16 دھماکے کے بعد افراتفری اور پولیس کی ہوائی فائرنگ:
16.1 مزید پریشانی: جس وقت کوئٹہ کے اسپتال میں دھماکہ ہوا تو وہاں تعینات پولیس والوں نے ہوائی فائرنگ شروع کردی۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے دہشت گردوں کو خوفزدہ کرنے کے لئے فائرنگ کی۔ دہشت گرد تو اس سے خوفزدہ نہیں ہوئے لیکن عام لوگ، مریض اور ڈاکٹر دہشت زدہ ہوگئے۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ دھماکے میں زخمی ہونے والوں کو طبی امداد دینے کا کام متاثر ہوا۔ اور کہا نہیں جا سکتا کہ اس وجہ سے کئی جانیں جو بچائی جا سکتی تھیں پولیس والوں کی اس ہوائی فائرنگ کی وجہ سے ضائع ہوئیں۔ طویل عرصہ گزر گیا اور پاکستانی مسلسل دہشت گردوں کے حملوں کا نشانہ بن رہے ہیں لیکن ہماری پولیس ابھی تک کوئی پروٹوکول نہیں بنا سکی کہ دھماکے کے بعد کیا کرنا ہے؟ کیسے کرنا ہے؟ تاکہ نقصان کو کم سے کم کیا جاسکے۔
16.3 ہوائی فائرنگ کے نقصانات: پولیس والوں کو اس کا علم نہیں ہے کہ ہوائی فائرنگ سے کیا نقصان ہوسکتا ہے۔ ان کیمرہ بریفنگ کے دوران آئی جی پولیس یہ بتانے میں ناکام رہے کہ ہوائی فائرنگ کے کیا اثرات ہوتے ہیں؟ اس سے کیا نقصان ہوتا ہے؟ان کو یہ بھی تصور نہیں ہے کہ بلندی سے زمین پر گرنے والی گولی کم خطرناک نہیں ہوتی۔پی ایف ایس اے کے آتش گیر اسلحہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین پر گرنے والی گولیوں سے بھی لوگ زخمی ہوتے ہیں۔
16.4 ان لوگوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی جنہوں نے بلا ضرورت ہوائی فائرنگ کی۔ کمیشن کے کوئٹہ میں قیام کے دوران بھی روزانہ ہوائی فائرنگ کی آوازیں آتی تھیں لیکن کبھی کسی کے خلاف کوئی کارروائی ہوتی نظر نہیں آئی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ لاقانونیت عام ہے اور قانون توڑنے والوں کو کوئی روکنے والا نہیں۔ کیونکہ شادی بیاہ اور تقریبات میں بھی ہوائی فائرنگ عام ہے اس لئے قانون نافذ کرنے والے ادارے کوئی کارروائی نہیں کرتے۔ بعض اوقات یہ فیصلہ بھی نہیں کیا جا سکتا کہ یہ فائرنگ دہشت گرد کررہے ہیں، یا کسی تقریب میں یہ فائرنگ ہورہی ہے۔
17 دھماکے کے بعد اسپتال کی صورت حال:
17.1 زخمیوں کو کوئی دیکھنے والا نہیں تھا: زخمی اور غیر زخمی وکیلوں کا کہنا تھا کہ دھماکے کے بعد زخمی ہونے والوں کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی ڈاکٹر موجود نہیں تھا۔ اس کی تصدیق وڈیو ریکارڈنگ سے بھی ہوتی ہے۔ کیونکہ دھماکہ اسپتال کے وسط میں ہوا اس لئے ڈاکٹروں کی عدم موجودگی کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ زخمیوں کی دیکھ بھال کرنے والوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی تھی۔ ان میں سے ایک ڈاکٹر شہلا سمیع تھیں جو زخمیوں کو طبی امداد پہنچا تی نظر آئیں حالانکہ ان کا تعلق گائنا کا لوجی سے ہے اور ان کا وارڈ یہاں سے بہت دور تھا۔ ان کی کوششوں سے کئی لوگوں کی جان بچ گئی۔ اگر دوسرے ڈاکٹر بھی اسی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے تو مزید ہلاکتیں کم ہو جاتیں۔
17.2 انسانی زندگی سے لاپرواہی: دھماکے کے بعد اسپتال کے ڈاکٹروں نے اس احساس فرض کا مظاہرہ نہیں کیا جیسا ڈاکٹر شہلا سمیع نے کیا۔ اگر یہ کوئٹہ کے بولان میڈیکل کالج کا کلچر ہے تو یہ انتہائی افسوس ناک ہے۔ڈاکٹروں اور دیگر طبی عملے کی اس نالائقی کے سبب مجروحیں کی تکلیفوں میں اضافہ ہوا۔ اور بہت سے شدید زخمی بروقت دیکھ بھال نہ ملنے کی وجہ سے فوت ہوئے۔
17.3 ابتدائی طبی امداد کے کٹس اور اسٹریچرز نہیں تھے: یہ اسپتال کسی ہنگامی حالت کا مقابلہ کرنے کے لئے قطعی تیاری کی حالت میں نہیں تھا اور یہاں اسٹریچر اور فرسٹ ایڈ کٹس بھی موجود نہ تھیں۔رضاکاروں کو بھاری بستر کھینچنے پڑے جن پر زخمیوں کو ڈالا گیا۔ بستروں کی کمی کی وجہ سے ایک بستر پر ایک سے زیادہ زخمیوں کو لٹایا گیا۔ وہاں جان بچانے والی لازمی دوائیں بھی موجود نہیں تھیں اور پٹیاں بھی دستیاب نہیں تھیں جس کی وجہ سے بہت سی جانیں ضائع ہوئیں۔ صرف ایک نرس، ایک ڈاکٹر اور عملے کا ایک فرد بھی دھماکے کے مقام پر پہنچ کر یہ لازمی چیزیں فراہم کرسکتا تھا۔ اسپتالوں پر پہلے بھی کئی حملے ہوئے ہیں اس لئے اس طرح تیار نہ ہونا سمجھ میں نہیں آتا۔
18 اسپتال کے عملے کی غیر حاضری:
8 اگست 2016 کو جب یہ حملہ ہوا ڈاکٹروں، نرسوں، ٖڈسپنسرز اور دیگر طبی عملے کی بڑی تعداد غیر حاضر تھی۔ایک انٹیلیجنس ایجنسی کے اہلکار نے جب عملے کی غیر حاضری کا حساب لگایا تو پتہ چلا کہ 81 ڈاکٹر، 18 نرسیں اور 15 ڈسپنسرز غیر حاضر تھے۔ جبکہ 52 ڈاکٹروں کی حاضری بھی مشتبہ تھی۔
18.2 اسپتال میں ایک بائیو میٹرک اٹینڈنس سسٹم 2014 میں لگایا گیا تھا۔ اس سسٹم کی موجودگی میں ڈاکٹرغیر حاضری نہیں کرسکتے تھے اس لئے ایک گروپ نے یہ سسٹم توڑ دیا اور سسٹم کو چلانے والے عملے کے رکن کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ اس سسٹم کو بعد میں ٹھیک کرانے کی کوشش نہیں کی گئی اور جن لوگوں نے اس قومی املاک کو تباہ کیا تھا ان کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی نہیں کی گئی۔ کمیشن نے جب اس سلسلے میں سیکریٹری صحت سے سوال کیا کہ ذمہ داروں کو سزا کیوں نہیں دی گئی تو انہوں نے جواب دیا کہ ان کی شناخت نہ ہوسکی۔ جب ان کے سامنے توڑ پھوڑ کی وڈیو چلائی گئی تو وہ حیران رہ گئے۔ کیونکہ انہیں اس کی توقع نہیں تھی۔ اس واقعہ سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ حکومت کچھ لوگوں کو بچانا چاہتی ہے اور ان کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہے انہیں عوام کی تکلیفوں کی کوئی پرواہ نہیں۔
18.4 کمیشن نے چیف سیکریٹری اور حکومت بلوچستان کے ہیلتھ سیکریٹری سے دریافت کیا کہ بائیو میٹرک اٹینڈنس سسٹم توڑنے والوں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی گئی اور سسٹم کی مرمت کیوں نہیں کرائی گئی؟ کمیشن کے دریافت کرنے پر واقعہ کے دو سال چار ماہ گزرنے کے بعد دو ڈاکٹروں اور ایک پیرا میڈک اہلکار کے شو کاز نوٹس جاری ہوئے اور سسٹم کو بھی آپریشنل کردیا گیا۔ (اگرچہ ریکارڈنگ میں اور لوگوں کے چہرے بھی نمایاں ہیں) اس سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ حکومت بلوچستان میں ذمہ داری اور احتساب کا کوئی نظام نہیں۔ ڈٖاکٹروں کو قومی خزانے سے تنخواہیں دی جاتی ہیں لیکن وہ کام نہیں کرتے۔ یہ ڈاکٹر جنہوں نے قانون کو ہاتھ میں لے رکھا ہے ایمان دار ڈاکٹروں کے حوصلوں کو پست کرتے ہیں اور انہیں کام نہیں کرنے دیتے۔ یہ کرپٹ ڈاکٹر اپنی ایسوسی ایشن کو دباؤ ڈالنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
یہ رپورٹ ماہ نامہ اطراف میں قسط وار شائع ہونے کے بعد “بلوچستان سے بے وفائی” کے نام سے کتابی شکل میں بھی دستیاب ہے۔ سینیئر صحافی اور تجزیہ کار محمود شام کی یہ کتاب اور دیگر کتابیں 03008210636 سے حاصل کی جا سکتی ہیں۔
- آسان زندگی جنوبی ایشیا کا بھی حق ہے - April 6, 2025
- ہلال عید کی جھلک.. کئی سبق - April 3, 2025
- ’’اکثریت مسلم ملکوں میں ہی بے نوا کیوں‘‘ - March 30, 2025