سوشل میڈیا اکاؤنٹس

محمود شام

محمود شام

پاکستان کے ممتاز صحافی، شاعر، ادیب اور تجزیہ کار جناب محمود شام 5 فروری 1940

کوئٹہ انکوائری کمیشن رپورٹ (بارہویں قسط)

28 غیر قانونی تقرریاں

28.1 سیکریٹری ہیلتھ کا تقرر، کھلی اقربا پروری کی روشن مثال ہے۔ 8 اگست 2016 کو جب خودکش حملہ ہوا تو ایک غیر قانونی طور پر مقرر شخص بطور سیکریٹری ہیلتھ، حکومت بلوچستان کام کررہا تھا۔ چیف سیکریٹری نے کمیشن کے سامنے اپنے بیان میں کہا کہ :’’جب وزیراعلی بلوچستان نے ڈاکٹر عمر بلوچ کی بطور سیکریٹری ہیلتھ تقرری کی سفارش کی تو میں نے اس کی مخالفت کی کیونکہ یہ قواعد کی خلاف ورزی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کا تعلق کسی کیڈر سے نہیں تھا۔ نہ تو وہ بلوچستان سول سروس سے تھا اور نہ پاکستان سول سروس کیڈر سے اس کا تعلق تھا۔ لیکن وزیراعلی بلوچستان نے میرے اعتراض کو رد کرکے اس کی تقرری کردی۔ اصل بات یہ تھی کہ ڈاکٹر عمر بلوچ ایک ریٹائرڈ لیفٹننٹ جنرل اور وفاقی وزیر کا بھائی تھا۔ اور یہی ممکنہ وجہ تھی کہ وزیراعلی نے قواعد کے خلاف اس کی تقرری کی۔ اس سو موٹو کیس کی سماعت کے دوران یہ بات سپریم کورٹ کے علم میں آئی۔ جس کے نتیجہ میں اسے اس کے عہدے سے ہٹادیا گیا اگرچہ وہ سات ماہ سیکریٹری ہیلتھ رہا۔

28.2 جب ڈاکٹر عمر بلوچ کو اس کے عہدے سے ہٹایا گیا تو اس وقت تین اور نان کیڈر افسران بلوچستان میں سیکریٹری تعینات تھے۔تاہم چیف سیکریٹری نے یقین دہانی کرائی کہ ان کو بھی ہٹادیا جائے گا۔

29 بلوچستان کے سول سروس اسٹرکچر کی تباہی

29.1 بلوچستان میں اچھی حکمرانی فرسودگی کا شکار ہے۔ جب ڈاکٹر اور میڈیکل عملہ جرائم کا مرتکب ہو لیکن اسے سزا نہ ملے، غنڈے جو چاہیں کرتے پھریں، ڈاکٹر اور اسپتالوں کا عملہ قومی خزانے سے تنخواہیں لینے کے باوجود کام نہ کرے اور دہشت گرد زیادہ بہتر وسائل کے مالک ہوں۔ دوسری جانب حکمرانی نظم و ضبط سے محروم اور نااہلی، قواعد کی خلاف ورزی اقربا پروری ، اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے بوجھ تلے دبی ہو تو اس کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ چیف سیکریٹری نے کئی چشم کشا انکشافات کئے۔انہوں نے بتایا کہ گریڈ ایک سے 17 تک سرکاری ملازمین کی تقرری متعلقہ وزیر کے ہاتھ میں ہے جبکہ گریڈ 18 اور اوپر کی تقرری کا انحصار وزیر اعلی کی صوابدید پر ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ نظام جو صوبے میں چل رہا ہے نہایت خطرناک اور مضر نتائج کا حامل ہے۔ سرکاری ملازمین سیاست دانوں سے براہ راست رابطے میں آجاتے ہیں جو قواعد کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ ایک سول سرونٹ کو کم از کم دو سال تک ایک جگہ تعینات رکھنے کی مثال بھی اب دیکھنے کو نہیں ملتی۔ سیکریٹری اور چیف سیکریٹری کو اپنے ماتحت مقرر کرنے کا اختیار بھی نہیں۔یہاں چیف سیکریٹری کے بیان کے کچھ حصے دئے جارہے ہیں:

’’گریڈ 18 اور اوپر کے افسران وزیر اعلی کی منظوری سے ٹرانسفر یا مقرر کئے جاتے ہیں جبکہ ڈپٹی سیکریٹری اور ایڈیشنل سیکریٹری کی سول سیکریٹریٹ میں تقرری چیف سیکریٹری کرتا ہے۔ پہلے چیف سیکریٹری سیکریٹریز اور کمشنرز کو چھوڑ کر تمام تقرریاں کرتا تھا۔ لیکن اب اس کا اختیار بھی وزیر اعلی کو دے دیا گیا۔ چیف سیکریٹری کسی افسر کو دو تین سال سے زیادہ نہیں ٹہرنے دیتا تھا لیکن وزیراعلی اس مدت کو کم نہیں رکھتا۔ہر وزیر کو اپنے ڈیپارٹمنٹ میں گریڈ 17 تک تقرری کا اختیار ہے اس سے متعلقہ شعبے کے سیکریٹری کی اتھارٹی ختم ہوگئی ہے۔ وزرا اور وزیر اعلی کا کام پالیسی بنانا اور ان کے شعبے کے سیکریٹری اور چیف سیکریٹری کاکام اس پر عمل درآمد کرانا ہے۔لیکن ایسا ہوتا نہیں۔ جہاں تک ڈویژنز کا تعلق ہے تو اس کے سربراہ کمشنرز ہوتے ہیں لیکن یہ نظام بھی اب مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے۔پہلے اسسٹنٹ کمشنر کی تقرری کمشنر کرتا تھا جبکہ اسسٹنٹ کمشنر نائب تحصیلدار، قانون گو، پٹواری، اور دیگر گریڈ14 تک کی تقرریاں کرتا تھا۔ جبکہ ڈپٹی کمشنر گریڈ ایک سے 16 تک تقرری کرتا تھا۔لیکن اب وزیر اعلی یہ سب تقرریاں کرتا ہے۔ نئے نظام میں تمام انتظامی اختیارات وزیروں کے ہاتھ میں آگئے ہیں جو کوئی اچھی پیش رفت نہیں۔حالانکہ وزیر کے اختیارات کو پالیسی سازی تک محدود ہونا چاہیئے۔جبکہ انتظامی اختیارات کمشنرز، سیکریٹریز، اور چیف سیکریٹری کے پاس ہونے چاہیئں۔ موجودہ نظام میں مزید خرابی یہ ہے کہ اگر کچھ غلط ہوجائے تو بیوروکریٹ جواب دہ ہوتا ہے۔ اسے عدالتی سمن بھگتانے پڑتے ہیں جبکہ وزیر کو کچھ نہیں کرنا۔تقرریاں وزیر کرتا ہے اور جواب دہی بیورو کریٹ کرتا ہے۔ سارا الزام بھی چیف سیکریٹری، سیکریٹری، کمشنرز اور دیگر افسران پر آتا ہے۔ پنجاب میں کمشنرز، ڈپٹی کمشنرز، اور اسسٹنٹ کمشنرز کے اختیارات برقرار ہیں اور وزرا کو صرف گریڈ 17-16 کے افسران پر اختیار ہے۔ بلوچستان میں ان انتظامی تبدیلیوں کی وجہ سے نظم و ضبط کو سخت نقصان پہنچا ہے۔

29.2 اس ساری گڑبڑ کے باوجود جا بجا اچھے لوگوں کی مثالیں ملتی ہیں۔ وہ لیڈی ڈاکٹر جو شدید زخمی ہوکر اور تین مرتبہ آپریشن کراکے واپس ڈیوٹی پر آگئی۔ ایک اور لیڈی ڈاکٹر جو ذمہ داری نہ ہونے کے باوجود زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی رہی۔ وہ سرکاری ملازم جو اپنے فرائض انجام دیتے ہوئے دہشت گردوں کی فائرنگ کا نشانہ بن گئے۔ وہ کارکن جو دہشت گردوں کی دھمکیوں اور جان کو لاحق خطروں کا مقابلہ کرتے ہوئے کمیشن کے لئے حقائق معلوم کرتے رہے۔

یہ رپورٹ ماہ نامہ اطراف میں قسط وار شائع ہونے کے بعد “بلوچستان سے بے وفائی” کے نام سے کتابی شکل میں بھی دستیاب ہے۔ سینیئر صحافی اور تجزیہ کار محمود شام کی یہ کتاب اور دیگر کتابیں 03008210636 سے حاصل کی جا سکتی ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *