12 دی نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی(این اے سی ٹی اے) ایکٹ:
12.1 ابتدائیہ: انسداد دہشت گردی کی مقتدرہ (اتھارٹی) کے قیام کے قانون مجریہ 2013 کے ابتدائیہ میں بیان کیا جاتا ہے :’’دہشت گردی اور انتہا پسندی سے ریاست کی بنیادوں اور وجود کو خطرہ پیدا ہوگیا ہے اور اس کا جامع بنیادوں پر مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس برائی سے نجات پانے کے لئے ایک ایسے ادارے کے قیام کی ضرورت ہے جو منصوبہ بندی، اشتراک، تعاون اورحکومت کی پالیسی پرتزویراتی منصوبہ بندی اور ضروری ضمنی میکانیت کے ذریعہ کام کرے‘‘۔
12.2 این اے سی ٹی اے کا بورڈ اور ایگزیکٹو کمیٹی:بورڈ آف گورنرز، این اے سی ٹی اے کی قانونی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سلسلے میں اسٹریٹیجک/ تزویراتی بصیرت فراہم کرے ](این اے سی ٹی اے کے قانون کے سیکشن 7 کی دفعہ (ب){[ دریں اثنا اس ادارے کا اجلاس کبھی نہیں ہوا اگرچہ قانون کے تحت چوتھائی سال میں کم از کم ایک مرتبہ اس کا اجلاس ہونا ضروری تھا۔اور ایگزیکٹو کمیٹی جو بورڈ کے فیصلوں پر موثر عمل درآمد تھی اس کا صرف ایک اجلاس31 دسمبر 2014 کو ہوا۔ایگزیکٹو کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ برادریوں کی معاونت اور میڈیا کی مدد سے ایک انسداد انتہا پسندی پروگرام شروع کیا جائے اور ایک بیان(narrative) انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف مقامی زبانوں میں تیار کیا جائے جسے میڈیا اور ترقی پسند مذہبی لیڈروں کے ذریعہ عوام تک پہنچایا جائے۔دریں اثنا کمیٹی نے نہ تو خود اس پر عمل کیا اور نہ اس کی یقین دہائی حاصل کی کہ این اے سی ٹی اے اس پر عمل کرے۔
12.3 این اے سی ٹی اے بورڈ اور ایگزیکٹو کمیٹی کے فیصلوں پر عمل درآمد کرنے کے لئے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے موضوعات پر تحقیق کرکے دستاویزات تیار کرنے کی ضرورت تھی تاکہ ان دستاویزات کو پھیلایا جائے۔ اور انسداد انتہا پسندی کی حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت بھی تھی۔جبکہ اس حکمت عملی پر وقتا فوقتانظر ثانی ضروری تھی جبکہ اس کارروائی اور عمل درآمد کی رپورٹ وفاقی حکومت کو کی جانی چاہیئے تھی۔ بدقسمتی سے این اے سی ٹی اے نے اس سلسلے میں کوئی تحقیق نہ کی۔ نہ ہی اس مقصد کے لئے کوئی دستاویزات تیار کی گئیں، نہ کوئی انسداد انتہا پسندی کی حکمت عملی تیار کی گئی اور نہ اس پر کوئی وقفہ وار جائزہ مرتب کیا گیا اور نہ ہی کاؤنٹر نریٹو پلان پر عمل درآمد کے بارے میں وفاقی حکومت کو کوئی مطلوبہ رپورٹ دی گئی۔این اے سی ٹی اے کے وظائف این اے سی ٹی اے ایکٹ کے سیکشن 4 کے سب سیکشن (1) کی دفعات (a) to (g) میں درج ہیں۔
12.4 ناکامی: این اے سی ٹی اے، اس کی ایگزیکٹو کمیٹی اور اس کا بورڈ اپنا قانونی فریضہ انجام دینے میں مکمل ناکام رہا۔ این اے سی ٹی اے ایکٹ کو منظور ہوئے ساڑھے تین سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے اور اس کا نافذالعمل ہونا اس لئے ضروری تھا کہ انتہا پسندی سے ریاست کے وجود کو خطرہ لاحق ہوچکا ہے لیکن اس سے مسلسل لاپرواہی برتی جارہی ہے اوراس سلسلے مین کوئی سنجیدہ کام نہیں کیا گیا۔
13 نیشنل ایکشن پلان، نیشنل انٹرنل سیکیورٹی پالیسی اور قومی سلامتی مشیر:
13.1 نیشنل ایکشن پلان: ایک صفحہ پر مشتمل اس دستاویز میں 20 نکات درج ہیں۔ سیکریٹری داخلہ کے مطابق اس کی منظوری کل جماعتی کانفرنس نے دی تھی اور حکومت پاکستان نے اس پر عمل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔نیشنل ایکشن پلان کے بیس نکات درحقیقت بیس علاقے ہیں جن کی درستی کے لئے اقدامات کی ضرورت ہے۔ وہ نکات یہ ہیں:
1 جن ملزمان کو دہشت گردی کے مقدمات میں موت کی سزائیں ہوئیں ان پر عمل کیا جائے؛
2 فوج کی نگرانی میں خصوصی عدالتوں کا قیام۔ان عدالتوں کی مدت دو سال ہوگی؛
3 عسکریت تنظیموں اور مسلح گینگز کو کام کرنے کی اجازت نہ دی جائے
4 این اے سی ٹی اے انسداد دہشت گردی کے ادارے کو مضبوط بنایا جائے؛
5 نفرت اور انتہا پسندی،فرقہ وارئیت اور عدم برداشت کو فروغ دینے والے لٹریچر، اخبارات، اور رسالوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے؛
6 دہشت گردوں اور دہشت گرد تنظیموں کی مالی امداد کے راستے بند کرنا؛
7 ممنوعہ تنظیموں کو دوسرے ناموں سے کام کرنے سے روکنا؛
8 ایک موثر انسداد دہشت گردی فورس کا قیام؛
9 مذہبی فساد کے خلاف موثر اقدامات؛
10 مذہبی مدرسوں کی رجسٹریشن اور باقاعدگی؛
11 دہشت گردوں اور دہشت گرد تنظیموں کو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعہ ہیرو بنائے جانے پر پابندی؛
12 افغان مہاجرین کی واپسی پر زور دیتے ہوئے فاٹا میں انتظامی ور ترقیاتی اصلاحات؛
13 دہشت گردوں کے مواصلاتی نیٹ ورک کا مکمل خاتمہ؛
14 دہشت گردی کے لئے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا غلط استعمال؛
15 پنجاب میں عسکریت پسند کے خلاف صفر عدم برداشت؛
16 کراچی میں جاری آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچانا؛
17 حکومت بلوچستان کو تمام فریقوں کے ساتھ سیاسی مفاہمت کے لئے مکمل اختیارات؛
18 فرقہ پرست دہشت گردوں سے سخت برتاؤ اور کوئی رعایت نہ برتنا؛
19 تمام مہاجرین کی رجسٹریشن کے ساتھ افغان مہاجرین کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے جامع پالیسی؛
20 کریمنل جسٹس سسٹم میں اصلاحات؛
اگرچہ اس دستاویز میں بیس نکات دئے گئے ہیں لیکن ان پر عمل کے لئے کسی مدت کا تعین نہیں کیا گیا نہ ہی اس کا تعین ہے کہ کون مختلف اجزا پر عمل درآمد کا ذمہ دار ہوگا؟ یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ کون کام کی نگرانی کرے گا یا پیش رفت میں تاخیر یا ناکامی کا ذمہ دار ہوگا؟ ناکامی کی صورت میں مزید کارروائی کون کرے گا؟
13.2 نیشنل انٹرنل سیکیورٹی پالیسی: وزارت داخلہ نے ایک دستاویز نیشنل انٹرنل سیکیورٹی پالیسی 2014-2018 جاری کی جس میں انسدادی بیانیہ (narrative) اور ’’نیشنل ڈی ریڈیکلائزیشن پروگرام‘‘ (انسداد انتہا پسندی پروگرام) شروع کرنے پر زور دیا گیا ۔ اس پالیسی کے چیدہ نکات یہاں درج کئے جارہے ہیں:
’’قومی بیانیہ‘‘ National Narrative
20 انتہا پسندی، دہشت گردی، اور عسکریت پسندی پر مستحکم قومی حکائیات کی تشکیل غیر روایتی خطرات کا مقابلہ کرنے کے نظریاتی ردعمل کے لئے اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔اس قومی روایت کی تشکیل میں دینی علما، دانش ور، تعلیمی ادارے اور میڈیا کلیدی فریق ہیں۔ چنانچہ این اے سی ٹی اے معاشرے کے تنوع کا احترام کرتے ہوئے برداشت کی جمہوری روایات کو مستحکم کرنے کے لئے تمام فریقوں کو ڈائیلاگ کی سہولت فراہم کرے گی۔
21 این اے سی ٹی اے دیگر اداروں کی مشاورت کے ساتھ نیشنل ڈی ریڈیکلائزیشن پروگرام وضع کرنے میں نیشنل انٹرنل سیکیورٹی پالیسی کی مدد کرے گی۔
’’57 آزاد میڈیا کے موجود دور میں بیانیے کو معاشرے کے تمام اجزا پر بشمول بچوں اور نوجوانوں کے زبردست اثر و رسوخ حاصل ہے۔ دہشت گردوں کے پروپیگنڈے کا انسداد کرنے کی بھی ضرورت ہے جس کی بنیاد ہی تصوراتی شکایتوں، مبالغہ آمیزمظلومیت، اور تشدد کے استعمال کے غیر منطقی جواز پر ہے۔ یہ کہانیاں دہشت گردوں اور انتہا پسندوں سے ہمدردی رکھنے والے گروپس گھڑتے ہیں اور معاشرے میں عدم برداشت کے کلچر کو فروغ دیتے ہیں ساتھ ہی دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کے حق مین ہمدردی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس سے معاشرے کو غیر معمولی نقصان پہنچ رہا ہے۔ میڈیا کی قومی وسعت کے ذریعہ رائے عامہ کو دہشت گرد گروپس کے خلاف ہموار کیا جاسکتا ہے جو ہمارے قومی کلچر اور برداشت کی روایات کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور یہی لوگ عوام اور ریاست کے دشمن ہیں‘‘۔ بدقسمتی سے دی ریڈیکلائزیشن پروگرام یا انسدادی شدت پسندی پر کوئی کام نہیں کیا گیا۔
13.3 قومی سلامتی مشیر: وزیراعظم پاکستان نے نیشنل ٰایکشن پلان پر عمل درآمد کی ایک کمیٹی تشکیل دی۔ اور لیفٹننٹ جنرل (ر) ناصر خان جنجوعہ کو نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر (این ایس اے) مقرر کیا۔ اس سلسلے میں کوئٹہ کمیشن نے دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لئے این ایس اے کے کردار کے بارے میں سوالات جاری کئے اور ایک خط نمبر 053 مورخہ 18 نومبر 2016 قومی سلامتی مشیر کو بھیجا۔
سوال نمبر ایک: کیا دہشت گردی یا دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لئے اقدامات پر عمل درآمد آپ کی ذمہ داری ہے؟
جواب: دہشت گردی یا دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لئے اقدامات پر عمل درآمد براہ رست میری ذمہ داری نہیں کیونکہ آئین میں 18 ویں ترمیم کے بعد یہ صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔ میں چونکہ نیشنل ایکشن پلان کی عمل درآمد کمیٹی کا کنوینر بھی ہوں اس لئے متعلقہ حکام کے ذریعے ان امور کی نگرانی کرتا ہوں۔دہشت گردی اور انتہا پسندی کے انسداد کے اقدامات نیشنل ایکشن پلان کا اہم پہلو ہے جس پر وزارت داخلہ، این اے سی ٹی اے، مسلح افواج، اور صوبائی حکومت کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذریعے عمل کیا جارہا ہے۔
سوال نمبر 2 کیا آپ کا نیشنل انٹرنل سیکیورٹی پالیسی(این آئی ایس پی) میں کوئی کردار ہے؟
جواب: میرانیشنل انٹرنل سیکیورٹی پالیسی میں کوئی کردار نہیں لیکن میں نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کمیٹی کا کنوینر ہوں۔
سوال نمبر 3 کیا این ایس اے کے دفتر کی تشکیل کسی قانون کی تعمیل میں کی گئی یا اس کا قیام ایک انتظامی حکم کے تحت عمل میں آیا؟
جواب: این ایس اے کا دفتر وزیراعظم کے انتظامی حکم سے قائم کیا گیا۔
سوال نمبر 4 کیا این ایس اے پاکستان میں دہشت گردوں کے حملوں کا ڈیٹا رکھ سکتا ہے اور اگر اس کا جواب اثبات میں ہے تو کیا یہ کاغذ پر ہوگا یا آن لائن ہوگا؟
جواب: این ایس اے پاکستان میں دہشت گردوں کے حملوں کا کوئی ڈیٹا نہیں رکھتا لیکن ایسا ڈیٹا این اے سی ٹی اے نے مرتب کیا ہے جو دہشت گردی کے خلاف اقدامات میں استعمال ہوتا ہے‘‘۔
عمل درآمد کمیٹی کے نوٹیفکیشن اور این ایس اے کے جواب سے ظاہر ہوتا ہے کہ این اے سی ٹی اے، اس کی ایگزیکٹو کمیٹی، اور بورڈ آف گورنرز(جن میں سے ہر ایک کا قیام این اے سی ٹی اے ایکٹ کے تحت عمل میں آیا) این ایس اے کے قیام کی وجہ سے ان کی اہمیت کم ہوگئی۔اس سے مزید پتہ چلتا ہے کہ جو علاقے نیشنل ایکشن پلان کے دائرہ کار میں آتے ہیں وہی پالیسی کا حصہ بھی ہیں لیکن پالیسی سازی میں این ایس اے کا کوئی کردار نہیں۔ایک اور دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ عمل درآمد کمیٹی این ایس اے سے الگ ہونے کے باوجود جو اس کی کنوینر ہے اس کے تمام ممبران این اے سی ٹی اے کی ایگزیکٹو کمیٹی اور این اے سی ٹی اے کے بورڈ آف گورنرز کے بھی ممبر ہیں۔ جبکہ این اے سی ٹی اے کا قومی کو آرڈی نیٹر عمل درآمد کمیٹی کا ممبر نہیں ہے۔ این اے سی ٹی اے کے پانچ ڈائرکٹر جنرل ہیں اور اس کی نوٹیفکیشن میں وضاحت نہیں کہ کون سا ڈائرکٹر جنرل عمل درآمد کمیٹی کا ممبر ہوگا۔ این ایس اے کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں کے حملوں کا ڈیٹا این اے سی ٹی اے کے پاس ہوتا ہے۔ دوسری جانب این اے سی ٹی اے کے نیشنل کو آرڈی نیٹر اور ڈائرکٹر جنرل (انسداد دہشت گردی) دونوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایسا کوئی ڈیٹا مرتب نہیں کیا۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ حکومت کی اعلی سطح پر دہشت گردی سے حکومت کو کتنی دلچسپی ہے؟
یہ رپورٹ ماہ نامہ اطراف میں قسط وار شائع ہونے کے بعد “بلوچستان سے بے وفائی” کے نام سے کتابی شکل میں بھی دستیاب ہے۔ سینیئر صحافی اور تجزیہ کار محمود شام کی یہ کتاب اور دیگر کتابیں 03008210636 سے حاصل کی جا سکتی ہیں۔
- ہمارا مستقبل۔ بحیرۂ روم کی نذر کیوں؟ - December 22, 2024
- سوشل میڈیا۔ کتاب کا رقیب نہیں - December 19, 2024
- کتاب میلے میں 2039 کی جھلکیاں - December 15, 2024