سوشل میڈیا اکاؤنٹس

محمود شام

محمود شام

پاکستان کے ممتاز صحافی، شاعر، ادیب اور تجزیہ کار جناب محمود شام 5 فروری 1940

کتابوں کے ساتھ گزرے پانچ سنہرے دن

ان پانچ سنہرے دنوں میں میری ریاست کہاں تھی۔؟’’عوام بڑی تعداد میں تھے مگر عوام کو طاقت کا سرچشمہ کہنے والے کہاں تھے‘‘۔’’لاکھوں صارف تھے۔ مگر صنعت کار، تاجر بزنس مین کہاں تھے‘‘۔’’کہانیاں تھیں کلائمیکس تھے،موڑ تھے، مگر اداکار کہاں تھے‘‘۔

ہر سال کی طرح کراچی کے قلب میں لاکھوں کتابیں ایک چھت تلے جمع تھیں۔ میں ان خوش نصیبوں میں ہوں۔ جنہوں نے مذہب، روحانیات، تاریخ، جغرافیے، منطق، نفسیات، شاعری، افسانوں، ناولوں کو 13 دسمبر کی رات ایکسپو سینٹر کے ہالوں میں آکر اپنی اپنی نشست سنبھالتے بھی دیکھا۔ پھر 18-17-16-15-14 کو بزرگوں، نوجوانوں، مائوں، بہنوں، بچوں، بچیوں کے ساتھ انکو گھروں کو خراماں خراماں جاتے بھی مشاہدہ کیا۔ بعض خاص خواتین و حضرات وہیل چیئرز پر کتابوں کے تھیلے اپنی گود میں بڑے پیار سے لے جارہے تھے۔ ایک معمر پروفیسر اپنے ساتھ ایک پہئے لگی بڑی ٹوکری اور ایک خادم بھی ساتھ لائے۔ وہ سال بھر کا ذہنی راشن جمع کرکے لے جارہے تھے۔ بعض سفید پوش پیرانہ سالی میں اپنے دونوں ہاتھوں میں ادب، تاریخ، فلسفہ لے کر بڑی مشکل سے چل رہے تھے۔ پھر جدائی کی گھڑی بھی مجھے دیکھنے کو ملی۔ پلک جھپکتے اسٹال کارٹنوں میں منتقل ہورہے تھے۔ میزیں دہری اکہری ہورہی تھیں۔ کام کرنے والوں کا شور تھا۔ جو بیٹیاں رخصت نہ ہوسکیں، جن بیٹوں کا سہرا نہ بندھ سکا، ان کی اُداسی دیکھی نہیں جاتی تھی۔ ہالوں کی بتیاں بجھ رہی تھیں، علم و فضل کی روشنیاں ڈبوں میں بند ہورہی تھیں ۔یہ پانچ دن کتنے سنہرے تھے،نہ جانے کتنے پیاروں، کتنے ہم عصروں، کتنے عاشقان کتاب سے ملاقاتیں ہوئیں۔حرف کے کتنے دیوانے، مفہوم کے کتنے دلدار آئے۔ میرے عام ہم وطن لاکھوں روپے سال بھر کتابوں کیلئے بچاکر رکھنے والے بھی۔ غریب علاقوں کے اسکولوں کے بچے بچیاں۔ جنہیں ان کے والدین کتاب کی خریداری کیلئے کچھ پیسے دے کر بھیجتے ہیں۔ وہ اسکول نظر نہیں آئےجن کے نام بہت بڑے ہیں۔ جن کی شاخیں ملک بھر میں ہیں۔ جو ہر ماہ اربوں روپے کمارہے ہیں۔ جو محکمہ تعلیم کو بھی اپنے دبائو میں رکھتے ہیں۔

مجھے تو ان پانچ دنوں میں بڑی توانائی ملی۔ اللہ تعالیٰ نے توفیق دی کہ اپنے اسٹال پر کئی کئی گھنٹے کھڑے بھی رہے۔ نوجوان بلوچستان خضدار کے، پشین کے، سندھ لاڑکانہ کے ،جیکب آباد کے ،حیدر آباد کے، کہتے تھے آپ کا کالم پڑھتے ہیں۔ زیادہ تر اتوار کا روزنامہ ’جنگ‘ لیتے ہیں۔ وہ میرا یہ جملہ دہراتے رہے۔ ’آج اتوار ہے، اپنے بیٹوں بیٹیوں ،پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں، بہوئوں دامادوں کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھانے اور ان کے سوالات کے جوابات دینے کا دن‘‘۔ ان میں وہ صاحب بھی تھے۔ جن کے مشورے پر ہم نے اس میں ’’بہوئوں۔ دامادوں‘‘ کے الفاظ کا اضافہ بھی کیا۔ اس سے یہ حوصلہ بھی بڑھا کہ اکثریت اب بھی اخبار پڑھ رہی ہے۔ کراچی کے لیاری کے ایک اسکول کے نویں جماعت کے طالب علم کو پاکستان کی سیاست کا احاطہ کرتی مگر غیر جانبدارکتاب درکار تھی۔اس کے ایک ہم جماعت کو ایسی کتاب اُردو میں چاہئے تھی جو پاکستان کے آئین کو آسان زبان میں سمجھائے۔ نو عمر پوچھ رہے تھے، حقیقی آزادی پر کوئی کتاب؟ یہ ہجوم،یہ رونقیں، چیخ چیخ کر کہہ رہی تھیں کہ پاکستانیوں کا ذہنی معیار بہت بلند ہے، سیاسی شعور بھرپور ہے،یہاں سندھ اور بلوچستان سے ہر عمر کے، ہر آمدنی گروپ کے، ہر زبان بولنے والے ہزاروں کی تعداد میں موجود تھے۔ انہیں اگر اپنی رائے کے منصفانہ، آزادانہ اظہارکا موقع ملے گا تو وہ پاکستان کے مستقبل کیلئے بہت صائب فیصلہ کریں گے۔

پانچوں دن مجھے ریاست اور ریاست کے کارپردازان کہیں نظر نہ آئے۔ جماعت اسلامی کے حافظ نعیم الرحمن ، معراج الہدیٰ صدیقی آئے۔ایم کیو ایم کی نسرین جلیل، سردار احمد بھی اپنے کارکنوں کے ساتھ آئے۔ مہاجر قومی موومنٹ کے آفاق احمد نے پورا ایک وفد بھیجا۔ انجمن سپاہ صحابہ اب اہل سنت و الجماعت کے مولانا اورنگزیب فاروقی کا وفد بہت بڑا تھا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت نہ کوئی ثانوی قیادت۔ مسلم لیگ(ن) کا کوئی لیڈر۔ جمعیت علمائے اسلام کے کسی لیڈر سے بھی ملاقات نہ ہوئی۔پاکستان تحریک انصاف تو پس دیوار زنداں ہے، ان کی غیر حاضری کا جواز تو ملتا ہے۔

زندہ قومیں ایسے اجتماعات کو قوم کے رجحانات جاننے کا ایک اہم وسیلہ سمجھتی ہیں۔ جہاں ہر مسلک کے لوگ آرہے ہوں، تنخواہ دار ، اپنا بزنس کرتے نوجوان، پنشن سے گزارہ کرنے والے، اپنا چولہا گرم رکھنے کیلئے 24 گھنٹوں میں سے دو دو تین تین نوکریوں میں 16 سے 18 گھنٹے کام کرنے والے۔ اسکولوں کے خاتون، مرد اساتذہ۔ یونیورسٹیوں کالجوں، اسکولوں کے طالب علم، ملازمت پیشہ خواتین، اپنے ہم وطنوں کے ذہنوں میں کیا لہریں چل رہی ہیں۔ وہ حالاتِ حاضرہ پر کیا سوچتے ہیں۔لاکھوں صارفین جب ایک ہی چھت کے تلے آپ کو میسر ہوں تو حقیقی جائزے کیلئے اس سے بہتر موقع کیا ہوسکتا ہے۔ گیلپ پول والے اپنے نمونوں کیلئے پریشان ہوتے ہیں۔ اس میلے میں تو ہر نمونہ مل جاتا ہے۔ انہوں نے یہ سنہرا موقع کھودیا۔ میڈیا مالکان جو ریٹنگ کیلئے بھی الجھے رہتے ہیں۔ پرنٹ میڈیا جو تیزی سے روبہ زوال ہے۔ سوشل میڈیا مارکیٹنگ کی کمپنیاں۔ کوئی بھی جائزہ لیتا دکھائی نہ دیا۔ میری مختلف طبقوں کے جتنے ہم وطنوں سے بات ہوئی انہیں بہت بیدار مغز، بہت با شعور پایا۔ وہ دو ٹوک جانتے ہیں کہ ان بحرانوں کا ذمہ دار کون ہے۔ اور اس دلدل سے کیسے نکلا جاسکتا ہے۔ میں تو ان نوجوانوں بزرگوں کی درد مندی۔ پھر ان کی روشن خیالی پراش اش کررہا ہوں۔ میرا ذہنی افق تو یہاں بلندیاں اور وسعتیں حاصل کرتا رہا ہے۔ لیکن میں حیران ہوں کہ وہ جو اس عظیم ریاست کی مشینری چلارہے ہیں، جو وفاقی، صوبائی، ضلعی حکومتوں کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہیں۔ وہ قومی سیاسی جماعتیں جو 24کروڑ جیتے جاگتے لوگوں کی قیادت کی دعویدار ہیں، ان میں سے کوئی یہاں نہیں ہے۔ کیا وہ ایسے اجتماعات کی اہمیت سے ناواقف ہیںیا وہ حقیقت کا سامنا کرنے سے ڈرتے ہیں۔ محکمہ تعلیم کے وزیر، سیکرٹری کو تو یہاں ضرور آنا چاہئے تھا۔ ڈائریکٹر جنرل پبلک لائبریریز کو پھر کمشنر کراچی، ڈپٹی کمشنروں کو کہ وہ آداب جہانبانی یہاں سے سیکھ سکتے تھے۔

آپ کو بھی یقیناً تشویش ہوتی ہوگی۔ مجھے تو شدید کرب ہے کہ اشرافیہ عوام کی اکثریت کے محسوسات سے جب اتنی دور رہتی ہے اور ریاست جب خلقت کے ذہن میں جھانکتی نہیں، تو وہ ان کروڑوں کے بارے میں درست فیصلے کیسے کرسکتی ہے۔ وہیں مجھے یہ تقویت ہے کہ کتابوں سے فیض حاصل کرنے والی یہ نسلیں جب دس سال بعد 2033 اور 15سال بعد 2038 میں ملک کے کلیدی عہدوں پر فائز ہوں گی۔ تو یقیناً یہ عظیم مملکت آگے بڑھے گی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *