مینگرانیات

آدمی قہقہہ نہ لگائے تو کم از کم مسکرادے

تحریر میں کاٹ ابنِ انشا کی طرح ہو جس کا کاٹا نیند میں بھی مسکراتا ہے

فقیر کی گالی، عورت کے تھپّڑ اور مسخرے کی بات سے آزردہ نہیں ہونا چاہئے

چینی قمیص اُس کے بدن پر چُست فقرے کی طرح کَسی ہوئی تھی

زبان ان کے گھر کی لونڈی ہے اور وہ اس کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرتے ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محمد اقبال مینگرانی یوں تو تاجر ہیں لیکن غضب کی حِس مزاح رکھتے ہیں۔ مطالعے کا انہیں چسکا ہے۔ نثر ہو یا شاعری۔ دوران گفتگو اشعار کا چُناﺅ بر محل کرتے ہیں۔ مشتاق یوسفی کے عُشّاق میں ہیں۔ ہمارے اصرار پر ’اطراف‘ کے لیے اُردو ادب سے ہر ماہ عطر کشید کریں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک مدت سے لکھنے لکھانے سے تائب ہوچکا تھا۔ اس لیے کہ مجھے ایک ممتاز دانشور کی یہ بات دل کو لگی کہ قلم سے اگر اصلاح ہوسکتی تو بارود ایجاد نہ ہوتا۔ اس لیے اصلاحِ معاشرے کا خنّاس بھی دل سے نکال دیا۔ ویسے بھی کار لائل نے کہا تھا کہ ”جو لوگ اصلاح معاشرہ کے دعوے دار ہیں انہیں سب سے پہلے اپنی اصلاح کرنی چاہئے اس سے کم از کم معاشرے سے ایک بد معاش کم ہوجائےگا۔“

میرے پیارے اور دیرینہ دوست محمود شام ہماری نو قائم شدہ تنظیم ’بزمِ مزاح پاکستان‘ کی ایک تقریب میں ملے تھے جس کی صدارت راقم الحروف کے ذمے تھی ۔ اس ملاقات میں جو بہت عرصے کے بعد ہوئی تھی انہوں نے کہا کہ ابھی میرے ادبی جرثومے باقی ہیں اور مجھے مزاح کے لیے کچھ لکھنا چاہئے اور انہوں نے ازراہِ عنایت یہ بھی کہا کہ اس کے لیے ”اطراف“ کے صفحات حاضر ہیں اور پھر انہوں نے میری خاصی حوصلہ افزائی کی اور میں نے کہا چل میرے خامے بسم اللہ۔۔۔

کافی دوستوں کو میرے بارے میں یہ خوش فہمی ہے کہ میں خاصہ مزاح بھی لکھ سکتا ہوں اور یہ اللہ سے دعا ہے کہ میرا یہ بھرم قائم رہے۔ زیادہ سے زیادہ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ مجھ میں کچھ حسِ مزاح موجود ہے جو بقول یوسفی صاحب کے در اصل انسان کی چھٹی حِس ہے یہ ہو تو انسان ہر مقام سے گزر جاتا ہے۔

بے نشّہ کِس کو طاقتِ آشوب آگہی

صورت حال کچھ یوں ہے کہ 1970 کی دہائی میں میرے کچھ مضامین ’جنگ‘ میں چھپے تھے۔ جنہیں پذیرائی ملی لیکن اس میں شاید ہی کوئی مزاحیہ مضمون شامل ہو وہ تحریریں سنجیدہ اور اس وقت اہم مسائل پر تھیں۔

ہماری بد قسمتی دیکھئے کہ چالیس سال کے بعد مسائل وہی ہیں۔ اور بقول دلاور فگار؎

حالات حاضرہ نہ سہی مستقل مگر
حالات حاضرہ کو کئی سال ہوگئے

تائب ہونے کے بعد میرا زیادہ تر وقت مزاحیہ ادب کو پڑھنے میں گزرا۔ کچھ عرصے میں اکبر الہ آبادی سے لے کر مشتاق احمد یوسفی تک جتنی کتابیں ہیں ان میں سے بیشتر کو پڑھا اس لیے کچھ مزاح شناسی آئی جو اکثردوستوں کی محفلوں میں آزماتا رہا اور انہوں نے مجھے مشورہ دیا کہ میں کچھ لکھوں ۔ بد قسمتی سے میری طبعیت کے باعث یہ ممکن نہیں تھا لیکن میں نے شام صاحب سے یہ وعدہ کیا کہ میں ہر مہینے منتخب اقتباسات جملے یا پیراگراف پیش کروں گا جن پر آدمی قہقہہ لگائے تو کم از کم مسکرادے۔
اس سلسلے میں ”مشتاقیات“ کے عنوان سے مشتاق احمد یوسفی کی کتاب خاکم بدہن سے کچھ فقرے یا جملے آپ کی خدمت میں پیش کررہا ہوں۔

’اطراف‘ کے پڑھنے والوں سے میری گزارش ہے کہ اس سلسلے میں ہم سے تعاون کریں۔ یوسفی صاحب اور دیگر کی تصانیف کے مزاحیہ فقروں /پیراﺅں کا انتخاب ہمیں بھیجیں جو ہمارے لیے بہت مددو معاون ثابت ہوگا اور آپ کی دلچسپی دیکھ کر اس سلسلے کو جاری رکھیں گے انتخاب میں آپ کا نام بھی دیا جائیگا۔ کیونکہ بقول شخصے تحریر میں کاٹ ابن انشاءکی طرح ہو جس کا کاٹا نیند میں بھی مسکراتا ہے۔

مشتاقیات
سب سے بڑا احمق بابائے انگریزی ڈاکٹر سمویل جانسن کا یہ قول دل کی سیاہی سے لکھنے کے لائق ہے کہ جو شخص روپے کے لالچ کے سوا کسی اور جذبے کے تحت کتاب لکھتا ہے، اس سے بڑا احمق روئے زمین پر کوئی نہیں۔

انگریز
انگریز صرف ان چیزوں پر ہنستے ہیں، جو ان کی سمجھ میں نہیں آئیں…. پنچ کے لطیفے، موسم، عورت، تجریدی آرٹ، اس کے بر عکس، ہم لوگ ان چیزوں پر ہنستے ہیں جو اب ہماری سمجھ میں آگئی ہیں، مثلاً انگریز، عشقیہ شاعری، روپیہ کمانے کی ترکیبیں ، بنیادی جمہوریت۔ شان الحق حقّی اور یوسفی صاحب اور یہ بھی انہیں سے معلوم ہوا ہے کہ فقیر کی گالی، عورت کے تھپّڑ اور مسخرے کی بات سے آزردہ نہیں ہونا چاہئے۔ ’عطائی‘ اور ’طوطا‘ کا صحیح اِملا ’اتائی‘ اور ’توتا‘ ہے! جوشِ اصلاح میں ہم تو ’طوائف‘ کو بھی ’ت‘ سے لکھنے پر تیار تھے، مگر طوطے والی بات دل کو نہیں لگی اس لیے کہ ’توتے‘ کو اگر ط سے لکھا جائے تو نہ صرف یہ کہ زیادہ ہرا معلوم ہوتا ہے بلکہ ط کا دائرہ ذرا ڈھنگ سے بنائیں توچونچ بھی نظر آنے لگتی ہے۔


اور جھوٹ کیوں بولیں’ طوائف الملوکی‘ کا صحیح مفہوم بھی حقّی صاحب ہی نے بتایا ، ورنہ تو ہم تو کچھ اور سمجھے بیٹھے تھے۔ عربی و فارسی میں بس اتنی شُد بُد ہے کہ میٹرک تک ہم ’ایضاً‘ کو کسی بسیار گو شاعر کا تخلص سمجھ کر ہر غزل ایضاً پر اپنا خون کھولاتے رہے۔ یادش بخیر! راہ زن کے لغوی معنی مرزا نے اسی زمانے میں زنِ بازاری بتائے تھے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ جب اس کے صحیح معنی معلوم ہوئے ہیں، غالب اور آتش کے مصرعوں ہوکر اسیر دابتے ہیں راہ زن کے پاﺅں اور ہزاررہ زنِ امیدوار میں ہے، کا سارا لطف ہی جاتا رہا۔ اب کہاں سے لاﺅں وہ نا واقفیت کے مزے؟

صبغے اینڈ سنز
سوداگران و ناشرانِ کتب کتابوں سے عشق کا یہ حال تھا کہ عین بوہنی اور بِکری کے اوقات میں مطالعے میں کمر کمر غرق رہتے۔ یہ کمر کمر کی قید اس لیے لگانا پری کہ ہم نے آج تک انہیں کوئی کتاب پوری پڑھتے نہےں دیکھا۔ مرزا اسی بات کو یوں کہتے تھے کہ بہت کم کتابیں ایسی ہیں جو اپنے کو ان سے پڑھواسکی ہےں۔ یہی نہیں، اپنے مطالعے کی تکنیک کے مطابق رومانوی اور جاسوسی ناولوں کو ہمیشہ اُلٹا یعنی آخر سے پڑھتے تاکہ ہیروئن کا حشر اور قاتل کا نام فوراً معلوم ہوجائے۔

چومکھی چال اور مصنف غریب کس شُمار قطار میں ہیں۔ اپنے ادبی قیاس و قیافے کا ذکر کرتے ہوئے ایک دن یہاں تک ڈینگ مارنگے لگے کہ میں آدمی کی چال سے بتا سکتا ہوں کہ وہ کس قسم کی کتابیں پڑھتا رہا ہے۔ اتفاق سے اُس وقت ایک بھرے بھرے پچھائے والی لڑکی دکان کے سامںی سے گزری۔ چینی قمیص اس کے بدن پر چست فقرے کی طرح کَسی ہوئی تھی۔ سر پر ایک ربن سلیقے سے اوڑھے ہوئے، جسے میں ہی کیا، کوئی بھی شریف آدمی، دوپٹہ نہیں کہہ سکتا۔ اس لیے کہ دوپٹہ کبھی اتنا بھلا معلوم نہیں ہوتا۔ تنگ موری اور تنگ تر گھیر کی شلوار۔ چال اگر چہ کڑی کا تیر نہ تھی، لیکن کہیں زیادہ مہلک۔ کمان کتنی بھی اتری ہوئی کیوں نہ ہو، تیر لا محالہ سیدھا ہی آئے گا۔ ٹھمک ٹھمک کر نہیں، لیکن وہ قتالہ ¿ عالم قدم آگے بڑھانے سے پہلے ایک دفعہ جسم کے درمیانی حصّے کو گھنٹے کے پنڈولم کی طرح دائیں بائیں یوں ہلاتی کہ بس چھُری سی چل جاتی۔ نتیجہ یہ متذکرہ حصّہ جسم نے کتنی مسافت جنوب سے شمال تک طے کی، اتنی ہی مشرق سے مغرب تک۔ مختصر یوں سمجھئے کہ ہر گام پر ایک قدمِ آدم صلیب + بناتی ہوئی آگے بڑھ رہی تھی۔
”اچھا بتاﺅ، اس کی چومکھی چال سے کیا ٹپکتا ہے’“ میں نے پوچھا۔
”اس کی چال سے تو بس اس کا چال چلن ٹپکے ہے۔“ مجھے آنکھ مار کر لہکتے ہوئے بولے۔
”پھر وہی بات! چال سے بتاﺅ، کیسی کتابیں پڑھتی ہے؟“ میں نے بھی پیچھا نہیں چھوڑا۔”پگلے ! یہ تو خود ایک کتاب ہے۔

کلامِ غالب
اختر شیرانی وصل کی فرمائش اس طور پر کرتا ہے کہ کوئی بچّہ ٹافی مانگ رہا ہے۔ ایک اور شاعر کے بارے میں کسی نے کہا کہ وہ تو زبان کے بادشاہ ہیں۔ بولے ٹھیک کہتے ہو زبان ان کے گھر کی لونڈی ہے اور وہ اس کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرتے ہیں!

خود پروفیسر موصوف نے ایک محفل میں ان کے سامنے غالب کا ایک مشہور شعر غلط پڑھا اور دہرے ہوکر داد وصول کی، سوالگ! میں نے کہا، اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ بولے، ” فرق کی ایک ہی رہی! میرن صاحب کا قصّہ بھول گئے؟ کسی نے ان کے سامنے غالب کا شعر پڑھ دیا۔ تیوریاں چڑھا کر بولے، میاں! یہ کوئی قرآن و حدیث ہے۔ جیسے چاہا، پڑھ دیا‘۔“

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *