شکستہ خاندانوں کی ہری شاخیں برانڈڈ خواہشیں لے کر پہنچتی ہیں
تو برقی سیڑھیاں ان کے سواگت کو لپکتی ہیں
پرائیویٹ پہرے دار وردی کے بڑھاوے ٹھیک کرتے ہیں
سعودی کویتی قطری عبایوں سے مقامی آرزوئیں جھانکتی ہیں
بڑھاپے بھی گھسٹتے ہیں
جوانی بھی قلابے بھرتی ہے آگے نکلتی ہے
سبھی قومی زبانیں کان پڑتی ہیں
لسانی ہو کہ نسلی ہو تعصب سر چھپاتا ہے
سبھی دلدادہ انگلش خریداری میں یکساں ہیں
لٹکتی چادریں پردے نوید سیل دیتے ہیں
رویے رینگتے ہیں
عادتیں فریاد کرتی ہیں
تمدن لڑکھڑاتا ہے
لیاری کی ندی میں غرق تہذیبیں ابھرتی ہیں
کنارے ڈھونڈتی ہیں
پرانی وردیوں گردن تنی والے انہیں واپس ڈبوتے ہیں
کریڈٹ کارڈ پر جب بوجھ بڑھتا ہے
مشینیں ہنہناتی ہیں
نگوڑے کاؤنٹر گٹکوں کی زد میں ہیں
دکانیں چمچماتی ہیں
مکانوں میں اندھیرے ہیں
معیشت دانش خود ساختہ میں مسکراتی ہے
تمنا کسمساتی ہے
غریبی چنگچی لے کر بھرے تھیلوں تہی جیبوں کی داسی ہے
زمیں برسوں کی پیاسی ہے
محمود شام
- نظریات کی معدومی۔ ایک آفاقی منصوبہ - April 10, 2025
- آسان زندگی جنوبی ایشیا کا بھی حق ہے - April 6, 2025
- ہلال عید کی جھلک.. کئی سبق - April 3, 2025