سوشل میڈیا اکاؤنٹس

محمود شام

محمود شام

پاکستان کے ممتاز صحافی، شاعر، ادیب اور تجزیہ کار جناب محمود شام 5 فروری 1940

کہانی اردو بازار کراچی کی


یہ تحقیق ابتدائی طور پر انسٹیٹیوٹ آف ہسٹوریکل اینڈ سوشل ریسرچ میں ہماری ساتھی عائشہ سلمان نے شروع کی تھی۔ اعلی تعلیم کے حصول کے لیے وہ بیرون ملک چلی گئیں اور یہ تحقیق مکمل نہیں کر سکیں۔ میں ان کا مشکور رہوں گا کہ انہوں نے فکر انگیز موضوع منتخب کیا، اس جگہ کو دریافت کیا، جسے سماجی اور تاریخی تناظر میں بمشکل دریافت کیا گیا ہے۔ جب انہوں نے یہ کام شروع کیا تو میں بھی ایک آدھ مرتبہ ان کے ساتھ فیلڈپر گیا مگر جب وہ باہر چلی گئی تو ادارے نے یہ کام میرے سپرد کردیا۔
میں IHSR کے ڈائریکٹر ڈاکٹر سید جعفر احمد کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے مجھ پر اعتماد کیا اور مجھے تحقیق جاری رکھنے کی اجازت دی۔ میں محترمہ صبیحہ حسن کا تحقیق کے دوران رہنمائی فرمانے پر مشکور رہوں گا ۔ان کی طرف سے ہر قدم پر رہنمائی کے لیے میں ان کا تہہ دل سے ممنون ہوں۔
یہ کہانی اردو بازار کی تاریخ ،اس کے سماجی پہلو اور معاشرے سے اس کے تعلق کی روداد ہے۔ اس کہانی کا امتیاز یہ ہے کہ جس طرح اس میں تاریخ بیان کی گئی ہے اس نوعیت کی کوئی اور کتاب نہیں۔ یہ کتاب نوجوان اسکالرزکے لئے ایک نکتہ فکر ہےجس پر وہ اپنی آئندہ کی تحقیقی سرگرمیوں کو تشکیل دے سکتے ہیں۔ ایک معلم کے لیے لمحۂ فکریہ ہے ,مورخ کے لیے اثاثہ اور شوقین قارئین کے لئے اداس داستان ہے۔
یہ تحقیق بنیادی طور پر ان انٹرویوز پر مبنی ہے جو ہم نے دکانداروں، پبلشرز اور شوقین قارئین کے ساتھ کیے تھے۔یہ تحقیق ان کی بصیرت، علم اور مخلصانہ تعاون کے بغیر ممکن نہیں تھی۔میں تسلیم کرتا ہوں کہ اس کام میں تمام کوتاہیاں صرف میری ذمہ داری ہیں۔
علی اشعر انجم
بابِ اول
اردو بازار
نسیم اللغات میں بازار کے معنیٰ ’’خرید و فروخت کی جگہ، دکانوں کا سلسلہ، منڈی، ہاٹ، پنیٹھ اور نرخ ‘‘ کے ہیں ۔بازار کا لفظ ایک ایسی جگہ کی جانب ذہن منتقل کرتا ہے کہ جس کا خاص تعلق عوام سے ہو۔ یہ وہ عوام ہیں کہ جن میں معاشرے کی ایک فیصد اشرافیہ نہیں بلکہ مختلف پسماندہ طبقوں سے لے کر اوسط طبقے کے افراد شامل ہوں۔ اگر صرف کراچی ہی کا مشاہدہ کیا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہاں جتنے بھی بازار ہیں اُن میں معاشرے کے عام افراد نظر آتے ہیں کہ جو دکان دار (جو کہ خود بھی معاشرے کا عام آدمی ہی ہوتا ہے)سے مطلوبہ چیز کی قیمت کم کرائے بغیر سودا نہیں کرتے۔ شہر کے عوام اپنی ضروریاتِ زندگی کی چیزوں کے کم قیمت پر مل جانے کی وجہ سے یہاں کا رخ کرتے ہیں ۔ مختلف علاقوں میں کھیلوں کے میدان یا پارک (جو انتظامیہ کی غفلت کی وجہ سے صحرا کا منظر دکھاتےہیں) پیر بازار، بدھ بازار،جمعہ بازار، ہفتہ بازار اوراتوار بازار لگائے جاتے ہیں۔ اِن بازاروں کاہونا ہی یہ ثابت کرتا ہے کہ شہر کے کثیر عوام کہ جوبڑے شاپنگ مال میں جانے کی استطاعت نہیں رکھتے ، ان کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بازار لگائے جاتے ہیں۔انفرااسٹرکچر کے حوالے سے بازاروں کو دو حصوں میں تقسیم کِیا جاسکتا ہے،او ل تو وہ بازار جو کنکریٹ کے انفرااسٹرکچر کے بغیر قائم ہوتے ہیں مثلاً اتوار بازار وغیرہ جن کا اوپر ذکر ہے۔ دوسری قسم کے بازار وہ ہوتے ہیں کہ جو دکانوں پر مشتمل ہوتے ہیں مثلاً کراچی میں بوہری بازار، جامع کلاتھ کا بازار یا اردو بازار۔
بعض بازار کسی خاص چیز کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے تشکیل دیے جاتے ہیں مثلاً جامع کلاتھ کا بازار جو کپڑوں کی خرید و فروخت کے لیے مشہور ہے۔ اسی طرح سے کراچی میں تقسیمِ ہند کے بعدعوام میں کتابوں کی ضروریات کے پیشِ نظر اردو بازار وجود میں آیا۔
مغلیہ سلطنت کے برِ صغیر میں بازاروں کا وجود
برِ صغیر میں بازار مغلیہ سلطنت کے زمانے سے عوام کی زندگیوں کا حصہ رہے ہیں ۔ رَوی سندرم ایک اسکالر ہیں جو مابعد نو آبادیاتی شہروں (postcolonial cities) اور الیکٹرانک میڈیا کے درمیان تعلق پر کام کرتے ہیں۔ ان کے مطابق جب سولہو یں صدی میں اہلِ یورپ برِ صغیر میں آئے تو بازار ثقافتی اور روایتی شہروں کا ایک اہم عوامی مرکز (Main Public Institution) ہوا کرتے تھے۔ وہ اپنے آرٹیکل ’’بازار اور شہر‘‘ (سندرم، ۲۰۱۰ء) میں لکھتے ہیں:
’’مغلیہ حکومت کی دہلی میں بازار عوامی اور تجارتی جگہیں تھیں۔ ایک بازار میں تقریباً ڈیڑھ سو تاجر ہوتے تھے۔اٹھارہویں صدی کے آغاز سے اِن بازاروں کی گہما گہمی، ہجوم ،شور،بے نظمی کو دیکھ کر یورپ سے آئے سیاحوں نے جو سفر نامے لکھے ان میں ان بازاروں کے بارے میں کوئی اچھی رائے قائم نہیں گئی۔ ‘‘
تقسیم کے بعد پاکستان اور بھارت میں جو شہروں کے ترقیاتی منصوبے تیار ہوئے ان میں بازاروں کو انہی وجوہات (یعنی عدم انتظام) کے سبب شامل نہیں کیا گیا ۔مثال کے طور پر، لی کربوسیر (Le Corbusier) نے چندی گڑھ شہر کا جو منصوبہ تیار کیا اس میں بازاروں کو کوئی جگہ نہیں دی گئی۔ ڈوکساڈس (Doxiadus)نے اسلام آباد کا جو ماڈل تیار کیا اس میں بھی بازاروں کا نام و نشاں نہیں ہے۔
اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ’’بازار‘‘ جو برِ صغیر کے عوام کی زندگیوں کا ایک حصّہ رہے ہیں، انگریزوں کی نگاہوں میں ’’مغربی ماڈل‘‘کا منظر پیش نہیں کرتے تھے، لہٰذا بازار ان کی نظرِ عنایت سے محروم ہی رہے، یہاں تک کہ ۱۹۴۷ء کے بعد بھی پاکستان اور ہندوستان کے جن شہروں کے منصوبے غیر ملکی منصوبہ سازوں نے تیار کیے ان میں بھی بازاروں کوشامل نہیں کیا گیا ۔ لیکن بازاروں کے لیے یہ مغربی روشِ فکر آج تک ہمارے شہروں کی انتظامیہ کے ذہنوں میں عہد بہ عہد منتقل ہوتی آئی ہے۔
کراچی میں اردو بازار
مندرجہ بالاسوچ کےثمرات دوسرےبازاروں کی طرح اردو بازارپر بھی اثر انداز ہوتے ہیں ۔ ’’تجاوزات‘‘ کے نام پر شہرِ کراچی کی اِس پہچان کو مسخ کردینے کے قانونی احکام صادر ہوتے رہتے ہیں۔ سن۲۰۰۲ ءمیں ڈان اخبار نے اردو بازار پر ایک رپورٹ شائع کی جس میں کراچی میں اردو بازار کے تنزل کے اسباب بتائے گئے جن میں سے کچھ حکومت کے اداروں کی غفلت،تجاوزات اور کتابوں کی نامناسب فراہمی ہیں۔ اس رپورٹ کے ایک اقتباس سے آپ کے ذہن میں اردو بازار کا ذرا واضح خاکہ ابھر آئے گا۔
’’خواہ درسی کتابوں کی تلاش ہویا نقشوں، چارٹس، جرنل کی ، اردو کلاسک، تازہ ترین فکشن یا مجموعۂ شاعری کی ،درآمد کی ہوئی میڈیکل، انجینیرنگ ، الکٹرانک، کمپیوٹر کی کتابوں کی جستجو ہو یا مہنگی کتابوں کے سستے نقل شدہ (pirated)ورژن کی ، کبھی بھی کوئی اس بازار سے مایوس نہیں لوٹتا کیونکہ یہاں ہرذوق اور ہر موضوع سے متعلق کتابیں موجود ہیں‘‘
تقسیم ِ ہند کے بعد کراچی میں اردو بازار کا قیام
اردو اکادمی سندھ کے ڈائریکٹر اور پاکستان بُک سیلرز اینڈ پبلشرز کے چیئر مین عزیز خالد اردو بازار کی تاریخ اُس کی تعمیر کے پہلے برس یعنی ۱۹۴۷ ءسے واقف ہیں۔عزیز خالد کے مطابق تقسیمِ ہند ۱۹۴۷ ءکے بعد کراچی میں اشاعتی کاروبار کا خلا پیدا ہوا کیونکہ اکثر اشاعتی ادارے ہندوؤں کی مِلکیت تھے لیکن تقسیمِ ہند کے بعد یہ ہندو آبادی بھارت ہجرت کر گئی۔ اس خلا کو اردو اکادمی سندھ جیسے اشاعتی اداروں نے پُر کیا۔ تقسیم کے کچھ ہی دیربعد اردو اکادمی سندھ کا قیام ڈاؤ میڈیکل کالج کے نزدیک ہوا۔ اسی علاقے اور مدت میں کچھ اور ناشروں نے بھی اپنا کاروبار شروع کر دیا۔ گویا ڈاؤ میڈیکل کالج کے اطراف کا علاقہ اشاعتی کاروبار سے منسلک لوگوں کے لیے ایک مرکز کی طرح ہو گیا۔ اس میں ساتھ یا آٹھ اشاعتی ادارے تھے جن میں اردو اکادمی سندھ، الائیس بک کارپوریشن، شیخ شوکت علی اینڈ سنز، فیروز سنز، شیخ غلام علی اینڈ سنز اور مدینہ پبلشنگ کمپنی شامل ہیں۔

۱۹۵۰ءکی دہائی میں جب ڈاؤ میڈیکل کالج کی توسیع شروع ہوئی تو کراچی میونسپل کارپوریشن (کے ایم سی) نے فریئر روڈ پر واقع ویمنز کالج کے سامنے کی زمین کو اردو بازار کے نام سے اشاعتی اداروں اور کتب فروشوں کے لیے مخصوص کردینے کا فیصلہ کِیا۔
تاریخ کے اوراق الٹے جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اردو بازار بڑے شہروں مثلاً دہلی کا حصہ رہے ہیں جہاں کتابوں کی خرید و فروخت ہوتی تھی۔ اس نام کو کراچی میں کتابوں کے بازار کے لیے استعمال کرنے کا مقصد اردو بازار کی تاریخی اہمیت اجاگر کرنا اور اس سے تعلق قائم کرنا تھا۔
آج اردو بازارکراچی میں ایم اے جناح روڈ پر واقع ہے۔ اس میں موجود ڈھائی سو دکانیں کے ایم سی کے علاقے میں شمار ہوتی ہیں سو ان دکانداروں کو کے ایم سی کو کرایہ دینا پڑتا ہے۔ اردو بازار کے ارد گرد ریٹیل اور ہول سیل مارکیٹ ہیں جیسے کہ اورنگ زیب مارکیٹ اور بہادر شاہ ظفر مارکیٹ جہاں موٹر سائیکلوں کے پرزہ جات ( spare parts) کی دکانیں ہیں۔
اردو بازار میں گزشتہ تئیس برسوں سے قائم اکیڈمی بازیافت کے مالک مبین مرزا نے ایک انٹرویو میں اردو بازار میں بدلتےہوئے رجحان کی تفصیلات بتائی ہیں۔ان کے مطابق جب ۱۹۵۰ کی دہائی میں قیام ہوا تو یہاں ستر فیصد عمومی کتابیں ہوتی تھیں۔ عمومی کتابوں سے مراد ادب،تاریخ، شاعری، خود نوشت وغیرہ کی کتابیں ہیں۔ لیکن اب صرف ۲۵ فیصد عمومی کتابیں ہوتی ہیں اور باقی تعداد اسٹیشنری، اسلامی کتب، درسی کتب اور تجربہ گاہوں (labortaries) کے سائنسی آلات کی ہوتی ہے۔ فضلی سنز کے مالک ساجد فضلی نے بھی اس بات کا اقرار کرتے ہوئے کہا کہ اب عمومی کتابوں کی صرف ۳۰۰ کاپیاں شائع ہوتی ہیں۔
خصوصاً اردو کتابوں کے بارے ساجد فضلی نے بتایا کہ اردو ادب کی کتابیں اب آبادی کا بہت محدود حصہ پڑھنا پسند کرتاہے ۔کتابوں کی اشاعت میں روز بروز کمی اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ کراچی میں کتب بینی کے شوقین بہت کم ہیں۔ ہم نے اس موضوع سے متعلقہ جتنے لوگوں کے انٹرویوز لیے ان میں سے اکثر نے کہا کہ ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کے اثرات کی وجہ سے لوگ خاص طور پر نو جوان نسل اب فراغت کے وقت میں ذہنی آسودگی(entertainment) کے لیے کتاب پڑھنے کے بجائے دیگر تفریح کے ذرائع کا رخ کرتی ہے۔

اردو بازار میں فروخت ہونے والی کتابیں اور چیزیں
بازار میں اِس وقت کس طرح کی کتابیں اور کیااشیا برائے فروخت ہیں ہم انھیں چار حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔
عمومی کتابیں
عمومی کتابوں سے مراد تاریخ، شاعری، فکشن اور خود نوشتوں کی کتابیں ہیں۔اس قسم میں کھانا پکانے اور خود آموز (self-help) کتابیں بھی شامل ہیں۔
درسی کتابیں
درسی کتب یعنی وہ کتابیں جو تعلیمی درسگاہوں میں پڑھائی جاتی ہیں۔اردو بازار میں ایسے کئی ناشرین اور دکاندار ہیں جو درسی کتابوں کے کاروبار میں مشغول ہیں۔ اردو میں موجود درسی کتابیں زیادہ تر یہیں سے طبع ہوتی ہیں ۔
اسٹیشنری اور تجربہ گاہوں کے سامان
فریئر روڈ پر ویمنز کالج کے سامنے کی دکانوں پر اسٹیشنری، تجربہ گاہ کے سائنسی آلات، طلبہ کے بستوں، بنیادی جماعتوں (نرسری وغیرہ) کے طلبہ کے لیے سیکھنے کی چیزوں (مثلاً حروفِ تہجی کے قاعدے کی کتابیں اور علم سکھانے والے کھیل) کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔

اسلامی کتب
اس حصے میں قرآن اور دعاؤں، قرآن مجید کے منتخب سورتوں، احادیث اور تفاسیر کی کتابیں شامل ہیں۔ اس طرح کی کتابیں یا تو لوگ اپنے لیے روزانہ تلاوت کے لیے خریدتے ہیں یا کراچی کے مدرسوں کے لیے بڑی تعداد میں خریدی جاتی ہیں۔ نیز، ان کا ایک اور مصرف یہ بھی ہے کہ یہ عوام میں تقسیم کرنے کی غرض سے بھی خریدی جاتی ہیں۔
اردو بازار کے مختلف حصے
اردو بازار چار حصوں پر مشتمل ہے۔
۱)فریئر روڈ پر ویمنز کالج کے سامنے اسٹیشنری، اسلامی کتب کی کئی دکانیں اور اشاعتی اداروں کے دفاتر ہیں۔
۲) نوشین سینٹر درسی کتب کے لیے مشہور ہے۔ یہاں امتحانات کی تیاری کے لیے نوٹس اور استعمال شدہ درسی کتابیں بھی دستیاب ہوتی ہیں۔
۳) نوشین سینٹر کے سامنے جدید طرز پر ایک دو منزلہ بُک مال تعمیر ہوا ہے۔ اِس بُک مال میں زیادہ تر دکانیں کتابوں کے کاروبار سے منسلک کمپنیوں کے دفاتر ہیں کہ جن کا گاہکوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
۴) اردو بازار کی سڑکوں کے کنارے کئی ٹھیلے والے ہوتے ہیں کہ جن کے ٹھیلوں پر رجسٹر، کتابیں اور اسٹیشنری کاسامان برائے فروخت ہوتاہے۔
اردو بازار کے مختلف حصوں کی تفہیم یوں ضروری ہے تاکہ اِس میں موجود مختلف ذریعۂ معاش کے طریقے معلوم کیے جاسکیں۔ اوّل، یہاں وہ دکانیں ہیں کہ جو کے ایم سی (KMC) کو کرایہ ادا کرتی ہیں اور رسمی معیشت (formal economy) کا حصہ ہیں۔ دوم، یہاں وہ ٹھیلے والے ہیں کہ جن کو جرمانے کے خطرات کا سامنا رہتا ہے کیونکہ ان پر آئے دن تجاوزات کے نام پر جرمانے عائد ہوتے رہتے ہیں ۔ ۲۰۰۲ ءکی ابتدا میں ڈان اخبار کی رپورٹ نے بھی اس کی نشان دہی کی کہ یہ ٹھیلے والے اکثر تجاوزات کے جرمانوں کی زد میں آجاتے ہیں۔
ہم نے منور حسین کا انٹرویو لیا جو اردو بازار کی سڑک پر اپنا ٹھیلا لگاتے ہیں۔ منور حسین کے ٹھیلے پر کتابیں ہی کتابیں ہیں جن میں زیادہ تر پائریسی کی ہوتی ہیں یا وہ استعمال شدہ کتابیں جن کو وہ لوگ فروخت کردیتے ہیں جنھیں ان کی ضرورت نہیں رہتی۔ منور حسین اردو بازار کے دکان داروں سے ملی ہوئی کتابیں اور اسٹیشنری بھی اپنے ٹھیلے پر رکھتے ہیں جن کو وہ اپنے کمیشن کے ساتھ فروخت کرکے باقی پیسے دکان دار کو دے دیتے ہیں۔ لیکن ان ٹھیلے والوں کو قانونی اجازت حاصل نہیں ہوتی ہے۔ دار الاشاعت کے مالک کا کہنا ہے کہ یہ ٹھیلے والے ہمیشہ ایسے ہی حالات میں رہے ہیں۔کے ایم سی انھیں اپنی جگہ سے ہٹادیتی ہے۔ یہ دوتین مہینوں کے لیے بازار سے چلے جاتے ہیں اور پھر دوبارہ آجاتے ہیں۔
ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ منور حسین اردو بازار میں اپنا ٹھیلا لگانے کے لیے کراچی میٹروپولٹن کارپوریشن (کے ایم سی) کو ڈیڑھ سو روپے کا ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ منور حسین کی طرح ایسے کئی افراد ہیں جو اردو بازار کی دکانوں کے سامنے اپنی روزی روٹی کے لیے ٹھیلے لگاتے ہیں جن پر رجسٹر، اسٹیشنری، پرانی کتابیں اور اسکول کے بستے دستیاب ہوتے ہیں۔ یہ ٹھیلے والے بازار کی غیر رسمی معیشت (informal economy) کا حصہ ہیں کیونکہ ریاست کی طرف سے ان کو اجازت نہیں دی گئی ہے اور یہ ہمیشہ سے حکومتی اداروں مثلاً کے ایم سی کی تجازوات کے خلاف کارروائیوں کا نشانہ رہتے ہیں۔
غیر رسمی معیشت صرف ٹھیلے والوں کی حد تک ہی نہیں بلکہ دکانوں میں بھی پائی جاتی ہے۔ مثلاً نوشین سینٹر، جو طلبہ کے لیے مخصوص ہے، میں موجود اسمٰعیل بُک سینٹر کے مالک نے ہمیں ایک انٹریو میں ’’نوٹس‘‘ کے بارے بتایا کہ یہ کراچی بورڈ کے میٹرک اور انٹر کے طلبہ کی سہولت کے پیشِ نظر امتحانات کی تیاری کے لیے بنائے جاتے ہیں۔اِن میں سوالات کے جوابات امتحانات کے حساب سے بنائے جاتے ہیں۔ یہ نوٹس طلبہ ایک بار خریدتے ہیں اور ضرورت ختم ہوجانے کے بعد ان کو واپس فروخت کردیتے ہیں اس طرح یہ استعمال شدہ نوٹس ایک طالبِ علم سے دوسرے طالبِ علموں تک منتقل ہوتے رہتے ہیں۔ ان نوٹس کی مِلکیت اردو بازار کی معیشت میں داخل ہوجاتی ہے کیونکہ جو کوچنگ سینٹر ان نوٹس کو تیار کرتے ہیں انھیں اس کے منافع تک رسائی نہیں ہوتی ہے۔

اردو بازار کی سڑکوں کے کنارے ٹھیلوں پر سرقہ شدہ (Piracy) کتابیں فروخت ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر ہم نے ان ٹھیلوں پر امریکہ میں مقیم شاعرہ روپی کور کی انگریزی شاعری کی کتاب ’’دودھ اور شہد (Milk and Honey)‘‘ کی کئی کاپیاں دیکھی ہیں۔ ساجد فضلی نے ہمیں بتایا کہ چوں کہ متحدہ امریکہ کے ناشرین اِن سرقہ شدہ کتابوں کے خلاف کارروائی نہیں کر سکتے تو یہی وجہ ہے کہ یہ کتابیں اردو بازار میں کثیر تعداد میں پائی جاتی ہیں۔ سو سرقہ بازی اردو بازار کی غیر رسمی معیشت میں ایک اہم کردار رکھتی ہے اور ریاست کی نظر میں ’جائز‘ نہیں ہے لیکن ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ اس سے طلبہ کو مہنگی انگریزی کتابیں نہایت سستی قیمت میں مل جاتی ہیں۔روپی کور کی کتاب جس کا اوپر ذکر ہوا لبرٹی بُکز (Liberty Books) پر ۵۵۰ روپے کی دستیاب ہے لیکن اردو بازار کے ٹھیلوں پر یہ کتاب ۵۰ روپے میں مل جاتی ہے۔ یہ ٹھیلے طلبہ کی کثیر تعداد کی توجہ کا مرکز ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ اردو بازار کے قریب واقع ڈاؤ میڈیکل کالج کے طلبہ سفید کوٹ پہنے گروہ در گروہ ان ٹھیلوں پر سے سستی اور سرقہ شدہ کتابیں خرید رہے ہوتے ہیں۔
درحقیقت بازار کو شہریوں کے لیے ایک توجہ کا مرکز بننے میں رسمی و غیر رسمی معیشت دونوں کا اہم کردار ہے۔

بابِ دوم
جنوبی ایشیا میں طباعت اور اردو بازار: ایک تاریخی مطالعہ
آج کراچی میں جدید طرز پر تعمیر کی ہوئی عمارتوں کے ساتھ ساتھ تقسیم ِ ہند سے پہلے کی انگریز حکومت کے طرزِ تعمیر کی کئی قدیم عمارتیں بھی دکھائی دیتی ہیں۔ اِن قدیم عمارتوں پر ایک نظر پڑتے ہی ذہن اُس زمانے میں چلا جاتا ہے کہ جب یہ شہر ہندو اور پارسی کمیونٹی کا شہر تھا۔ہندو اور پارسی کمیونٹی نے اس شہر کی ترقی میں بہت اہم کردار ادا کِیا۔
کراچی میں کئی ایسی عمارتیں ہیں جن پر اہلِ فرنگ کا اثر دکھائی دیتاہے۔ایمپریس مارکیٹ اور فریئر ہال اُن عمارتوں میں سے ہیں جن میں اس کا مشاہدہ واضح طور پر کیا جاسکتا ہے۔ کراچی کے اس علاقےیعنی صدر میں، جہاں یہ قدیم عمارتیں ہیں ، کے بیچوں بیچ اردو بازار ہے۔ عہدِ مغلیہ کی دہلی میں بھی ایک اردو بازار تھا شاید اسی کی یاد میں کراچی کے اس بازارکانام بھی اردو بازاررکھا گیا۔اردو بازار مسلمانانِ ہند کی ایک اہم تہذیبی علامت تھا۔ ۱۸۵۷ ءکی جنگِ آزادی میں جب مسلمانوں کو شکست ہوئی اور انگریزی افواج نے غلبہ پالیا تو انگریزوں نے کئی تاریخی عمارتیں تباہ کرنا شروع کِیں کہ جو مسلمانوں کے حسِین ماضی کی یاد دلا تی تھیں۔ اردو بازار بھی ان تباہیوں کی زد پر آیا۔ مرزا اسداللہ خان غالب اپنے ایک خط بنام میر مہدی مجروح میں لکھتے ہیں:
’’اللہ اللہ دلّی دلّی نہ رہی اور دلّی والے اب تک یہاں کی زبان کو اچھا کہتے ہیں۔ واہ رے حُسنِ اعتقاد۔ ارے بندۂ خدا اردو بازار نہ رہااردو کہاں۔ دلّی اب شہر نہیں ہے کنپ چھاؤنی ہے نہ قلعہ نہ شہر نہ بازار نہ نہر‘‘
اس خط کو پڑھ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اردو بازار کی اس وقت کیا اہمیت تھی اور اس کی تباہی کا اثر غالب پر کتنا شدید ہوا۔
مسلمانوں کے لیے اردو بازار محض ایک کتابوں کا بازار نہیں تھا بلکہ ایک تہذیبی علامت تھا۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ تقسیم کے بعد پاکستان کے بڑے شہروں راولپنڈی، ملتان اور پشاور، کراچی اور لاہور میں اردو بازار قائم ہوئے۔ سب سے بڑا اردو بازار لاہور میں قائم ہوا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ تمام بازار اب کم و بیش تحفے تحائف کی دکانوں اور فوڈ اسٹریٹ میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ یہ رجحان اس بات کا پتا دیتاہے کہ لوگوں میں ادب پڑھنے کا شوق رُو بہ زوال ہے۔البتہ کراچی کے صدر کے علاقے میں اردو بازار اب تک اِن بدلتے ہوئے حالات کا مقابلہ استقامت سے کر رہا ہے۔
جنوبی ایشا میں طباعت کی تاریخ
جنوبی ایشیا میں جدید دور کی آمد سے چھاپہ خانوں ( printing presses)کے دور کا بھی آغاز ہوا۔ اس سے علم و ادب کی اشاعت میں آسانی پیدا ہوئی۔ کئی سماجی تحریکوں کو بھی طباعت سے فائدہ پہنچا۔
برِ صغیر میں سب سے پہلا چھاپہ خانہ ( printing press) ایسٹ انڈیا کمپنی نے۱۷۶۱ء میں قائم کِیا۔ جس کا مقصد سرکاری اور کمرشل مطبوعات کی اشاعت تھا۔ ۱۷۸۴ ءمیں اِس پریس نے کلکتہ گیزٹ (Calcutta Gazette)کے نام سے ایک رسالہ شائع کرنا شروع کِیا۔ ۱۸۲۲ ءمیں اسی کمپنی کے ایک ملازم رام موہن رائے نے ایک فارسی اخبار ’’مرآۃالاخبار‘‘ جاری کِیا۔ (ایمکو، ۲۰۱۳ء)
۱۸۵۷ ءکی جنگِ آزادی میں شکست کے بعد مسلمان زبوں حالی کا شکار ہوگئے۔ سر سید جدید فکر کے آدمی تھے۔ ان کے نزدیک مسلمانوں کی نجات اسی میں تھی کہ وہ جدید تعلیم حاصل کریں اور زمانے سے ہم قدم ہوجائیں۔ سر سید نے اپنی تحریروں اور رسالوں کے ذریعے اپنے خیالات کی تشہیرکی۔ سر سید کی اس تحریک کی کامیابی میں طباعت و اشاعت کا بہت اہم کردار ہے ۔بیسویں صدی میں مولانا مودودی (۱۹۰۳-۱۹۷۹ء) نے بھی اپنی تحریروں کی اشاعت کے ذریعےعوام کی ایک بڑی تعداد کو متاثر کیا (رابنس، ۱۹۹۳ء)۔
تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان میں طباعت
تقسیمِ ہند ۱۹۴۷ ءسے پہلے اکثر اشاعتی ادارے ہندوؤں کی مِلکیت تھے ۔ تقسیمِ ہند کے بعد یہ ہندو آبادی بھارت ہجرت کر گئی۔ یوں کراچی میں اشاعتی کاروبار کا خلا پیدا ہوا۔بھارت سے آئے مسلمان مہاجرین نے اس خلا کو محسوس کِیا اور یہاں طباعت کا کاروبار شروع کیا۔ پاکستان کے دواہم شہر لاہور اور کراچی کتابوں کی اشاعت کے مرکز بن گئے۔
۱۹۷۰ ءمیں مشرقی پاکستان میں ایک سو گیارہ اور مغربی پاکستان میں ۱۲۳ کتب خانے تھے۔ کراچی میں سب سے زیادہ۱۸۱ اور لاہور میں ۱۴۹ اشاعتی ادارے تھے ۔دس سال بعد یونیسکو کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کتابوں کے کتب فروشوں کی تعداد تین ہزارتک پہنچ گئی تھی اور تمام کتب خانوں میں کتابوں کی تعداد تقریباً اسّی لاکھ تھی۔ ۷۵ فیصد کتابیں کراچی، لاہور اور راولپنڈی میں تھیں۔ملک میں دو ہزار سے زائد طباعت خانے تھے اور ان میں مشینوں کو ہاتھ سے چلایاجاتا تھا۔
۱۹۶۰ ءاور ۱۹۷۰ ءکے درمیان نیشنل بک سینٹر پاکستان نے ایک رپورٹ شائع کی جس میں اُس وقت ملک میں کتابوں کے مطالعے کے رجحانات کی معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ اس رپورٹ میں پنجاب اکیڈمی کا حوالہ دے کر بتایا گیاہے کہ اس عہد میں مغربی پاکستان (موجودہ پاکستان) میں نوجوان آبادی ایک مہینے میں ۹ کتابیں پڑھتی تھی۔ شہری لوگ اس وقت ۳۰ فیصد کتابیں خریدتے تھے اور ۷۰ فیصد کتابیں کسی اور سے مستعار لیتے تھے۔زیادہ تر تاریخی، مذہبی اور ناول کی کتابیں پڑھی جاتی تھیں۔۱۹۷۴ ءکی رپورٹ کے مطابق قارئین کی تعداد برقرار رہی مگر شاعری کی کتابوں کی فروخت میں اضافہ ہوا۔ لوگ اردو اخبار اور رسائل کی طرف بھی زیادہ متوجہ ہوئے۔یونیسکو کی ۱۹۸۰ ءمیں شائع کردہ رپورٹ میں یہ حقیقت سامنے آئی کہ ملک کی خواندہ آبادی میں کتابیں پڑھنے کا رجحان ماند پڑ تا جارہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ۱۹۶۷ ءسے ۱۹۷۷ ء تک ۱۵ ملین خواندہ آبادی تھی مگر اس میں سے ۷۵ فیصد آبادی کو کتابوں تک رسائی نہیں تھی۔رپورٹ میں یہ بھی درج ہے کہ اس زمانے میں عمومی طور پر ڈائجسٹ، رسائل اور پاپولر فکشن پڑھایا جاتا تھا اوربعض کتابوں کی ڈیڑھ سے دو لاکھ تک کاپیاں شائع ہوتی تھیں۔
سال میں ہر اشاعتی ادارہ تقریباً دس کتابیں شائع کرتا تھا۔کتابوں کی ضخامت زیادہ نہیں ہوتی تھی۔زیادہ تر کتابوں کی اشاعت میں مصنفین کی اپنی دولت صَرف ہوتی تھی ۔پورے سال میں کُل ۳۰۰۰ کتابیں شائع ہوتی تھیں اور ہر ایڈیشن کی دس سے بیس ہزار کاپیاں ہوتی تھیں۔ (یونیسکو، ۱۹۸۰ء)
تقسیمِ ہند کے بعد کراچی ہی پاکستان کا وہ شہر ہے جس میں ہندوستان سے آئے ہوئے سب سے زیادہ مسلمان مہاجرین کو پناہ ملی۔ ان مہاجرین کے خمیر میں اردو ادب کے لیے محبت اور لگاؤ کا جذبہ تھا۔ اِسی جذبے کی عملی صورت اردو بازار کی شکل میں نظر آئی۔
آج سینکڑوں دکانوں پر مشتمل جو اردو بازار دکھائی دیتا ہے یہ آغاز میں در اصل صرف دس یا بیس اسٹال پر محیط تھا جنھیں انھی مہاجرین نے شروع کیا تھا۔ ساٹھ کی دہائی کی ابتدا میں یہ بازار شہر کے کاروباری مرکز یعنی، ایم اے جناح روڈ، صدر منتقل ہوگیا۔کتابوں کی بڑھتی ہوئی مانگ کی وجہ سے یہ بازار مزید پھیلتا گیا۔ جن مہاجرین نے اردو بازار میں کتابوں کا کاروبار شروع کیا تھا آج ان کی دوسری اور تیسری نسلیں اس ورثے کی حفاظت کر رہی ہیں۔
اردو بازارشہر کے جس علاقے میں ہے وہ ایک کاروباری علاقہ ہے۔ اس علاقے میں زندگی کی تیز رفتاری اور مصروفیت صاف نمایاں رہتی ہے۔ اس علاقے میں کئی طرح کی مارکیٹ ہیں مثلاً الیکٹرانک، کپڑوں، جوتوں وغیرہ کی ۔ یہاں کئی بلند عمارتیں نظر آتی ہیں جن میں کمپنیوں کے دفاتر ہیں ۔کئی نامور تعلیمی ادارے بھی اس بازار کے قریب ہیں مثال کے طور پر این ای ڈی یونیورسٹی سٹی کیمپس، ڈی جے سائنس کالج اور سندھ مدرسۃ الاسلام۔
اردو بازار کے آغاز و ارتقا کی تفصیل کے متعلق تاریخی شواہد بہت کم موجود ہیں۔ہم نے اس موضوع پر جتنے متعلقہ لوگوں سے انٹرویو لیے ان میں مختلف معلومات حاصل ہوئِیں۔اوّل یہ کہ اردو بازار تقسیمِ ہند کے فوراً بعد قائم ہوگیا تھا اور موجودہ جگہ پر ۱۹۵۰ کی دہائی میں منتقل ہوا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ بعض دکان داروں کے مطابق ان کی دکان کا ٹھکانہ کبھی نہیں بدلا یعنی ان کی دکان تقسیم کے بعد سے اِسی جگہ پر ہے۔
ایک معتبر تاریخ داں عبدالغفور کھتری کہتے ہیں کہ ۱۹۶۰ ءسے پہلے کتب فروشوں کی چند دکانیں تھیں۔ یہ دکانیں نیپیئر روڈ (Napier Road)سے متصل اور لی مارکیٹ (Lee Market)کے قریب تھیں۔ اُس زمانے میں شہر کی آبادی زیادہ تر صدر کے علاقے میں ہی محدود تھی اور طلبہ کی تعداد بھی آج کی تعداد کےلحاظ سے بہت کم تھی۔ کتب بینی کا ذوق رکھنے والوں اور طلبہ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے پانچ سے چھ دکانیں کافی تھیں۔ ’’عباسی کتب خانہ اور ’’اشہاقی کتب خانہ‘‘ اُس زمانے کی مشہور کتابوں کی دکانیں تھیں۔ پرانی کتابوں کی خرید و فروخت کےلیے ۱۹۶۰ ءکی دہائی میں سات سے آٹھ دکانوں پر مشتمل ایک مارکیٹ کے ایم سی گراؤنڈ کے پویلین میں کھارادر اسٹیشن کے سامنے اور سول ہسپتال کے قریب قائم ہوئی۔
۱۹۶۳ ءمیں کراچی کی بلدیہ نے نالوں پر مارکیٹ تعمیر کرنے کا آغاز کیا۔ ان مارکیٹوں میں بہادر شاہ ظفر مارکیٹ، اورنگ زیب مارکیٹ اور اردو بازار شامل ہیں۔قابلِ غور بات یہ ہے کہ ان بازاروں کے نام پرانی دلّی ہی کی طرف ذہن منتقل کرتے ہیں۔ ان بازاروں کے یہ نام بلدیہ کے حکم پر رکھے گئے یا عوام کی طرف سے، یہ ایک قابلِ تحقیق امر ہے۔ بہر حال یہ نام دہلی کی مسلم تہذیب کی یادگار معلوم ہوتے ہیں۔ بہادر شاہ ظفر مارکیٹ کپڑوں کی بٹن کفلنک (Button Cufflinks) کے کاروبار کے لیے قائم ہوئی تھی لیکن اردو بازارکے پھیلاؤ کے سبب یہ مارکیٹ بھی اردو بازار کا ہی حصہ معلوم ہونے لگی۔
۱۹۶۴ ءمیں اردو بازار میں چند ایک دکانیں ہی تھیں (کھتری ، ۲۰۲۰ء)۔ جب کے ایم سی نے پرانی کتابوں کی مارکیٹ کو اردو بازار میں شامل کیا تو یہ بازار کتاب اور کتابوں سے متعلقہ اشیا کی مانگ کوپورا کرنے کا ایک مرکز بن گیا۔ ۱۹۶۰ ءاور ۱۹۷۰ ءکے درمیان لوگوں کا معمول یہ تھا کہ پرانی کتابیں خریدتے اور پڑھ لینے کے بعد انھیں دکانداروں کو فروخت کردیتے۔ ایک کتاب پچاس فیصد ڈسکاؤنٹ پر خریدی جاتی تھی اور پینتیس فیصد ڈسکاؤنٹ پر فروخت کی جاتی تھی۔دکاندار یہ کتابیں نئے آنے والے طلبہ کو فروخت کردیتے۔تقریباً ہر دکاندار اسی طریقِ کار پر عمل پیرا تھا(کھتری ، ۲۰۲۰ء)۔
۱۹۷۰ ءکی دہائی کے بعد لوگوں میں نئی کتابیں خریدنے کا رجحان فروغ پایا۔ اور اسی وجہ سے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کئی ایسی دکانیں جو پرانی کتابیں فروخت کرتی تھیں نئی کتابوں کے کاروبار میں تبدیل ہوگئیں۔ پرانی کتابوں سے نئی کتابوں کی خرید و فروخت کے رواج میں تبدیلی کا سبب صرف معاشرتی خوشحالی ہی نہیں بلکہ ملک میں سیاسی اضمحلال اور تعلیمی پالیسی میں تیزی کے ساتھ تبدیلیاں بھی تھیں ۔ ۱۹۷۰ ءسے پہلےحکومت کے تعلیمی نظام سے قطع نظر اکثر تعلیمی ادارے کمیونٹی کی بنیاد پر ہوتےیا فلاحی اداروں کی صورت میں ہوتے۔ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں تمام تعلیمی ادارے قومی تحویل میں لے لیے گئے تھے۔ جنرل ضیا کی آمریت میں نج کاری فروغ پائی تو ملک کا تعلیمی سیکٹر بھی اِس کی زد میں آگیا ۔تعلیم شہریوں کا بنیادی حق ہے ۔ اس حق کے حصول کے لیے بھی انسان کو اب اپنی قوتِ خرید پر انحصار کرنا پڑا۔اسکولوں کی فیس میں بھی شدید اضافہ ہوا۔ طلبہ اور ان کے والدین کو پرانی کتابوں کے بجائے نئی کتابیں(جو کہ نصاب کا حصہ بن گئیں)خریدنے پر مجبورکیا گیا۔
المختصر ۱۹۸۰ ءسے اردو بازار ایک ایسی جگہ ہے جو کہ ہر ذوق کے قاری کے لیے کتابوں کی سپلائی کے لیے ایک مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ اِس بازارکی بے پناہ مقبولیت کی وجہ سے کئی اشاعتی ادارے اور کتب فروش اپنا کاروبار اِس بازارمیں منتقل کر چکے ہیں یا اپنی شاخ اِس بازار میں قائم کرچکے ہیں۔
اردو بازار کی مسماری کے عدالتی احکام اور ان کی تنسیخ
موجودہ اردو بازار کی زمین کے ایم سی کی عنایت کردہ ہے۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہےکہ کے ایم سی نے یہ مارکیٹ نالوں پر تعمیر کی تھی۔ ۲۰۱۹ ءمیں سپریم کورٹ نے شہر میں ساری غیر قانونی اور قدرتی نالوں پر موجود ساری تعمیرات کو مسمار کردینے کا حکم جاری کیا تاکہ شہر میں نکاسی کا نظام بہتر بنایا جاسکے کیونکہ ۲۰۱۸ ءسے شہر میں بارشوں کے موسم میں شہری سیلاب کا خطرہ پیدا ہونے لگا تھا۔ اردو بازار بھی مسماری کی زد پر تھا۔لیکن جیسے ہی اِس کی خبر عام ہوئی شہر کے کئی سماجی کارکن، کتاب دوست اور مارکیٹ یونین کے حلقوں نے اِس فیصلے کے خلاف احتجاجات شروع کردیے۔ جس کے سبب حکام کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا۔مگر اس بات کے آثار بھی نظر آتے ہیں کہ آئندہ کچھ برسوں میں حکام اس بازار کو مسمار کردینے کی طرف دوبارہ متوجہ ہوں گے۔
اردو بازار کے قریب ایک اردو بازار مال بھی تعمیر ہوا ہے۔ اس مال میں زیادہ تر اسٹیشنری کی دکانیں اور بڑے اشاعتی اداروں کی دکانیں ہیں۔ فی الحال یہ مال ابھی اتنا متحرک نہیں ہوا ہے جتنا اسے ہونا چاہیے۔ لیکن اگر اردو بازار کو مسمار کردیا گیا تو پھر اِس مال کی قدر میں اضافہ ہوجائے گااور اِس میں اردو بازار ہی کی ساری خصوصیات شامل ہوجائیں گی۔لیکن اِس میں ساری دکانیں عام تاجروں کےبجائے بڑے اشاعتی اداروں کی ہوں گی۔
شہر ِ کراچی اتنا بڑاشہر ہوتا جارہا ہےکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اِس ایک شہر میں کئی شہر آباد ہوگئے ہیں سو شہر کے مختلف علاقوں مثلاً ناظم آباد نمبر ۱ میں اور جوہر چورنگی کے قریب چھوٹے اردو بازار قائم ہوگئے ہیں لیکن یہ بازار صرف اسٹیشنری کی اشیا اور درسی کتابیں فروخت کرتے ہیں۔

بابِ سوم
عوام میں کتب بینی کے رجحانات کا جائزہ
اردوبازار کی تاریخ و ارتقا کے آئینے میں معاشرے کی تاریخ و ارتقا کودیکھا جاسکتاہے۔اب تک اہلِ کراچی کی تین نسلیں اِس بازار سے مستفید ہوچکی ہیں لیکن موجودہ نسل کا اِس بازار سے تعلق پہلے کی نسلوں کی طرح نہیں رہا۔
گزشتہ دو دہائیوں میں کتب بینی کے رجحان میں تیز ی سے زوال آیا ہے۔پبلشرز کا کہنا ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں سے تاریخ ، ادب اور ثقافت کی کتابوں کی جگہ کھانے پکانے، فیشن اور صحت کی کتابوں نے لے لی ہے۔ آخر الذکر کتابوں کا لوگوں کےذہنی شعور کے ارتقا میں کوئی کردار نہیں جبکہ اول الذکر کتابیں معاشرے میں شعور و آگہی کو فروغ دیتی ہیں۔۲معاشیات کا یہی اصول ہے کہ جیسی مانگ ویسی جنس۔ دکاندار منافع کے لیے مجبور ہیں کہ لوگوں کے مزاج ہی کی کتابیں فروخت کرنے کے لیے رکھی جائیں۔ اِس سے ایک نقصان تو یہی ہوا کہ بازار میں کتابوں کی ہمہ رنگی (diversity ) ختم ہوگئی ہے۔کتابوں کے موضوعات کا دائرہ نہایت تنگ ہوگیا ہے۔
کتاب کا اعلیٰ ذوق رکھنے والے لوگوں کو اب اپنے حسبِ ذوق کتابیں یہاں نہیں ملتی ہیں اسی لیے اب یہ متبادل جگہوں کا رخ کرتے ہیں مثلاً ریگل اتوار کتاب بازار شعر و ادب، تاریخ، فلسلفے وغیرہ کی کتابوں کا مرکز ہے۔(۳)دکان داروں کی ایک خاصی تعداد خود کو زمانے کے موافق کرتے ہوئے اب ٹیکنالوجی سے ہم قدم ہوگئی ہے۔یعنی اب دکان دار فیسبک اور واٹس ایپ وغیرہ کے ذریعے آرڈر لیتے ہیں۔
پاکستان میں مختلف ثقافتوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے میں اردو بازار کا کردار
اردو بازارپاکستان کا بین الثقافتی مرکز ہوا کرتا تھا۔ کوئی بھی کتاب ملک کے جس حصے میں بھی شائع ہو اردو بازار میں ضرور مل جاتی تھی۔اردو بازار میں دَا پنجاب بُک ہاؤس اُن دکانوں میں سے تھا جہاں ہر ذوق کی کتابیں دستیاب ہوتی تھیں۔افسوس ہے کہ کتب بینی کے رجحان میں کمی کے باعث کئی دکانوں کی طرح یہ دکان بھی اب ختم ہوگئی ہے۔اِس طرح کی دکانوں کےختم ہونے سےادب کے ذریعے مختلف ثقافتوں میں ربط ٹوٹتاجارہا ہے۔اب نہ کراچی کے بڑے ناشروں کی رسائی دوسرے شہر کے قارئین تک ہوسکتی ہےنہ دوسرے شہروں کے ناشرین کی یہاں۔اِس کی اہم وجہ کتب بینی کے رجحان میں تنزل ہے۔گزشتہ دس سے بارہ برسوں میں کتب بینی کا شوق بہت تیزی سے رُو بہ زوال ہوگیا ہےاور اِس کی وجہ سے کتابوں کے کاروبار کو نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ایک اور سبب یہ ہوسکتا ہے کہ کتابوں کے کاروبار سے منسلک افراد میں بے اعتمادی کا ہونا ہے۔ کیونکہ کتب فروش دوسرے شہروں سے کریڈٹ پر کتابیں در آمد کرتے ہیں لیکن رقم کی ادائیگی میں دیر کرتے ہیں یا ادا کرتے ہی نہیں ۔یوں عدم اعتماد کی فضا پیدا ہوجاتی ہے۔
اردو بازار پہلے اور اب
افسوس کی بات یہ ہے کہ اب اردو بازار ۲۵ فیصد بھی ویسا نہیں ہے جیسا ۲۰ برس پہلے ہوا کرتا تھا۔ پہلے ۷۰ فیصد سے زیادہ کتابوں کی فروخت ہوتی تھی۔ ایک گلی میں ناشروں کی تعداد بھی ۱۰ سے اب ۶ ہوگئی ہے۔ پہلے ۱۰ میں سے ۸ ناشرعمومی کتابیں (یعنی شعر و ادب وغیرہ کی کتب) شائع کرتے تھے مگر اب ۶ میں سے ۴ ناشر صرف درسی کتابیں فروخت کرتے ہیں اور صرف ۲ ناشرین عمومی کتابیں فروخت کرتے ہیں۔۲۵ یا تیس سال قبل ایک کتاب کی اشاعت ایک ہزار کاپیوں پرمشتمل ہوتی تھی اوراب یہ تعداد ۳۰۰ کاپیوں تک محدود ہوگئی ہے۔۱۷ کروڑ کی آبادی میں ایک کتاب کی صرف ۳۰۰ کاپیاں !۸
ایک مشہور اردو رسالہ نَو نہال بچوں اور نو جوانوں میں کئی دہائیوں تک بے پناہ مقبول رہا۔ ایک زمانہ وہ تھا کہ اِس کی ایک لاکھ پچیس ہزار کاپیاں شائع ہوتی تھیں اور اب یہ تعداد اٹھائیس ہزار ہوگئی ہے۔۹ جبکہ پاکستان میں نو جوان آبادی سب سے زیادہ ہے۔۶۴ فیصد سے زیادہ آبادی کی عمر تیس برس سے کم ہے اور ۲۹ فیصد کی عمر ۱۵ سے ۲۹ کے درمیان ہے۔۱۰ اسلامی کتابوں کی اشاعت کا بازار گرم ہے۔لیکن یہ کتابیں پڑھنے کی غرض سے نہیں بلکہ لوگوں میں تقسیم کرنے کے لیے خریدی جاتی ہیں۔اسی طرح قرآنِ مجید کی خرید زیادہ ہے لیکن تقسیم اور ہدیہ کرنے کی نیت سے۔
عمومی کتابوں کی فروخت میں انحطاط ایک معاشرتی تغیر کی نشان دہی کرتا ہے۔ اس سے ظاہر ہورہاہے کہ ہمارےمعاشرے کا کس طرح علم و ادب سےتعلق ٹوٹتا جارہا ہے۔معاشیات کا طلب و رسد (supply-demand) کا اصول یہاں بھی کارفرما ہے: اس اصول کے مطابق دکان دار عوام کی طلب کے مطابق چیزیں فروخت کرتا ہے۔ اگر لوگوں میں دوبارہ اردو کا کلاسکی ادب پڑھنے کا ذوق پیدا ہوجائے اور مثال کے طور پر میر تقی میر و میرزا غالب کے دیوان اورمحمد حسین آزاد کی نثر پڑھنے کا شوق بیدار ہوجائے تو تمام موٹروں کے پرزہ جات کی نئی دکانیں اردو ادب کی کتابوں کی دکانوں میں تبدیل ہوجائیں گی ۔
کتب بینی کے زوال سے بازار میں کتابوں کا معیار ہی متاثر نہیں ہورہا ہے بلکہ اس سے مصنفین کے خاندان فاقوں پر مجبور ہوگئے ہیں ۔وہ مصنفین جو ایک پیشے سےزیادہ نہیں کما سکتے ہیں اب کتاب لکھنے کو ایک جُز وقتی پیشے کے طور پر انتخاب کرتے ہیں۔یہ پیشہ اب محض پروفیسروں اور تدریس کے شعبے سے وابستہ لوگوں کے لیے مختص ہوگیا ہے۔ مصنفین کے پاس اب کتاب لکھنے کے لیے کوئی وسائل نہیں ہیں ۔ حکومت بھی کسی طرح کی سرپرستی نہیں کرتی ہے۔
ایک اشاعتی ادارہ دارالاشاعت کے دکاندار کا کہنا ہے کہ پچیس برس پہلے لوگوں میں کتاب پڑھنے کاذوق اور ثقافتی اقدار کا احترام پایا جاتا تھا۔ معاشرے کو علم کی جستجو تھی۔ تعلیمی ادارے طلبہ کے کردار اور شخصیت کی تعمیر کِیا کرتےتھےمگر اب طلبہ میں اخلاقی اقدار کا فقدان ہے کیونکہ تعلیمی ادارے صرف اعلی گریڈ اور نصاب کی تکمیل پر ہی متوجہ ہیں۔ اساتذہ کی نظر اب طلبہ کی کردار سازی پر مرکوز نہیں ہے: ’’یہاں انٹرویو کے الفاظ لکھے جائیں گے‘‘
کتابوں کی جانب اس نئے رجحان سے معلوم ہوتا ہے کہ عوام اب خود نوشتوں اور تاریخی (خصوصاً اسلامی تاریخ) کی کتابوں کی جانب زیادہ مائل ہیں۔لوگ شاذ و نادر شاعری ، افسانوں اور ناولوں کی کتابیں خریدتے ہیں۔ یہ کتابیں اب فقط دانشوروں کا ایک محدود حلقہ خریدتا ہے۔شہر کے وہ لوگ جو کینیڈا، امریکہ، متحدہ امریکہ اور دیگر ممالک ہجرت کر گئے ہیں ان میں سے چند ایک واپس آنے پران کتابوں کی دکانوں کا رخ کرتے ہیں۔
حکومت کی جانب سے کتاب دوستی کی فضا پیدا کرنے کے لیے اردو بازار میں بُک مال کی صورت میں ایک کوشش کی گئی ہے لیکن اِس مال میں عمومی طور پر اسٹیشنری کی دکانیں ہیں۔ یہ دکانیں ہول سیلرز، ڈسٹریبیوٹرز اوربڑی کمپنیوں (مثلاً نفیس اور سگنیچر) کی ملکیت ہیں۔ ۱۲چوں کہ اِس مال میں عوام کی آمد و رفت نہیں ہے اس لیے یہاں اسٹیشنری کی دکانیں باقی نہ رہ سکیں۔ لیکن یہ مال ایک گودام کی طرح بھی کا ر آمد ہے۔ یہاں سے اشیا صدر، بولٹن مارکیٹ اور جنوبی کراچی کی مارکیٹوں میں پہنچائی جاتی ہیں۔
اردو بازار کا منافع بخش کاروبار
عمومی کتابوں کے طبع ہونے اوران کے پڑھنے کے رجحان میں اگرچہ نہایت انحطاط آگیا ہےلیکن اردو بازار کے دکانداروں کا اس سے نقصان یوں نہیں ہوا کہ یہ بدلتی ہوئی طلب کے مطابق درسی کتابوں کے کاروبار میں مشغول ہیں۔یہ بازار اب بھی کراچی میں ایسی جگہ ہے جہاں سے کوئی بھی کتاب حاصل ہوسکتی ہے لیکن اب یہ خیال درسی کتابوں کے لیے زیادہ درست معلوم ہوتا ہے۔ بازارکے دکان داروں کے درمیان زیادہ منافع کے حصول کی خاطر ایک مشترکہ حکمتِ عملی پائی جاتی ہے۔ ہر دکان دار نے اپنی دکان کو ایک خاص قسم کی درسی کتابوں کے لیے محدود کر رکھا ہے۔کچھ دکان دار پرائمری سے میٹرک تک کی کتابیں رکھتے ہیں۔ بعض دکانوں پر صرف تقابلی امتحانات مثلاً سیٹ (SAT)، جی آر ای(GRE)، آئیلٹز (IELTS) اور سی ایس ایس(CSS) کی کتابیں دستیاب ہوتی ہیں۔ کچھ دکانوں پر کیمبرج بورڈ کی کتابیں فروخت ہوتی ہیں۔سارے دکان دار گاہکوں کوان کی مطلوب کتابوں کے لیے متعلقہ دکانوں کی طرف جانے میں رہنمائی بھی فراہم کرتے ہیں۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی خدشہ ہے کہ بازار کی اس نفع بخش روش کا بھی خاتمہ نہ ہوجائے کیونکہ نجی سکول اب طلبہ کے والدین کو کتابیں اور کاپیاں سکول سے ہی خریدنے پر زور دیتے ہیں۔ ۱۴ درسی کتابوں کی فیس سکول کی سالانہ فیس ہی میں شامل کرلی جاتی ہے۔ نجی سکولوں کی مذکورہ روش اردو بازار کے دکانداروں کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔
اردو بازار یقیناًمعاشرے میں تعلیمی مراحل کی ضروریات پوری کر رہا ہے۔اب دکانوں پر امتحانات کی تیاری کے لیے پریکٹیکل سینٹر اور آدم جی کوچنگ وغیرہ کے نوٹس بھی دستیاب رہتے ہیں۔ پہلےوقتوں کے طلبہ امتحان کے مضامین کی شرحوں (Guide Books) پر انحصار کرتے تھے لیکن اب اچھے نتائج کے لیے نوٹس کو ترجیح دیتے ہیں۔۱۵
اردو بازار میں سرقہ کلچر
قانون کی نظر میں سرقہ ایک جرم ہے۔ لیکن سرقہ کلچر اردو بازار میں عام ہے۔ یہاں عمومی کتابیں اور انگیریزی زبان کی درسی کتابیں (جو بیرونِ ملک مطبوع ہوتی ہیں) نہایت کم قیمت پر دستیاب ہیں۔ ۱۷کچھ دکان دار ایسے بھی ہیں جو ایف آئی اے (FIA) کے چھاپے (raid) کے اندیشے کے سبب سرقہ شدہ کتابیں نہیں فروخت کرتے ہیں۔ایسے چھاپوں کے دوران سرقہ شدہ کتابوں کی فروخت عارضی مدت کے لیے رک جاتی ہے۔ تاہم اردو کتابوں کے کاروبار کرنے والوں کو اس سے کوئی خطرہ نہیں ہوتا کیونکہ اردو زبان کی کتابوں کے سرقہ نسخے نہیں ہوتے ہیں۔
معاشرے میں کتب بینی کے رجحان میں انحطاط کے اسباب
گزشتہ دو دہائیوں میں اردو بازار میں عمومی کتابوں کو مسلسل زوال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ان کتابوں کی طرف عوام کو دلچسپی نہیں ہے۔ اسی وجہ سے دکان داروں نے بھی کاروبار میں نقصان کے اندیشے کے پیشِ نظر عمومی کتابوں کو فروخت کرنا بند کردیا ہے۔ لیکن معاشرے کا یہ تغیر اچانک واقع نہیں ہوا ۔ اس کی کچھ اہم وجوہات ہماری تحقیقات کے مطابق مندرجہ ذیل ہیں:
جدید عہد میں روایتی خاندانی نظام میں تبدیلی
عہدِ جدید آنے سے معاشرے کو فائدہ بھی ہوا لیکن ساتھ ہی ساتھ اب کئی اہم معاشرتی اقدار پامال ہورہی ہیں۔مشترکہ خاندانی نظام (joint family system) کا اکائی خاندانی نظام (nuclear family system) میں تبدیل ہوجانا اس کی ایک مثال ہے۔ مشترکہ خاندانی نظام میں عمومی طور پر گھر کے بزرگ (خاص کر دادا دادی) اپنے پوتے پوتیوں کی پرورش میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس پرورش سے بچوں میں اخلاقی اقدار اور تعمیری عادات پروان چڑھتی ہیں۔ مثال کے طور پر اخبار اور کتابیں پڑھ کر سنانا۔ لیکن اس جدید عہداوراکائی خاندانی نظام کے زمانے میں ماں اور باپ دونوں مصروف ہیں اور بچوں کے اسکول سے ملنے والا گھر کا کام (homework) مکمل کرانے کے لیے بھی اتالیق (tutor) کا انتظام کیا جاتا ہے۔ سو بچوں کا اب اپنی تہذیب و روایات کی روایتی درس گاہ سے ربط ختم ہوگیا ہے۔
ٹیکنالوجی کا کردار
ٹیلی ویژن معلومات کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ اس ٹیکنالوجی سے کئی تبدیلیاں رُو نما ہوئی ہیں۔ اخبار نیوز ہیڈ لائن سے بدل گئے ہی کہ جو ہر گھنٹے نشر ہوتی ہیں۔ ٹیلی فلم، ڈرامے اور فلموں نے ناول اور افسانے کی جگہ لے لی ہے۔ ابتدا میں ٹیلی وژن محدود اوقات (شام ۵ بجے تا رات ۱۰ بجے) میں نشر ہوتا تھا مگر اب ٹیلویژن انڈسٹری کی ترقی سے ٹیلی ویژن چوبیس گھنٹے جاری رہتا ہے۔ اس کے معاشرے پر اثرات کے متعلق مبین مرزا کا کہنا ہے، ’’ یہاں اصلی متن لکھا جائے گا‘‘۔ ٹیلیوژن کتابوں کانعم البدل نہیں ہوسکتے کیونکہ کتاب پڑھتے ہوئے ہم اپنی قوتِ متخیّلہ(imaginative powers) کو استعمال میں لاتے ہیں کہ تحریر کو تصور بھی کر سکیں۔ یہ قوتِ متخیّلہ ہر شخص کی منفرد ہوتی ہے۔ ٹیلیوژن سے نقصان یہ ہوا کہ اب انسانوں کی قوتِ تخیل ماند پڑتی جارہی ہے ۔ ہمارے معاشرے کے برعکس یورپ میں ٹیکنالوجی کے فروغ کے باوجود کتاب پڑھنے کا رجحان برقرار ہے۔ ۱۹ پاکستان میں یہ عمومی خیال ہے کہ انٹرنیٹ اب کتابوں کا بدل ہے لیکن یورپ میں یہی انٹرنیٹ کتاب پڑھنے کا سبب ہے۔ ۲۰
تعلیم کا کاروبار میں تبدیل ہوجانا
بچوں میں کتاب پڑھنے کی عادت پیدا ہونے میں گھرکی تربیت کا اثر ہوتا ہی ہے لیکن اسکولوں کا بھی اس میں بہت اہم کردار ہوتا ہے۔پاکستان میں ۱۹۷۱ ءسے پہلے تک اساتذہ اور اسکول مالکان بچوں کو صرف اچھا گریڈ حاصل کرنا ہی نہیں سکھاتے تھے بلکہ ان کے ایک بہتر انسان بننے کی تربیت پر متوجہ رہتے تھے۔ان اسکولوں کی اکثریت کو ملک کے بڑے کاروباری حضرات کی امداد حاصل تھی۔یہ کام وہ فلاح وبہبود اور انسان دوستی کے لیے کرتے تھے۔ حبیب پبلک اسکول اور داؤد پبلک اسکول ایسے اسکولوں کی مثالیں ہیں۔۱۹۷۳ میں سارےا سکول قومی تحویل میں لے لیے گئے تھے۔ جب جنرل ضیاالحق کی آمریت کا آغاز ہوا تو گزشتہ پالیسی کو بالکل بدل دیا گیا اور تعلیم کا شعبہ بھی نج کاری کی زد میں آگیا۔ یہاں سے وہ دور شروع ہوتا ہے کہ جب تعلیم کے شعبے میں خالص سرمایہ دارانہ سوچ کے لوگ شامل ہوئے۔ان کی روزی روٹی صرف اسکولوں پر منحصر تھی اور ان کی نظر میں منافع بچوں کی صحیح تعلیم وتربیت سے زیادہ ضروری تھا۔ یوں پورا تعلیمی شعبہ محض ایک کاروبار ہو کر رہ گیا۔ایسے نظام میں طلبہ علم کی جستجو اور سیکھنے سے زیادہ اچھے گریڈ حاصل کرنے پر توجہ دیتے ہیں۔ اس نظام میں اساتذہ، طلبہ اور والدین کی تعلیم کے متعلق ذہنیت بالکل بدل گئی ہے۔
اساتذہ اب محض ایک مینجر بن چکے ہیں۔ اسکول انتظامیہ کی طرف سے اساتذہ پر طلبہ کے بہتر گریڈ لانے کے لیے دباؤ ہوتا ہے۔ایک زمانہ تھا کہ والدین اپنے بچوں کو شعر و ادب پڑھنے پر زور دیتے تھے۔ سیکنڈری کے طلبہ کے حافظے میں علامہ اقبال، مولانا حالی کے اشعار ہوتے تھے اورسر سید اور مولانا آزاد کی نثرپڑھنے کا ذوق عام تھا۔ایک دہائی قبل تک بھی اساتذہ جو پڑھاتے تھے اس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرنے کے لیے درسی کتاب کے ساتھ ساتھ دوسری کتابوں کا بھی سہارا لیتے تھے۔ لیکن آج کل اساتذہ تدریس میں صرف نوٹس پر ترجیح دیتے ہیں۔ طلبہ بھی جامعات میں اسی طریقِ کار پر عمل پیرا ہیں ۔ یہ استاد کے لیکچر اور ریفرنس مٹیریل (reference material) سے زیادہ نوٹس پر انحصار کرتے ہیں۔ ۲۱ اس نئے رجحان کی وجہ سے طلبہ اب اضافی کتابیں تو دور کی بات درسی کتابوں کی طر ف بھی متوجہ نہیں ہوتے ہیں۔
دوسری جانب والدین اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دینے کے لیے سب سہولتیں مہیا کرتے ہیں۔ اچھے اسکولوں میں داخلہ کرواتے ہیں۔ اتنا کچھ کرنے کے بعد وہ چاہتے ہیں کہ بچے صرف نصاب پر ہی توجہ مرکوز رکھیں تاکہ امتحانات میں اچھے نتائج حاصل ہوں۔ اور پھر آج کے والدین اور اساتذہ کے زیرِ اثرتربیت پانے والا طالبِ علم صرف اپنے نصاب پر توجہ دیتا ہے۔ آج کے طالبِ علم کا معمول کا دن ایک ملازمت کرنے والے آدمی سے بھی زیادہ مصروف گزرتا ہے۔ ایک عام طالبِ علم اپنے دن کے چھے گھنٹے اسکول میں، آدھا گھنٹہ دینی تعلیم کے لیے اور ڈیڑھ گھنٹہ ٹیوشن میں صَرف کرتا ہے،سو ظاہر ہے کہ ایسے میں طالبِ علموں سے نصاب کے علاوہ کوئی کتاب پڑھنے کی کیسے امید کی جاسکتی ہے۔ ایسی حالت میں کہ جب طالبِ علم پر اساتذہ، والدین اور رشتہ د اروں کی طرف سے امتحانات میں اچھے نتائج لانے کا دباؤ بھی ہو۔
اختتامیہ
اردو بازار شہرِ کراچی کی پہچان ہے۔ اس بازار میں بدلتے رجحانات در اصل شہر میں معاشرتی تغیرات کی عکاسی کرتے ہیں۔ اردو بازار میں تبدیلیاں معاشرےاور اس کے اداروں میں تبدیلیوں سے ہی جنم لیتی آئی ہیں کیونکہ تعلیم معاشرے میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ایک امریکی سوشیالوجسٹ ٹالکٹ پارسنز کا کہنا ہے کہ معاشرے میں چند مخصوص ضروریات کا پورا ہونا ضروری ہے تاکہ معاشرہ موثر انداز میں چل سکے۔انہی میں سے ایک ضرورت لے ٹینسی (latency) ہے۔ لے ٹینسی یعنی اس بات پر غور و فکر کرنا ہے کہ معاشرے کو کس طرح دیر پا تبدیلیوں کےلیے ایک مناسب عرصہ پہلے سے تیارکرنا ہوگا کیونکہ کسی عمل کو ۔۔۔تک پہنچنے میں جو وقت لگتا ہے اس دوران ایک نئی نسل تیار ہو کے میدان میں آسکتی ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ خاندان اور اسکولوں جیسے ادارے معاشرتی تبدیلیوں میں بہت اہم کردار ادا کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں کیونکہ یہ نظامِ اخلاقیات اور اقدار کو ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل کرتے ہیں۔ کئی دہائیوں سے ہمارا تعلیمی نظام نہ صرف معاشرتی اقدار اور ثقافت کو پامال کررہا ہے بلکہ ایک اچھی لیبر فورس بنانے میں بھی ناکام ہے۔ ایڈم اسمتھ اپنی تصنیف ’’اقوام کی دولت (Wealth of Nations)‘‘ میں لکھتا ہے کہ ’’معاشی ترقی کی اصل وجہ لیبر فورس میں بہتری ہے‘‘(ساکرے، چنیدر، کنوڈلر، ۲۰۰۸ء)۔تعلیمی اداروں کو افراد کی صلاحیتوں کو بہتر بنانے پر زیادہ توجہ دینی چاہیے ورنہ افراد کی صلاحیتیں اس نیولبرل دور (Neo- liberal era) کا مقابلہ نہیں کرسکیں گی اور نہ ایسے لوگ پیدا ہوسکیں گے کہ جو ایک بہتر اور منصفانہ دنیا کے خواب دیکھیں۔
تعلیمی اداروں کا انحطاط موجودہ اردو بازار کے بحران کی ترجمانی کرتا ہے۔ کتب بینی کے رجحان میں زوال ہمارے معاشرے کی افسوس ناک صورتِ حال کا آئینہ ہے۔ پبلک لائبریریاں بند ہوتی جارہی ہیں ، جو لوگ اب ان لائبریریوں میں جاتے ہیں تو امتحانات کی تیاری کی غرض سے۔ اس انٹرنیٹ اور ٹیکنالوجی کے زمانے میں دوسرے ممالک کتاب کلچر کو برقرار رکھنے میں مصروفِ کار ہیں مگر ہمار ے اکثر اسکولوں میں لائبریری ہی نہیں ہوتی ہے۔ تاہم اشرافیہ کے اسکولوں میں لائبریری ہوتی ہے اور یوں معاشرے کے امیر طبقوں کے بچے کتاب پڑھنے کی طرف مائل ہوجاتے ہیں۔ اس طبقے کے طلبا کو اچھی ملازمتیں بھی ملتی ہیں ،مگر یوں تعلیمی نظام طبقاتی تفریق میں اضافہ کر رہاہے۔
پاکستان میں تعلیم کی تاریخ پر تحقیقات میں اردو بازار کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ اس زیر نظر تحقیق سے یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ اردو بازار ہمارے معاشرے اور تعلیمی نظام کا ایک اہم ترجمان ہے۔ اس بازار کے تجزیے سے معاشرے میں کتب بینی کے رجحانات اور لوگوں کی بدلتی ترجیحات کا علم ہوتا ہے۔ یہ مختلف ثقافتوں میں ربط پیدا کرنے کا ایک مرکز ہوا کرتا تھا مگر اب عمومی کتابوں کے درسی کتب سےبدل جانے کی وجہ سے یہ رشتہ ٹوٹ چکا ہے، یہ بات نہ صرف بڑھتی ہوئی تنگ نظری(intolerance)کی عکاس ہےبلکہ ایسے مضبوط تعلیمی نظام کی بہتری کی ضرورت کی طرف متوجہ کرتی ہے جو اس معاشرتی تنزل کو ختم کرنے میں کارگر ثابت ہوسکے۔

انٹرویوز

اسمٰعیل – ماسٹر بک سینٹر (نوشین سینٹر)
ہمارا سیٹ اپ یہاں پہ ۱۹۹۲ ءسے ہے۔ یہ بہت برکتی کاروبار ہے۔ اسکول کالجز کی سلیبس کی کتابیں ہوتی ہیں کیونکہ یہاں ہر فیلڈ کے لوگ آتے ہی ، انجینیرنگ کی کتابیں الگ رکھی ہیں ۔ میڈیکل کی الگ ہیں اور ایم بی اے، بی بی اے کی بھی الگ رکھی ہیں ۔ اتنا کلیکشن ہے کہ کوئی بھی ایک دکان پہ تو کر ہی نہیں سکتا۔ اب ہمیں واضح تبدیلی ایک ہی نظر آرہی ہے کہ آن لائن پہ سارا کاروبار چل رہا ہے۔

مونس بن انس( ُبک مال)
سوال۔ آپ کو ایک سال ہوا ہے یہاں پہ، آپ نے اپنا سیٹ اپ کس طرح شروع کِیا اور آپ نے اسٹیشنری کا انتخاب کیوں کِیا؟
مونس: اسٹیشنری اس لیے انتخاب کی کیونکہ اسٹیشنری ایک ایسی پروڈکٹ ہے جو بچپن سے لے کے پچپن تک چلتی ہے۔ تو اس کی ڈیمانڈ بارہ مہینے اور ہمیشہ رہنے والی چیز ہے۔ اس وجہ سے ایسی فیلڈ لی ہے جس میں ہمیشہ کام ہوتا ہے۔ کوئی سناٹا نہیں ہوتا۔
سوال ۔نوشین سینٹر سے بک مال کس طرح مختلف ہے؟
مونس: نوشین سینٹر کے اندر خالی گراؤنڈ فلور کی دکانیں ہیں۔ اور نوشین سینٹر کے اور یہاں کا سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ وہاں سارے بکس والے بیٹھے ہیں۔ بک مال میں اسٹیشنری والے بیٹھے اور کمپنیز والے بیٹھے ہیں۔ کمپنیز والے ایسے جیسے ہمارے پاس نفیس کی ڈسٹریبیوشن ہے، نفیس اسٹیشنری کے نام سے ایک برانڈ ہے ۔
اوپر فرسٹ فلور پہ دہلی والے ہیں، سگنیچر بال پین آتا ہے، اور سامنے یہ سامسا والے بیٹھے ہیں ۔ اور وہاں پہ کوئی ڈسٹری بیوٹر نہیں ہے۔ یہاں پہ ڈسٹری بیوٹرززیادہ ہیں، بڑے لیول پر کام کرنے والے زیادہ ہیں۔
ڈسٹری بیوٹرز مال میں کاروبار بھی نہیں کر سکتے کیونکہ مال میں کوئی واک اِن کسٹمر نہیں ہیں۔ نوشین سینٹر میں واک اِن سینٹر پہلے سے موجود ہے۔ تو ظاہر ہے کہ یہاں پر کوئی بندہ آ کے بیٹھے گا اور واک اِن کسٹمر نہیں ہوگا تو وہ نفع بخش کاروبار نہیں کر سکے گا۔
لیکن اگر ڈسٹری بیوٹر ہے، ڈسٹری بیوٹر کا مطلب اس کا مال مارکیٹ میں جا رہا ہے تو اس کے گاہک آتے ہیں، مال لے کے جاتے ہیں۔ ہم لوگ بھی ڈسٹری بیوٹ کرتے ہیں۔ہماری اسٹیشنری یہیں اردو بازار میں ڈسٹری بیوٹ ہوتی ہے، قریب میں بولٹن مارکیٹ ہے، وہاں پر ہوتی ہے، یہاں سے ریٹیل میں بھی لوگ لے کرجاتے ہیں۔

محمد زاہد، گلوبل بکس (نوشین سینٹر)
ہمارے پاس نرسری سے لے کے گریجوئشن تک کی کتابیں ہوتی ہیں۔ یہاں ہم ۱۹۹۴ ءسے ہیں۔
نوٹس جو ہیں وہ آدم جی پریکٹکل سینٹر کے ہیں۔ اس طرح کے جو مختلف کوچنگ سینٹرز ہیں وہ اپنے پروفیسروں سے نوٹس لکھوا کر اپنے اسٹوڈنٹس کو دیتے ہیں۔ اور وہ اسٹوڈنٹس اس سے پھر فائدہ اٹھاتے ہیں۔ جیسے پہلے زمانے میں گائیڈبکس ہوا کرتی تھیں، لیکن آج کل لوگ گائیڈبکس پہ اتنا فوکس نہیں کرتے، اور گائیڈ بکس سے سنا ہے ہم نے کہ اتنے اچھے مارکس نہیں ملتے ۔ تو بچے بہ نسبت گائیڈ بک کے نوٹس کو ترجیح دیتے ہیں ۔
ہم سے لوگ نوٹس بیچنے بھی آتے ہیں اور لینے بھی۔
ہمارا نئی اور پرانی کتابوں دونوں کا کام ہے۔ تو یہاں پہ لوگ سیکنڈ ہینڈ بکس بھی دے جاتے ہیں۔
سوال: تو زیادہ تر ایسا ہوتا ہے کہ لوگ آپ کو پروائڈ کرتے ہیں نوٹس؟
محمد زاہد: جی بالکل لوگ ہمیں دے کے جاتے ہیں، جیسے فرسٹ ایئر کے انھوں نے لیے، وہ پھر ہمیں لے کے دیتے ہیں، ہم خریدتے ہیں، پھر سیکنڈ ایئر کے لے لیتے ہیں۔ اِس طرح ایکسچینج کرتے رہتے ہیں۔
بہت سارے کوچنگ سینٹرز ہیں، کراچی میں ہزاروں کوچنگ سینٹرز ہیں، سب اپنے اپنے نوٹس بناتے ہیں۔
سی ایس ایس کے نوٹس یا امدادی کتابوں کا کام ہم نہیں کرتے، انٹر میٹرک کے ہی ڈیمانڈ میں ہیں زیادہ تر۔
پہلے بزنس اچھا تھا، اب اتنا نہیں ہے۔ اب اسکول والے اپنے پاس سے بکس دیتے ہیں۔ پہلے زمانے میں لوگ آتے تھے یہاں لینے باقاعدہ مارکیٹ کے اندر۔ بہت دکانیں تھیں، کاروبار بہت تھا۔ لیکن اب اتنا نہیں کیونکہ اسکول والے کہتے ہیں والدین سے ہم سے براہ راست خریدیں۔
ویسے ہم بائنڈنگ بھی کرتے ہیں، پلاسٹس کوٹنگ اورپلاسٹک بائنڈنگ بھی کرتے ہیں۔

مبین مرزا (اکادمی بازیافت)
چھ اپریل، ۲۰۱۹ء
مبین مرزا: بد قسمتی سے کراچی کا شمار ان شہروں میں ہوتا ہے جن کے بارے میں بہت زیادہ لکھا نہیں گیا۔ خصوصاً ان کے ثقافتی رخ کے بارے میں۔ مثال کے طور پر آپ لاہور کے بارے میں جاننا چاہیں۔ آپ کو ایسی کئی کتابیں مل جائیں گی جس میں لاہور کی تاریخ بھی ہوگی اور اس کی بدلتی ہوئی صورتیں، نئے مسائل۔ شہر کاسموپولٹن شہر کس طرح بنتے ہیں، ان کی آبادی کس طرح مکس اپ ہوتی ہے اور ثقافتی تبدیلی کیا چیز ہے۔ یہ آپ کو پتہ چلے گا ان کتابوں سے۔ میرے والد کا تعلق دلّی سے ہے۔ دہلی والے دہلی کو دلّی کہتے ہیں۔ دلّی کے بارے میں آپ جاننا چاہیں گے، آپ کو بہت اچھی چیزیں مل جائیں گی۔ آپ لکھنؤ کے بارے میں جاننا چاہیں گے، آپ کلکتہ کے بارے میں جاننا چاہیں گے۔ آپ کو مل جائے گا۔
.
سوال: اچھا پاکستان کے شہروں میں کوئٹہ، پشاور اور ملتان کے بارے میں بہت معلومات مل جائیں گی لیکن کراچی کے بارے میں بہت کم حاصل ہوگا اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟
مبین مرزا: اب ہونا یہ چاہیے تھا کہ یہاں پہ لوگ مکس اپ ہوتے، جیسے پنجاب میں ہوگئے، لاہور میں ہوگئے، جیسے ملتان میں ہوگئے اور جیسے پنڈی میں ہوگئے۔ آپ آگے جا کے دیکھیں گے تو آپ کو الگ سے اِس طرح شہر کی آبادی بکھری ہوئی آبادی نظر نہیں آئے گی۔ لیکن کراچی کی آبادی فریگمنٹڈ آبادی نظر آتی ہے۔ اب ایسا کیوں ہوا ؟ ایسا اِس وجہ سے ہوا کہ دو طبقات نے اس آبادی کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی۔ ایک طبقہ ہے اہلِ سیاست کا۔ جنھوں نے اپنا ووٹ بنک یہاں بنایا اور اُس کو استعمال کرنے کی کوشش کی۔ اور دوسرا طبقہ اہلِ مذہب کا ہے۔ بد قسمتی سے یہ جو طبقہ ہے اہلِ مذہب کا، اِس نے بھی لوگوں کو بجائے یہ کہ معاشرے میں رواداری پیدا کریں، انہوں نے بھی اس کو مفادات کے حصول کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ آج آپ باہر نکل کے دیکھیں تو ایک علاقہ ایم کیو ایم والوں کا ہے۔ دوسرا علاقہ پیپلز پارٹی والوں کا ہے۔ تیسرا علاقہ پی ٹی آئی والوں کا ہے۔ چوتھا کچھ نون لیگ کا بھی ہے۔ اور اس کے علاوہ جیے سندھ کا بھی ہے۔
اچھا یہ جو رویہ معاشرے میں پیدا ہوتا ہے تو یہ لوگوں کو آپس میں ملنے نہیں دیتا۔ جب ملنے نہیں دیتا تو وہ تہذیب جس کو بہت بڑے اسکیل پر ابھرنا چاہیے اور پورے معاشرے کی نمائندگی کرنی چاہیے،وہ معاشرہ اور تہذیب آپ کے سامنے نہیں آتی۔ اُس تہذیب کو ابھرنے کا موقع نہیں ملتا۔ اِس کی جگہ یہ ہوتا ہے کہ اپنی اپنی جگہ جو معاشرتی گروہ ہیں وہ ایک دوسرے سے ٹکراتے رہتے ہیں، اور ایک دوسرے کی طاقت کو ختم کرتے رہتے ہیں۔ نتیجتاً کراچی کے بارے میں آپ کو لکھا ہوا بھی ملتا ہے کہ کہیں آپ کو اردو اردو اسپیکنگ کا نقطۂ نظر سے ملے گا، کہیں بلوچ نقطہ نظر ملے گا اوراُس میں بھی کہیں رخ سیاست کا ہوگا، کہیں رخ مذہب کا ہوگا۔ وہ جو ایک پورا معاشرہ ہوتا ہے، جس میں سیاست ایک اپنا کام کر رہی ہوتی ہے۔ مذہب ایک اپنا کام کر رہا ہوتا ہے اور دوسرے ثقافتی پہلو ہوتے ہیں وہ بھی کار فرما نظر آتے ہیں، ایسا کچھ کراچی کے ساتھ نہیں ہوسکا۔ تو نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ شہر کو ہم اُس طرح کا ایک بڑا تہذیبی شہر بنتے ہوئے نہیں دیکھتے۔ حالانکہ اِس میں وہ پورا پوٹینشل تھا جو اس کو ایک بڑے تہذیبی مرکز کے طور پر ابھار سکتا تھا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔
سوال: سر آپ نے یہ فریگمینٹس کی جو بات کی آپ کو لگتا ہے کہ اردو بازار اِس فریگمینٹس کی ضروریات کو پورا کرتا ہے یا پھر یہ کچھ خاص حصوں ہی کے لیے ہے؟
مبین مرزا: ایک زمانے میں یہ ہورہا تھا کہ یہاں پر جو مختلف رویے تھے، وہ ایک تو اتنے زیادہ نمایاں نہیں ہوئے تھے۔ اچھا فرض کر لیجیے ہم کہہ دیں کہ نمایاں ہوگئے تھے۔ لیکن آج ہم جو شدت پسندی دیکھ رہے ہیں وہ شدت پسندی نہیں تھی۔ یہ شہر جو تھا یہاں لوگوں میں ایک دوسرے کے لیے جگہ نکل آتی تھی انسانی حیثیتوں سے۔ لیکن اب یہ گنجائش کم ہوگئی ہے اور وقتاً فوقتاً کم ہوئی ہے ۔ اور اس کا اثر آپ کو مختلف جگہوں پر نظر آئے گا۔ ان میں ایک جگہ اردو بازار بھی ہے۔ اس کا یہ نتیجہ ہے کہ آپ یہاں دیکھیں گے بعض دکانداروں کو کہ صرف سندھی کی کتابیں رکھے ہوں گے۔ بعض دکانداروں کو دیکھیں گے کہ جو صرف انگریزی کی کتابیں رکھے ہوں گے۔ بعض دکان داروں کو یکھیں گے جن کے پاس اب سنجیدہ چیزوں کی جگہ ہی باقی نہیں۔ لوگ جو ادب کو نہیں پڑھ رہے، تاریخ کو نہیں پڑھ رہے، وہ کیا کر رہے ہیں، کیونکہ عمومی کتابیں رکھی ہوں گی۔ کونسی؟ کھانا پکانے کی تراکیب کی کتابیں، فیشن کی کتابیں، صحت کے متعلق۔ تو وہ دکاندار معاشرے کی بہتری میں اپنا کیا کردار ادا کر رہے ہیں؟ صرف پیسہ کمانے کی غرض ہے۔
تو اب اگر ایک دکان ہے جو صرف مذہبی کتابیں چھاپتی ہے اور بیچ رہی ہے۔ کوئی مسئلہ نہیں۔ ایسی دکانیں پہلے بھی ہوتی تھیں لیکن ایک سالم معاشرے میں ہونا یہ چاہیے کہ وہاں سب طرح کی چیزیں ہوں۔ یعنی وہاں آپ جائیں تو مذہبی کتابیں دریافت کرنا چاہیں تو مذہبی کتابیں مل جائیں گی اچھا لیکن اگر آپ کہیں کہ مذہبی کتابیں نہیں بلکہ وہ کتابیں چاہییں جو شاعری سے متعلق ہیں تو شاعری کی کتابیں مل جائیں گی۔ لیکن اب ایسا نہیں ہورہا۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ صورتِ حال اب تبدیل ہوگئی ہے اور اس حد تک تبدیل ہوئی ہے کہ اب کتاب سے دلچسپی رکھنے والے اردو بازار میں آتے بھی کم ہیں۔ اِس لیے اردو بازار کی جو بہت مشہور دکانیں تھیں جن کے بارے میں مشہور تھا کہ آپ وہاں جائیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ پاکستان میں کہیں کوئی اچھی دکان بھی ہے تو وہاں پہ وہ کتابیں ا ٓئی ہوئی ہوگی۔ اور وہ ملا کرتی تھیں یہاں پر ان میں سے بعض بک شاپ تو بند ہوگئیں۔ مثلاً پنجاب بک ہاؤس، یہاں پہ ایک دکان ہوا کرتی تھی، برسوں پہلے بند ہوگئی۔ بارہ پندرہ برس سے بھی زیادہ ہوگئے۔ اچھا پنجاب بک ہاؤس میں وہ ساری کتابیں جو پنجابی پبلشرز چھاپا کرتے تھے وہ کسی نہ کسی طرح یہاں پہنچ جایا کرتی تھیں۔ تو اِس کا مطلب یہ ہے کہ وہاں جو آدمی لکھ رہا ہوتا تھا اس کی کتابیں کراچی کے قارئین تک پہنچ جاتی تھیں۔ آج وہ کتابیں اُس طرح نہیں پہنچ رہی ہیں۔ مسئلہ یہ ہوگیا ہے کہ کراچی کے بڑے ناشر بھی جو کتابیں شائع کرتے ہیں وہ آسانی سے وہاں نہیں پہنچ پاتی ہیں اور وہاں کے جو ناشر ہیں وہ یہاں نہیں بھیج پاتے۔
دو وجہ ہیں اِس کی۔ پہلی بات یہ ہے کہ جو کتب بینی متاثر ہوئی ہے، وہ بنیادی سبب ہے کہ کتابیں اس طرح۔۔۔ یعنی اگر ایک کتاب چھپی ہے اور دکاندار کہے کہ بھائی مجھے پچاس کتابیں بھیج دو تو اس میں کوئی نفع نظر آتا ہے۔ لیکن دکاندار آپ سے کہے بھائی کہ تین کتابیں بھیج دو یا پانچ کتابیں بھیج دو تو وہ کیا بھیجے گا اور جو خرچ وہ کر رہا ہوتا ہے۔ تین یا پانچ کتابیں بھیجنے کے بعد جو اُس پر خرچ بن رہا ہے اس کو نکالنا ممکن نہیں رہا۔ اچھا دوسرا مسئلہ یہ بھی ہوا کہ کاروبار میں ایسے لوگ آگئے جو بہت ایمان دار نہیں تھے۔ کاروبار اچھا نہیں کر رہے۔ مال منگوا لیا لیکن پیسے نہیں دیے۔ اچھا کاروبار چلتا ہے زبان پر یعنی جسے ہم بھروسہ کہتے ہیں۔ زبان سے مراد آپ نے ایک بات کہی ہم نے اعتبار کر لیا۔ اچھا اب اگر ہم نے اپنی بات پوری نہیں کی تو اگلی بار آپ دھوکہ کھانے کے لیے تو تیار نہیں ہوں گے ۔
آج آپ جس طرح اردو بازار کو دیکھتے ہیں۔ یہ ایسا اردو بازار نہیں تھا۔ یہاں پہ اردو اکادمی سندھ پرانا ادارہ تھا۔ اور وہ بالکل جو یو بی ایل بنک اور سونیری بنک ہے ان سے آگے آگئے آئیں تو بالکل کونے کی دکان پر ہوا کرتا تھا۔ یہ ناشر بھی تھے اور درسی کتب بھی شائع کِیا کرتے تھے۔ اور ایک زمانے میں کراچی کے بڑے ناشرین میں شمار کیے جاتے تھے۔ آج آپ ان کا ادارہ دیکھیں تو ختم تو نہیں ہوا لیکن اب وہ ادارہ جو اتنا بڑا تھا ا اب سمٹ کر رہ گیا ہے۔ اب پرانا اسٹاک انھوں نے لے کر ایک جگہ رکھا ہوا ہے اور وہی اسٹاک چل رہا ہے۔ وہ خود وہاں سے منتقل ہوگئے اور دوسرے کاموں میں مصروف ہوگئے ہیں۔
سوال: کتب بینی کے رجحان میں کمی کی کیا وجہ ہے؟
مبین مرزا: کوئی معاشرہ کسی بھی ایک چیز سے فوری طور پر ایک بڑے اسکیل پر متاثر نہیں ہوتا۔ اگر ایک پہلو تبدیل ہوتا ہے تو وہ وقت لیتا ہے۔ لیکن جب ایک سے زیادہ پہلو کار فرما ہونے لگ جائیں تو وہ پھرسارے عمل کو accelerate کردیتے ہیں، تبدیلی کی رفتار کو بڑھا دیتے ہیں۔ کتب بینی کم ہو رہی تھی اور پھر نو جوان طبقہ کتابوں سے دلچسپی کم ہوگئی۔
ہمیں اپنا زمانہ یاد آتا ہے کہ ہمارے میں زمانے میں، جب میں تقریباً چھ برس کا ہوں گا۔ میں نے اُس عمر سے کتابیں پڑھنا شروع کِیں۔ ابا بھی ہمارے کوئی نہ کوئی کتاب اٹھا کے دیا کرتے تھے۔ کوئی نہ کوئی اخبار۔ لیکن اب اخبار فون پر زیادہ آسانی مل جاتا ہے۔ لیکن ہمارے گھر اخبار آتا ہے۔ ڈان بھی آتا ہے، جنگ بھی آتا ہے، مطلب کہ دو تین اخبار۔ اتوار کو تو خاص طور پر زیادہ آتے ہیں۔تو یہ معمول ہے کیونکہ جو ہماری نسل ہے اس کو ابھی تک عادت ہے ہارڈ کاپی اٹھا کے پڑھنے کی۔ تو یہ رویہ گھروں میں ہوتا تھا، اور ہمیں اپنے بچپن کا کوئی ایسا گھر یاد نہیں ہے جہاں پر کتابیں نہ ہوں۔ اور اب جو چالیس سال بعد کی نسل ہے، ذرا وہ غور کریں اور دیکھیں کہ کتنے گھر ایسے ہیں جن میں کتابیں ںظر آتی ہیں۔ اِس کا مطلب تو یہ ہے نا کہ یہ بڑوں کا قصور ہے۔ آپ کی نسل اس کی کم ذمہ دار ہے۔ اس لیے کیونکہ ہم نے اپنا کردار صحیح طرح ادا نہیں کیا۔ یا یوں کہیے کہ ہم کرنا چاہتے تھے لیکن وہ جو حالات، ٹیلیوژن، الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا۔ یہ جو انفلکس تھا، ایک بہاؤ ، ایک ریلہ چلا آرہا تھا اس کے آگے ہمیں گھٹنے نہیں ٹیک دینا چاہیے تھے۔ ہم کم از کم اپنے بچوں میں وہ چیز منتقل کرنے کی کوشش کرتے جو وہ آگے لے کے چلتے۔ لیکن ایسا نہیں ہو پایا۔
سوشل میڈیا ضرور ایسا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہماری اپنی ذمہ داری اور اس کے ساتھ تیسرا پہلو بھی ہے۔ تیسرا پہلو تعلیمی ادارے ہیں۔ یہاں اب اچھے اساتذہ نہیں رہے۔ ہمیں اپنا زمانہ یاد ہے۔ یہ میں چالیس سال یا اس سے پہلے کی بات کر رہا ہوں۔ بیالیس سال قبل ہم اقبال کو پڑھا کرتے تھے۔ دس بارہ سال کے نو جوان کو اقبال کتنا سمجھ سکتا ہے۔ لیکن ہمارے اساتذہ تھے وہ واقعی دل سے پڑھاتے تھے۔ وہ اچھے شعر پڑھاتے تھے، اچھے شعر کے معنی سمجھانے کی کوشش کرتے تھے۔
یہ نہیں کہ انتظار کر رہے ہیں کہ کالج میں بچہ ذرا سا اچھا ہوجائے گا یا یونیورسٹی میں آ کر سمجھ دار ہوجائے گا تو یہ کرے گا۔ نہیں۔ یہ چھٹی، ساتویں اور آٹھویں جماعت میں سب چیزیں ہوجاتی تھیں اور ہم پڑھا کرتے تھے اور اِس طرح کی چیزیں حافظے میں بھی رہتی تھیں۔ اقبال کے شعر بھی یاد ہوتے تھے، قائدِ اعظم کی تقریریں بھی ہم پڑھا کرتے تھے، سر سید کے مضامین پڑھا کرتے تھے۔ مولانا حالی کی شاعری، مولانا آزاد کے مضامین پڑھا کرتے تھے۔ اس کا نتیجہ؟ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ پڑھنے سے دلچسپی ہوتی تھی اور زندگی کو ان پڑھی ہوئی چیزوں کی روشنی میں دیکھنے کا موقع ملتا تھا۔ اس سب میں تقریباً ہمارے اساتذہ ہی کا کردار تھا۔
اب دلچسپ بات یہ ہے کہ اسکول کے اساتذہ جو تھے اس میں ہیڈ ماسٹر بھی جو ہوتے تھے، بچوں میں خصوصی دلچسپی کا اظہار کیا کرتے تھے۔ یعنی ان کو یاد رہتا تھا کہ انھوں نے کس کلاس میں کس بچے کو دیکھا تھا اور اس نے کس تقریری مقابلے میں حصہ لیا تھا۔ یا اچھا شعر پڑھا تھا یا صحیح شعر پڑھا تھا۔ تو اگلی بار جب اس کلاس کا دورہ کرتے تھے، تو وہ خاص طور پر مخاطب کرتے تھے۔ اس سے بچوں میں ایک دلچسپی اور شوق پیدا ہوتا تھا۔
جو انگریزی کا استاد تھا فارسی اور اردو بھی پڑھا کرتا تھا۔ یہ جو ویرائٹی تھی اور یہ سیکھنے سکھانے کا جوعمل تھا، گھر میں خاص طور پر، درس گاہوں میں، تعلیمی اداروں میں یہ کتاب سے ہماری دلچسپی اور ہمارا تعلّق مضبوط کرتا تھا۔
سوال: حکومت کی پالیسیز کی وجہ سے اردو بازار پہ کیا اثر پڑا؟
مبین مرزا: دیکھیں یہ بہت اچھا سوال ہے۔ اور اِس زاویے سے اگر ہم غور کریں تو ظاہر ہے کہ کچھ افسردہ کردینے والی باتیں ہیں، کچھ پریشان کرنے والی باتیں ہوں گی۔ لیکن زندگی کے جو حقائق ہوتے ہیں ہم ان کی نفی نہیں کر سکتے۔ جو زندگی ہے وہ تو جیسی ہے سو ہے۔ ہمارے ہاں تعلیم کو نقصان پہنچنے اور کتاب کلچر کو ختم کرنے میں ہماری حکومتوں کا ایک بہت اہم کردار ہے۔ اور وہ کس طرح سے ہے؟
پہلی بات تو یہ ہے کہ تعلیم میں جس طرح نجکاری ہوئی۔ نجی کاری سے کیا مراد ہے؟ یہ بھی سمجھ لینا چاہیے۔ نجکاری پہلے بھی تھی، لیکن شعبے میں جو لوگ آتے تھے ان کو دلچسپی اس بات سے ہوتی تھی کہ ان کے جو شاگرد ہیں وہ انھیں صرف معلومات نہیں فراہم کر رہے۔ وہ انھیں علم دے رہے ہیں۔ اور ہاں، معلومات اور علم میں بہت فرق ہے۔ جو پرانے اساتذہ تھے وہ صرف آپ کو پڑھاتے تھے نہیں تھے بلکہ آپ کا ذہن بناتے تھے، آپ کے کردار کی تشکیل کرتے تھے، آپ کا مزاج بناتے تھے۔ پھر بھٹو صاحب آگئے۔بھٹوصاحب نے سارے اداروں کو قومیا دیا۔ تو اس شعبے میں جوکاروبار کی کشش تھی وہ ویسے ہی ختم ہوگئی۔ لیکن اس کے باوجود تعلیمی اداروں کے حالات بہت بہتر تھے۔اچھا کوئی بات نہیں، زمانے کے ساتھ کچھ چیزیں ضرورتبدیل ہوجاتی ہیں۔ لیکن کچھ تو ایسا ہو تا جو طلبا کو اپنی تاریخ کے بارے میں، اپنی تہذیب کے بارے میں، اپنے سماج کے بارے میں، اپنے بڑوں کے بارے میں بتاتا اور اس کو یہ اعتماد فراہم کرتا کہ وہ جس تہذیب میں پیدا ہوا ہے اس معاشرے میں انسان کیسا ہوتا ہے اور وہ کیسا بننا چاہے گا، اس کے اندر وہ اعتماد پیدا کریں۔ ایسا نہیں ہوا۔ ایسا نہیں ہورہا۔
اردو بازار میں شاعری، افسانوں، ناولوں، تنقید، سوانحِ عمری کی کتابیں تھیں وہاں پر گنے چنے لوگ آنے لگے۔ زیادہ کاروبار جو چمکا وہ درسی کتب والوں کا تھا۔ وہ یہ درسی کتب کا کاروبار تھا اس نے اردو بازار کو تبدیل کرنا شروع کیا، اس کی شکل بدلنا شروع ہوئی۔ وہ ادارے جو عمومی کتب یا ادب کی کتابیں بیچ رہے تھے اب انھوں نے یہ محسوس کیا کہ سال میں کام کرنے میں ہمیں اتنے پیسے بھی مشکل سے ملتے ہیں جتنا درسی کتب کا کام کرنے والا آدمی تین چار مہینے میں کما لیتا ہے۔
اب آپ اندازہ کریں کہ کیا یہ مقابلہ ہے۔ تو نتیجہ یہ کہ وہ کتابیں چھپنا کم ہوگئیں، کم فروخت ہونے لگِیں اور یہ جو طبقہ درسی کتب بیچتا ہے، آپ اردو بازار میں آئیے اور ان لوگوں سے بات کیجیے جو چالیس برس کا اردو بازار دیکھا تو وہ آپ کو بتائیں گے کہ بھائی یہ دو مختلف جگہیں ہیں، یہ ایک اردو بازار نہیں ہے۔ اور کیوں ایک نہیں ہے؟ کیونکہ اس کی شکل اتنی بدل گئی ہے، یہاں کے کام کی نوعیت بدل گئی ہے، کہ اب اس کو ایک اردو بازار نہیں کہا جاسکتا۔ تو یہ پورا جو اردو بازار تبدیل ہوا جو عمومی کتابیں ہیں، ادب اور تاریخ کی کتابیں ہیں، اب یہ پچیس فیصدبھی اردو بازار نہیں ہے۔کبھی یہاں پر ستر فیصد سے زائدعمومی کتب ہوا کرتی تھیں۔ عمومی کتابوں کے بیچنے والے ہوا کرتے تھے۔ اب وہ نہیں رہے۔ یہ اردو بازار کی شکل تبدیل ہوئی ہے اس نے معاشرے کے اِس رویّے کو ظاہر کِیا کہ معاشرہ اب کتابوں میں دلچسپی نہیں رکھتا۔
اچھا اب آپ فرض کر لیجیے کہ اب آپ یہاں پر اردو بازار کو دیکھیں کہ روزانہ پانچ سو ہزار لوگ آنے لگیں اور کوئی کہے کہ مجھے قرۃ العین حیدر کا ناول چاہیے، کوئی کہے کہ مجھے مستنصر حسین تارڑ کا ناول چاہیے اور کوئی کہے کہ مجھے پروین شاکر کی شاعری کا مجموعہ چاہیے، فراز، فیض کے مجموعے وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب ہونے لگے تو یہاں پر جو اسپیئر پارٹ والے آ کر بیٹھ گئے ہیں ان کی دکانیں ختم ہوجائیں گی۔ یہاں پر جو کاپی اور رجسٹر کا اسٹاک لے کر بیٹھ گئے ہیں ان کی بجائے کتابوں کی دکانیں بن جائیں گی اور عمومی کتابیں ملنے لگیں گی۔ اس لیے کہ جس چیز کی مانگ زیادہ ہوگی اس کی فروخت خود بہ خود زیادہ ہونے لگے گی۔ یہ معاشیات کا بڑا آسان فارمولا ہے۔ ہمارے یہاں اس صورتِ حال کو ٹیلیویژن بھی خراب کر سکتا تھا لیکن آپ کی نسل کو سن کر حیرت ہوگی کہ ٹیلیوژن نے کتاب کو بالکل متاثر نہیں کِیا تھا۔ اچھا کیوں نہیں کیا تھا؟ اس لیے کہ اس وقت ٹیلی وژن کے چلنے کا ایک خاص وقت ہوتا تھا۔ ٹیلی وژن چلتا تھا شام کے پانچ سات بجے اور رات کے دس بجے بند ہوجاتا تھا۔آج ٹیلیوژن ہر وقت چلتا ہے۔ یہ ٹی وی چینل لوگوں کو تفریح فراہم نہیں کر رہے بلکہ ذہنی مریض اور بد دماغ لوگ پیدا کر رہے ہیں۔ یہ ایک نفسیاتی معاشرہ تشکیل دے رہے ہیں۔ ذہنی مریض پیدا کر رہے ہیں اور ہمیں پتہ بھی نہیں چل رہا۔ اور اس چیز کو مزید بڑھاوا دیا موبائل فون نے۔ اگر آج آپ کی نسل کے بچے کتاب پڑھتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے۔ خوش گوار حیرت ہوتی ہے۔ تو کہنے والی بات یہ ہے کہ جب یہ پہلو کام کرتے ہیں معاشرے میں تو معاشرے کو تبدیل کردیتے ہیں۔ وہ چاہے اردو بازار ہو یا وہ گوشت یا سبزی یا کپڑے یا کاسمیٹکس کی مارکیٹ ہو۔ دیکھیں ہر وہ مارکیٹ پھلے پھولے گی جس کے خریدار معاشرے میں زیادہ ہوں گے اور ہر وہ مارکیٹ زوال پذیر ہوگی جس کے خریدار کم ہوں گے۔ والدین کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ میرا بچہ ایسی تعلیم حاصل کرے، وہ کام کرے، اس کو اتنی تنخواہ مل رہی ہو اور اس کا یہ اسٹیٹس ہو۔ ہمارے یہاں خواہشیں بھی تبدیل ہوگئی ہیں۔
یہ اردو بازار، یہ اچانک یہ جو اِس گلی میں آپ آئے ہیں اِس گلی میں یہ جو چھ ناشر نظر آرہے ہیں۔ یہ چھےنہیں تھے۔ ان میں دس ناشر تھے۔ آج جو چھ ناشرین ہیں ان میں سے چار درسی کتب شائع کرتے ہیں اور دو عمومی کتب۔ اور جب یہاں دس بارہ ناشرین ہوتے تھے ان میں سے آٹھ یا نو عمومی کتب شائع کرتے تھے اور دو یا تین درسی کتب کے ناشر تھے۔ تو درسی کتب کا کاروباراب بڑا بن گیا ہے۔ پھر وہی بات کہ مطالبہ و فراہمی کا مسئلہ ہے۔ پچھلے بیس پچیس سال میں اس تبدیلی کی رفتار بڑھی اور اس نے بہت ہی مادّی معاشرہ بنا دیا۔
یورپ کا کتاب کلچر اتنا متاثر نہیں ہوا جتنا ہمارا ہوا ہے۔ کیا وجہ ہوئی اس کی؟ ایک تو یہ کہ ادارے بہت مضبوط تھے۔ ہمارے یہاں ایسا نہیں تھا۔ تو جب یہ زلزلہ آیا سوشل میڈیا کا اس نے بالکل انھیں گرا دیا۔ ہم نے اس کے لیے جو احتیاطی تدابیر تھیں وہ نہیں اپنائِیں۔ ہم نے سیلاب کو روکنے کے لیے کوئی بند نہیں باندھے۔

سوال: آپ اپنے ادارے سے متعارف کرائیے۔
مبین مرزا: اکادمی بازیافت کے قیام کو تئیس سال سے زیادہ ہوگئے۔ شروع میں ہم یہ کرتے تھے کہ ادارے کے تحت کوئی اور کام نہیں کرتے تھے۔ صرف ایک ادبی پرچہ ایک ادبی رسالہ ہم نکالتے تھے یعنی ’’مکالمہ‘‘۔ لیکن پھر کوئی اٹھارہ انیس سال ہوگئے، ہم نےباقاعدہ ادارہ قائم کر لیا۔ ہم کتابیں چھاپنے لگے۔ زیادہ تر کتابیں ادب کی ہیں۔ کچھ مذہبی بھی ہیں۔ ان کتابوں کے شائع کرنے کے پیچھے ایک بالکل واضح فکر ہے۔ صرف کاروبار مقصد نہیں تھا کیونکہ یہ بات تو ہمیں کاروبار شروع کرنے کے تین چار سال بعد ہی سمجھ آگئی تھی کہ جو کاروبار ہم کر رہے ہیں یہ کوئی منافع بخش کاروبار نہیں ہے۔
لیکن بیک وقت مجھے ایک اور اندازہ ہوا۔ ہم پڑھنے لکھنے والے آدمی ہیں، ادیب شاعر ہیں۔ تو اس ادیب و شاعر نے اندرسے بتانا شروع کِیا کہ یہ کاروبار بہت بڑا کاروبار تو نہیں بن سکے گا لیکن اس کے ذریعے میں اپنے معاشرے کی بہتری میں کردار ادا کرسکتا ہوں۔ پہلے رسالہ بہت کم آتا تھا، آٹھ دس مہینے میں اور اب وہ رسالہ ہم بہت باقاعدگی سے نکالتے ہیں۔ اب ماہانہ اشاعت ہوتی ہے۔ جو بھی ممکن ہے معاشرے کی بہتری کے لیے کرنے کی کوشش کرتے ہیں، کتاب کے ذریعے، ادب کے ذریعے۔
سوال: ادبی رسالے کے قارئین کون ہیں ؟
مبین مرزا: دیکھیے یہ بہت دلچسپ بات ہے کہ ایسے زمانے میں جس میں کہا جارہا ہے کہ کتب بینی بہت تیزی ختم ہو رہی ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہم جو رسالہ نکالتے ہیں وہ پڑھا جاتا ہے۔ یہ ہم آپ کو بالکل فرسٹ ہینڈ معلومات دے رہے ہیں کہ ’’مکالمہ‘‘ چھپتا ہے، فروخت ہوتا ہے، لوگوں تک پہنچتا ہے اور وہ اسے پڑھ کر اپنے تاثرات سے بھی آگاہ کرتے ہیں۔

منور حسین
ٹھیلے والا
منور حسین: کہاں تبدیلی آئی ہے؟ غریب آدمی مر رہا ہے۔
سوال: یہ آپ کتابیں کہاں سے لاتے ہیں؟
منور حسین: لوگ دکانوں پہ بیچ کے آتے ہیں، ہم وہاں سے لاتے ہیں۔ یہ لوگ جو نئی لیتے ہیں نا دکان سے، پڑھ کے جب فارغ ہوجائے تو دے جاتے ہیں۔ دکان والے ہمارے کو دے جاتے ہیں کمیشن پر۔ ان کا بھی فائدہ ہو جاتا ہے، ہمارا بھی فائدہ ہوجاتا ہے۔
سوال: اسٹیشنری بھی آپ کو وہ لوگ دیتے ہیں؟
منور حسین: ہاں ہم مناسب ریٹ میں بیچ دیتے ہیں۔ دس روپے کمائی ہے ہر چیز پر۔ ابھی تک آئے نہیں۔ کسی کا بارہ تاریخ کو، کسی کا پندرہ تاریخ کو۔
سوال: اس سے کام پر کیا فرق پڑتا ہے؟
منور حسین: فرق پڑتا ہے کام پر۔ ایک مال ہے پانچ لاکھ روپے کا۔ ان سے وعدہ ہے مہینےمیں پورا کرنے کا۔ تو ہمارا پچاس ہزار پورا مہینے کا آیا تو پانچ لاکھ کہاں سے آئے گا۔ گھر سے تھوڑی اٹھا کے لائیں گے۔ اب وہ پیسے آ نہیں رہے ہمارے پاس۔ کہاں سے لائیں گے اب؟
سوال: تو یہ نقصان ہوگیا ایک طرح سے؟
منور حسین: ہاں نقصان ہی سمجھو۔
سوال: حکومت نے جو ساری دکانیں اٹھانے کا کہا تھا، اس میں آپ کو کوئی پریشانی تو نہیں ہوئی؟
منور حسین: پریشانی تو بہت ہوئی، یہ سب مارکیٹ گرانے کے چکر میں تھے۔ پھر پتا نہیں کیا بنا، ان لوگوں نے وقفہ لیا ہے، لیکن گرے گی لازمی۔ ایک ہزار نو سو دکانیں ہیں، یہ ساری ٹوٹیں گی۔

نظر احمد فریدی
مکتبہء فریدی
ہمارا جو ادارہ ہے مکتبِ فریدی، یہ پانچ جنوری سن ۱۹۵۰ ءسے قائم ہے۔ میرے والد صاحب نے یہ شروع کیا تھا۔ میں ۱۹۸۰ ءمیں اِس مارکیٹ میں آیا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ ہماری جو مرکزی دکان تھی وہ دفاقی اردو یونیورسٹی میں تھی۔ تو جب کالج کی چھٹّیاں ہوتی تھیں تو تقریباً تین مہینے کا جو دورانیہ آتا تھا تو کاروبار بالکل منجمد ہوجاتا تھا کیونکہ ظاہر ہے کہ کوئی اِن پُٹ آؤٹ پُٹ نہیں ہوتی تھی کیونکہ ہماری مطبوعات بھی آتی ہیں الحمدُ اللہ۔ تو ان تین مہینوں میں سروائو (survive) کرنے میں بہت مشکلات پیش آتی تھیں۔ تو ۱۹۸۰ ءمیں یہاں میں نے اردو بازار میں دکان کھولی۔
اب بس یہ ہے کہ الحمدُ اللہ مارکیٹ ہے،مستحکم ہے۔ پاکستان، خاص طور پر سندھ کی جتنی بھی ضروریات ہیں، اس کے حوالے سے چاہے کسی بھی طرح کی ہو، الحمد اللہ یہاں دستیاب ہے۔
اس وقت کے دور کی بات کر رہا ہوں کہ گنے چنے لوگ تھے جو باہر سے کتابیں منگاتے تھے۔ جب یہ مارکیٹ قائم ہوئی تو تمام علاقے کی کتابیں، خاص طور پر سندھ کی کتابیں ہمارے پاس ہیں۔
ہمارے پاس زیادہ تر کورس کی کتابیں ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ جنرل کتابیں بھی ہم لوگ فروخت کرتے ہیں۔
میں: فروخت کس طرح زیادہ ہوتی ہیں؟
جواب: دیکھیں ہمارے جو طلبا کی ضروریات ہوتی ہیں وہ سلیبس کے مطابق ہوتی ہیں۔ جو ان کے کورس کی کتابیں ہیں خصوصاً وہ ان کو ملنی چاہییں۔ جو ان کو اسائمنٹ مل رہا ہے جو کورس ان کو پڑھایا جارہا ہے ان کا سلیبس مکمل ہوجائے اور وہ آگے امتحانات پاس کرلیں۔
جواب: دیکھیں آپ آج سے آٹھ دس سال قبل پہلے کی بات کریں تو نوٹس کا کوئی مسئلہ نہیں ہوتا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو اساتذہ ہیں، اور جو طلبا ہیں، وہ باقاعدہ طریقے سے پڑھتے تھے اور وہ اساتذہ جو بھی مضمون پڑھاتے تھے، وہ صحیح طرح پڑھاتے تھے۔ جب سے یہ سمسٹرسسٹم آیا ہے اس کی وجہ سے یہ نوٹس کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ طلبا جاتے ہیں جن کی کوئی کلاس چھوٹ گئی، اب ان کو اسائمنٹ دینا ہے یا امتحان کی تیاری کرنی ہے تو کچھ لوگوں نے نوٹس بنانا شروع کیے تو نوٹس پر ان کی وجہ ہوگئی۔
پڑھنے والے بہت ہیں، پڑھانے والے بھی ہیں، لیکن اس کا صِلہ ہمارے طلبا کو نہیں ملتا۔ ہر سال او لیول، اے لیول، آئی سی اے، ایم بی بی ایس، یہ طلباءسب امتحانات میں کامیاب ہورہے ہیں، ڈگریاں مل رہی ہیں، لیکن ان کو نوکریاں کہاں مل رہی ہیں۔ آج سی ایس ایس میں جس لڑکے نے کامیابی حاصل کرلی، لکھائی کا امتحان اور انٹرویو بھی پاس کرلیا، اس کے لیے آسامی ہی نہیں ہے۔ تین ہزار، چار ہزار طلبا امتحانات دیتے ہیں لیکن سیٹیں صرف ۳۶۰، ۳۷۰ ہوتی ہیں۔ پھر باقی فرینچائز کمپنیوں میں نوکری کرتے ہیں۔

نذیر احمد – نذیر بُک بینک
اِس سیٹ اپ کو ایک سال ہوگیا۔
اس سے پہلے میں نوکری کرتا تھا۔
میرے پاس اسلامی،ادبی، تاریخ کے متعلق کتابیں ہوتی ہیں۔
آن لائن کام ہے میرا۔
محنت کریں تو بیس، پچیس لاکھ تک سیل پہنچ جاتی ہے۔
کتابیں میرے گھر پر رکھی تھیں، وہی لا کے میں نے ادھر رکھ دِیں
یہاں کیوں کھولی دکان؟
باہر مجھے پچاس ہزار کی دکان مل رہی تھی۔ یہاں دس ہزار کرایہ ہے۔
اس مال کو آپ آفس کہہ لیں۔ نیچے کی جو مارکیٹ ہے یہاں پر زیادہ تر آفس ہی ہیں۔ کسی کا آن لائن کام ہے۔ (اردو بازار کی طرح) واک اِن گاہک یہاں زیادہ نہیں۔ یا ہوں بھی تو دو ڈھائی سال لگیں گے۔ آہستہ آہستہ کر کے۔ ریٹیل مارکیٹ نیچے ہی ہے۔ یہاں پر آفس ہی کہہ لیں آپ، جیسے یہاں پر پبلشرز ہوں گے، یا ہول سیلر ہوں گے۔
زیادہ تر لوگ جن کی نیچے دکانیں ہیں انھوں نے گودام اوپر بنا لیے۔ نیچے جو جگہ مل رہی تھی لیکن اس کا کرایہ زیادہ تھا۔

ساجد فضلی
ساجد فاضلی: یہاں ۲۰۰۲ء میں ہم نے بنیادی طور پر پرنٹر، پرنٹنگ پریس ایک زمانے میں میں لگایا تھا، بائنڈنگ ہاؤس تھا یہاں پر۔ یہاں جو آپ کتابوں کا سیکشن دیکھ رہے ہیں یہ ہم نے سن ۲۰۰۰ ءمیں شروع کیا تھا۔
.
سوال: اور اس سے پہلے؟
ساجدفضلی: شاپ تھی ہمارے پاس اور پرنٹر تھے ہم، پرنٹنگ سے کام چلا رہے تھے اورپرنٹنگ کا آفس تھا یہاں پر۔ پھر سن ۲۰۰۰ ءمیں ہم نے باقاعدہ کتابوں کا کام شروع کیا ۔ فضلی سنز کے نام سے ہمارا پرنٹنگ ہاؤس تھا۔ فضلی بکس کے نام سے ہمارا یہ ادارہ بنا اور کتابوں کے کام میں آگئے ۔ اور اللہ کا شکر ہے بڑے ایک دو میں ہی ہمارا شمار ہوتا ہے۔ جنرل کتابیں ہمارے پاس ہوتی ہیں، اردو کی کتابیں ہوتی ہیں۔ انگریزی کتابوں میں لوکل کتابیں جو ہوتی ہیں وہ چھپتی ہیں لیکن انگریزی کتابوں کا رجحان لوگوں میں ہے نہیں اتنا پڑھنے کا۔ بڑے بڑے نام دنیا میں اب نہیں آ رہے تو نئے لکھنے والے ہیں ان کو اتنی پذیرائی ملتی نہیں ہے۔ کوئی بہت اچھی کتاب ہو تو بک جاتی ہے۔ باقی پرانی کتابوں کا خاص رجحان بہر حال ہےلیکن ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کوئی خاص رجحان نہیں ہے۔
ہمارے ملک میں کتابوں کے رجحان کو اداروں کی پشت پناہی حاصل نہیں ہے۔ ایسے حکومتی ادارے ہونے چاہییں جو کتاب کلچر کو فروغ دیں، کتب خانے موجود نہیں ، کمپنیوں میں کتب خانے ہوں۔ ایسا کوئی کلچر نہیں ہے۔ اس کے علاوہ حکومت کے جو ادارے ہیں ادھر بھی۔۔۔۔۔ تو اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی ادارارتی خرید اردو بازار میں نہیں ہے۔ دنیا بھر میں یہ کمپلسری ہوتی ہے۔ اب تھوڑے سے ٹھیلے والے جو کام کر رہے ہیں ان کا گزارا ہو جاتا ہے لیکن بہت زیادہ منافع بخش نظر نہیں آتا۔ پڑھنا لکھنا، کتابیں چھاپنا، بہت زیادہ منافع بخش نہیں ہے۔
ہمارے یہاں جو کتابیں چھاپنے کا رجحان ہے وہ صرف تین سو کتابیں چھپتی ہیں، جب کہ دنیا بھر میں ہزاروں کے حساب سے کتابیں چھپتی ہیں۔ ایک وقت تھا کہ پاکستان میں ایک ہزار کتاب چھپتی تھیں۔ سنا ہے لوگوں سے پچیس سال تیس سال پہلے۔ ایک کتاب کا ایڈیشن ایک ہزار پر ہوتا تھا۔ اب وہ ایڈیشن ۳۰۰ پر آ گیا ہے۔ تو سوچیں ۱۷ کروڑ کی آبادی میں ۲۵۰ کتابیں چھپ رہی ہیں تو کوئی شرح ہی نہیں ہے۔ اور اس میں بھی ڈیمانڈ کی جا رہی ہے کہ کتاب معیاری ہو۔
تو میں سمجھتا ہوں آپ اسی سے رجحان کا تجزیہ کر سکتے ہیں کہ رجحان زیادہ اچھا نہیں ہے۔ اسلامی کتابوں کا رجحان دوسری طرح کا ہوتا ہے۔ وہ بانٹنے تک کا ہوتا ہے۔ اس سے پڑھنے کا رجحان اور کم ہوجاتا ہے لیکن اس کی بکری زیادہ ہوتی ہے۔ لوگ قرآن شریف بانٹتے ہیں اور اِس طرح دینی کتابیں عطیہ دی جاتی ہیں۔
اور اگر لکھاری اچھے ہیں بھی تو انھیں اپنے معاش لیے کچھ اور کام کرنا پڑتا ہے۔ظاہر ہے کہ ان کے پاس فرصت کے جو اوقات بچتے ہیں ان میں کتابیں لکھتے ہیں۔ یا کوئی پروفیسر ہیں انھوں نے کتاب لکھ دی۔ تو بنیادی طور پر وہ اپنی پروفیسر شپ کی وجہ سے زندگی گزار رہے ہیں۔ حکومت کی طرف سے کوئی پشت پناہی نہیں ہوتی۔ مثلاً اگر کسی نے کوئی اچھی کتاب لکھی ہے تو اسے انعام مل جائے۔
سوال: آپ کی فروخت کس قسم کی کتابوں سے ہوتی ہے؟
ساجد فضلی: زیادہ تر جنرل کتابیں ہیں مثلاً شاعری کی کتابیں، سفر نامے، سوانح، خاکے وغیرہ۔ یہ کتابیں زیادہ فروخت ہوتی ہیں۔ شاعری اور افسانوں کی کتابیں اب کم فروخت ہوتی ہیں۔ سوانحِ حیات کی کتابیں سب سے زیادہ فروخت ہوتی ہیں۔ ان کے بعد تاریخ کی کتب خصوصاً اسلامی کتب۔ یہی رجحان ہے آج کل۔
سوال: اور کس قسم کے لوگ خریداری کرتے ہیں؟
ساجدفضلی: بس یہی جو معاشرے میں ایڈکٹو (addictive) یعنی کتاب کے رسیا شوقین لوگ ہوتے ہیں ریڈر۔ وہ ہی پڑھتے ہیں ورنہ کون اردو بازار میں آئے، پارکنگ کی کوئی جگہ نہیں، یہاں پر آپ گاڑی پارک نہیں کر سکتے اتنا سب کچھ چھوڑ کے آنا اور اس کے بعد دو کتابیں لے کر جانا بڑا مشکل کام ہے۔ تو عموماً جو بہت ایڈکٹو(addictive) لوگ ہوتے ہیں، جو بہت عادی ہوتے ہیں، وہ آئیں گے، جن کی یہ زندگی ہے، کتاب سے وابستہ رہنا، اور ان کا ایسا ماحول ہے، معاشرتی پس منظر ہے، خاندان میں ان کے لوگ اس طرح کے تھے یا ہیں جن میں اٹھنے بیٹھنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ کتاب سے وابستہ رہیں تو وہی ہمارے لیے سمجھ لیجیے وجہ ہےکہ یہاں پہ ہم بیٹھے ہوئے ہیں۔ یا امریکہ جو لوگ ہجرت کر گئے ہیں، کینیڈا چلے گئے ہیں۔ سالانہ چھٹیوں میں جب وہ آتے ہیں تو وہ عموماً آتے ہیں۔
.
سوال : انگریزی کتابیں زیادہ فروخت ہوتی ہیں یا اردو؟
ساجد فضلی : دیکھیں اس مارکیٹ میں مسئلہ ہے پائریسی کا۔ پائریسی بہت ہوتی ہے اور ظاہر سی بات ہے کہ پائریسی ایک غیر قانونی کاروبار ہے۔ تو ہم لوگ گریز کرتے ہیں کیونکہ آپ پائریسی کی وجہ سے مقابلہ نہیں کر سکتے۔ حکومت انتظام کرتی ہے لیکن مؤثر نہیں ہے، اور وہی بات ہے کہ جو یہ کام کر رہا ہے جو منظّم لوگ ہوتے ہیں تو ظاہرسی بات ہے اگر مارکیٹ میں ہزار روپے کی کتاب ہے اور پائریسی شدہ کتاب پچاس روپے سو روپے کی ہوگی تو کیسے مقابلہ کرے گی۔
اردو کے تو یہاں پر تو اسٹیک ہولڈرز (stakeholders) موجود ہیں نا تو وہ کچھ کرلیں گے کہ یہ کتاب آپ نے کیوں چھاپی ہے۔ لیکن امریکہ میں بیٹھا ہوا ہے کوئی مصنف تو اس کو کون پوچھے گا؟ کبھی کبھی چھاپے پڑتے ہیں، مغربی ایف آئی اے والے کرتے ہیں، تو اُن دنوں بہت سختی ہوجاتی ہے یہاں۔ لیکن وہ زیادہ تر جو ہیں نصابی کتابیں ہوتی ہیں۔ جنرل کتابوں میں بھی پائریسی ہوتی ہے لیکن اُس میں چھاپے وغیرہ نہیں پڑتے۔
.
ساجدفضلی: فضلی سنز کے نام سے ۱۹۴۸ ءسے ہی ہم لوگ اس شعبے میں ہیں جو بائڈنگ ہاؤس سے پہلے تھا، پھر پرنٹنگ ہاؤس بنا۔ والد صاحب جو تھے انھوں نے فضلی سنز کے نام سے اس کو آگے بڑھایا۔ ابّو کا نام فضل الر حمن تھا اور دادا کا نام فضل الٰہی تھا۔ نسبتاً انھوں نے فضلی سنز بنایا بچوں کے لیے تو فضلی سنز ہی کے نام سے ہم آج بھی کاروبار جاری رکھے ہوئے ہیں
فضلی سنز پہلے پرنٹر تھا۔ ۱۹۷۰ ءسے سپلائیر بنا۔ والد صاحب کو کچھ شوق ہوا تھا، اس میں زمانے میں چھوٹی موٹی کتابیں چھاپ لیتے تھے۔ لیکن اس کو باقاعدہ کیا ہمارے بڑے بھائی نے۔ تو سن ۲۰۰۰ ء سے ہم ادھر بیٹھے ہوئے ہیں ۔آغاز بائنڈنگ سے ہوئی پھر نٹنگ شروع ہوئی۔
پرنٹنگ کی سیلز کا احوال بہتر ہے کیونکہ پرنٹنگ میں صرف کتابیں نہیں ہوتی ہیں۔ اسٹیشنری بھی ہوتی ہے، گورنمنٹ سپلائیز بھی ہوتی ہیں۔ تو کتاب کے ڈائمینشز (dimensions) سے نکل جاتے ہیں تو کام کافی بڑھ جاتا ہے۔ یہ جو بُک شاپ ہے ہم اِدھر اسٹیشنری نہیں بھیجتے۔ کوئی اسکول کی کتاب نہیں بیچتے، جنرل کتابیں رکھتے ہیں جو ہمارے معاشرے کا پڑھا لکھا طبقہ ہے یہ اس کو ڈیل کرتی ہیں۔
آن لائن کام بہتر ہو رہا ہے پہلے کے مقابلے میں۔ اور لوگ چاہتے ہیں کہ کتابیں اُن کو گھر بیٹھے مل جائیں۔ ہمارا بھی آن لائن سیٹ اپ ہے، ویب سائٹ وغیرہ، اور یہ جو واٹس ایپ ہے، پورے پاکستان میں رجحان ہے، صرف کراچی کی بات نہیں ہورہی ہے۔ بلکہ کراچی سے زیادہ میرے خیال میں پنجاب میں زیادہ قارئین ہیں۔ ڈٰیمانڈ جو زیادہ آتی ہے وہ پنجاب سے آتی ہے۔

سوال:اسٹوڈنٹس اس سہولت سے استفادہ کرتے ہیں؟
ساجد فضلی: نہیں نہیں، اسٹوڈنٹس تو کاش ہمارے پڑھتے۔ ان لوگوں کی بات ہورہی ہے جو پڑھ چکے ہیں کتابیں وغیرہ، اب سماجی زندگی میں شوق ہے ان کو کتابیں پڑھنے کا۔ ان کے پڑھنے کی عادت ہوتی ہے۔ اسٹوڈنٹس میں اگر یہ کلچر آجائے ہمارے یہاں تو ساری بک شاپ آباد ہو جائیں۔
میں: یہ لوگ کیا اپر مڈل کلاس ہوتے ہیں؟
ساجد فضلی: کلاس ظاہر سی بات ہے ہوتی ہے۔ قوتِ خرید ہر کلاس کے پاس ہوتی ہے۔ لیکن یہ جو با ذوق لوگ ہوتے ہیں وہ ہر کلاس کے ہی ہوتے ہیں۔ تو ہمارے پاس ہر طرح کے لوگ ہی آتے ہیں۔
میں: کراچی کا پبلشنگ کلچر دوسری جگہوں سے کس طرح مختلف ہے؟ْ
ساجد فضلی: کراچی کا پبلشنگ کلچر کم ہے لیکن ٹیلنٹڈ بہت ہے۔ بڑی زبردست کتابیں یہاں کے پبلشرز چھاپتے ہیں۔ لیکن پروڈکشن سست ہے۔ شہری لوگ ہوتے ہیں وہ زیادہ سمجھ دار ہوتے ہیں۔ آگے کے جو علاقے ہیں وہ پیچھے ہیں۔ کراچی ماڈرن شہر ہے، کاسموپولٹن شہر ہے، تو لوگوں کو پتہ ہوتا ہے کہ کیوں چھاپ رہے ہیں تو میں نے دیکھا ہے عموماً کراچی کے اندر پبشلنگ کا رجحان اچھا ہوتا ہے۔
اور یہی وجہ ہوتی ہے کہ جو بھی بڑا وینچر ((venture ہوتا، اس میں باہر والے یعنی پنجاب کے لوگ بھی ہوتے ہیں، وہ اپنی دکانیں بنانے کراچی آتے ہیں۔ گو کہ کراچی میں کتب بینی کا رجحان نہیں ہے لیکن پھر بھی ہماری کتاب چھپتی ہے جو وہ پنجاب جاتی ہے۔ بلوچستان تو نہیں ہے اتنا اہم۔ پنجاب اہم ہے۔ وہاں پروڈکشن زیادہ ہوتی ہے۔ ٹیکس کا اتنا کوئی مسئلہ نہیں۔ یہاں پر آپ کو پتہ ہےکراچی شہر میں زیادہ مسئلہ ہوتا ہے۔ ہر وقت مسائل ہیں۔ جو ٹیکس ادا کر رہا ہے اس کو اور تنگ کیا جاتا ہے۔

سوال: وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اشاعت اور کتب بینی کا رجحان کس طرح تبدیل ہوا ہے؟
ساجد فضلی :ایک نو نہال میگزین تھا، آپ نے نام سنا ہوگا۔ ایک زمانے میں میں نے سنا تھا کہ اس کے ایک شمارے کی ایک لاکھ پچاس کاپیاں نکلتی تھیں۔ ابھی یہ اعداد ۲۸ ہزار ہے اور وہ اچھا میگزین ہے۔ تو آپ بھی دیکھ سکتے ہیں کہ رجحان کس طرف جا رہا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ جی آن لائن میں آگئے، موبائل خلل پیدا کر رہا ہے۔ ہم نے انٹرویوز کیے ہیں لوگوں کے جو باہر سے آئے ہیں اور ہمیں تو یہ لگتا ہے کہ وہاں کتاب بِکنے کا سبب موبائل ہی ہے۔وہاں لوگ پڑھتے ہیں ۔ یہاں اگر آپ پارک میں کتاب لے کر بیٹھے جائیں تو وہ لوگ تعجب سے آپ کو دیکھیں گے کہ بھائی آپ کتاب کیوں پڑھ رہے ہیں؟ دنیا میں ہمارا مقابلہ نہیں ہے اِس میں۔ انڈیا میں بھی ایسا نہیں ہوگا۔ کم ہے۔ وہاں بھی کتب بینی کا اچھا نہیں لیکن پھر بھی کچھ ہے۔دیکھیں ایک پورا نظام ہوتا ہے۔ اگر اس کام میں ایک یونٹ حکومتِ پاکستان بن جائے ایک یونٹ کنزیومر بن جائے تویہ کام بڑھ جائے گا۔
ایک ایونٹ ہوتا ہے ہمارا کراچی بُک فیئر۔ اُس میں جانا ایک اسٹیٹس سمبل (status symbol) ہوگیا ہے۔ تین یا چار کروڑ کی کمائی ہوتی ہے اُس میں۔ کیونکہ وہاں لوگ آتے ہیں کہ وہ سمبولک ہوگیا ہے کہ یار ہمیں ایکسپو جانا ہے۔
ہماری اتنی بڑی دکان ہے۔ میرے خیال سے اردو کی سب سے بڑی دکان ہماری ہی ہوگی جو جنرل کتابوں کو ڈیل کر رہی ہوگی۔
میں دیکھتا ہوں کہ اگر کوئی کتاب چھپ رہی ہے اور اس سے پوچھا جائے کہ کتاب کیوں چھپ رہی ہے تو کوئی جواب نہیں ہوتا کوئی ٹارگیٹ مارکیٹ نہیں ہوتی۔ اس سمجھدای کی کمی کے باعث ہمیں کتابیں بیچنے میں مسئلہ ہوتا ہے۔

سید جلیل اشرف۔ (دار الاشاعت)
سوال: آپ اس دکان کے مالک ہیں؟
سید جلیل اشرف: نہیں مالک نہیں ہوں۔ مالک تو دوسرے ہیں۔ میں ان کا رشتہ دار ہوں۔
سوال: کتنے عرصے سے دار الاشاعت چل رہا ہے اردو بازار میں؟
سید جلیل اشرف: تقریباً پچیس سال تو ہوگئے۔
سوال: عموماً کس قسم کے لوگ یہاں خریداری کرتے ہیں۔
سید جلیل اشرف: ہمارے یہاں تو دینی کتابیں ہوتی ہیں۔ پبلشرز بھی ہم دینی کتابوں کے ہیں۔ تو ہمارے پاس جو طبقہ آتا ہے وہ دینی طبقہ ہی آتا ہے۔ طلبا آتے ہیں۔ اساتذہ آتے ہیں۔ علمائے کرام آتے ہیں۔
سوال: اساتذہ زیادہ آتے ہیں؟
سید جلیل اشرف: اساتذہ اور طلبا زیادہ آتے ہیں۔
سوال: آپ نے اِس عرصے میں لوگوں کی خریداری میں کوئی تبدیلی محسوس کی ہے؟
سید جلیل اشرف: کہ تبدیلی تو بہت آئی ہے۔ جب سے یہ میڈیا اور انٹرنیٹ کا دور آیا ہے تو پہلے مطالعے کا رجحان بہت زیادہ تھا۔ مطالعے کا رجحان پہلے سو فیصد تھا تو اب چالیس فیصد ہوگیا ہے۔
سوال: تو پچاس سال پہلے زیادہ سیلز تھیں؟
سید جلیل اشرف: جی اس سے دگنی تھیں۔ پڑھنے کا رجحان تھا اور دوسری بات یہ ہے کہ لوگ ادب آداب کے حامل تھے۔ لوگ مطالعہ کرتے تھے۔ اس سے وہ سیکھتے تھے۔ اب پتہ ہے کہ تعلیم رہ گئی ہے، تربیت نہیں ہے۔ کلچر میں بہت زیادہ تبدیلی آئی ہے کہ صرف تعلیم ہورہی ہے تربیت نہیں ہورہی۔ ہمارے پاس آتے ہیں، ہم لوگ تو ڈیل نگ کرتے ہیں ہم کسٹمر کو بھی ڈیل کرتے ہیں۔ نہایت پڑھے لکھے کسٹمرز کو بھی ڈیل کرتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ بس انھوں نے ڈگری حاصل کی ہے صرف۔ جیسے ایک رکھ رکھاؤ ہوتا ہے، پڑھے لکھوں اور بات چیت کا طریقہ ہوتا ہے۔ بعض کسٹمر تو ہمیں ایسے نظر آئے جو گالم گلوچ بھی کرتے ہیں۔
سوال: آپ نے اردو بازار کی توسیع ہوتے ہوئے دیکھی ہے؟
:سید جلیل اشرف: ہاں دیکھی ہے۔ پہلے اردو بازار صرف یہ مرکزی اردو بازار تھا۔ اب یہ چار پانچ گلیاں آگے بڑھ گئی ہیں اور بہت آگے تک چلا گیا ہے۔ اس کی بہت توسیع ہوگئی ہے۔
سوال: توسیع ابھی حالیہ دور میں ہورہی ہے یا پہلے ہوئی تھی؟
سید جلیل اشرف: اہم حصہ اس لیے ہے کیونکہ پورے کراچی پورے پاکستان کو یہاں سے کتابیں تقسیم ہوتی ہیں۔ پورے پاکستان میں کتابیں سپلائی ہوتی ہیں۔ اسکولوں میں، کالجوں میں اور تمام کتابیں یہیں سے جاتی ہیں۔

سوال: اردو بازار میں ایک پائریسی کلچر بھی ہے اور آپ کے کاروبار پر اس کا کوئی اثر ہوتا ہے؟
سید جلیل اشرف: ہاں ہوتا ہے۔ لازمی ہوتا ہے۔ پائریسی تو دیکھیں ہر جگہ ہے۔ چاہے وہ اسکول کی کتابیں ہوں چاہے وہ دینی کتابیں ہوں۔ پائریسی تو ہرجگہ ہی ہے۔ تو اس سے اثرپڑتا ہے۔ لازمی اثر پڑتا ہے۔ہم تو پائریسی کی کتابیں بیچتے نہیں ہیں۔ نہ رکھتے ہیں اپنے پاس نہ بیچتے ہیں۔ یہ تو اصل پبلشر کو نقصان پہنچانے والی بات ہے۔ اور جو دو نمبر کام کر رہے ہیں ان کا ساتھ دینے والی بات ہے۔
میں: کے ایم سی نے جو اینٹی انکروچمنٹ کا سلسلہ شروع کیا ہے اس میں آپ کو کوئی پریشانی کا سامنا ہوا؟
سید جلیل اشرف: یہاں تو کوئی پریشانی ایسی خاص نہیں ہے۔ زیادہ تر لوگ فُٹ پاتھ میں لے کر بیٹھے ہوئے ہیں، دیواریں گھیری ہوئی ہیں، سامان رکھا ہوا ہے۔ ایسا سب جگہ ہی ہے۔ اردو بازار میں بھی ہے۔
سوال: ان پر زیادہ اثر پڑتا ہے اس کا؟
سید جلیل اشرف: جی
سوال: تو اردو بازار میں صرف چند دکانیں ہیں جن پر اثر پڑا ہے؟

سید جلیل اشرف: دیکھیں جو لوگ دکانوں کے علاوہ ٹھیلے لگا کے بیٹھے ہیں نا۔ ان کو انھوں نے یہاں سے اٹھایا نہیں تھا۔ ہر دفعہ اٹھاتے ہیں۔ ایک دو مہینے کے لیے چلے جاتے ہیں۔ پھر دوبارہ آجاتے ہیں۔ جو اثر پڑتا ہے تھوڑا بہت جنھوں نے تجاوزات کی ہوئی ہیں ان پر اثر پڑتا ہے۔

عثمان غنی طاہر
طاہر سنز
ہمارے پاس نصابی کتب کے علاوہ جنرل کتابیں بھی ہیں۔ اردو ادب اور اسلامی موضوعات پر کتابیں وغیرہ بھی ہیں۔
میں پیپر منگواتا ہوں تو اس میں دسیوں قسم کے ٹیکس ہیں۔ سیلز ٹیکس ہے، کسٹم ڈیوٹی ، انکم ٹیکس۔ کتاب چھپنے کا خرچہ پچاس روپے آنا چاہیے، یہاں پہ پیپر لے کے پرنٹ کرنے میں ۱۵۰ روپے ہوجاتا ہے۔ اور وہ کتاب باہر سے پرنٹ کریں تو چالیس پچاس روپے فی صفحہ میں پرنٹ ہوجاتی ہے۔
پاکستان کے باہر سے کریں تو کم سے کم دو ہزار، پچیس ہزار یا دس ہزار روپے لاگت آتی ہے۔ وہاں ہزار دو ہزار کی تعداد میں تو پرنٹ نہیں کرتے نہ باہر والے۔ اب آپ دیکھ لیں ہمارے مقابلے میں انڈیا بہت آگے ہے۔ وہاں پبلشر کو پیپر کی خرید پر گورنمنٹ سبسڈی دیتی ہے۔ یہاں نہیں ہے۔ لوکل کتابیں بھی ہیں لیکن کتابیں بہت سی باہر سے پرنٹ ہورہی ہے۔ سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ بھی کتابیں چائنہ یا ملیشیا سے چھپوا رہا ہے۔
آن لائن سیٹ اپ ہمارا نہیں ہے لیکن لائبریری سپلائی ہے۔ ہم گورنمنٹ کالج اور بہت سے نجی کالجوں کو کتابیں فراہم کرتے ہیں۔

IMG 20240724 WA0003 1
IMG 20240724 WA0002 1
IMG 20240724 WA0001 1

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *