سوشل میڈیا اکاؤنٹس

محمود شام

محمود شام

پاکستان کے ممتاز صحافی، شاعر، ادیب اور تجزیہ کار جناب محمود شام 5 فروری 1940

یو ٹیوب والے ڈالرز کیوں لٹارہے ہیں؟

”براہِ مہربانی میرے یو ٹیوب چینل کو سبسکرائب کیجئے۔“

آپ کو اپنے فیس بک کھاتے میں واٹس ایپ گروپ پر یہ التجائیں موصول ہوتی ہیں۔ آپ ازراہِ کرم اس سخاوت سے گزر بھی جاتے ہیں۔

دوسرے ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی سوشل میڈیا کا استعمال بڑھتا جارہا ہے۔ کیونکہ اس میں زیادہ سرمائے کی ضرورت ہے۔ نہ عقل کی۔ فرق یہ ہے کہ دوسرے ملکوں میں قوم پرستی عروج پر ہے۔ قومی مفادات کا تعین ہوچکا ہے۔ ان ملکوں کے شہریوں کو اپنی حدود و قیود کا شعور ہے۔ اس لیے ہمارے سماج کی طرح وہاں لسانی۔ فرقہ وارانہ۔ نسلی۔ علاقائی۔ صوبائی۔ قبائلی بنیادوں پر آبادی بٹی ہوئی نہیں ہے۔ نہ ہی ایک دوسرے کو وطن دشمن۔ غدار کافر کہنے کا رواج ہے۔ ہمارے ہاں سوشل میڈیا پہلے سے موجود ہر قسم کے تعصبات کو وڈیوز۔ آڈیوز۔ تصاویر۔ اقوال۔ تحریروں۔ مضامین۔ تجزیوں کے ذریعے مزید ہوا دے رہا ہے۔ اور جب اس پر گھر بیٹھے ڈالرز بھی موصول ہونے لگیں تو اور کیا چاہئے۔ 75 سال میں ہمارے حکمرانوں۔ قائدین اور میڈیا نے ہم میں راتوں رات کروڑ پتی بننے کے شوق کی ہی کاشت کی ہے۔ پیسہ جائز طریقے سے آئے یا نا جائز سے ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ اور جب چھپر پھاڑ کر آرہا ہو تو ہماری خوشی کی کوئی حد نہیں ہوتی۔

مغرب نے اور خاص طور پر امریکہ نے اس ”ہوائی آمدنی“ کا جو کلچر متعارف کروایا ہے۔ وہ ہم جیسے غریب۔ اقتصادی طور پر بہت کمزور اور نوجوانوں کی اکثریت والے ملک میں بہت مقبول ہوتا ہے۔ یہاں پہلے بھی نوٹوں کو دوگنا کرنے والے ٹھگ بہت پسند کیے جاتے رہے ہیں۔ کبھی ایسی فنانس اسکیمیں آئیں۔ کبھی زمینوں کی خرید و فروخت اب یہ یوٹیوب چینل۔ اعداد و شُمار بتارہے ہیں کہ انٹرنیٹ کا استعمال کرنے والے ہمارے ہاں کروڑوں ہیں۔ اسی طرح یوٹیوب چینل بھی کروڑوں کی تعداد میں ہیں۔ ریاست خود اس دھندے میں مصروف ہے۔ اس لیے وہ اپنی یہ ذمہ داری پوری کرتی نظر نہیں آتی کہ وہ یہ تجزیہ کررہی ہو کہ یہ کروڑوں یوٹیوب استعمال کنندگان کس قسم کی وڈیوز جاری کررہے ہیں۔ ان کا کوئی علمی۔ سماجی۔ سیاسی۔ مقصد ہے یا صرف اپنے 1000 سبسکرائبرز اور چار گھنٹے کی وڈیوز دکھاکرڈالروں کا حصول ہے۔ ڈالر نے پوری دنیا میں اخلاقی انحطاط پھیلایا ہے۔ اقدار کو ملیامیٹ کیا ہے۔

اس وقت ملک میں ساری سیاسی پارٹیوں کے یو ٹیوب چینل ہیں۔ این جی اوز کے سرکاری محکموں کے اسٹیبلشمنٹ کے۔ لسانی تنظیموں کے۔ نسلی تحریکوں کے۔ مختلف فرقوں کے۔ مذاہب کے۔ میڈیا کی اصل ذمہ داری اپنے صارفین۔ قارئین۔ سامعین۔ ناظرین کو با خبر رکھنا ہوتا ہے۔ صدیوں سے Peoples Right to Know عوام کے جاننے کا حق۔ علمائے کرام۔ ادیب۔ شاعر۔ صحافی اور حکومتیں پورا کرتی آرہی ہیں۔ لیکن اس میں ایک ادارتی نظم ہوتا تھا۔ معاشرتی قیود۔ مسلکی قواعد۔ اور معاشرتی اقدار کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا تھا۔ سوشل میڈیا بے لگام ہے۔ ہر فرد اپنے آپ کو عقل کُل سمجھ رہا ہے اس کے لیے کسی باقاعدہ تربیت کی کسی سر ٹیفکیٹ کی ضرورت خیال نہیں کی جاتی۔ گوگل پر ایسی بے شُمار کمپنیاں موجود ہیں جو فرد کو دعوت دے رہی ہیں کہ آئیے آپ کو یو ٹیوب چینل سے ڈالر کمانے کا طریقہ سکھائیں۔ وہ 1000 سبسکرائبرز بھی دینے کو تیار ہیں کئی گھنٹوں کی وڈیوز بھی۔ سب پیسے کا کھیل ہے۔

وڈیوز اور ڈالرز کی دوڑ میں عریانی۔ برہنگی۔ جنسی لذت سب پر فوقیت رکھتی ہے۔ اس کے بعد پگڑی اچھالنا بد زبانی۔ یہ سب انسان کی جبلتیں ہیں۔ اس سے فائدہ صدیوں سے اٹھایا جارہا ہے۔

اصل سوال یہ ہے کہ ان بے مقصد۔ لغو۔ وڈیوز پر جو کمپنیاں۔ ادارے۔ یا ممالک ڈالر ادا کررہے ہیں۔ وہ اس سے کیا مقاصد حاصل کررہے ہیں۔ یہ خطیر رقم کس جنس کے بدلے دی جارہی ہے۔ ڈالر بانٹنے والوں کو ان وڈیوز آڈیوز سے جو ڈیٹا مل رہا ہے۔ ہماری قوم۔ ہمارے خاندان۔ ہمارے افراد۔ ہمارا رہن سہن۔ ان کے سامنے کھل رہا ہے۔ بکھر رہا ہے۔ ان کے ترجمے اور تجزیے بھی کیے جارہے ہیں۔ وہ اس سے سیاسی۔ اقتصادی اور سماجی طور پر کوئی نہ کوئی فائدہ اٹھارہے ہیں۔ اس وقت ملک میں جو افراتفری ہے۔ اتفاق رائے نہیں ہے۔ بے مقصد اجتماعات ہیں۔ ایک دوسرے پر الزامات ہیں۔ اس سے ہماری قوم کی جو تصویر جو نقشہ ان بڑی طاقتوں کے سامنے ابھر رہا ہے۔ وہ اس کے ذریعے ہمیں معاشی۔ علمی۔ نفسیاتی طور پر غلام بنائے ہوئے ہیں۔ کوئی ادارہ۔ کوئی یونیورسٹی۔ کوئی میڈیا ہاﺅس اس حوالے سے تحقیق کررہا ہے؟

One thought on “یو ٹیوب والے ڈالرز کیوں لٹارہے ہیں؟

  1. ادب کے ساتھ۔۔ ایسا نہیں ہے۔ ڈیٹا جمع کرنے کے لئے یوٹیوب پیسے نہیں دیتا۔ گوگل کے پاس جتنا ڈیٹا ہے اتنا ہمارے پاس بھی نہیں۔ یوٹیوب مشتہترین کے اشتہارات کی آمدنی پارٹنر شپ پر تقسیم کرتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *