سوشل میڈیا اکاؤنٹس

محمود شام

محمود شام

پاکستان کے ممتاز صحافی، شاعر، ادیب اور تجزیہ کار جناب محمود شام 5 فروری 1940

کاش کہ تم مرے لیے ہوتے

مری قسمت میں غم گر اتنا تھا
دل بھی یارب کئی دیے ہوتے

غالب کا یہ شعر ہم اکثر دہراتے ہیں۔ اپنی طرف سے مسئلے کا حل بھی بتاتے ہیں۔ جمہوری نظام صدارتی ہو یا پارلیمانی۔ وہ مشاورت کے ذریعے کئی دلوں کو یکجا کرتے ہیں۔ خوشیاں مل جل کر بانٹنا، غم مل جل کر سہنا۔ اس سے جبر اور قہر کی سختی نرم ہو جاتی ہے۔ غالب نے یہ بھی کہا:

قہر ہو یا بلا ہو جو کچھ ہو

کاش کہ تم مرے لیے ہوتے

آج کاش کہ تم مرے لیے ہوتے پر بات ہو گی کہ قہر، بلا، بے رخی، نا انصافی سب قابل قبول مگر کوئی ہمارا تو ہو۔ جفا اور وفا دونوں ہی عشق کا لازمی حصہ ہیں۔ لوگ مہنگائی، بے روزگاری، غربت، حوالات، جیل سب کچھ برداشت کر لیتے ہیں۔ اگر انہیں یقین ہو کہ اوپر والے اپنے ہیں۔ وہ کوشش تو کر رہے ہیں معیشت کو پٹڑی پر لانے کی، عظمتِ رفتہ واپس لانے کی۔ جب خلق خدا یہ مانتی ہو کہ ’اولی الامر‘ ہم میں سے ہی ہیں۔ ہم نے ہی انہیں منتخب کیا ہے۔ یہ فرماں روا اپنے طور پر منصوبہ سازی تو کر رہے ہیں۔ یہ اعتماد ہو کہ یہ ساری پالیسیاں مخلصانہ ہیں۔ ان کے نتیجے میں یقیناً پھول کھلیں گے، کونپلیں پھوٹیں گی، بلبلیں گیت گائیں گی، کوئلیں ملہار چھیڑیں گی۔ مگر جب انہیں ہر طرف سے یہ آوازیں آ رہی ہوں کہ یہ حکمراں چند روز کیلئے ہیں انہیں صرف اپنے داغ دھونے سے دلچسپی ہے۔ آئین میں ترامیم اس لیے کہ سب ادارے قانوناً اور دستوراً ان کی مٹھی میں آ جائیں۔ اور قانون اس لیے تبدیل کیے جاتے ہوں کہ سارے کلیدی عہدوں والے حکمرانوں کے درباری بن جائیں۔ سب ایک دوسرے کی تعریفیں کر رہے ہوں۔ بھول جائیں کہ 24کروڑ عوام بھی ان کی اقلیم میں سانس لے رہے ہیں۔ اکثریت کی زندگی آرام سے نہیں گزر رہی ہے۔ ان کیلئے کہیں کسی ادارے سے خیر کی خبر نہیں آتی۔ حاکم محکوم کو اپنا نہیں سمجھتا، اس کے بیانات میں غیریت در آتی ہے۔ محکوم حاکم کو اپنا خیال نہیں کرتے، ان میں غیرت آتی جاتی ہے۔ ’’غیریت‘‘ اور ’’ غیرت‘‘ کا یہ مقابلہ واہگہ سے گوادر تک اجنبیت کی فصلیں کاشت کر دیتا ہے۔ پہلے زندگی با عزت گزارنے کیلئے صرف قابلیت کافی تھی۔ اس سے ہی فرد مقبولیت حاصل کرتا تھا۔ مگر اب 1985 کے بعد صرف قابلیت اور مقبولیت کافی نہیں رہی۔ اب ’قبولیت‘ ان دونوں پر غالب آگئی ہے۔

ایسے میں اب ایک طرف اکثریت ہے۔ جس کی آمدنی کم ہوتی جا رہی ہے۔ کیونکہ وہ بچے بھی زیادہ پیدا کرتی ہے۔ عام گھریلو نوکروں، گلی کے چوکیداروں، کلرکوں، ہاریوں کے آٹھ سے گیارہ بچے بچیاں ضرور ہیں۔ بہت زیادہ ضروری اخراجات سے انکی آمدنی بہت نیچے رہ گئی ہے۔ اشیائے ضروریہ انکی پہنچ سے اونچی ہیں۔ عدالتیں انکے تنازعات طے کروانے میں عمریں لگا دیتی ہیں۔ پولیس والے انہیں انسان نہیں سمجھتے۔ میڈیا ان کی دشواریوں کو خبر خیال نہیں کرتا۔ ان کے کئی بچے، گود میں ہی مر جاتے ہیں۔ چائلڈ لیبر کا تصور ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ جن محرومیوں میں معاشرے اور ریاست کو ان کا ہاتھ بٹانا چاہئے۔ وہ سہولیت میسر نہیں ہے۔ وہ اپنے بچوں کی تعداد کو ہی اپنا سہارا قرار دیتی ہے۔ اس لیے ’’پالولیشن کنٹرول‘‘ کو بھی وہ ریاست کا جبر جان کر اسکی مزاحمت کرتی ہے۔ اچھی ضروری خوراک نہ ملنے سے ان میں بیماریاں بھی زیادہ پھیلتی ہیں۔ ریاست کی طرف سے مفت معیاری علاج معالجے کی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ منشیات کے سوداگر اپنی پڑیاں لے کر انہیں اکثریتی بستیوں میں جاتے ہیں، فلائی اوورز کے نیچے، ویرانوں، قبرستانوں میں اسی اکثریت کے نوجوان غم دوراں کا مقابلہ کرنے کیلئے سر جوڑ کر دھواں پیدا کرتے ہیں۔ اس اکثریت کو سالہا سال بعد اپنا وجود منوانے کا موقع ملتا ہے تو اسے فارم 47سے مسترد کردیا جاتا ہے۔

اس بہت بڑی اکثریت کی ساری امیدوں، امنگوں، خوابوں کو چند سو خاندانوں پر مشتمل اقلیت نے کچرا کنڈی میں ڈال دیا ہے۔ بڑے بڑے سخت گیر پہریدار ان کچرا کنڈیوں پر کھڑے کر دیئے گئے ہیں۔ جو نوجوانوں کو یہ خواب اور امنگیں واپس لے جانے نہیں دیتے۔ آفات ناگہانی، ڈیزاسٹر، موسمیاتی تبدیلیاں، متعدی کووڈ بھی سب اسی اکثریت کا مقدر ہیں۔ قہر، بلائیں بھی اکثریت کو ہی اپنا نشانہ بناتی ہیں۔

المیوں، سقوطوں، آمریتوں کے جبروں، جاگیرداروں، سرداروں، سیٹھوں کے ستم سہنے والے یہ کروڑوں۔ چند سال مہربانی کے بھی چاہتے ہیں۔ ان کی تمنا ہے کہ اس مملکت کی عظمت رفتہ واپس آئے۔ چند خاندانوں کیلئے نہیں عشرت رفتہ سب کیلئے بحال ہو۔ تاریخ صرف کٹھو، شقی القلب بن کر اپنے آپ کو نہ دہرائے۔ وہ کبھی انساں دوست بھی بن جائے۔ کبھی ان سر زمینوں کی پیداوار فی ایکڑ بھی بڑھا دے۔ یہاں اتنی فیکٹریاں لگا دے کہ ان میں ہمارے نوجوان ملکی برآمدات بڑھارہے ہوں۔ حکمرانوں کے بیانات میں دھمکیاں نہیں تھپکیاں ہوں۔ وزرا کی پریس کانفرنسوں میں گھرکیاں نہیں، بشارتیں ہوں۔ ریاست کو ماں جیسی کہا جاتا ہے پھر سارے حاکموں، ججوں، ارکان اسمبلی کے رویوں میں شفقت اور مامتا کیوں نہ ہو۔ دلوں کو خطرات اور خدشات سے نہیں مہر و محبت سے بھرنا چاہئے۔ ’’جو دل میں بس رہا ہے حکومت اسی کی ہے‘‘۔ للکارا تو دشمن کو جاتا ہے۔ اپنوں کو تو چمکارا جاتا ہے۔ آپ کہتے ہیں مہنگائی کم ہو رہی ہے، یہ بھی دیکھیں عمریں اس سے زیادہ تیزی سے کم ہو رہی ہیں، حوصلے ماند پڑ رہے ہیں۔ ریاست ان دونوں میں تناسب کی شرح تو کبھی ملاحظہ کر لے۔ اسٹاک ایکسچینج میں اگر تیزی آتی ہے تو مال غنیمت صرف ارب پتیوں میں بٹتا ہے۔ اس کی ہوا بھی ایکسچینج کے ملازمین تک نہیں پہنچتی۔ عوام تک کہاں جا سکتی ہے۔ حکمراں اقلیت کچھ دن تو بڑھکوں، دھمکیوں، للکاروں کی بجائے مہربانیوں، نویدوں، اپنائیت میں گزار کر دیکھے۔ واہگہ سے گوادر تک زخموں پر مرہم رکھیں۔ پاکستان کے عوام با شعور ہیں، سخت جاں ہیں، وطن ٹوٹے دیکھ چکے ہیں۔ وزرائے اعظم کی شہادتیں دیکھ چکے ہیں۔ سندھ بلوچستان والے اپنے محبوب لیڈروں کو تختۂ دار پر دیکھنے کا صدمہ برداشت کر چکے ہیں۔ زلزلے، سیلاب، طوفان اور خوفناک مہنگائی کا سامنا کرچکے ہیں۔ وہ سب کچھ یاد رکھتے ہیں لیکن آگے بڑھنے کی خاطر وہ ان صدموں سے صرف نظر کر لیتے ہیں۔ وزیر اعظم اسلام آباد، لاہور اور غیر ملکی دوروں کی بجائے گوادر سے محبت کا پرچار شروع کر کے تربت، مکران، کوئٹہ، جیکب آباد، سکھر، رحیم یار خان، ملتان، پنڈی، اٹک، صوابی، پشاور میں اپنے محکوموں نہیں ہم وطنوں سے دل کی باتیں کریں۔ پھر سارے پاکستانی کہہ اٹھیں کہ اسلام آباد والے ہمارے لیے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *