لگتا ہے کہ واہگہ سے گوادر تک ہم مجبوری میں زندہ ہیں۔ کسی مقصد کیلئے نہیں۔ بہ قول احمد ریاض
کوئی بھی چیز یہاں حاصل حیات نہیں
میں جی رہا ہوں مگر کوئی خاص بات نہیں
قبائلی صدیوں میں سوچ یہی تھی کہ لشکر کشی سے ہی مسائل حل ہوتے ہیں۔ مغرب نے برسوں برس تحقیق کی۔ یہ تو مانا کہ کسی مقصد کے حصول کیلئے انسانوں کا ایک آواز ہونا ناگزیر ہے لیکن اس کیلئےجتھے بندی نہیں۔ بلکہ اپنی امنگوں کے اظہار کیلئے پرچی صندوق میں ڈالنے کا پُر امن اور منظّم راستہ اختیار کیا جائے۔ اکثریت کی رائے کا احترام کیا جائے۔ جہاں جہاں یہ روش اختیار کی گئی۔ وہاں زندگی کی قدر کی جاتی ہے۔ انسان کو اپنی تمام قانون سازی کا محور خیال کیا جاتا ہے۔ پارلیمانی نظام میں تو یہ گنجائش بھی رکھی گئی کہ جب مسائل قانون سازی سے حل نہ ہورہے ہوں۔ منتخب حکومت اچھی طرح حکمرانی نہ کرسکے تو پارلیمنٹ تحلیل کر دی جائے۔ نئے انتخابات کروا دیئے جائیں۔ برطانیہ میں حال ہی میں ایسا ہوا ہے۔ دوسری پارلیمانی جمہوریتوں میں یہی ہوتا ہے۔ نئے الیکشن سے کوئی خوف نہیں کھاتا ہے۔ نہ ہی بر طرف حکومت کے وزیرا عظم، وزراء کے خلاف مقدمات گھڑے جاتے ہیں۔ کسی کو شک نہیں ہوتا کہ کوئی جج قانون کی بجائے کسی دبائو میں فیصلے کرے گا۔ نہ کسی جج کو توسیع کا لالچ دیا جاتا ہے۔
وہاں یہ بھی نہیں سوچا جاتا کہ کوئی مقبول لیڈر جھوٹے مقدمات میں طویل عرصہ جیل میں پڑا رہے گا۔ جھوٹے مقدمے میں ہی سزائے موت مل جائے گی۔ عدلیہ، فوجی سربراہ، سیاسی مخالفین مل کر طے کر لیں گے کہ اس کو جسمانی طور پر الگ کرنے سے ہی ان کے اقتدار کو طوالت مل سکتی ہے۔ پھر 45 سال بعد عدلیہ اس فیصلے کو غلط قرار دے گی۔ اور اس پر عدلیہ اپنے طرز انصاف پر فخر بھی کرے گی۔ اور متاثرہ پارٹی بھی انصاف کے ایسے حصول پر بغلیں بجائے گی۔ یہ دلیلیں بھی سنی جائیں گی کہ اگر اس کے حامی بڑی تعداد میں نکلتے تو کسی میں ہمت نہیں تھی کہ پھانسی دی جا سکتی۔ اب 45 سال بعد بھی ایک لیڈر کیلئے یہی بحث چل رہی ہے۔ 22 اگست کو جلسہ ملتوی کرنے پر اس پارٹی کی موجودہ لیڈر شپ کو بزدل اور اسٹیبلشمنٹ کا ایجنٹ قرار دیا جا رہا ہے اور یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ بڑے جلسوں سے ہی لیڈر کی رہائی ہو سکتی ہے۔
سوشل میڈیا پر، ڈرائنگ روموں میں چوپالوں میں اس بحث سے ہمارے معاشرے کے بارے میں تاثر ابھرتا ہے کہ یہاں جنگل کا قانون ہے۔ دلیل نہیں چلتی۔ یہاں جتھے لے کر نکلنا ضروری ہے۔ ہم اکیسویں صدی میں نہیں اٹھارویں صدی میں رہتے ہیں۔ جب اسمبلیاں تھیں، نہ یونیورسٹیاں، نہ عدالتی نظام کوئی ایک اپنا لشکر بناتا تھا۔ اپنے مخالف پر چڑھ دوڑتا تھا۔ قاضی بھی دیکھتا تھا کہ کس کا جتھا زیادہ تگڑا ہے۔ اس کے حق میں فیصلہ دے دیتا تھا۔ آج کل جاگیرداری اور سرداری میں یہی ہو رہا ہے۔انٹرنیٹ کی آغوش میں پلنے، ہاتھ میں مائوس یا ریموٹ لے کر جنم لینے، اطلاعات کی غذائوں میں پرورش پانے والی نسل قبائلی معاشرت سے بیزار ہے۔ وہ اس لیے مغربی ملکوں کے سفارت خانوں سے ویزے لینے کیلئے قطار میں لگی رہتی ہے۔ میں بھی بچوں والا ہوں۔ آپ بھی۔ ہم آپ مشکلات میں زندگی گزارتے ہوئے یہی چاہتے ہیں کہ ہم نے جو جنگل، جھاڑیاں، جہالتیں دیکھی ہیں۔ ستم برداشت کیے ہیں، وہ ہمارے بچوں، ان کے بچوں کو نہ دیکھنا پڑیں مگر ہماری یہ خواہش خاک ہو رہی ہے۔ یہاں بقا، ناجائز آمدنی اور کسی جتھے کا حصہ بننے میں ہے۔
آج اتوار ہے۔ اپنے بیٹوں بیٹیوں پوتوں پوتیوں نواسوں نواسیوں۔ بہوئوں دامادوں کے ساتھ بیٹھنے ان سے تبادلۂ خیال کا دن۔ آج وہ ضرور پوچھیں گے کہ عمران خان نے جلسہ ملتوی کیوں کیا۔ یہ پیغام اعظم سواتی کے ذریعے ہی کیوں بھیجا گیا۔ دوسرا سوال بچوں کا کراچی کے کارساز المیے سے متعلق ہو گا کہ ایک رئیس زادی نے اپنی مہنگی گاڑی سے باپ بیٹی کو کیوں کچل دیا۔ کیا اسے سزا ملے گی۔ آپ جو کچھ سوشل میڈیا پر دیکھ رہے ہیں۔ طبقاتی تضادات، جذباتی نعرے بازی۔ آپ بھی اس کی روشنی میں انہیں کچھ بتائیں گے۔ جس سے وہ مطمئن نہیں ہوں گے۔
واہگہ سے گوادر تک کوئی مطمئن نہیں ہے۔ کیونکہ جھوٹ بولا جارہا ہے۔ سچ چھپایا جا رہا ہے۔ نئی نسل دلیل مانتی ہے۔ منطق اور دانش کی بنیاد پر معاملات کو تولتی ہے۔ سچ چھپانے کی عادت ریاست نے بھی ڈالی ہے۔ سیاسی قائدین نے، علمائے کرام نے، ہم اخباری بوڑھوں نے، گریڈ کے لالچ میں مبتلا بیورو کریٹس نے بھی۔کسی ماہر نفسیات سے پوچھ لیں۔ پاکستان میں کوئی بھی ذہنی طور پر تندرست نہیں ہے۔ تحریریں، تقریریں، تصویریں دیکھ لیں، اشتہارات، ڈرامے ملاحظہ کرلیں، اشعار سن لیں، فیس بک پر پوسٹیں پڑھ لیں۔
کوئی محسن ہو کہ چارہ گر ہو
صرف آتا ہے تمسخر ہم کو
سچ جانیے کہ غریب ہوں یا امیر، بس مجبوراً جی رہے ہیں۔ کوئی منزل نہ امنگ نہ خواب، محلے داری نہ چارہ گری، جن کی ذمہ داری ہے لوگوں کی خدمت، وہ اس کا معاوضہ مانگتے ہیں۔ جبلت تصادم۔ Pugnacity زوروں پر ہے۔ فوراً ہاتھا پائی۔ عیب جوئی۔ فیصلے طاقت کے ذریعے۔ دبائو لشکر کے ذریعے دلیل ادراک منطق سے نہیں۔ جواب در جواب۔ ہمارا معاشرہ صحت مند نہیں ہے۔ نیند اڑی ہوئی ہے۔ غریب کی بھی امیر کی بھی۔ بے خوابی کا سبب ایک ہی ہے۔ کسی سسٹم کا نہ ہونا، لیکن ان دونوں کو آپس میں لڑوایا جاتا ہے۔ خواب آوری کیلئے غریب کسی سستے نشے کا سہارا لیتا ہے۔ امیر اپنے بنگلوں میں، کلبوں میں اسی بے خبری پر کروڑوں روپے خرچ کرتے ہیں۔ آرزو دنیا و مافیہا سے وقتی طور پر بے خبری۔ نتیجہ
خبر تحیر عشق سن، نہ جنوں رہا نہ پری رہی
نہ تو تو رہا ،نہ میںمیں رہا جو رہی سو بے خبری رہی
بے خبری سے ایک طبقہ تو اضطراب خریدتا ہے۔ مگر بہت سے گروہ۔ اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ دوسری قومیں بھی اس کیفیت سے گزری ہیں۔ بادشاہوں، حکمرانوں، فوجوں نے نہیں۔ ان قوموں کو یونیورسٹیوں کے اساتذہ سائنسدانوں، وکلا نے تحقیق سے راہ نجات دلائی۔ مستقبل کا لائحہ عمل مرتب کیا۔ قوم کو سیدھا راستہ دکھایا جس میں خوف سے آزادی ملتی ہے۔ ہر شہری رات آرام سے سوتا ہے۔ جلسے۔ لشکر کشی۔ دفعہ 144۔ پولیس گردی راہ نجات نہیں ہے۔ زندگی کا سکون اور اعتماد ایک سسٹم کے قیام میں ہے۔ یہ سسٹم یونیورسٹیاں دے سکتی ہیں۔ زندگی مجبوراً نہیں، مقاصد کے تحت گزاریئے۔ قیمتی وقت ضائع ہو رہا ہے۔ یونیورسٹیاں قوم کو مایوسی سے نکالیں۔
- اگلی اننگز عوام کی ہے - October 31, 2024
- بچوں کے ادب کی الف لیلہ کی آمد - October 27, 2024
- امریکی انتخابات - October 25, 2024
معاشرے کی جو برائیاں بیان کی گئیں ان کے خاتمے یا اصلاح کی سب سے زیادہ ذمہ داری اہل قلم اور اہل صحافت پر عائد ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے یہی دونوں طبقے خود ان برائیوں میں مبتلا ہیں۔ جھوٹ بولنے اور سچ کو چھپانے کا کام یہ لوگ خوب کررہے ہیں۔محمودشام۔صاحب سے بہت معذرت کے ساتھ۔