سوشل میڈیا اکاؤنٹس

محمود شام

محمود شام

پاکستان کے ممتاز صحافی، شاعر، ادیب اور تجزیہ کار جناب محمود شام 5 فروری 1940

کوئٹہ انکوائری کمیشن رپورٹ (آٹھویں قسط)

15 ریاست کی ذمہ داری:
15.1 ایک اسلامی ریاست: پاکستان کو ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ کہا جاتا ہے۔ (آئین کا آرٹیکل نمبر ایک)اور پاکستان میں تمام قوانین کا اسلام کی شریعت کے مطابق ہونا لازمی ہے (آئین کا آرٹیکل نمبر 227 )۔ پالیسی کے اصولوں کے لئے ضروری ہے کہ ریاست پاکستان کے تمام مسلمانوں کے انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگیاں اسلام کے بنیادی تصورات کے مطابق  گزارنے کے لئے اقدامات کرے۔ جبکہ تمام مسلمانوں کو علم ہو کہ قرآن و سنت کے مطابق زندگی گزارنے کا شعور کیسے حاصل ہو؟ (آئین کا آرٹیکل نمبر31) لیکن ان مسلمانوں کے لئے اسلام کے بنیادی تصورات کے مطابق زندگی گزارنا مشکل بنادیا گیا ہے۔ جو لوگ نفرتوں کو فروغ دے رہے ہیں وہ مسلمانوں کے اتحاد و یگانگت کے دشمن ہیں۔ جو لوگ نفرت اور تشدد کی تبلیغ کرتے ہیں وہ آگے بڑھ رہے ہیں لیکن سچے اسلام پر عمل کرنے والے مسلمانوں کی آواز کو کچلا جارہا ہے۔یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ نفرت اور تشدد و فرقہ واریت کو فروغ دینے والوں کو روکے اور سچے اسلام کے پیروکاروں کی سرپرستی کرے۔

15.2 لکھنے پڑھنے کی اہلیت اور علم: اسلام پڑھنے، لکھنے اور علم حاصل کرنے پر زور دیتا ہے اور اقرا قرآن مجید کا پہلا لفظ ہے جس کے معنی ہیں ’’پڑھ‘‘۔ اس میں صرف پڑھنے کو نہیں کہا گیا بلکہ حکم دیا گیا ۔ سورہ علق میں پڑھنے کے بعد لکھنے کا حکم بھی ہے۔ یعنی علم حاصل کرو قرآن میں ان الفاظ کی اہمیت معمولی نہیں۔ اللہ تعالی کا حکم ہر ایک کے لئے ہے جن میں مرد، عورت، لڑکے اور لڑکیاں سب شامل ہیں۔ قرآن میں اتنے واضح پیغام کے باوجود انتہا پسند اسکولوں پر حملے کرتے اور انہیں جلاتے ہیں۔

15.3 تعلیمی ادارے: ریاست کی ذمہ داری تعلیمی ادارے قائم کرنا ہے اور یہ بھی ریاست کی ذمہ داری ہے کہ تعلیمی ادارے اسلامی شعائر کے مطابق تعلیم دیں جس کا حکم اللہ تعالی نے دیا ہے۔ یہ بھی حکومت ہی کی ذمہ داری ہے کہ تعلیمی ادارے نفرت، فتنہ، یا انتہا پسندی کو فروغ دے رہے ہیں تو اسے کنٹرول کرے۔ بدقسمتی سے حکومت نے مدارس کے سلسلے میں اپنی ذمہ داری ادا نہیں کی۔
15.4 وفاق المدارس: کمیشن نے ملک میں دینی مدارس کی تعلیم کو قاعدے میں لانے کے ذمہ دار وفاق المدارس اور دیگر دینی تعلیم کے بورڈز کو خطوط لکھے۔ ان اداروں کے نام یہ ہیں: (1) وفاق المدارس السلفیہ؛ (2) وفاق المدارس العربیہ؛ (3) وفاق المدارس الشیعہ پاکستان؛ (4) تنظیم المدارس پاکستان؛ (5) رابطہ المدارس الاسلامیہ اور ان کی تنظیم اتحاد تنظیم مدارس۔ اس خط کی نقل نیچے دی گئی ہے۔

کمیشن کو تمام وفاقوں سے جواب آیا اور معلوم ہوا کہ ان سے مجموعی طور پر 26465 مدارس منسلک ہیں۔ جس میں طلبہ کی تعداد یہ ہے۔ وفاق المدارس السلفیہ، 695100؛ وفاق المدارس العربیہ، 14590101؛ وفاق المدارس الشیعہ پاکستان، 470102 ؛ تنظیم المدارس اہل سنت، پاکستان، 921103؛ رابطہ المدارس الاسلامیہ پاکستان، 1500104 تمام وفاقوں نے اعلان کیا کہ نفرت اور انتہا پسندی کے خلاف ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اگر کوئی ملحقہ مدرسہ کسی ایسی بدعت میں مبتلا دکھائی دیتا ہے تو وہ اس کے خلاف کارروائی کرتے ہیں۔ تنظیم المدارس اہل سنت نے مدارس پر کنٹرول کے تعلق سے پریشانی کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے۔
15.5 وزارت مذہبی امور: کمیشن نے حکومت پاکستان کی وزارت مذہبی امور سے رابطہ کیا اور ان کو ایک سوال نامہ بھیجا جو نیچے دیا گیا ہے:

(1) کیا کوئی مسجد یا مدرسہ ایسا ہے جو براہ راست یا بالواسطہ جماعت احرار، لشکر جھنگوی یا لشکر جھنگوی العالمی سے وابستہ ہے؟
(2) کیا کوئی مدرسہ یا مسجد ایسی ہے جو براہ راست یا بالواسطہ انسداد دہشت گری کے قانون مجریہ 1997 کے تحت ممنوعہ تنظیموں سے تعلق رکھتی ہو؟
(3) کون سا محکمہ مسجدوں اور مدرسوں کی اس نقطہ نظر سے نگرانی کرتا ہے کہ وہ تشدد، نفرت یا جرائم پر اکساتی تو نہیں؟ اور کیا اس بنیاد پر کسی کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی؟
(4) اگر کوئی مسجد یا مدرسہ ایسی کارروائیوں میں ملوث پایا جاتا ہے تو اس کے خلاف کیا کارروائی کی جاتی ہے؟
(5) پاکستان میں مسجدوں اور مدارس کی مجموعی تعداد کتنی ہے؟
(6) ایسی مسجدوں اور مدرسوں کی تعداد کیا ہے جو نفرت یا تشدد پر اکساتی پائی گئیں؟
(7) کیا کبھی مسجدوں / مدرسوںکو ایسی ہدایات جاری کی گئیں کہ وہ نفرت ، تشدد یا جرائم پر نہ اکسائیں؟ اگر ہاں تو ان ہدایات کا نمونہ بھیجیں۔ وزارت مذہبی امور نے اس سوالنامہ کا جواب یہ دیا:
(1) اس معاملے کا تعلق وزارت داخلہ (این اے سی ٹی اے) اور صوبائی محکمہ ہائے داخلہ سے ہے۔ یہ معلومات وزارت داخلہ اور چیف سیکریٹریز سے حاصل کی جائیں۔
(2) ایضاً
(3) ایضا
(4) ایضاً
(5) ایضاً
(6) ایضاً
(7) جہاں تک پیرا 5 کا تعلق ہے تو وزارت مذہبی امور نے 2015 میں معلومات جمع کی تھیں جس کے مطابق رجسٹرڈ مدارس کی تعداد  11852 تھی۔وفاق المدارس العربیہ نے اپنا ڈیٹا ابھی تک نہیں بھیجا۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وزارت مذہبی امور کے پاس مدارس کا بنیادی ڈیٹا بھی نہیں ہے یا ان میں ایسا کام کرنے کی اہلیت ہی نہیں۔ کمیشن کو حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق ملک میں 26465 مدارس مختلف وفاقوں سے ملحق ہیں۔حیرت انگیز بات ہے کہ پاکستان میں کسی وزارت یا اتھارٹی(مقتدرہ) نے ایسا کوئی ڈیٹا بنک قائم نہیں کیا جس میں ایسے تمام اعداد و شمار ہوں۔ 156 غیر مسلموں کے ساتھ وزارت مذہبی امور کا سلوک: وزارت مذہبی امور کو اب ’’انٹر فیتھ ہارمنی‘‘ ( بین المذاہب اتحاد) کہا جاتا ہے لیکن وزارت کو اس سے کوئی دلچسپی دکھائی نہیں دیتی۔ اور نہ ہی اسے دینی تعلیم سے کوئی دلچسپی ہے۔ وہ صرف حج وغیرہ کے انتظامات میں دلچسپی لیتی ہے۔

15.7 اسلامی ریاست کا غیر مسلموں کے ساتھ رویہ: ایک اسلامی ریاست مذہبی اقلیتوں کے تحفظ کو اپنی ذمہ داری تصور کرتی ہے۔اسلامی تاریخ کے ابتدائی دور میں ایسی سیکڑوں مثالیں ملتی ہیں کہ اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کی جان اور مال اور عزت مکمل طور پر محفوظ تھی (حضرت عمر فاروقؓؓ کے زمانہ خلافت میں بوڑھے اورمعذور غیر مسلموں کو گزارہ الاؤنس بھی ملتا تھا) اسی طرح جب حضرت عمر ؓ  کے زمانے میں بیت المقدس پر مسلمانوں نے حملہ کیا اور حضرت عمر ؓ  کو گرجا میں نماز پڑھنے کی دعوت دی گئی تو آپ نے انکار کردیا اور یہ کہا کہ اگر انہوں نے گرجا میں نماز پڑھی تو دوسرے مسلمان اسے مسجد میں تبدیل کردیں گے۔ اس لئے آپ نے باہر نماز پڑھی جہاں مسجد بنادی گئی جبکہ مسلمانوں نے گرجا پر قبضہ نہیں کیا۔ پاکستان میں یہ وزارت مذہبی امور کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کی یقین دہانی حاصل کرے کہ کسی گرجا یا مندر کو نقصان نہیں پہنچایا جائے گا نہ اس پر قبضہ کیا جائے گا۔

یہ رپورٹ ماہ نامہ اطراف میں قسط وار شائع ہونے کے بعد “بلوچستان سے بے وفائی” کے نام سے کتابی شکل میں بھی دستیاب ہے۔ سینیئر صحافی اور تجزیہ کار محمود شام کی یہ کتاب اور دیگر کتابیں 03008210636 سے حاصل کی جا سکتی ہیں۔

معز الطاف
Latest posts by معز الطاف (see all)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *