سوشل میڈیا اکاؤنٹس

محمود شام

محمود شام

پاکستان کے ممتاز صحافی، شاعر، ادیب اور تجزیہ کار جناب محمود شام 5 فروری 1940

 گلی کوچے نوجوانوں سے خالی نہ ہونے دیں

 گلی کوچے نوجوانوں سے خالی نہ ہونے دیں
اللہ تعالیٰ نے ہمیں 60 فی صد نوجوان آبادی سے نوازا ہے۔
مگر ہمارے حکمران طبقوں۔ با اثر خاندانوں۔ اداروں کے عہدیداروں۔ بیورو کریٹوں نے ملک میں ایسا سسٹم ہی قائم نہیں ہونے دیا۔ جس سے ہمارے ان نوجوانوں کو یقین ہوتا کہ ان کو صلاحیت کی بنا پر یہاں روزگار میسر آجائے گا۔ اور ساتھ ساتھ یہ بھروسہ بھی نہیں ہے کہ ڈاکوﺅں اور چوروں سے محفوظ رہیں گے۔ گھر سے باہر نکلتے ہی یہ خوف لاحق ہوتا ہے کہ نہ جانے کس گلی کے موڑ پر جرائم پیشہ نوجوان راستہ روکیں، اس کا سب کچھ چھین لیں۔ اور مزاحمت پر اسے گولی بھی ماردیں۔ کراچی میں ایسا روز ہورہا ہے۔
ہماری یہ نوجوان آبادی دنیا کے کسی ترقی یافتہ ملک سے بھی کم صلاحیتیں نہیں رکھتی ہے۔ انٹرنیٹ نے گھر بیٹھے بھی اپنی مہارت۔ علم۔ اور اہلیت دکھانے کے مواقع فراہم کردیے ہیں۔ ہمارے بیٹے بیٹیاں پوتے پوتیاں نواسے نواسیاں برقی رابطوں کے ذریعے اپنا لوہا منوارہے ہیں۔ اعزازات حاصل کررہے ہےں۔ ڈجیٹل دنیا میں اپنا نام پیدا کررہے ہیں۔ مگر اکیسویں صدی میں ہمارے حکمران بیسویں صدی کے عدم تحفظ کے احساسات رکھتے ہیں۔ وہ اپنا جبر واستبداد چھپانے کے لیے موبائل فون سروس بند کردیتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے بہت سے دروازے مقفل کردیتے ہیں۔ بہت سے نوجوان تو اس برقی رابطے کے ذریعے ہی اپنے گھروں کے چولہے روشن رکھ رہے ہوتے ہیں۔ ڈجیٹل دنیا بہت ترقی کرچکی ہے۔ شر پسندی سے۔ سیاسی محاذ آرائی سے بچنے کے لےے بہت سے راستے ایسے ہیں کہ پوری انٹرنیٹ سروس بند کیے بغیر بھی ملکی سلامتی کو درپیش برقی کوششوں کی منسوخی کی جاسکتی ہے۔
ہمارے نوجوان بہت روشن ذہن رکھتے ہیں۔ جدید دنیا میں وہ اپنے خوابوں کے ذریعے تبدیلی لانا چاہتے ہیں۔ انہیں جب بھی موقع ملتا ہے تو وہ دوسرے ملکوں میں سازگار اور دوست ماحول پاکر ایسی ایسی روایات انسانیت کی خدمت کے لےے قائم کر چکے ہیں ۔ جدید علوم میںنئی کائناتیں تلاش کرلیتے ہیں۔ لیکن اپنے وطن میں انہیں آگے بڑھنے کے مواقع نہیں ملتے ہیں۔ وہ صرف میرٹ کی بنیاد پر اپنی اہلیت کے جواہر نہیں دکھاسکتے۔ ان کا راستہ قانون سے بالاتر۔ سردار۔ جاگیردار۔ با اثر خاندان۔حکمران حلقے روک لیتے ہیں۔مکمل ہزاروں اسامیاں فروخت ہوتی ہےں۔اساتذہ کی ملازمتیں بکتی ہیں۔اعلیٰ کلیدی عہدے قابلیت کی بنا پر نہیں بلکہ سفارش اور دولت پر حاصل ہوتے ہےں۔ کارپوریشنوں کی سربراہی۔ اداروں کی قیادت متعلقہ عہدوں کی ضروریات پر نہیں بلکہ سیاسی ضروریات پر عطا کی جاتی ہے۔
گزشتہ ایک سال میں تو ان حوالوں سے بے یقینی اور زیادہ بڑھی ہے۔ کسی ایک دن بھی یہ احساس نہیں ہوا کہ آج قانون کی حکمرانی ہے۔ ملک معاشی طورپر تنزل کی طرف جارہا ہے۔ روپے کی بے قدری ہورہی ہے۔ صورت حال بہتر ہونے کی بالکل کوئی امید نہیں ہے۔
75 سال میں ہم ایسا سسٹم قائم نہیں کرسکے۔ جس میں ہر پاکستانی کو محفوظ ہونے اور اپنی اہلیت کی بنیاد پر آگے بڑھنے کا حوصلہ ہوسکے۔
ہمارے نوجوان یہ بھی دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو ہر قدرتی وسیلہ بھی عطا کیا ہے۔ سمندر۔ قدرتی ساحل۔ دریا۔ سر سبز پہاڑ۔ قیمتی معدنیات۔ سونا۔ تانبا۔ گیس۔ تیل۔ مگر ہمارے ارباب اختیار ملک کے اندر ان عظےم خزانوں کو نہیں دیکھتے۔ وہ واشنگٹن میں آئی ایم ایف۔ عالمی بینک کی طرف دیکھتے ہیں۔ دوست امیر ممالک سے مدد اور قرضے میں اپنی بقا خیال کرتے ہیں۔
ایسے میں جب ہمارے بیٹے بیٹیاں۔ پوتے پوتیاں۔ نواسے نواسیاں کسی ایسے ملک کے ویزے کی قطار میں لگتے ہیں ۔ جہاں ایک سسٹم ہے۔ جہاں ہر فرد کے لیے اپنی محنت اور ذہانت کے بل پر اپنا حق ملنے کا یقین ہے۔ تو وہ اپنے بوڑھے ماں باپ کو اکیلے چھوڑ کر جانے پر مجبورہوجاتے ہیں۔
ایک ماں جویریہ یاسمین نے اپنے کرب کی داستان بیان کی ہے۔ یہ صرف ایک ماں کی نہیں لاکھوں پاکستانی ماﺅں کا المیہ ہے۔
ہمارے قائدین کے نزدیک یہ المناک صورت حال زیادہ اہمیت نہیں رکھتی ۔ ان کے اقدامات نوجوانوں کے خواب چھیننے کی پالیسیاں ان ماﺅں کو اور زیادہ خوف زدہ کررہی ہیں۔ انتقام کی آگ پھیلتی جارہی ہے۔ نوجوان بلوچستان کا ہو۔ سندھ کا۔ پنجاب کا۔ کے پی کے کا۔ گلگت بلتستان۔ آزاد جموں و کشمیر کا وہ ترک وطن کی تیاریوں میں ہے۔
اہل نظر۔ اہل قلم۔ اہل فکر۔ ارباب تعلیم۔ کچھ خیال کریں۔ سوچیں۔ جوان تازہ خون۔ روشن ذہنوں سے یہ گلی کوچے خالی نہ ہونے دیں۔

مئی 2023

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *