفیکچرنگ نہیں کررہے ہےں۔
حکمران طبقے ایک دوسرے پر الزام عائد کررہے ہےں۔ کہیں اخراجات میں کٹوتی نہیں ہورہی ہے۔
زمانہ اور زیادہ مایوس کن آرہا ہے۔
ہمارے ماہرین سے کوئی حکومت مشورہ نہیں کررہی ہے کہ اس خطرناک وقت کا مقابلہ کیسے کرنا چاہئے۔ سالہا سال سے غیر ضروری اخراجات۔ ضرورت سے زیادہ کھانے ۔ شادیوں پر فضول خرچوں میں کوئی کمی نہیں ہورہی ہے۔
قوم سادگی کی طرف جا ہی نہیں رہی ہے۔
’اطراف‘ بہرحال اپنی ذمہ داری پوری کررہا ہے۔ آپ جولائی 2014 سے ہمارے ساتھ ہیں۔ اس لیے ہمیں ایک دوسرے کی پریشانی کا غم ہونا چاہئے۔ ’قارئین اطراف‘ مثال قائم کریں۔ اپنا جینے کا انداز بدلیں۔ اخراجات جتنے کم کرسکتے ہیں کریں۔ بجلی کا استعمال جہاں ضروری ہے وہاں کریں۔ سورج کی روشنی میں جتنے کام نمٹاسکتے ہیں نمٹائیں۔ ڈونگے بھر بھر کے مرغی۔ مچھلی کاسالن نہ رکھیں۔ ہر ایک کی بھوک کے مطابق سالن روٹی دی جائے۔ غیر ضروری سفر نہ کریں۔ پیٹرول کا استعمال جتنا کم ہو کریں۔ غیر ضروری ٹیوشن ختم کریں۔ لباس ہر مہینے نیا بھی ضروری نہیں۔
کاغذ مہنگا ہورہا ہے۔ کم صفحات میں اپنی بات کہنے کی کوشش کریں۔
ہر رات سوتے وقت جائزہ لیں کہ کونسے خرچ ایسے ہیں جن کے بغیر آپ کا دن گزر سکتا تھا۔
ہم دیکھ رہے ہیں کہ یہ مشکل وقت ابھی کئی ماہ جاری رہے گا۔ اس لیے ایک لائحہ عمل بنالیں۔ آپس میں مشورہ کریں۔ محلّے والوں سے دفتر والوں سے رائے لیں۔
حالات سے پنجہ آزما ہو
حالات کو سازگار کرلے
مارچ 2023
- ہمارا مستقبل۔ بحیرۂ روم کی نذر کیوں؟ - December 22, 2024
- سوشل میڈیا۔ کتاب کا رقیب نہیں - December 19, 2024
- کتاب میلے میں 2039 کی جھلکیاں - December 15, 2024