سوشل میڈیا اکاؤنٹس

محمود شام

محمود شام

پاکستان کے ممتاز صحافی، شاعر، ادیب اور تجزیہ کار جناب محمود شام 5 فروری 1940

پانچ صبحیں شامیں کتابوں کے درمیان

آج کتنا خوش قسمت دن ہے۔آج کتنے پہر کتابوں کی خوشبو کے درمیان گزریں گے۔

کتاب کے عشق میں مبتلا کراچی کے گلی کوچوں سے بچوں کے، بزرگوں کے، حجاب میں لپٹی حرمتوں کے ساتھ ایکسپو سینٹر حسن اسکوائر پہنچیں گے۔

نظریں کتاب سے وصل کیلئے بے تاب ہیں، بیٹیوں نے پرچیوں پر کتابوں کے نام لکھ لیے ہیں۔ جن کی جستجو سال بھر انہیں مضطرب کیے رہی ہے، ذہن ان کتابوں کے حوالے سے الجھا رہا ہے۔

کتنے ادارے گرمیوں سے ان سردیوں کیلئے تیاری کر رہے تھے۔ کتاب میلہ میں کتاب کراچی، حب، لسبیلہ، حیدر آباد، میرپور خاص، نواب شاہ، لاڑکانہ، سکھر، گھوٹکی، دادو، رحیم یار خان، جیکب آباد، ٹنڈو الہ یار، ٹنڈو جام والوں کے دل لوٹنے آ رہی ہے۔

کتنے بچے بچیاں سال بھر اپنے جیب خرچ سے پیسے بچا بچا کر رکھتے ہیں۔ اپنی عیدی سنبھالتے ہیں کہ دسمبر میں ہال نمبر2 میں جائیں گے۔ اشتیاق احمد کے ناول خریدیں گے، ہمدرد نونہال لیں گے، بچوں کا کتاب گھر، ادبیات اطفال، آکسفورڈ، لبرٹی، پیرا مائونٹ، بک کارنر جہلم، ویلکم، فضلی، دار السلام، اٹلانٹس، انجمن ترقی اردو سب میں جھانکیں گے۔ زوار اکیڈمی ہمارا انتظار کررہی ہے۔ سندھی، پنجابی، سرائیکی، بلوچی، پشتو، بلتی زبانیں ہماری راہ تک رہی ہیں۔ یہاں اُردو کتابیں سب سے زیادہ بکتی ہیں، پھر انگریزی، پھر فارسی، عربی پرانی کتابوں کے اسٹالوں پر بھی رش رہتا ہے۔آج لاکھوں کتابیں اپنے اپنے گھر کی ہو جائیں گی۔ وہ سب بن سنور رہی ہیں، ان کی رخصتی ہونی ہے۔ آج ایک ایک اسٹال سے ایک ایک ہال سے آواز آئے گی۔ ’’کہاں ہیں جو کہتے ہیں، اب کوئی کتابیں نہیں پڑھتا‘‘۔’’کہاں ہیں جو سال بھر نعرہ لگاتے ہیں کتاب مرگئی ہے۔‘‘

سب آئیں گے۔ اپنے اسمارٹ فونوں کے ساتھ، بہت سوں نے اپنے پسندیدہ مصنّفوں کے نام، ان کی نئی کتابوں کے ٹائٹل اپنے اپنے موبائل میں محفوظ کر رکھے ہیں۔ آج نیٹ اور کتاب میں لڑائی نہیں، اتصال ہو گا۔ آج حرف مطبوعہ اور برقی آلات کا سنگم ہو گا۔ یہ تو دونوں ایک دوسرے سے ملحق ہیں۔ حرف کے دشمن انہیں آپس میں لڑواتے ہیں۔ جس طرح واہگہ سے گوادر تک رہنے والے مختلف زبانیں بولنے والے، مختلف نسلی سلسلوں سے تعلق رکھنے والے تو ایک دوسرے پر جان نثار کرنے پر آمادہ رہتے ہیں۔ لیکن بعض حلقے اپنا جبر، اختیار، اقتدار، بر قرار رکھنے کیلئے پنجابی کو سندھی سے، سندھی کو مہاجر سے، بلوچ کو پشتون سے، بلتی کو کشمیری سے بد ظن کرتے رہتے ہیں۔ کبھی لبرل کا قدامت پرست سے، ایک مسلک کا دوسرے مسلک سے جھگڑا کرواتے ہیں۔ یہ انگریز سامراجیوں کے گماشتے ہیں۔ ان کے قبضے نو آبادیوں پر انہی سازشوں کے تحت جاری رہے۔ جب انہوں نے لڑنے سے باہمی مناقشوں سے دور رہنے کا اعلان کیا۔ تو انہیں مجبوراً اپنے قبضے ختم کرنا پڑے۔

اب دمشق ہمیں بلارہا ہے۔ ایک جابر، غاصب خاندان کے تسلط کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ یہ خاندان یہ ادارے اپنے تحفظ کو ملک کا تحفظ قرار دیتے تھے۔ ملک شام میں اہل تسلط کا دور اپنے انجام کو پہنچا۔ دیکھنا یہ ہے کہ اہل تدبر کو اختیار ملتا ہے یا نہیں۔ جیلوں کے پھاٹک کھل گئے ہیں۔ کئی کئی عشروں کے قیدی رہا ہو رہے ہیں۔ ابھی کچھ خبر نہیں۔ شام میں اس انقلاب کا فائدہ بالآخر کس کو ہوگا۔

کتاب میلے میں انقلاب شام سے متعلق کتابوں کی جستجو رہے گی۔ لوگ جاننا چاہیں گے کہ علویوں کو اقتدار کب ملا۔ علویوں نے شامیوں کیلئے کچھ کیا یا نہیں۔ شام اسلام کا ماضی بھی ہے اور مستقبل بھی۔ مسجد اموی دمشق میں ہی ہے۔ کتنی صدیاں دیکھ چکی ہے۔ کتنی صدیاں دیکھے گی۔ یہ شہر، یہ بستیاں جہاں تاریخ زیادہ قیام کرتی ہے۔ وہاں خانہ جنگیاں مقدر کیوں بن جاتی ہیں۔ وہاں خلق خدا کے نصیب میں چین سکوں کیوں نہیں ہوتا۔ کتنے لاکھوں شامی اپنے گھر بار چھوڑ کے آس پاس کے اور دور دراز ملکوں میں اپنے اپنے مسلک، اپنے تمدن، اپنی تہذیب کے ساتھ جانے پر مجبور ہیں۔ شامی خاندان جرمنی میں آباد ہوئے، کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈیو نے ان کیلئے اپنے ملک کے در کھول دیے۔ شام میں لوگ آپس میں کیوں لڑتے رہے،خون کیوں بہتا رہا۔ کتاب میلہ یہ گتھیاں بھی سلجھائے گا۔ کتاب ہی انسان کی رہنمائی کرتی ہے۔

یہ پانچ دن صبح سے شام تک ثابت کرتے ہیں کہ انسان حرف و دانش سے دور نہیں ہوا ۔ ہاں حکمرانوں کا خود سے رشتہ یقیناً کٹ چکا ہے۔ وہ اقبال کے اس شعر پر اپنی سوچ کے مطابق عمل کرتے ہیں۔

اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل

لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے

ہمارے آج کے حکمران طبقے۔ سیاسی غیر سیاسی اقبال کے کہنے پر کبھی کبھی نہیں۔ ہمیشہ عمل کرتے ہیں عقل کو ہمیشہ تنہا چھوڑ دیتے ہیں۔ ان کتاب میلوں کی ایک خصوصیت یہ بھی ہوتی ہے کہ حاکمان وقت میں سے حکمران پارٹیوں کے رہنما، کارکن عہدیدار کتابیں ڈھونڈتے، دیکھتے ،خریدتے نظر نہیں آتے۔ ان کے پارٹی سربراہ انہیں کبھی ایسی نصیحت بھی نہیں کرتے۔ حالانکہ جہاں روزانہ لاکھوں پڑھے لکھے آتے ہوں وہاں تو قیادت کے ان دعویداروں کو آنا چاہئے۔ البتہ مجھے قائد تحریک جناب الطاف حسین یاد آتے ہیں۔ وہ اس میلے کے موقع پر ایک بیان بھی جاری کرتے تھے۔ ان کی ہدایت پر فاروق ستار اپنے وفد کے ساتھ تمام اسٹالوں کا دورہ بھی کرتے تھے۔ اب تو خالد مقبول صدیقی وزیر تعلیم بھی ہیں۔ میلہ یہ ان کے قلمدان سے بھی متعلق ہے۔ دیکھیں وہ وقت نکالتے ہیں یا نہیں۔

ایک اور اہم مشاہدہ یہ ہے کہ دینی مدارس کے طلبہ اپنے اساتذہ کے ساتھ پانچوں دن آتے ہیں۔ کتابیں خریدتے بھی ہیں۔ دینی موضوعات پر کتابیں بہت بکتی ہیں۔ ان کی طباعت، زیبائش معیاری ہوتی ہے۔ سب سے زیادہ ان کتابوں کی مانگ ہوتی ہے۔ جن میں معلومات آج کی زبان میں ڈیٹا ہو اور وہ مستند بھی ہو۔ پاکستان بھر سے تعلق رہنے والی مائیں شیر خوار بچے گود میں لیے، بچہ گاڑیاں دھکیلتے ایک ایک اسٹال پر آتی ہیں۔ چند اصحاب، ایسے بھی یاد آتے ہیں، جو پہیہ لگی بڑی خالی ٹوکریاں لے کر آتے ہیں، بھر کر لے جاتے ہیں۔اگر آپ ایمانداری سے غور کریں تو یہ ملک ان کتاب خوانوں، دانش پرستوں کے دم سے ہی قائم ہے۔ ورنہ ہمارے جاگیر داروں، سرمایہ داروں، سرداروں اور انکے سرپرست طاقت وروں نے تو اسے جنگل بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ہر سال حکمرانوں سے یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ کاغذ کے کارخانے لگائو۔ کاغذ پر ڈیوٹی کم کردو تاکہ کتابیں زیادہ مہنگی نہ ہوں۔77سال سے ٹیکسٹائل ملیں لگ رہی ہیں۔ دوائوں کی فیکٹریاں قائم ہو رہی ہیں۔ اب تو اخبار کی مانگ کم ہورہی ہے۔ جب پورے شباب پر تھی تب بھی کاغذ کے کارخانے نہیں لگے۔ مشرقی پاکستان والے جمہوریت، مزاحمت اور کاغذ کا کارخانہ بھی ساتھ لے گئے۔

آج اللّٰہ تعالیٰ کے حضور سجدۂ شکر بجا لانے کا دن ہے کہ کراچی ایکسپو سینٹر میں کتاب میلہ آج سے پانچ دن پوری دنیا کو پاکستان اور بالخصوص کراچی کا ایک چمکتا دمکتا کتابی چہرہ دکھائے گا۔ شدت پسندی۔ ریاستی جبر کا نہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *