سوشل میڈیا اکاؤنٹس

محمود شام

محمود شام

پاکستان کے ممتاز صحافی، شاعر، ادیب اور تجزیہ کار جناب محمود شام 5 فروری 1940

نظریات کی معدومی۔ ایک آفاقی منصوبہ

مجھے تو اس امر پر پورا یقین ہے آپ بھی میری یہ سطور پڑھنے کے بعد اسی نتیجے پر پہنچیں گے کہ پاکستان میں جو بھی سیاسی سماجی اور انتظامی طور پر ہو رہا ہے یہ پورے عالمی منظر نامے کا ایک حصہ ہے۔ آج آپ سے آفاقی صورتحال پر بات کرنا ہے مگر اس سے پہلے ایک ادبی علمی اور تدریسی صدمے پر کچھ سطور۔ ہمارے مہربان اور اردو زبان کے عاشق، انتہائی اہم تحقیقی دستاویز تخلیق کرنے والے ‘میرپور آزاد کشمیر میں خاموشی سے تحقیق و تالیف میں مصروف پروفیسر غازی علم الدین ماہنامہ اطراف سمیت اکثر علمی ادبی جرائد کو پرمغز مضامین سے مالا مال کرنے والے کینسر کا مقابلہ کرتے کرتے سات اپریل 2025کو اس دنیا سے اٹھ گئے۔ مشکلات کا سامنا کرتی ‘قومی زبان ہوتے ہوئے سرکاری اختیار سے محروم اردو زبان کیلئے ان کی تحریریں بہت ہی منفرد اور وقت کے تقاضے پورےکرتی تھیں۔ مرحوم تمام اہم درسگاہوں کی لائبریریوں کو، ادبی جرائد کو یہ قیمتی خزانے تحفے کے طور پرارسال کرتے۔ لسانی مطالعے ‘تخلیقی زاویے، لسانی زاویے، اردو کا مقدمہ، میزان انتقاد و فکر ان کی گراں قدر تصنیفات ہیں۔ اردو املا، اردو نام، ‘اردو تراکیب اور اصطلاحات پر ان کی تحریریں ان کی اردو سے لگن کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں۔ اللہ تعالی ان کے درجات بلند فرمائے۔ اسی روز کراچی میں خدمت خلق میں سالہا سال سے مصروف جناب شکیل دہلوی بھی مختصر سی علالت کے بعد اللہ تعالی کے حضور حاضر ہو گئے۔ عالمگیر ٹرسٹ جیسے معتبر ادارے سے ان کی غریبوں ناداروں کیلئے مہربانیاں کراچی کے ادبی صحافتی حلقوں میں سب کو معلوم ہیں۔ کسی بھی مستحق کیلئے ان سے رابطہ کیا جاتا مایوسی نہیں ہوتی تھی۔ بہت صاحب مطالعہ ‘اہل قلم سے، اخبار نویسوں سے مسلسل رابطہ ۔رمضان المبارک ‘عید الفطر، عید الاضحی اور دوسرے مواقع پر غریبوں کیلئے راشن، گوشت کیلئے کارڈ بھیج دیتے۔ گھریلو ملازمین ،ماسیاں وقت مقررہ پر پہنچ جاتیں۔ بہت مطمئن واپس آتیں۔ خدائے بزرگ و برتر انہیں جنت میں اعلیٰ مقام سے نوازے۔

اب آتے ہیںآج کے موضوع پر ’’دنیا نظریات سے خالی ہوتی جا رہی ہے‘‘ اس کے اسباب کیا ہیں یہ تو ہمارے فاضل محققین، پروفیسرز بتا سکتے ہیں۔ادبی کانفرنسیں لٹریری فیسٹیول سیمینار منعقد ہو رہے ہیں لیکن وہ کسی نظریاتی تحریک میں تبدیل نہیں ہو رہے۔

یہ تو فخریہ کہا جاتا ہے کہ اب کوئی بھی خبر سیکنڈوں میں ہزاروں میل کا سفر طے کر کے خبر کے متلاشی تک پہنچ جاتی ہے لیکن یہ کوئی نہیں تشویش کرتا کہ خبر صرف خبر نہیں ہوتی خبر جب وجود میں آتی ہے تو اس سے پہلے اسکے اسباب رونما ہوتے رہتے ہیں بعض خبروں کے پیچھے ایک طویل جدوجہد، قربانیاں، تحریکیں ،کئی کتابیں ہوتی ہیں۔ پھر خبر کے نشر ہونے کے بعد اس کے اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں جو اکثر اوقات برسوں تک چلتے رہتے ہیں۔ ہر خبر سے کئی نظریات کئی تحریکیں جڑی ہوتی ہیں انکو جاننا خبر کو پوری طرح جاننے کیلئے ضروری ہے۔ پرنٹ جب اپنے عروج پر تھا تو خبر سے پہلے اور خبر کے بعد کے واقعات، نتائج، اثرات سے اپنے اداریوں کالموں اور تجزیوں میں آگاہ رکھتا تھا۔ خبر کے متلاشی تک نا مکمل معلومات نہیں پہنچتی تھیں۔ وہ جو کہا گیا تھا کہ نیم حکیم خطرہ جان یا انگریزی میں

Little knowledge is a

dangerous thing

اب Little knowledge ہر قسم کے میڈیا پر غالب ہے کروڑوں جیتے جاگتے لوگوں پر حکمرانی کرنے والے بھی اسی ادنیٰ علم سے منصوبے بنا رہے ہیں۔ اپوزیشن سے نمٹ رہے ہیں غزہ کے معصوموں پر قیامتیں ڈھا رہے ہیں۔ سپر طاقت امریکہ کا صدر اسی کم علمی پر ٹیرف بڑھا رہا ہے۔ اس محدود علم نے دنیا کو نظریاتی تحریکوں سے خالی کر دیا ہے۔ جب نظریاتی اساس نہیں ہوتی ہے تو ریاست اپنے دست و بازو کی قوت سے اپنے باشندوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکتی ہے۔ منتخب حکمران ہوں یا غیر منتخب بادشاہ، فوجی آمروں کا طریقہ حکمرانی یہی ہوتا ہے ۔امریکی صدر کے پاس بھی کوئی نظریاتی روڈ میپ نہیں ہے۔ کچھ معلوم نہیں ہے کہ یہ دایاں بازو چلا رہے ہیں یا بایاں اور ان کا امریکہ کے بارے میں کیا مطمح نظر ہے۔ باقی دنیا کو وہ کس عینک سے دیکھتے ہیں۔ صرف اور صرف ایگزیکیوٹو آرڈر سے کام چلا رہے ہیں۔ منتخب حکمرانوں کے پاس صوابدیدی اختیارات ہوتے ہیں جن سے رائج الوقت قوانین کو آرام کرنے بھیج دیا جاتا ہے اور حکمران اپنی مرضی کے اختیار استعمال کر کے اپنے منظور نظر افراد کو نواز دیتے ہیں۔اس وقت دنیا میں جو بھی جتنی با اثر مسند پر بیٹھا ہے وہ اپنی زیر نگیں اقلیم میں اپنے جائز و ناجائز اختیارات سےنظریات رکھنے، ‘نظریاتی تحریک چلانے والوں کی نقل و حرکت محدود کر رہا ہے۔ سامراج اب بھی موجود ہے وہ اپنے گماشتوں کے ذریعے غیرعلانیہ میکارتھی ازم کو حرکت میں لا رہا ہے۔ ایک مخصوص مسلسل مہم کے ذریعے انسانوں کو نظریات سے بیزار کیا جا رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کمیونزم سوشلزم ناکارہ ہو چکا ہے جمہوریت انتشار پیدا کرتی ہے ریاست کو نرم نہیں سخت ہونا چاہیے نئی سوچیں فتنہ بردار ہیں۔ اپنا ذہن استعمال کرنے والوں کو انتشاری کہا جاتا ہے طاقت اور سرمایہ ہی اس وقت پوری دنیا میں اصل اثاثے ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات کی بنیاد صرف اور صرف معیشت پر ہے انسانی فلاح پر نہیں۔ روس نے سوویت یونین کے انہدام کے بعد اپنی داخلی کمزوریوں اور انتشار کو ختم کرنےکیلئے ایک طاقتور حکمران کا تصور ہی تیر بہدف علاج سمجھا لیکن اب عمر ڈھل رہی ہے تو مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔ چین نے ایک پٹی ایک شاہراہ کےتصور کو فروغ دیا ہے اس سے حلقہ اثر تو پیدا ہو رہا ہے لیکن کسی نظرئیے کو تقویت نہیں مل رہی۔نظریات انسانیت کو دوام دیتے ہیں۔ ایک فکری تسلسل بخشتے ہیں اور زندگی کے تمام شعبوں کو ایک تناظر عطا کرتے ہیں۔ انسان کا ہر اقدام ایک سیاق و سباق میں ہوتا ہے۔ آج کل کے سوشل میڈیا میں آپ کے ویورز تو لاکھوں میں ہوتے ہیں لیکن اگر آپ کسی مشکل میں پھنس جائیں تو عملی ساتھ دینے والے بہت کم۔ ایک ویو سوشل میڈیا میں تین سیکنڈ کا بھی گنا جا رہا ہے۔

ٹک دیکھ لیا دلشاد کیا اور چل نکلے

دلشاد ہو رہے ہیں اور دیکھنے والے چل نکل رہے ہیں۔ کوئی ٹھہر نہیں رہا ہے۔ شوبز کا دور ہے صرف چہرے کی فکر ہے پورے جسم کا درد نہیں ہے۔ معدوم ہوتے جانوروں کے تحفظ اور تسلسل کیلئے تو دنیا بھر میں بہت ادارے اور تنظیمیں ہیں لیکن معدوم ہوتی انسانی اقدار اور تہذیب کے تحفظ اور تسلسل کیلئے فنڈز نہیں ہیں بلکہ غیر علانیہ طور پر انسانی اقدار کو ختم کرنے کیلئے اربوں ڈالر خرچ کیے جا رہے ہیں مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کی صورتحال اسکا حقیقی مظہر ہے۔ضرورت تو Farewell to arms کی ہے مگر عمل Farewell to ideas پر ہو رہا ہے طاقت کے مراکز تخلیقی ارتقا اور نظریات کو معدوم کر رہے ہیں۔ پرنٹ اکیلا معدوم نہیں ہو رہا اس کیساتھ نظریات، جدوجہد اور تمدن بھی معدوم ہو رہے ہیں آپ کا کیا خیال ہے؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *