سوشل میڈیا اکاؤنٹس

محمود شام

محمود شام

پاکستان کے ممتاز صحافی، شاعر، ادیب اور تجزیہ کار جناب محمود شام 5 فروری 1940

کوئٹہ انکوائری کمیشن رپورٹ (دسویں قسط)

19 اسپتال کیس کا فیصلہ:

19.1 اسپتال کیس کے فیصلے پر عمل درآمد میں ناکام:

اگر حکم بی بی بخلاف حکومت بلوچستان اور اس سے منسلک دو پٹیشنوں (C. P. Nos. 37/2005,
245/1998, 432/2002 and CMA No.517/1999) پر عمل درآمد ہوجاتا تو اسپتال میں خودکش حملے کا سد باب ہوجاتا۔ اور اسپتالوں کو چلانے میں حائل دوسرے مسائل بڑی حد تک حل ہوجاتے۔ اس سلسلے میں فیصلے کے آخری تین پیرے یہاں دئے جارہے ہیں:

8 یہ پٹیشنیں تمام عبوری ہدایات پر عمل کی ہدایت کے ساتھ فیصل کی جارہی ہیں جن کے بارے میں پہلے ہی ہدایات جاری کی جا چکی ہیں اور ان پر مزید عمل درآمد پر زور دیا جاتا ہے۔

9 مذکورہ اسپتالوں کی جانچ پڑتال کا موثر نظام وضع کیا جائے تاکہ ہدایات پر عمل ہوسکے اور اسپتالوں کو بہتر طور پر چلایا جا سکے۔ہر شخص کو اس کی کھلی آزادی ہے کہ وہ طبی سہولتوں کی فراہمی میں کوئی رکاوٹ پائے تو فوراً اس کی رپورٹ کرے۔ اسی طرح اگر کوئی یہ دیکھے کہ اسپتالوں کے فنڈز میں بدعنوانی کی جارہی ہے یا غلط استعمال کیا جارہا ہے تو اس کی اطلاع دے۔

11 اس فیصلے کی نقل تمام سرکاری اداروں کو بھیجنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔ یہ فیصلہ سنڈیمن پراونشل اسپتال، اور بولان میڈیکل کملپکس اسپتال سے متعلق ہے۔

19.2 ڈاکٹروں اور دیگر عملے کی غیرحاضریاں: اس سلسلے میں ایک عبوری حکم اسپتال کیس کے فیصلے میں 5 اگست 2013 کو شامل کیا گیا۔ یہ عبوری حکم 3 مارچ 2010 کو جاری ہوا تھا۔ ’’میڈیکل سپرنڈنٹس، سنڈیمن پراونشل اسپتال، اور بولان میڈیکل کمپلیکس اسپتال کو ہدایت کی جاتی ہے کہ ان اسپتالوں میں غیر حاضریوں کا سد باب کیا جائے۔ اگر کوئی شخص منظور کردہ چھٹی کے بغیر غائب پایا جائے تو اس کے خلاف کارروائی کی جائے۔

20.1 اسپتال کی املاک قبل از سلامتی نظام: اسپتال میں 19 چوکیدار اور 75 گارڈز ہیں۔ اس کے علاوہ اسپتال نے ایک سیکیورٹی کنٹریکٹر’’یلدرم سیکیورٹی‘‘ سے گارڈز کی خدمات حاصل کی ہیں جن پر سالانہ 33 لاکھ روپے لاگت آتی ہے۔یلدرم سیکیورٹی 24 گارڈز اور دو سپر وائزرز فراہم کرنے کا پابند ہے لیکن کسی قابل اعتبار اٹینڈنس سسٹم کی عدم موجودگی میں یہ فیصلہ نہیں کیا جا سکتا کہ ان میں سے کتنے حاضر ہوتے ہیں۔ گارڈز کی اتنی بڑی تعداد کی موجودگی کے باوجود اسپتال میں آنے جانے والوں کی کوئی نگرانی نہیں ہوتی۔ ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ ایک مرتبہ ایک ممنوعہ عسکریت پسند تنظیم کے ممبران جو کلاشنکوفوں سے مسلح تھے اپنے ایک ساتھی کو اسپتال میں لائے اور بندوق کے زور پر اس کا آپریشن کرایا۔ آدھے گھنٹے کے دوران اس دہشت گرد کی گولی نکالی گئی۔ لیکن گارڈز، پولیس اور ایف سی کا کوئی اہلکار وہاں دکھائی نہیں دیا۔چنانچہ اسپتال میں مسلح افراد کے داخلے کو روکنے کے لئے ایک عبوری حکم کو (مورخہ 19 ستمبر 2009) اسپتال کیس کے فیصلے میں شامل کرتے ہوئے ہدایت جاری کی گئی کہ اسپتال کو ’’ہتھیاروں سے پاک‘‘ علاقہ قرار دیا جاتا ہے۔فیصلے کے تحت اگر کوئی مسلح شخص اندر داخل ہونے کی کوشش کرے تو فوراً متعلقہ ایس ایچ او کو اطلاع دی جائے۔

20.2 تربیت: اسپتال میں کوئی آتش زدگی، سلامتی یا ہنگامی حالات سے بچاؤ کی کبھی مشق نہیں کی گئی اور عملہ حملے کی صورت میں کیا کرے اس کی بھی کوئی تربیت نہیں دی گئی۔یہ انتظامیہ کی جانب سے لاپرواہی کی انتہا ہے۔حالانکہ اس اسپتال پر پہلے بھی حملے ہوتے رہے۔لیکن حملے سے بچاؤ یا مقابلہ کرنے کی تیاری کا کوئی تصور ہی نہیں۔

20.3 سی سی ٹی وی کیمرے اسپتال میں کئی جگہ نصب کئے گئے ہیںلیکن ان کی اکثریت خراب ہے جن کی کوئی مرمت نہیں کی جاتی۔کیمروں کو اس طرح لگایا گیا ہے کہ اندر داخل ہونے والوں کے چہروں کی شناخت بھی ممکن نہیں۔ اس سلسلے میں عملے کی کوئی تربیت کا انتظام نہیں۔ سیکیورٹی کے عملے کے ساتھ کوئی واکی ٹاکی یا فون سسٹم نہیں۔چنانچہ یہی وجہ ہے کہ ان اسپتالوں پر جب بھی حملے ہوئے داخلے کی نگرانی نہ ہونے، سیکیورٹی کے عملے کی حاضری کی چیکنگ نہ ہونے، اور قواعد پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے بہت زیادہ جانی و مالی نقصان ہوا۔10 اپریل2010 کو جب ایک خودکش حملہ آور نے سنڈیمن اسپتال اور 15 جون 2013 کو بولان میڈیکل کالج پر حملہ کیاتو 25 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے۔

21 ملاقات کے اوقات:

21.1 اسپتالوں میں ملاقاتیوں کی آمد ورفت بلا روک ٹوک ہر وقت جاری رہتی ہے۔ کوئی بھی آوارہ گرد یا دہشت گرد کسی وقت بھی اندر آکر گھوم پھر سکتا ہے۔ اگر کوئی آپریشن تھیٹر تک پہنچنا چاہے تو اس پر بھی کوئی پابندی نہیں۔ اس روک ٹوک کے نہ ہونے کی وجہ سے یہ اسپتال کسی علاج گاہ سے زیادہ ایک بازار لگتے ہیں۔

21.2 وی آئی پیز اور میڈیا کے دورے: دھماکوں کے بعد وی آئی پیز اور میڈیا کے دورے زخمیوں اور مریضوں کی تکلیفوں میں اضافے کا سبب بنے۔اگر دورہ کرنے والی شخصیت وزیراعظم یا آرمی چیف ہو تو پورے اسپتال کو بم ڈسپوزل اسکوائڈ اور سیکیورٹی کا عملہ چیک کرتا ہے۔بدقسمتی سے یہ عملہ جراثیم سے پاک لباس نہیں پہنے ہوتا۔اس کے ساتھ ہی اسپتال میں موبائل جام کرنے والے آلات لگادئے جاتے ہیں جس کے نتیجے میں لوگ ہنگامی حالات میں اسپتال اور ڈاکٹروں سے رابطہ کرنے سے محروم ہوجاتے ہیں۔وی آئی پیز کے ان دوروں میں ڈاکٹروں کو بھی ادھر ادھر جانے سے روک دیا جاتا ہے اور بہت سے آپریشن تاخیر کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ایک عینی شاہد نے بتایا کہ آرمی چیف کے دورے کے دوران کنٹونمنٹ ایر یا بند کردیا گیا اور مریض کمبائنڈ ملٹری اسپتال تک جانے سے محروم ہوگئے۔یہ اچھی بات ہے کہ دھماکوں کے زخمیوں کی داد رسی کی جائے لیکن ہنگامی حالات کے دوران جب انہیں زیادہ دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے ایسی داد رسی اور عیادت زحمت بن جاتی ہے بعض اوقات زخمی علاج کے بغیر تڑپ کر جان دے دیتے ہیں۔

چنانچہ اسپتال کیس کے فیصلے میں ملاقاتیوں کے وقت کے بارے میں ایک عبوری حکم شامل کیا گیا جس میں ڈی جی صحت کو توجہ دلائی گئی کہ کسی اسپتال میں ملاقات کے اوقات مقرر نہیں ہیں۔ اس لئے ایم ایس اور آر ایم اوز کو ہدایت کی جائے کہ وہ اوقات مقرر کرکے ان پر سختی سے پابندی کرائیں۔جو ملاقاتی آئیں ان کو باقاعدہ پاس جاری کئے جائیں۔ ملاقات کے سلسلے میں اسپتال کے بڑے دروازے پر اردو اور انگریزی میں ہدایات درج کی جائیں۔

22 اسپتال میں صفائی:

22.1 اسپتالوں میں صفائی کی صورت حال ابتر دکھائی دیتی ہے ۔ ہر وارڈ خاص طور پر سرجیکل وارڈ میں بہت گندگی تھی۔ فرش ٹوٹے ہوئے، سیوریج کا پانی بہتا ہوا، فٹنگز تباہ دکھائی دیتی تھیں۔بیت الخلا ہر وقت گندے رہتے ہیں اور ان کی صفائی پر ہر وقت الگ الگ خاکروب ہونے چاہیئں لیکن ایسا نہیں ہوتا۔یا تو پانی دستیاب نہیں ہوتا یا پھر نل ٹوٹے ہونے کی وجہ سے بہتا رہتا ہے۔ اسپتال کی دیواروں پر نعرے اور اشتہار لکھے رہتے ہیں لیکن نہ تو ان کی صفائی ہوتی ہے اور نہ نعرے لکھنے سے کوئی روکنے والا ہے۔چنانچہ اس سلسلے میں بھی عدالت کو ایک عبوری حکم جاری کرنا پڑا۔جسے اسپتال کیس کا حصہ بنادیا گیا ہے۔ یہ عبوری حکم 19 ستمبر 2009 کو جاری ہوا۔ اس حکم کے مطابق آر ایم او کی ہدایت کی گئی کہ ہر خاکروب کے کام کی نگرانی کی جائے اور اسے حاضری کے نظام سے منسلک کرتے ہوئے ڈیوٹی پوری کرنے کی ہدایت کی جائے۔خاکروبوں کو وردی فراہم کی جائے جس پر ان کے نام کا ٹیگ لگا ہو۔وردی نہ پہننے والوں کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے۔ اسپتال کی صفائی کا بہترین انتظام کیا جائے۔تمام سیوریج لائنوں کی باقاعدگی سے صفائی کی جائے۔ مین ہولز کے ٹوٹے ہوئے ڈھکنوں کی مرمت کرائی جائے۔ چوہوں اور لال بیگ کا صفایا کیا جائے۔پانی کے ٹوٹے ہوئے نلوں کو ٹھیک کرایا جائے۔

3 مارچ 2013 کو یہ عبوری حکم جاری ہوا کہ تمام اسپتالوں کی دیواروں پر لکھے گئے نعرے اور اشتہارات صاف کئے جائیں۔ محکمہ صحت کو ہدایت کی گئی کہ اس کا کئی نمائندہ وقتاً فوقتاًاسپتالوں کو دورہ کرے اور اس کی رپورٹ دے کہ اس عدالتی حکم کی پابندی کی جارہی ہے۔ اس کے علاوہ ہر اسپتال میں ٹھوس کچرا جلانے کے لئے انسینیریٹرز نصب کئے جائیں۔

یہ رپورٹ ماہ نامہ اطراف میں قسط وار شائع ہونے کے بعد “بلوچستان سے بے وفائی” کے نام سے کتابی شکل میں بھی دستیاب ہے۔ سینیئر صحافی اور تجزیہ کار محمود شام کی یہ کتاب اور دیگر کتابیں 03008210636 سے حاصل کی جا سکتی ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *