ٹرمپ کی تاریخی واپسی
عاصم متین خان
دنیا بھر کی طرح بڑھتا ھوا نسلی امتیاز، نفرت اور تعصب کا عفریت ایک بار پھر بھرپور آئینی و جمہوری و قانونی راستے سے امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کی تاریخی انتخابی فتح کی شکل میں اپنی جگہ بنا چکا ھے۔ عمر رسیدہ ڈیموکریٹک صدر جو بائیڈن کی ہٹ دھرمی اور غیر پسندیدہ پالیسیز نے نائب صدر کمالہ ہیرس کو ٹرمپ کے ہاتھوں شکست سے دو چار کر کے یہ بھی ثابت کر دیا کہ روشن خیال امریکہ 2024 میں بھی امریکہ میں پیدا ھونے والی، مگر ماں کی طرف سے بھارتی نژاد اور باپ کی طرف سے سیاہ فام خاتون کی حکمرانی کو قبول کرنے کے لئے ابھی بھی تیار نہیں۔اگرچہ ابھی تک کمالہ ھیرس نے اپنی شکست کو روائتی امریکی انداز میں قبول نہیں کیا تاھم انتخابی نتائج کے آنے کے بعد امریکی رائے عامہ نےڈونلڈ ٹرمپ کو امریکہ کا سینتالیسواں صدر تسلیم کر لیاھے۔
جیسا کے امید تھی،پولنگ ختم ھونے کے چند گھنٹوں کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے کمالہ ھیرس کی جانب سے شکست تسلیم کرنے سے قبل ھی اپنی فتح کا اعلان کر دیا۔ اور وہ غلط بھی نہیں تھے۔ اب ڈونلڈ ٹرمپ کو وائٹ ہاؤس پہنچنے سے امریکی آئین بھی نہیں روک سکتا۔
غیر قانونی امیگریشن میں بد ترین اضافے، افراط زر سے پریشان امریکی صارف، غزہ میں معصوم انسانی جانوں کے نقصان پر بائیڈن انتظامیہ کی لفظی مذمت، مشرق وسطیٰ میں پھیلتی ھوئ جنگ، دیگر ممالک میں بڑھتے ھوئے جنگ وجدل سے نالاں، امریکہ کی دنیا بھر میں بڑھتی ھوئ عدم مقبولیت سے مایوس، عالمی منظر نامے میں امریکہ کا گھٹتا ھوا کردار، یوکرین میں روس کی جاری جارحیت اور عالمی معاشی سیکٹر میں چین کا خاموشی سے اپنے قدم جمانے کے باعث امریکی عوام نے اپنا مینڈیٹ اگلے چار سال کے لئے ڈونلڈ ٹرمپ کو دے دیا اور اب یہ وقت ثابت کرے گا کہ امریکہ عوام کا یہ فیصلہ امریکہ میں بہتر جمہوری ترقی یافتہ معاشرہ قائم کرتا ھے یا نسلی منافرت مذھبی تنگ نظری اور معاشی بحرانوں کا نیا سلسلہ۔
بائیڈن کی ہٹ دھرمی اور صدارتی ریس سے بہت دیر میں باہر نکلنے کے بعد کمالہ ہیرس کو بہت کم وقت ملا جس میں وہ امریکی عوام کا اعتماد حاصل نہ کر سکیں۔ وہ امریکی عوام کو یہ بھی باور نہ کرا سکیں کہ ان کی پالیسیز صدر بائیڈن سے کچھ مختلف ہوں گے۔امریکی عوام کو یہ جاننے میں مشکل ہوئی کہ کمالہ ہیرس کا داخلی و خارجہ پالیسی پر کیا نقطہ نظر ہے۔ اس کے مقابلے میں ڈونلڈ ٹرمپ نے بہت منظم campaign چلائ اور تمام اہم امریکی ریاستوں کا دورہ کر کے عوام کو اپنی حمایت کرنے پر مجبور کر دیا۔ سفید فام امریکیوں کی اکثریت نے ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ دیا۔ یہودیوں نے اور بھارت کے تارکین وطن نے بھی ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ دیا۔ تاہم سیاہ فام اقلیت نے کمالا ھیرس کو ووٹ دیئے۔ حیرت انگیز طور پر مشی گن کے مسلمان بھی ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت کے لیے کھڑے ہو گئے۔پاکستانی تارکین وطن بھی ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت کرتے ہوئے نظر آئے۔ ان میں سے اکثر کو یہ امید ہے کہ 20 جنوری کے بعد ٹرمپ انتظامیہ پاکستان پر عمران خان کی رہائی کے لیے شاید دباؤ ڈالے گی انتخابات سے چند روز قبل 62 کے قریب ارکان کانگریس نے امریکی صدر کو عمران خان کی بابت خط لکھا تھا۔ یہ ممکن ھے کہ یہ خط صرف جیتنے کے لئے پاکستانیوں کی حمائت حاصل کرنے کی ایک انتخابی حکمت عملی ھی ھو۔ کچھ مسلمانوں نے امریکی انتخابات میں اس لئے ووٹ نہیں دیا کیونکہ انہیں غزہ پر امریکی انتظامیہ کے رویے پر سخت غصہ ھے۔ امریکی نوجوانوں کی اکثریت نے بھی بائیڈن انتظامیہ کے برخلاف ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنا ووٹ دیا۔
بائیڈن اور کمالہ ھیرس نے غزہ سمیت دیگر داخلی و خارجہ معاملات پر عوامی رائے کا احترام نہیں کیا۔امریکی عوام کا غم و غصہ ڈیموکریٹک امیدوار کمالا ہیرس کی شکست کی صورت میں سامنے آیا ھے۔ڈونلڈ ٹرمپ نے کل رات اپنی تقریر میں اس بات کا اعادہ کیا کہ وہ امریکہ کو ترقی کے نئے مدارج پر پہنچا دیں گے۔ یہ ممکن ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنے سابقہ دور حکومت کے مقابلے میں مختلف انداز میں حکومت کر کے اپنا ایک نیا تاثر قائم کرنے کی کوشش کریں۔ اب 20 جنوری کو ڈونلڈ ٹرمپ مسند صدارت پر براجمان ہوں گے اور ان کو اپنی من مانی کرنے کے لیے سینٹ اور کانگریس دونوں میں ریپبلکن پارٹی کی اکثریت کی حمائت حاصل ھو گی !!!







- آسان زندگی جنوبی ایشیا کا بھی حق ہے - April 6, 2025
- ہلال عید کی جھلک.. کئی سبق - April 3, 2025
- ’’اکثریت مسلم ملکوں میں ہی بے نوا کیوں‘‘ - March 30, 2025