سوشل میڈیا اکاؤنٹس

محمود شام

محمود شام

پاکستان کے ممتاز صحافی، شاعر، ادیب اور تجزیہ کار جناب محمود شام 5 فروری 1940

کوئٹہ انکوائری کمیشن رپورٹ (پہلی قسط)

1۔ تعارف1.1 سپریم کورٹ آف پاکستان نے اپنے ایک حکم نامے مورخہ 6 اکتوبر 2016 کے ذریعہ ایک سو موٹو کیس نمبر 16 ، 2016 کے تحت حکم جاری کیا کہ ایک انکوائری کمیشن قائم کیا جائے۔ حکم نامے کے متعلقہ پیرے کے مطابق ’’فاضل اے ایس سی حامد خان برائے بلوچستان ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے سفارش کی کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے کسی فاضل جج کی سربراہی میں ایک انکوائری کمیشن قائم کیا جائے جو 8 اگست 2016 کو کوئٹہ میں ہونے والے دو سانحوں کی انکوائری کرکے رپورٹ پیش کرے۔ اے جی بلوچستان نے اس کمیشن کے قیام کی مخالفت کی لیکن بلوچستان بار کے مطالبے پر جس کے اراکین ان سانحوں میں بری طرح متاثر ہوئے تھے جسٹس قاضی فائز عیسی کی سرکردگی میں یہ ایک رکنی کمیشن قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیااور اسے ذمہ داری دی گئی کہ وہ 17  اکتوبر 2016  سے شروع کرتے ہوئے 30 دن کی مدت میں اپنی انکوائری مکمل کرکے رپورٹ پیش کریں۔ اس رپورٹ کے تکمیل اور اجرا کے بعد سوموٹو کارروائی اسلام آباد میں آئندہ سماعت میں شروع ہوگی۔ یہ بھی طے پایا کہ اس دوران کمیشن کی کارروائی سے کسی سرکاری ایجنسی یا قانون نافذ کرنے والے کسی ادارے کی کارروائی میں کوئی رکاوٹ نہیں پڑے گی۔ کمیشن نے اپنی کارروائی کا آغاز 17 اکتوبر 2016 کو کوئٹہ میں کیا اور اس کے بعد دیگر مقامات پر بھی اس کی کارروائی وقتاً فوقتاً جاری رہی۔1.2 اس دوران حکومت بلوچستان نے کمیشن کے قیام کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی ایک پٹیشن داخل کی لیکن بعد میں اس پر زور نہیں دیا۔ دریں اثنا یہ پٹیشن 19 اکتوبر کو خارج کردی گئی۔ اس سلسلے میں فاضل ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان امان اللہ خان کنرانی اور فاضل سینیئر اے ایس سی خواجہ حارث احمد نے فاضل کمیشن میں پورے اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اپنی پٹیشن پر زور نہیں دیا چنانچہ نظر ثانی پٹیشن خارج کردی گئی۔1.3 دریں اثنا کمیشن نے چیف سیکریٹری، حکومت بلوچستان کو حکم دیا کہ اردو اور انگریزی کے تین تین کثیر الاشاعت اخبارات میں انکوائری کے سلسلے میں نوٹس شائع کرائے جائیں۔ یہ نوٹس 9 اور 10 اکتوبر کو شائع ہوئے اور ان میں عوام سے اپیل کی گئی کہ 8 اگست کو کوئٹہ کے دونوں سانحات کے بارے میں اپنے بیانات، معلومات اور شہادتیں کمیشن کے سامنے پیش کریں۔ یہ معلومات سیل نمبر (0317-8058884) اوربذریعہ ای میل(quettainquirycommission.scp@gmail.com) بھی فراہم کی جاسکتی تھیں۔ حکومت بلوچستان سے بھی درخواست کی گئی اور انہوں نے بھی کمیشن سے تعاون کے لئے ایک سینیئر افسر کو ذمہ داری تفویض کردی۔1.4 کمیشن نے چیف سیکریٹری، حکومت بلوچستان کو مندرجہ ذیل امور کے سلسلے میں معلومات فراہم کرنے اور سوالات کے جواب تلاش کرنے کی ہدایت کی:بلال انور کاسی پر قاتلانہ حملہ(1) بلال انور کاسی پر قاتلانہ حملے کا وقت اور مقام وقوع مع سائیٹ پلان جس میں اردگرد کی سڑکوں کی نشاندہی ہو؛ (2) حملہ آوروں کی تعداد اور ان کے فرار ہونے کا انداز، (3) قریب ترین پولیس، بلوچستان کانسٹبلری اور فرنٹیئر کور کی چیک پوسٹیں اور مقام وقوع سے فاصلہ، اور کیا انہوں نے فائرنگ کی آواز سنی؟ اور بعد میں کیا کارروائی کی؟ (4) بلال کاسی کی لاش اسپتال پہنچنے کا وقت؛ (5) پوسٹ مارٹم رپورٹ؛ (6) کیا لاش/ کار/ مقام وقوع سے کوئی گولی/ گولیاں برآمد ہوئیں اور کیا ان کا کوئی فارنسک امتحان ہوا؟ اگر ہوا تو اس کی رپورٹ پیش کی جائے؛سنڈیمن اسپتال میں دھماکے(7) سنڈیمن اسپتال میں دھماکے کا وقت اور محل وقوع سائیٹ پلان پر؛ (8) کیا اسپتال میں سیکیورٹی کیمرے نصب تھے اگر ہاں تو ان کا مقام اور 8 اگست کی ریکارڈنگ جو واقعہ سے دو گھنٹہ پہلے سے لے کر دھماکے کے بعد تک کی ہو؛ (9) اسپتال میں ہونے والے دھماکے میں استعمال ہونے والے آلات کی تصریحات مع یہ تفصیل کہ یہ دھماکے کسی خودکش حملہ آور نے کئے یا ریموٹ کنٹرول سے ہوئے؛ اگر دھماکے میں کوئی خودکش حملہ آور ملوث تھا تو کیا اس کے جسم کا کوئی حصہ ملا؟ اگر ملا تو کیا اس کا فارنسک امتحان ہوا؟ اور فارنسک امتحان کی رپورٹ؛ دھماکہ خیز مواد کی مقدار اور پروجیکٹائل کی قسم؛ کیا مقام وقوع سے ٹائمر/ ڈیٹونیشن سوئچ/ خودکش جیکٹ/ دھماکہ خیز مواد یا کوئی اور مواد ملااور کیا اس کا فارینسک امتحان کرایا گیا؟ اگر ہاں تو اس کی رپورٹ؛حملے کی تحقیقات(10) وہ حکام جنہوں نے دونوں سانحات کی تحقیقات کی، کون سے افسران نے حصہ لیا ؟اور ان کے سیل نمبر وغیرہ، تحقیقات کرنے والی ٹیم کے سربراہ کا نام؛ (11) کس فارینسک اتھارٹی سے مدد لی گئی؟ اور کیا مدد لی گئی؟ (12) کیا فارنسک ماہرین نے بلال کاسی کے قتل اور اسپتال میں دھماکے کی جگہ کا معائنہ کیا؟ اگر ہاں تو اس کی رپورٹ؛ (13) اسپتال دھماکے میں استعمال ہونے والے مادوں کو فارنسک امتحان کے لئے بھجوایا گیا یا نہیں؟ اگر ہاں تو اس کے نتائج کی رپورٹ؛ (14) کیا نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی (این اے سی ٹی اے)، وزارت داخلہ، وزارت دفاع، اور / یا آئی ایس آئی سے مدد حاصل کرنے کی کوشش کی گئی یا ملی؟ اگر ہاں تو اس کی تفصیلات یا رپورٹ؛ (15) کیا حملہ آوروں کی شناخت ہوئی اگر ہاں تو اس کی تفصیلات مع نام اور مخبرین سے رابطے کی تفصیل؛حملے سے پہلے(16) کیا حکومت بلوچستان کو ایسی پیشگی اطلاع تھی یا این اے سی ٹی اے، وزارت داخلہ، وزارت دفاع یا آئی ایس آئی نے ایسی کوئی وارننگ دی؛حملے کے بعد(17) کیا کسی تنظیم نے بلال کاسی کے قتل یا اسپتال دھماکے کی ذمہ داری قبول کی؟اگر ہاں تو اس کی تفصیل، (18) کیا متعلقہ تنظیم پر انسداد دہشت گردی کے قانون 1997 کے تحت پابندی ہے، اس کی تفصیلات؛تعلق(19) کیا 8 اگست کو ہونے والے یہ دونوں حملے کسی اور حملے سے مماثلت رکھتے تھے، اگر ہاں تو اس کی تفصیل؛ہلاک شدگان، علاج اور معاوضہ کی ادائیگی(20) دھماکے میں ہلاک ہونے والوں کی فہرست اور پسماندگان کو معاوضہ کی ادائیگی کی تفصیل، اگر ادا کیا گیا؟ (21) زخمیوں کی فہرست،معاوضوں کی ادائیگی اور ان کے علاج کے اخراجات کس نے برداشت کئے؛دھماکے کے وقت اسپتال کی صورت حال(22) ڈاکٹروں کے ناموں کی فہرست جنہیں دھماکے کے وقت حاضر ہونا چاہیئے تھا اور غیر حاضر ڈاکٹروں کے ناموں کی فہرست؛ (23) ان لوگوں کی فہرست جو 8 اگست 2016 کو دھماکے کے وقت ایمرجنسی کے انچارج تھے اور اس کی تائید میں ڈیوٹی روسٹر اور حاضری رجسٹر؛ (24) زخمیوں کی دوسرے اسپتالوں کو منتقلی اور ا سکی وجوہ؛ (25) دوسرے اسپتالوں کو بھیجے جانے والے زخمیوں کی فہرست اور کس تاریخ کو انہیں فارغ کیا گیا؟ٹراما یا ایمرجنسی سینٹرز(26) کیا کوئٹہ یا بلوچستان میں کوئی ٹراما/ ایمرجنسی سینٹرز ہیں تاکہ حادثات یا دہشت گردی کے زخمیوں کا علاج کرایا جاسکے؟ (27) ایسے واقعات کی صورت میںتفتیش کا کوئی مسلمہ معیاری طریقہ کار ہے کہ کیا واقعہ ہوا اور اس سے کیسے نمٹا جائے؟اسپیشلسٹس سیل/ یونٹ/ ڈویژن(28) کیا بلوچستان یا پاکستان کے دوسرے علاقوں میں یا آئی ایس آئی یا این اے سی ٹی اے کے تحت دہشت گردی کے سلسلے میں کوئی اسپیشلائزڈسیل/ یونٹ/ ڈویژن ہے؟ اگر ہاں تو اس کی تفصیلات؛فارنسک لیب(29) کیا بلوچستان میں کوئی فارینسک تجربہ گاہ ہے؟ اگر ہاں تو کیا وہ دھماکہ خیز مادوں کی نوعیت اور قسم کا تعین کرسکتی ہے؟ اور کیا وہ ڈی این اے کی سیمپلنگ/ ٹیسٹنگ کرسکتی ہے؟گزشتہ حملوں کی تفصیل(30) دیگر حملوں کی مختصر تفصیل جو دھماکوں کے ذریعہ کئے گئے اور کیا ان میں خود کش بمبار استعمال ہوئے یا آئی ای ڈیز (بارودی سرنگیں) یا دوسرے طریقے استعمال ہوئے؟ تفصیلات؛ ان معلومات میں تاریخ، ہلاکتوں وغیرہ کی تعداد، دھماکوں کی نوعیت، اور کس نے ذمہ داری قبول کی؟ شامل ہوں۔دیگر معلومات(31) کوئی بھی دیگر معلومات یا مواد جو کمیشن کی انکوائری میں مدد گار ثابت ہوسکے؛آپ کی رائے(32) کیا آپ کے خیال میں یہ کسی محکمے/ سرکاری ایجنسی کی ناکامی تھی اور کیا آپ اس شخص کی شناخت کرسکتے ہیں جو اس کا براہ راست ذمہ دار تھا؟ (33) کیا آپ کے خیال میں ان حملوں کو روکا جا سکتا تھا؟ اور اگر ایسا تھا تو اس سلسلے میں کیا اقدامات کئے جانے چاہیئے تھے؟کمیشن کی جانب سے خطوط1.5 کمیشن کی جانب سے مختلف افراد اور اداروں کو 59 خطوط لکھے گئے تاکہ ان سانحوں کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات جمع کی جاسکیں۔کمیشن کے کام کا آغاز1.6 کمیشن کا پہلا اجلاس 17 اکتوبر 2016 کو ہائی کورٹ بلڈنگ ، کوئٹہ کی گراؤنڈ فلور پر واقع ایک کمرے میں ہوا۔اس اجلاس میں وکلا کی بڑی تعداد کے علاوہ چیف سیکریٹری حکومت بلوچستان، دیگر سیکریٹریوں، آئی جی پولیس اور دیگر سینیئر پولیس افسروں،طبی عملے کے افراد، حملے میں ہلاک و زخمی ہونے والوں کے عزیزوں، میڈیا، اور عوام الناس کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل (ڈی اے جی) اور ایڈووکیٹ جنرل (اے جی) نے بالترتیب حکومت پاکستان اور حکومت بلوچستان کی نمائندگی کی۔1.7 کمیشن کا مقصد 8 اگست 2016 کو ہونے والے ان دو بڑے سانحوں کے بارے میں رپورٹ مرتب کرنا تھا جن میں بلال کاسی ایڈووکیٹ کو قتل کیا گیا اور سنڈیمن پراونشل اسپتال میں دھماکوں کے ذریعہ بڑی تعداد میں وکلا ، طبی عملے اور عام لوگوں کو ہلاک کیا گیا۔ہلاک شدگان کی اکثریت وکلا پر مشتمل تھی۔ ان سانحوں کے بارے میں مندرجہ ذیل سوالات کا جواب تلاش کرنا تھا:پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے حملوں کے بعد کیا کارروائی کی؟ کیا جرائم کے اس منظر کا فارنسک بنیاد پر تجزیہ کیا گیا؟ کیا مجرمانہ منظر سے جمع کئے جانے والے مواد کا فارنسک بنیاد پر معائنہ کیا گیا؟ کیا زخمیوں کی مناسب دیکھ بھال کی گئی؟ کیا ان کے علاج میں کسی قسم کی غفلت تو نہیں ہوئی؟ کیا کسی نے تحقیقات میں آڑے آنے کی کوشش کی یا کسی چیز سے رکاوٹ پڑی؟کیا تفتیش کاروں نے جرم ک تمام پہلوؤں کا جائزہ لیا؟ کیا جرائم کی تفتیش موثر طور پر کی گئی؟ کیا ایسے حملوں اور ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لئے کوئی پروٹوکول یا معیاری طریقہ کار موجود ہے؟ ریاست کی جانب سے ان حملوں کے سلسلے میں پیدا شدہ حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے کوئی فنڈز مختص کئے ؟  زخمیوں اور ہلاک شدگان کے قانونی وارثوں کو معاوضوں کی ادائیگی کیا کی گئی؟ دہشت گرد ی اپنے حملوں کو کامیاب بنانے میں کس طرح کامیاب ہوئے؟ حملہ آور کون تھے اور ان کے نظریات کیا تھے؟پاکستان میں کون سی تنظیمیں ان نظریات کی حامل ہیں؟کیا دہشت گردوں نے ایسے ہی حملوں کے دیگر واقعات کی ذمہ داری قبول کی؟  اگر ایسا ہے تو کیا ایسی تنظیموں کو غیر قانونی قرار دیا گیا اور ان پر پابندی لگائی گئی؟ اور اگر نہیں تو کیوں؟ کیا وفاقی حکومت اور وفاقی ایجنسیوں نے اس تحقیقات میں معاونت کی؟کمیشن کو اس مسئلے کا تفصیلی جائزہ لینا تھا اس لئے ان دو حملوں کا دیگر حملوں سے تعلق تلاش کرنے کرنے کے لئے مندرجہ ذیل امور پر بھی غور کیا گیا۔ پاکستان مین دہشت گردی سے متعلق حملوں کی تعداد اور مجروحین کی تعداد؛ دہشت گردی کی بنا پر پاکستان کو ہونے والا مالی نقصان؛انتہا پسندی کی وجوہ؛نفرت پر مبنی لٹریچر اور تقریروں کا فروغ؛دہشت گردی کے فروغ میں انتہا پسندانہ تصورات،تقریروں اور پروپیگنڈے کا کردار؛ انسداد دہشت گردی کے قانون مجریہ 1997 کے تحت  تنظیموں اور افراد کو غیر قانونی قرار دینے کا طریقہ کار اور کیا اس پر باقاعدگی سے عمل کیا گیا؛ تنظیموں کو غیر قانونی قرار دئے جانے کے قانونی اثرات  اور کیا قانون پر عمل ہوا؟ دہشت گردی کے کیسوں میں تفتیش کے طریقے اور کیا وہ موثر پائے گئے؟  کیا دہشت گردی کے کیسوں کی جامع اور مکمل معلومات ریکارڈ میں رکھی گئی ہیں؟ اگر نہیں تو کیا ایسی معلومات اور ڈیٹا رکھنے کے لئے کوئی مرکزی ڈیپوزیٹری ہونی چاہیئے؟ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لئے مختلف حکومتوں کا کردار؟  متعلقہ وزارتوں اور محکموں کا کردار؛ نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم ایکٹ مجریہ 2013 کے تحت قائم ادارے کتنے موثر ثابت ہوئے؟ نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی (این اے سی ٹی اے) کا کردار اور موثریت؛  اور کیا وفاقی اور صوبائی حکومتیں ملک میں دہشت گردی کی لعنت سے بچاوکے لئے موثر اقدامات کررہی ہیں؟ اس اہم کام کے موزوں ترین شخص کے انتخاب کا طریقہ کار مع اسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کا چناؤ؛1.8 اے جی کے اعتراضاتجب کمیشن کے قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تو اے جی نے اعتراض کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی پٹیشن داخل کی جس کی بنیاد دو نکات پر تھی؛ اول کمیشن قائم ہی نہیں ہونا چاہیئے، اور دوئم اس کا چیرمین مجھے (یعنی قاضی فائز عیسی) کو نہیں ہونا چاہیئے۔ دلیل یہ دی گئی کہ میں نے ان سانحات کے ہلاک شدگان اور زخمیوں کے قانونی وارثوں کو ہمدردی کا ایک خط لکھا اس لئے مجھے یہ ذمہ داری قبول نہیں کرنی چاہیئے۔ چنانچہ میں نے فاضل اے جی سے ملاقات کی اور اور دلائل دئے کہ میں کیوں اس کام کے لئے موزوں شخص ہوں؟ وہ مسلسل اصرار کرتے رہے کہ انہیں ان جذبات سے پورا اتفاق ہے جن کا اظہار میں نے متاثرین کے نام خط میں کیا لیکن پھر بھی مجھے کمیشن سے الگ ہوجانا چاہیئے۔ میں نے جو خط اردو میں لکھا تھا وہ یہاں پیش خدمت ہے:1.9 مسترد کرنافاضل اے جی کوئی ایسی وجہ نہیں پیش کرسکے کہ مجھے کیوں کمیشن سے الگ ہوجانا چاہیئے؟میں نے مندرجہ بالا خط میں جن جذبات کا اظہار کیا تھا وہ کسی بھی جج، قانون دان یا شہری کے ہوسکتے تھے جن سے خود اے جی بھی اتفاق کرتے تھے۔اس لئے اس کے معنی اس کے سوا کیا تھے کہ کوئی جج پاکستان میں مجروحین کی داد رسی کے لئے بنائے جانے والے کمیشن کا سربراہ نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ میں نے اس ذمہ داری کو ادا کرنے کا فیصلہ کیا۔ بعد میں حکومت بلوچستان نے بھی نظر ثانی کی درخواست پر زور نہ دیا جس کے معنی یہ تھے کہ انہیں کمیشن کے قیام اور میری سرکردگی پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔1.10 کمیشن کے کام کا آغازکمیشن نے اپنا کام شروع کیا۔ مجموعی طور پر 45 افراد نے کمیشن کے سامنے بیانات دئے۔40 کے بیانات کوئٹہ میں اور 5 کے بیانات اسلام آباد میں ہوئے۔ان میں ایک زخمی وکیل بھی شامل تھا۔کمیشن نے کوئٹہ میں پولیس اور انٹیلیجنس ایجنسیوں کی ان کیمرا بریفنگ بھی لی۔ کمیشن نے کوئٹہ میں 17 اکتوبر 2016 سے 12 نومبر 2016 تک کام کیا۔ وقت کی کمی کے سبب کمیشن شام کو بھی کام کرتا رہا اور ہفتہ اور اتوار کو بھی چھٹی نہ کی۔1.11 توسیع45 افراد کے بیانات، ان کی جانچ پڑتال، تجزیہ، اور دستاویز بندی مقررہ وقت میں ممکن نہ تھی اس لئے رپورٹ داخل کرنے کے لئے مزید تین ہفتے اور اس کے بعد مزید ایک ہفتے کی توسیع لی گئی۔اس طرح رپورٹ کی تاریخ بڑھا کر 14 دسمبر 2016 کردی گئی۔

یہ رپورٹ ماہ نامہ اطراف میں قسط وار شائع ہونے کے بعد “بلوچستان سے بے وفائی” کے نام سے کتابی شکل میں بھی دستیاب ہے۔ سینیئر صحافی اور تجزیہ کار محمود شام کی یہ کتاب اور دیگر کتابیں 03008210636 سے حاصل کی جا سکتی ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *