کوئٹہ انکوائری کمیشن رپورٹ (ساتویں قسط)

14 دہشت گردی کے نظریے کے انسدادی بیانیے (Counter Narrative)

14.1: دہشت گردی اور اس کے اثرات: براہ راست یا بالواسطہ ہر شخص دہشت گردی سے متاثر ہے۔ کیونکہ لوگوں کا کوئی نہ کوئی عزیز، دوست، شناسا،دہشت گردی کی کسی واردات میں ہلاک یا زخمی ہوا ہے۔ ہزاروں افراد اپنی جانیں کھو چکے ہیں اور لاکھوں زخمی ہوئے ہیں۔ لیکن پاکستان میں مسلسل اس مسئلے کے تجزیے کی کمی محسوس کی جاتی ہے اور تحقیقات کے بعد پتہ چلتا ہے کہ اس کی کوئی انسدادی بیانیہ یا روایت نہیں اور نہ ہی منصوبوں پر کوئی عمل ہوتا ہے۔ ہم بعض اوقات بھول جاتے ہیں کہ دہشت گردوں کے حملے کس طرح انفرادی زندگیوں کو تباہ کردیتے ہیں؟ کتنے لوگ جانتے ہیں کہ باز محمد کاکڑ ایڈووکیٹ کی بیوہ نے اپنے شوہر کی دھماکے میں ہلاکت کے تین ماہ بعد ایک بیٹے کو جنم دیا۔ کیا ہمیں اس دکھ کی گہرائی اور درد کی شدت کا اندازہ ہے جو اس وقت اس بیوہ نے محسوس کیا ہوگا۔ ایک 24 سالہ لیڈی ڈاکٹر جو اس اسپتال میں کام کررہی تھی اور دھماکے میں شدید زخمی ہوئی تھی۔ کتنے لوگ جانتے ہیں کہ اس کی تین جراحیاں ہوئیں اور اس کی کولہے کی ہڈی اس کے بازو میں لگانی پڑی؟ وہ اب محدود طور پر اپنے بازو کو حرکت دے سکتی ہے۔ زخمی ہونے کے باوجود وہ جرات اور ہمت کے ساتھ اپنے کام پر واپس آگئی کیونکہ اس کے لئے اس کا پیشہ کمائی کا ذریعہ نہیں خدمت پر مبنی ایک مقدس مشن ہے۔ لیکن وہ اب بھی اس خوف میں مبتلا ہے کہ کیا سرجن بننے کا اس کا خواب پورا ہوسکے گا ؟ کیا ان دھماکوں سے متاثر ہونے والوں کو میڈیا نے وہ کوریج دی جو دھماکہ کرنے والوں کو ملا؟

14.2 میڈیا: یہ ایک اچھی پیش رفت ہے کہ میڈیا نے چھاپنے، شائع کرنے اور نشر کرنے کی آزادی حاصل کرلی۔ دریں اثنا دہشت گردی کے کیسوں کی رپورٹنگ میں کیا میڈیا ذمہ داری کا مظاہرہ کرتا ہے؟اخبارات و رسائل اور ترقیاتی میڈیا کو دہشت گردوں کے تصورات کو فروغ نہیں دینا چاہیئے۔ٹی وی چینلوں پر ان کو نظریات پیش کرنے کی وہ آزادی نہیں ہونی چاہیئے کہ وہ ہیرو بن جائیں۔ انسداد دہشت گردی کے قانون 1997 کے سیکشن 11W کے تحت یہ ایک قابل سزا جرم ہے جس کی سزاپانچ سال تک قید اور جرمانہ ہے۔دریں اثنا حقیقی خبریں اور رپورٹس دینے کی اجازت ہے۔لیکن بڑے ٹی وی نیٹ ورکس اکثر رائے عامہ کے جواز میں دہشت گردی کی حمایت کرنے والوں کو بولنے کا موقع دیتے ہیں۔ایک چینل سے ایک ایسے مہمان کو بولنے کا موقع دیا گیا جو جرائم کا جواز پیش کررہا تھا اور لڑکیوں کے اسکولوں کو بم دھماکوں سے اڑانے کی حمایت کررہا تھا۔میڈیا کو زیادہ زور دہشت گردی کے اثرات کو پیش کرنے پر دینا چاہیئے تاکہ قاتلوں کے بارے میں آگہی ہو اور ان کے موت اور تباہی کے نظریات کے بارے میں لوگوں کو علم ہو۔

14.3 کمیشن کا ٹاسک: کمیشن کا ٹاسک اس کثیر پہلوی سانحہ کے تمام پہلوؤں کو دیکھنا تھا۔جس میں دہشت گردی کے نظریہ کے انسداد کے بیانیے بھی شامل ہیں۔ دہشت گردی کی آگ نفرت کے ایندھن سے پھیلتی ہے جو مذہبی، فرقہ ورانہ اور نسلی سوچ پر مبنی ہے۔یہ دہشت گرد کون ہیں جو عام لوگوں پر حملے کرکے ان کو قتل کرتے ہیں؟سرکاری اور نجی املاک کو تباہ کرتے ہیں؟ان کی واضح اکثریت 75 فی صد تنظیمیں وہ ہیں جو مخصوص مذہبی نظریات کی حامل ہیں۔ ان سے نمٹنے کے لئے موزوں حکمت عملی درکار ہے۔

14.4 قرآن کریم سے رہنمائی: پاکستان کی آبادی کی اکثریت مسلمان ہے۔ اس لئے قرآن حکیم میں کی گئی رہنمائی ہر ایک کے لئے قابل قبول ہونی چاہیئے۔جبر، تشدد اور ظلم کی اسلام میں کہیں گنجائش نہیں۔ لفظ اسلام کے معنی امن کے ہیںلیکن ہم امن سے نہیں رہ پا رہے۔ دہشت گردی کا جواز دہشت گرد پیش کرتے ہیں اور ان کے ساتھ کے لوگ مکمل طور پر گمراہ ہیں۔ قران حکیم میں اللہ تعالی کے احکامات پوری طرح واضح ہیں۔

14.5 اللہ تعالی کا حکم اس سلسلے میں واضح ہے: اللہ تعالی قتل و غارت گری کے خلاف ہے: اللہ تعالی ٰ نے زندگی کو مقدس قرار دیا ہے۔ وہ خالق ہے اور کسی بھی انسان کے قتل کو پسند نہیں کرتا ۔ اللہ تعالی فرماتا ہے:’’اگر کسی نے ایک ذی نفس کو قتل کیا تو گویا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا، اگر کسی نے ایک بھی جان بچائی تو اس نے پوری انسانیت کی جان بچائی (سورہ المائدہ (5) آیت نمبر 32 )
’’اور جس نے ایک مومن کو جان بوجھ کر قتل کیا تو اس کی سزا جہنم ہے جہاں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت ہوگی اور ا سکے لئے اللہ نے بہت بڑا عذاب تیار کررکھا ہے‘‘۔ (سورہ النسا (4) آیت نمبر 93 )
اللہ تعالی نے ان لوگوں کے لئے سخت سزائیں مقرر کی ہیں جو کسی ذی نفس کو قتل کرتے ہیں۔ جو عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کے قاتل ہیں۔ان کے لئے اللہ کی طرف سے سخت سزائیں ہیں۔ قرآن کے اس پیغام میں کوئی پیچیدگی نہیں اور کوئی مسلمان اس سے اختلاف نہیں کر سکتا۔لیکن جو لوگ مسلمان ہونے کا دعوی کرتے ہیں اور مسلسل قتل کرتے رہتے ہیں انہوں نے یا تو قرآن حکیم نہیں پڑھا یا ان کے معلم یا استاد درست نہیں تھے جو ان کوگمراہی کی تعلیم دیتے تھے۔
14.6 خودکش حملہ آور: ایک خودکش حملہ آور جو خودکش جیکٹ پہنے ہوتا ہے جس میں دھماکہ خیز مادے، بال بیئرنگز وغیرہ بھرے ہوتے ہیں۔ وہ لوگوں کے درمیان جاکر دھماکہ کرتا ہے اور دوسروں کے ساتھ خود بھی مرجاتا ہے۔ اسلام میں زندگی مقدس ہے جس میں خودکش حملہ آور کی اپنی زندگی بھی شامل ہے۔ اس کا خودکشی کرنا گناہ کبیرہ ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ ’’کسی ایسی جان کو قتل نہ کرو جسے اللہ نے حرام کیا ہو سوائے اس کے جس کا قتل برحق ہو۔‘‘ (سورہ الانعام (6) آیت نمبر 151 )

’’اور تم اپنے آپ کو قتل نہ کروبیشک اللہ تم پر بہت رحم کرنے والا ہے۔‘‘ (سورہ النسا (4) آیت نمبر 29 )

جو شخص بھی خودکشی کرتا ہے اور اپنے آپ کو بم دھماکے کے ذریعہ قتل کردیتا ہے وہ اللہ کی تخلیق کے خلاف جرم کرتا ہے اور اس کے حکم کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ وہ خودکش دھماکے کرکے خود کو اور دوسروں کو ہلاک کرتا ہے جبکہ تمام لوگوں کی اور خود اس کی اپنی جان مقدس اور قیمتی ہے جسے قتل کرنے کا اسے کوئی اختیار نہیں دیا گیا۔ اگر کوئی مسجد یا مدرسہ چلانے والے لوگ قرآن کے اس حکم کے خلاف عمل کررہے ہیں تو ان کو باز آجانا چاہیئے۔
14.7 مسیحیوں اور دیگر مذاہب کے لوگوں کو قتل کرنا:پاکستان میں عیسائیوں اور دوسرے مذاہب کے لوگوں پر حملے ہوئے بہت سے گرجا گھروں کو بم دھماکوں سے اڑایا گیا۔ قرآن مجید میں عبادت کی تمام جگہوں کی حفاظت کا حکم ہے اور خاص طور پر خانقاہوں، چرچوں، یہودی معبدوں اور مسجدوں کا ذکر ہے۔’’ اور اگر اللہ لوگوں میں سے بعض کو بعض کے ذریعہ سے دفع نہ کرتا تو بلاشبہ خانقاہیں، اور گرجے اور یہودی عبادت خانے اور مسجدیں ڈھادی جاتیں جن میں اللہ کا نام بکثرت یا جاتا ہے‘‘۔ (سورہ الحج (22) آیت نمبر 40 )
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو بھی ایک مسلم ریاست کے غیر مسلم شہری کو تکلیف دے گا وہ مجھے تکلیف دے گا اور جو مجھے تکلیف دے گا وہ اللہ کو ناراض کرے گا۔‘‘ (بخاری)
’’جو کسی مسلم ریاست کے غیر مسلم شہری کو تکلیف دیتا ہے، میں اس کا دشمن ہوں اور میں یوم حساب کے موقع پر بھی اس کا دشمن ہوں گا۔‘‘ (بخاری)

’’یوم حساب کے بارے میں غفلت نہ برتو،میں خود اس کا شکایت کنندہ ہوں گا جو کسی مسلم ریاست کے غیر مسلم شہری سے زیادتی کرے گا یا اس پر اس کی طاقت سے زیادہ ذمہ داری کا بوجھ ڈالے گا جو وہ برداشت نہ کرسکے یا اس کی ملکیت کی کسی چیز سے اسے محروم کرے گا۔‘‘ 

(الماوردی)14.8 برداشت: برداشت کرنا ایک مومن کے لئے ایمان کا جزو ہے۔ جبراً تبدیلی مذہب، ظلم، یا کسی بھی قسم کی زیادتی اسلام کے خلاف عمل ہے: ’’دین میں کوئی زبردستی نہیں۔‘‘ (سورہ البقرہ (2) آیت نمبر 256)
“دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کی توہین نہیں کی جا سکتی کیونکہ اللہ تعالی نے ہمیں ایسا نہ کرنے کا حکم دیا ہے۔’’ اور مشرکین اللہ کو چھوڑ کر جنہیں پکارتے ہیں تم انہیں گالی نہ دو، پھر وہ بھی جہالت میں حد سے گزرتے ہوئے اللہ کو گالی دیں گے۔ اسی طرح ہم نے ہر امت  کے لئے ان کے عمل میں کشش پیدا کردی ہے، پھر انہیں اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانا ہے پھر وہ انہیں بتائے گا کہ وہ کیا کچھ کرتے رہے تھے‘‘۔ (سورہ الانعام (6) آیت نمبر 108)

14.9 فرقہ پرستی: زیادہ تر ممنوعہ تنظیمیں انتہائی فرقہ پرست ہیں اور پاکستان کو اپنے فرقے کے مطابق فرقہ ورانہ ریاست بنادینا چاہتی ہیں۔یہ لوگ اللہ کے اس حکم کو بھولے ہوئے ہیں کہ فرقوں میں نہ بٹو۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہے: ’’دین کو قائم رکھو اور اس میں فرقہ فرقہ نہ ہوجاؤ۔‘‘ (سورہ الشوریٰ (42) آیت نمبر 13) اللہ تعالی ان لوگوں کو ناپسند کرتا ہے جو اسلام اور مسلمانوں کو تقسیم کرتے ہیں اور دعوی کرتے ہیں کہ ان کا فرقہ برتر ہے اور اس طرح دوسرے مسلمانوں سے نفرت کو فروغ دیتے ہیں۔

’’اس کی طرف رجوع کرتے ہوئے دین پر قائم رہو اور تم اس سے ڈرتے رہو اور نماز قائم کرو اور تم مشرکوں میں سے نہ ہو جاؤ۔ جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور وہ کئی گروہ ہوگئے۔ہر گروہ کے پاس جو کچھ ہے وہ اسی میں خوش ہے‘‘۔ (سورہ الروم (30) آیات نمبر 31-32)

’’اور تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جو فرقوں میں بٹ گئے اور ان کے پاس واضح نشانیاں آجانے کے بعد انہوں نے ایک دوسرے سے اختلاف کیا اور ان لوگوں کے لئے بہت بڑا عذاب ہے۔‘‘ (سورہ العمران (3) آیت نمبر 105)

’’بلاشبہ تمہارا یہ دین ایک ہی دین ہے اور میں تمہارا رب ہوں لہذا تم میری ہی عبادت کرو‘‘۔ (سورہ الانبیا(21) آیت نمبر 92 )
14.10 عدم اتفاق اور فتنہ: حضور اکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کا پیغام پھیلایا اور خبردار کیا کہ ’’نااتفاقی میں ملوث مت ہو اس سے تمہارے دلوں میں پھوٹ پڑ جائے گی‘‘۔ جب دو مسلمان قرآن کی ایک آیت کے مفہوم کے بارے میں بلند آواز بحث کررہے تھے تو آپ نے فرمایا؛ ’’تم سے پہلے کی امتیں اس لئے برباد ہوگئیں کہ انہوں نے اللہ کے کلام کے بارے میں عدم اتفاق کیا‘‘۔ عرفات میں اپنا مشہور خطبہ دیتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ ’’ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں۔‘‘
14.11 بقا اتحاد، بھائی چارے اور محبت میں ہے: قرآن مجید میں جگہ جگہ بھائی چارہ، اخوت، اور محبت کا ذکر ہے لیکن ہم اللہ تعالی کی جانب سے کی جانے والی رہنمائی سے غافل ہیں۔

’’اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور جدا جدا نہ ہو اور تم خود پر اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے پھر اس نے تمہارے درمیان الفت ڈال دی اور تم اس کے احسان سے بھائی بھائی بن گئے۔ اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے پھر اس نے تمہیں اس میں گرنے سے بچا لیا۔اللہ تعالی اسی طرح تمہارے لئے اپنی آیتیں بیان کرتا ہے، شاید کہ تم ہدایت پاؤ‘‘۔ (سورہ العمران (3) آیت نمبر 103)

14.12 نتائج: پاکستان میں دہشت گردی کی برائی تیزی سے پھیل رہی ہے کیونکہ ریاست کے ادارے اس کے خلاف سینہ سپر نہیںاور جن لوگوں پر انتہا پسندی کے انسداد کی ذمہ داری ہے وہ اپنے فرائض ادا نہیں کررہے۔ انتہا پسندی اور نفرت کے نظریات نے بہت سے نوجوانوں کو دین سے دور کردیا ہے۔ اسلام بہت سے مسائل کا حل ہے جن میں ماحولیاتی بحران بھی شامل ہے۔اپنی بدعملی کے ذریعہ انتہا پسند ہمارے پیارے نبی کے قد و قامت میں کمی کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو صرف مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ ساری دنیا کے لئے رحمت العالمین ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کے لئے اللہ تعالی فرماتا ہے،’’اے نبی آپ کہہ دیجیئے۔کیا تم اللہ کو اپنے دین کی خبر دیتے ہو؟ اور اللہ جانتا ہے جو کچھ آسمانوں اورجو کچھ زمین میں ہے اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے‘‘۔ (سورہ الحجرات (49) آیت نمبر 16)

یہ رپورٹ ماہ نامہ اطراف میں قسط وار شائع ہونے کے بعد “بلوچستان سے بے وفائی” کے نام سے کتابی شکل میں بھی دستیاب ہے۔ سینیئر صحافی اور تجزیہ کار محمود شام کی یہ کتاب اور دیگر کتابیں 03008210636 سے حاصل کی جا سکتی ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *