10 پاکستان اور بلوچستان میں دہشت گردوں کے حملے10.1 یکم جنوری 2001 سے 17 اکتوبر 2016 تک پاکستان بشمول بلوچستان میں مجموعی طور پر 17,503 حملے ہوئے۔ ان میں سے بلوچستان میں 2,878 حملے ہوئے۔ بلوچستان کی آبادی ملکی آبادی کا صرف 7 فی صد ہے۔لیکن حملوں کا تناسب 16.7 فی صد تھا جو قومی اوسط سے تین گنا زیادہ ہے۔ان میں پولیس ٹریننگ کالج بلوچستان میں 24 اکتوبر 2016 کو ہونے والے دھماکے شامل نہیں جن میں 61 اموات ہوئی تھیں۔جبکہ زخمیوں کی تعداد 165 تھی۔شاہ نورانی کے مزار لسبیلہ میں ہونے والے دھماکوں میں 52 مرد و خواتین و بچے ہلاک ہوئے تھے اور زخمیوں کی تعداد 100 تھی۔ 10.2 اگر وفاقی حکومت کسی تنظیم کے بارے میں تصور کرتی ہے کہ وہ دہشت گردی میں ملوث ہے تو اس پر انسداد دہشت گردی کے قانون 1997 کے تحت پابندی لگاسکتی ہے۔10.3 کمیشن کے کام شروع کرنے کے وقت تک 63 تنظیموں کو خلاف قانون قرار دیا جا چکا تھا۔ ان تنظیموں کے خلاف کارروائی میں (1) دفاتر کو سر بمہر کرنا؛ (2) فنڈز، اکاؤنٹس اور املاک کو ضبط/ منجمد کرنا؛ (3) پاسپورٹس کی ضبطی اور اجرا پر پابندی؛ (4) بنک کے سودوں پر پابندی؛ (5) ہتھیاروں کے لائسنسوں کی منسوخی اور نئے کے اجرا پر پابندی؛ (6) تمام آمدنی اور مصارف و اکاؤنٹس کی تفصیلات؛ (7) پریس بیانات کے اجرا اور لٹریچر کی طباعت و اشاعت پر پابندی، پریس کانفرنسوں اور جلسوں پر پابندی شامل ہیں۔ان تنظیموں کے اراکین کی نقل و حرکت پر بھی پابندی ہوگی اور انہیں کسی اور جگہ جانے کی صورت میں تحریری اجازت لینا ہوگی۔10.4 جماعت الاحرار اور لشکر جھنگوی العالمی پر اے ٹی اے کے سیکشن 11B کے تحت پابندی لگائی جانی چاہیئے تھی۔ اس قانون کے تحت صرف وفاقی حکومت کسی تنظیم پر پابندی لگاسکتی تھی۔ حکومت بلوچستان نے لشکر جھنگوی العالمی پر صوبائی حدود میں پابندی لگانے کے لئے وزارت داخلہ وفاقی حکومت کو کئی خط لکھے لیکن وفاقی حکومت نے ان کا جواب نہیں دیا۔ جب لشکر جھنگوی العالمی اور جماعت الاحرار پر پابندی کے سلسلے میں سیکریٹری داخلہ سے دریافت کیا گیا کہ حکومت بلوچستان نے ان دو دہشت گرد تنظیموں پر پابندی کے لئے وفاقی حکومت کو کئی خط لکھے لیکن وہاں سے کوئی جواب نہیں آیا۔ وفاقی وزارت داخلہ نے ان تنظیموں کے خلاف کارروائی کیوں نہ کی۔انہوں نے جواب دیا کہ انہیں اس بارے میں کوئی علم نہیں ہے۔ ان سے پوچھا گیا کہ کیا ان کی ذاتی رائے میں ان تنظیموں پر پابندی لگنی چاہیئے؟ تو انہوں نے کہا کہ یقینا پابندی لگنی چاہیئے۔ان سے پوچھا گیا کہ حکومت بلوچستان نے اپنے خط مورخہ 16 اگست 2016 میں آپ سے ان تنظیموں پر پابندی کی درخواست کی تھی لیکن ایسا کیوں نہیں ہوا۔ 10.5 انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں این اے سی ٹی اے ، آئی ایس آئی اور آئی بی سے رائے مانگی گئی تھی لیکن انہوں نے ابھی تک جواب نہیں دیا۔ ان سے پوچھا گیا کہ اس سلسلے میں آئی ایس آئی اور آئی بی سے پوچھنے کی کیوں ضرورت تھی؟ انہوں نے جواب میں کہا کہ ان سے پوچھنا ضروری تھا کیونکہ وہ اس بارے میں زیادہ معلومات رکھتے ہیں۔ ان کی سفارش ان دہشت گرد تنظیموں پر پابندی کے لئے ضروری ہے۔میں نے کہا کہ یہ حیرت کی بات ہے کہ یہ تنظیمیں کھلم کھلا دہشت گردی میں مصروف ہیں اور 80 دن گزرنے کے باوجود ان کے خلاف وفاق کی جانب سے کوئی کارروائی نظر نہیں آتی۔ کیا آپ میری حیرت کو دور کرسکتے ہیں؟ انہوں نے جواب میں کہا کہ حکومت سب جانتی ہے کہ جب کسی دہشت گرد تنظیم کی کارروائیوں کی مکمل تصدیق ہوجاتی ہے اور سیکیورٹی ایجنسیوں کے اس سلسلے میں کمنٹس وصول ہوجاتے ہیں تو پابندی لگادی جاتی ہے۔
ایک ان کیمرا بریفنگ میں آئی ایس آئی کے لئے کام کرنے والے ایک کرنل سے اس سلسلے میں سوالات کئے گئے۔ انہوں نے جواب میں کہا کہ دہشت گرد تنظیموں پر پابندی لگانا وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اس سلسلے میں آئی ایس آئی سے مشورہ ضرور کیا جاتا ہے لیکن وہاں سے کوئی جواب نہ آئے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وفاقی حکومت ان تنظیموں پر پابندی نہیں لگا سکتی۔ انہوں نے مزید کہا کہ انہیں ایسے کسی خط کا علم نہیں جو وفاقی حکومت کی جانب سے آئی ایس آئی کو لکھا گیا۔ لیکن وفاقی حکومت کو اس سلسلے میں آئی ایس آئی کے جواب کا انتظار نہیں کرنا چاہیئے اور اپنی ذمہ داری ادا کرنی چاہیئے۔ جب سیکریٹری داخلہ سے پوچھا گیا کہ کیا آپ آئی ایس آئی کے نمائندے کے جواب سے اتفاق کرتے ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ وہ اتفاق کرتے ہیں۔ ان سے پوچھا گیا کہ پھر کیا وجہ ہے کہ ان دونوں تنظیموں پر وفاقی حکومت کی جانب سے پابندی نہیں لگائی گئی تو انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت میں این اے سی ٹی اے کی ذمہ داری دہشت گردی کے خلاف تمام سرگرمیوں کا احاطہ کرنا ہے اور وہ ابھی تک مختلف اداروں کی آرا کے انتظار میں ہے کیونکہ یہ اسی کی ذمہ داری ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ این اے سی ٹی اے وفاقی حکومت نہیں ہے بلکہ ایک قانون ساز ادارہ ہے جس کا قیام نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی ایکٹ 2013 کے تحت عمل میں لایا گیا۔ لیکن آپ کے جواب سے ایسا لگتا ہے کہ جیسے آپ نہیں جانتے کہ وفاقی حکومت کن اجزا پر مشتمل ہے؟ کیا آپ مزید کچھ کہنا چاہیں گے؟ انہوں نے اس سلسلے میں مزید کچھ کہنے سے انکار کردیا۔
میں یہ بھی بتادینا چاہتا ہوں کہ این اے سی ٹی اے نے جماعت الاحرار اور لشکر جھنگوی العالمی پر پابندی کی سفارش کردی تھی اور ان کی سفارش وزارت داخلہ میں وصول بھی ہوگئی تھی لیکن حتمی فیصلہ وزیر داخلہ کو کرنا تھا۔
جب سیکریٹری داخلہ سے پوچھا گیا کہ کسی تنظیم پر پابندی وزیر داخلہ کے اختیار میں ہے اور کیا ان ہی کو حتمی فیصلہ کرنا ہے تو ان کا جواب اثبات میں تھا۔ ان سے جب پوچھا گیا کہ کیا حکومت پاکستان کے رولز آف بزنس کے تحت یہ ایک پالیسی فیصلہ ہے؟تو انہوں نے اثبات میں جواب دیا۔ میں نے کہا کہ کیا یہ حیرت انگیز بات نہیں ہے 8 اگست 2016 کے حملوں کی ذمہ داری انہی دونوں تنظیموں نے قبول کی اور اس واقعہ کو تین ماہ اور چھ دن گزر گئے اور وفاقی وزیر داخلہ ابھی تک کوئی فیصلہ کرنے سے قاصر ہیں؟ ھاں یہ ممکن ہے کہ ہماری جانب سے وفاقی وزارت داخلہ اور آئی ایس آئی سے اتنی پوچھ گچھ کے بعد پابندی کا کوئی نوٹیفیکیشن اس اثنا میں جاری ہوجائے۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ حکومت بلوچستان کے اس خط سے پہلے لاہور میں 15 مارچ 2015 کو دو گرجا گھروں پر حملے ہوئے تھے اور احسان اللہ احسان ہی کے ذریعہ لشکر جھنگوی نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ اس وقت بھی چوہدری نثار علی ہی وزیر داخلہ تھے اور انہوں نے کہا تھاکہ اس کی تحقیقاتی رپورٹ ملتے ہی متعلقہ تنظیم پر پابندی لگادی جائے گی لیکن یہ رپورٹ آج تک سامنے نہیں آئی جس کے نتیجے میں جماعت الاحرار نے 8 اگست کو دوسرے حملے کرڈالے جبکہ ان واقعات کو ایک سال اور پانچ ماہ گزر چکے تھے۔اتنے اہم امور پر بے عملی کو محض لاپرواہی قرار دینا کمتر درجہ کا لفظ ہے۔10.7 ۔شاید وفاقی وزیر داخلہ جماعت الاحرار پر پابندی کے لئے کچھ عجلت کا مظاہرہ کرتے اگر برطانیہ مارچ 2015 میں اس تنظیم پر پابندی لگانے کا اعلان کردیتا۔برطانوی حکومت کی جانب سے ان تنظیموں کے بارے میں معلومات مندرجہ ذیل سائیٹ پر دستیاب ہیں: website of the Home Office –
(https://www.gov.uk/government/uploads/
system/uploads/attachment_data/file/
538297/20160715-
Proscription-website-update.pdf)
اس کا عنوان “Proscribed Terrorist Organisations” ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس بارے میں وزارت داخلہ/ این اے سی ٹی اے کی ویب سائیٹس پر ابھی تک کوئی مواد دستیاب نہیں ہے۔اس سلسلے میں سپریم کورٹ کے آئین کی 21 ویں ترمیم کے کیس میں مندرجہ ذیل حوالہ درج کیا جارہا ہے۔ڈسٹرکٹ بار ایسو سی ایشن ، راولپنڈی بمقابلہ فیڈریشن آف پاکستان (پی ایل ڈی 2015 سپریم کورٹ 401 صفحہ نمبر 1203):
’’ایک پریشان کن حقیقت یہ ہے کہ کہیں کوئی سرکاری ویب سائیٹ ایسی نہیں کہ جس پر غیر قانونی قرار دی جانے والی 61 تنظیموں کے نام موجود ہوں۔ چنانچہ ایسی تنظیموں کی فہرست کی تصدیق کے لئے عدالت نے متعلقہ اتھارٹی، ایجنسی اور وزارتوں کی ویب سائیٹس پر تلاش کرنے کی ہدایت کی لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کہیں کوئی معلومات دستیاب نہ ہوسکیں۔ نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی کی سائیٹ پر لکھا تھا کہ یہ زیر تعمیر ہے (http://www.nacta.gov.pk/) حکومت پاکستان کی فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی کی ویب سائیٹ پر لکھا تھا کہ یہ دیکھ بھال کے لئے بند ہے۔
(http://www.fia.gov.pk/resourcecenter.htm)
اور حکومت پاکستان کی وزارت داخلہ، وزارت دفاع اور وزارت قانون، وزارت انصاف اورانسانی حقوق کی ویب سائیٹس پر کوئی معلومات نہیں تھیں۔ چنانچہ عوام کو ان تنظیموں کے بارے میں کوئی معلومات دستیاب نہیں تھیں جن کو دہشت گردی میں ملوث ہونے کی بنا پر غیر قانونی قرار دیا گیا تھا۔ اور یہ کہ عام شہری ان تنظیموں کو چندے نہ دیں یا ان میں شمولیت اختیار نہ کریں۔ چنانچہ جیسا کہ فاضل اٹارنی جنرل نے کہا کہ دہشت گرد تنظیمیں انٹر نیٹ کے ذریعہ بلا رکاوٹ اپنا پروپیگنڈا جاری رکھے ہوئے ہیں۔ سپریم کورٹ میں زیر بحث آنے کے بعد اب سرکاری ویب سائیٹس پر پابند تنظیموں کے نام دے دئے گئے ہیں لیکن ان کے بارے میں کوئی تفصیلات نہیں ہیں۔ چنانچہ لوگوں کو اس کی کوئی خبر نہیں کہ ان کی کن دہشت گردی پر مبنی سرگرمیوں کے سبب انہیں غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔ جبکہ یہ ویب سائیٹس انگریزی زبان میں ہیں اور عوام کی اکثریت ان پر موجود مواد کو پڑھنے اور سمجھنے سے قاصر ہے۔
10.9 دو خودکش حملہ آوروں نے 21 ستمبر 2013 کو پشاور کے ایک چرچ میں حملہ کیا جس کے نتیجہ میں 80 افراد ہلاک اور 100 سے زیادہ زخمی ہوئے۔ چوہدری نثار علی خان نے جو اس وقت وزیر داخلہ تھے فورا بیان دیا اور حملوں کی مذمت کی۔ ڈان اخبار مورخہ 22 ستمبر 2013 کے مطابق انہیں حملہ آوروں کی شقاوت اور درندگی پر سخت صدمہ ہوا۔ انہوں نے تین دن کے قومی سوگ کا اعلان بھی کیا۔اس کے باوجود جنداللہ نامی تنظیم پر جس نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی کوئی پابندی نہیں لگائی گئی اور نہ آج تک لگی ہے۔10.10 سپاہ صحابہ پاکستان، ملت اسلامیہ پاکستان اور اہل سنت و جماعت کے درمیان تعلق اور ان کے نئے نام: سپاہ صحابہ (ایس ایس پی) اور ملت اسلامیہ پاکستان (سابق ایس ایس پی) کے نام وزارت داخلہ کی ویب سائیٹ پر پانچویں اور دسویں نمبر پر ہیں۔ نیشنل انٹرنل سیکیورٹی پالیسی جس کا اجرا وزارت داخلہ نے کیا جو صفحہ نمبر 58 پر ہے۔ اس میں کہاگیا ہے کہ دونوں تنظیموں کے سربراہ مولانا محمد احمد لدھیانوی ہیں۔ دریں اثنا اہل سنت والجماعت کے نام کے ساتھ ان کا نام درج نہیں اگرچہ وہ خود کو اس تنظیم کا سربراہ بھی کہتے ہیں۔
10.11 وزیر داخلہ کی مولانا محمد احمد لدھیانوی سے ملاقاتیں: وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے 21 اکتوبر 2016 کو مولانا محمد احمد لدھیانوی سے ملاقات کی جو تین غیر قانونی تنظیموں کے سربراہ ہیں، ان کے مطالبات سنے اور ہمدردی سے غور کرنے کا وعدہ کیا۔ یہ ملاقات پنجاب ہاؤس میں ہوئی جو اسلام آباد کے ریڈ زون میں واقع ہے۔
چیف سیکریٹری حکومت بلوچستان نے غیر قانونی اور ممنوع تنظیموں کے خلاف نا مکمل کارروائی کرنے پر افسوس ظاہر کیا۔ ان سے سوال کیا گیا تھا کہ آپ کے خیال میں دہشت گردی، انتہا پسندی، نفرت پر مبنی تقریروں اور لٹریچر کا مقابلہ کرنے کے لئے کیا اقدامات کئے جا سکتے ہیں؟ انہوں نے اپنے جواب میں کہا کہ ’’میں اس سوال کا جواب تفصیل کے ساتھ دینا چاہتا ہوں۔ پہلے میں کہوں گا کہ قومی سطح پر اس سلسلے میں کیا اور صوبائی سطح پرکیا کیاجا سکتا ہے؟ قومی سطح پر انتہا پسندی کا جواب دینے کی کوئی روایت موجود نہیں ہے اور نہ ہی دہشت گرد تنظیموں کے پروپیگنڈے کا کوئی سد باب کیا جاتا ہے۔ جب تک نفرت پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی نہیں ہوتی دہشت گردی کو اسی طرح فروغ ہوتا رہے گا۔ اس کا تعلق ممنوعہ تنظیموں کے خلاف کارروائی سے ہے ۔میں اس سلسلے میں بلوچستان کی مثال پیش کرتا ہوں جہاں اہل سنت والجماعت کو کوئی جلسہ عام کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ لیکن اسی تنظیم کو اگر مینار پاکستان، لاہور پر جلسہ کرنے کی اجازت دے دی جائے تو اس پر پابندی کا سارا مقصد ہی فوت ہوجائے گا۔یہ تنظیم دفاع پاکستان کونسل کی بڑی تنظیم کا حصہ بھی تھی۔10.12 ممنوعہ تنظیموں کے جلسے اور ریلیاں:این اے سی ٹی اے کی کمیٹی کا اجلاس31 دسمبر 2014 کو وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی سرکردگی میں منعقد ہوا۔جس میں فیصلہ کیا گیا کہ ’’ممنوعہ تنظیموں کو جلسہ عام اور ریلیاں کرنے کی اجازت نہیں ہوگی (جیسا کہ اجلاس کی کارروائی کے آئٹم نمبر 7 میں درج ہے) اور ایسی تنظیموں کے عہدہ داروں اور کارکنوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ چیف سیکریٹری حکومت بلوچستان نے لکھا کہ اے ایس ڈبلیو جے نے کئی جلسہ عام کئے۔ جمعہ 28 اکتوبر 2016 کو اے ڈبلیو ایس جے نے آب پارہ سیکٹر جی۔6 ، اسلام آباد میں ہاکی گراؤنڈ میں جلسہ عام کیا اور اس کی خبریں میڈیا کے ذریعہ جاری ہوئیں۔ کمیشن نے اپنے خط مورخہ 4 نومبر 2016 نمبر 036 کے ذریعہ چوہدری نثار علی خان سوال کیا کہ کیا اے ایس ڈبلیو جے کو جلسہ عام کی اجازت دی گئی؟ وزیر داخلہ نے جواب دیا کہ ’’میری ذمہ داری جلسوں کی اجازت دینا یا نہ دینا نہیں۔ یہ ضلعی انتظامیہ کا دائرہ اختیار ہے۔ انکوائری کرنے پر پتہ چلا کہ نہ تو باقاعدہ اجازت لی گئی اور نہ انتظامیہ نے اجازت دی۔اس جواب سے پتہ چلتا ہے کہ اگر کوئی غیر قانونی کام ہوتا ہے تو انتظامیہ اس جانب سے اپنا منہ دوسری طرف پھیر لیتی ہے۔وزیر داخلہ کا ردعمل قانون کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے خود اپنی وزارت کے فیصلے کی نفی کی جس کے مطابق کسی ممنوعہ تنظیم کو جلسے کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
یہ رپورٹ ماہ نامہ اطراف میں قسط وار شائع ہونے کے بعد “بلوچستان سے بے وفائی” کے نام سے کتابی شکل میں بھی دستیاب ہے۔ سینیئر صحافی اور تجزیہ کار محمود شام کی یہ کتاب اور دیگر کتابیں 03008210636 سے حاصل کی جا سکتی ہیں۔
- بہت اہم۔ حساس۔ منہ بولتا اتوار - November 24, 2024
- ہمارے سخت جان مگر مہربان شہر - November 21, 2024
- ہر شہری کا روزگار۔ ریاست کی ذمہ داری - November 17, 2024