اور جو شخص اپنے چہرے کو اللہ کی طرف متوجہ کر دے اور ہو بھی وہ نیکو کار یقیناً اس نے مضبوط کڑا تھام لیا، تمام کاموں کا انجام اللہ کی ہی طرف ہے (القرآن سورۃلقمان آیت22)
شعبان کا مہینہ ہے۔ چند روز بعد مبارک ساعتیں شروع ہونے والی ہیں۔ ان مقدس گھڑیوں میں مجھے اچانک خیال آ رہا ہے کہ ہم کس خطے میں رہتے ہیں۔ یہ کئی صدیوں سے صداقت، امانت، قیادت اور سیادت سے مالا مال رہا ہے۔ اس میں کئی صدیوں سے ایسے عظیم بندے بار بار اترتے رہے ہیں جنہوں نے اپنے چہرے اللہ کی طرف متوجہ کر لیے۔ اور پھراس رسی کو مضبوطی سے تھام لیا جو مانگا اس رحیم و کریم سے مانگا اور وہ کچھ پایاجو مانگا بھی نہیں تھا۔
یہی ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم لمحہ موجود کے دام ہم رنگ زمین میں گرفتار رہتے ہیں اسی لئے اقدارو افکار سے معمور ادراک اور تدبر سے مزین ماضی سے بیگانہ رہتے ہیں، امکانات کی وسعتوں سے لاتعلق۔ یہ عظیم وادی سندھ ہر لحاظ سے بہت متنوع بہت رنگا رنگ فرحت بخش، راحت نواز ہے۔ واہگہ سے گوادر تک فضائوں میں سفر طے کیجئے شاہرائوں سے یا دریا سمندر سے، ایک کہکشاں ہے۔ جنت ارضی ہے۔ یہاں وہ ہستیاں متحرک فعال اور ہر دم عبد اور معبود کے درمیان راستے اور منزل کے دوران رشتہ مضبوط کرتی رہی ہیں۔ آج ہم جن انہونیوں کا سامنا کر رہے ہیں ہمارے نصیب میں اس لئے لکھی گئی ہیں کہ ہمارے دلوں میں جو ہوک اور کوک گونجتی ہے ہم نے اس پر دھیان دینے کے بجائے جو ہمیں نصاب میں پڑھایا گیا حکمرانوں نے ہم پرجو سیلبس مسلط کیا۔ ہم نے اسی کی پیروی کی۔
منطق بھی سر گھٹنوں میں دیئے ہوئے ہے
تاریخ بھی سخت اضطراب میں ہے
ہوائیں پریشان ہیں کہ اس وادی سندھ کے لوگوں کو نسل در نسل اولیاء کرام اور صوفیا عظام کی دل میں اترتی شاعری میسر آتی رہی جس کی ہر نوجوان نسل کی یادوں میں بابا فرید کا کلام گونجتا ہے۔ جس کے ہر دل میں سلطان باہو کی ہو تلا طم پیدا کرتی ہے جس کے خود دار بزرگوں کے ذہن میں بلھے شاہ کی کافیاں رنگ جماتی ہیں۔ جس کی مائوں بہنوں بیٹیوں کے کانوں میں میاں محمد بخش کی سیف الملوک موجزن ہے۔ جہاں خواجہ فرید کی کوک سے دشت بولنے لگتے ہیں۔ جہاں رحمان بابا کا عشق اعصاب کوحر کت میں لاتا ہے جہاں امیر حمزہ شنواری کا کلام دلوں میں روانی لے آتا ہے۔ جہاں شاہ لطیف کے سرُ آتی جاتی نسلوں کو روشنی سے منور کرتے ہیں جہاں شاہ عنایت ناداری کو ہمت اور حوصلہ عنایت کرتے ہیں۔ جہاں سچل سرمست فقر میں فخر عطا کرتے ہیں۔ جہاں مست تو کلی مفلسوں اور مخلصوں کا ولولہ تازہ کردیتے ہیں، وہاں مایوسی کیوں، غیر کی اطاعت کیوں۔ہم پنجاب کے میدانوں میں ہوں، سندھ کے ریگزاروں میں، خیبر پختون خوا کے سرسبز پہاڑوں میں، بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑوں میں، حسین وادیوں میں آزاد کشمیر کی ہری بھری بستیوں میں، گلگت بلتستان کے برف زاروں میں، ہمارے ذہنوں میں ان صوفیائے کرام کے کلام سے خود داری کے شعلے روشن رہتے ہیں، یہ کافیاں سرُ روایتیں، قصے، کہانیاں ہمیں درباروں سے بیگانہ فوجوں سے بے خوف کرتی ہیں، صوفیا ہم ناداروں، غریبوں، پامالوں، بے نوائوں کو غیر ملکی حملہ آوروں کے سامنے بھی مزاحمت کی طاقت دیتے ہیں۔
ہم کتنے خوش نصیب ہیں کہ ہمیں اس پروردگار حقیقی نے کبھی تنہا نہیں چھوڑا، کسی نے غور کیا ہے کہ ہم غریبی میں نام کیوں پیدا کرتے ہیں ہمارا مفکر ہمارے لئے ایک علیحدہ وطن کا خواب دیکھنے والا سائنس اور دین کے امتزاج پر زور دینے والا اقبال ہمیں کیوں کہتا ہے کہ امیری نہیں ہمارا طریق فقیری ہے۔
اس کے باوجود ہم گزشتہ کئی دہائیوں سے امراء کے شکنجے میں کیوں ہیں۔ نام نہاد جمہوریت ہو، ملی جلی آمریت ہو، سرمایہ اور شمشیر کی رفاقت ہو واشنگٹن کی عنایت ہو، بیجنگ کی قرابت ہو، دہلی سے خوف زدگی ہو، عرب بادشاہوں کی نیابت ہو وہی چند چہرے وہی خاندان کیوں پیش پیش رہتے ہیں۔ کبھی ہمارے تجزیہ کاروں نے غور کیا کہ ہماری عادتیں، جہالتیں ،رجحانات، ارادے، جینے کے انداز تو ان صوفیائے کرام نے ترتیب دیئے ہیں واہگہ سے گوادر تک کوئی زبان بولنے والا ہو کسی قبیلے سے علاقہ رکھتا ہو کسی سلسلے سے مرید ہو اسکی گھٹی میں صوفیوں کی جدوجہد ہے۔ تجزیہ کار کیوں نہیں بتاتے کہ ہمارے حقیقی صوفیا کرام ہوس زر میں کبھی مبتلا نہیں ہوئے۔ ہوا تندو تیز رہی ہے صاحبان اختیار غیروں کے سامنے سربہ سجدہ رہے ہیں کوئی بیس ہزار وی ہو اور کوئی اٹھارہ ہزار وی کسی کو دشت سونپ دیئے گئے۔ کسی کو جاگیریں کسی کو مربعے۔ ان صوفیا پر زمین تنگ کی گئی، ان سے سانسیں چھینی گئیں، انہیں تنگ و تاریک کوٹھریوں میں محبوس کیا گیا۔
لیکن آج نغمے، ترانے اکائیاں، سرُ انہی کے گونجتے ہیں۔ کوئی بادشاہوں، شہنشاہوں، سپہ سالاروں، تاجروں، سودا گروں، ساہو کاروں، گورنروں، درباری، نو رتنوں کو یاد نہیں کرتا۔ شاہ لطیف فرماتے ہیں۔
ہنس اور مورتو کہاں ہیں آج
جھوٹے کووںکا ہے وطن میں راج
آج اتوار ہے بیٹوں، بیٹیوں، پوتے، پوتیوں، نواسوں، نواسیوں، بہووں و دامادوں سے دوپہر کے کھانے پر تبادلہ خیال کا دن۔ آج صوفیا کرام کے حوالے سے نئی نسل کو یقین دلانا جس سر زمین میں صوفیانہ کلام گونجتا ہے۔ وہاں ہمیشہ جھوٹے کووں کا راج نہیں رہ سکتا۔ یہاں کے لوگ کسی صوبے میں ہوں وہ مزاحمت کی سرشت رکھتے ہیں۔ واہگہ سے گوادر تک صوفیا کے کلام سے کالم کشید کرنا چاہتا ہوں کوئٹہ سے آغا گل کا ممنون ہوں کہ انہوں نے شاہ محمد مری کی مست توکلی اور ڈاکٹر انعام الحق جاوید نے میری گزارش پر پاکستانی زبانوں کے صوفی شاعر سے نوازا۔ میں پھر ان صوفیا کے فکر سے محبت اور مزاحمت کشید کرونگا۔ ہم ایک میخانہ تصوف کھولیں گے اس میں سے وہ سرور تلاش کرینگے جو اس منزل تک لے کر جائیگا جس کا تعین ان سب صوفیا نے کیا تھا۔
- خطہ روشن خیال ہورہا ہے - February 20, 2025
- ہنس اور مور تو کہاں ہیں آج - February 16, 2025
- حقیقی آزادی۔ اقتصادی آزادی - February 13, 2025