سوشل میڈیا اکاؤنٹس

محمود شام

محمود شام

پاکستان کے ممتاز صحافی، شاعر، ادیب اور تجزیہ کار جناب محمود شام 5 فروری 1940

1947 سے تاحال رائے عامہ سے خوف

پاکستان ابھی چھ سال کا ہی ہوا ہے۔

میں ابھی پرائمری اسکول میں ہوں۔ اسکول کے سامنے ہی جھنگ شہر کا پولیس اسٹیشن ہے۔

علمائے کرام گرفتاریاں دینے آرہے ہیں۔

ہم پرائمری اسکول کے طلبہ کو یہ نعرے سننے کو مل رہے ہیں۔پاکستان کے تین خدا۔

اعظم ناظم ظفر اللہ

ایک اور نعرہ

پاکستان کا مطلب کیا ،کرفیو گولی مارشل لا

یہ ہے ہماری نسلوں کی اٹھان۔

ہماری حکومتیں سیاسی کہ فوجی شروع سے ہی خوف زدہ رہی ہیں۔ خوف کے عالم میں قانون سازیاں کرتی رہی ہیں۔ ایک فلاحی مملکت میں ایک فرد کو اس کی عزت۔ وقار۔ خوشحالی دینے کے لیے اتنے قوانین نہیں بنے ہیں۔ جتنے افراد کے اظہار کے ۔ اجتماع کے۔ حق کو دبانے کیلئے بنے ہیں۔ اس دوڑ میں صرف آمر۔ مطلق العنان۔ چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ہی نہیں۔ جمہوری۔ سیاسی قائدین بھی پیش پیش رہے ہیں۔ شاخ نازک پر بننے والے آشیانے ہمیشہ گرنے کے ڈر سے کانپتے رہتے ہیں۔ انتخابات اگر منصفانہ۔ آزادانہ۔ دھاندلی دھونس سے پاک ہوں تو منتخب ہونے والا کبھی خوف زدہ نہیں ہوتا ہے۔

قائد اعظم محمد علی جناح نے ہمیشہ آزادیٔ اظہار کے تحفظ کو پاکستان کا اولیں نصب العین قرار دیا۔ وہ خود بھی سیاہ قوانین کے شکار ہوئے۔ ایک گورنر جنرل ہونے کی حیثیت سے ان کی کی گئی تقریریں سنسر کی گئیں۔

اے شمع تجھ پہ رات یہ بھاری ہے جس طرح

ہم نے تمام عمر گزاری ہے اس طرح

اب پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس اور دوسری صحافتی تنظیمیں پھر سڑکوں پر ہیں۔ میں 1947سے یہ مظاہر دیکھ رہا ہوں۔ شورش کاشمیری۔ فیض احمد فیض۔ حمید اختر مال روڈ پر نعرے لگارہے ہیں۔1966 صفدر میر۔ شفقت تنویر مرزا۔ مسعود اللہ خان۔ لاہور ہائی کورٹ کے سامنے چوک میں کھڑے ہیں۔ 1970۔ ابراہیم جلیس۔ نثار عثمانی۔ افضل صدیقی۔ ظفر رضوی۔ منہاج برنا۔ وکٹوریہ روڈ پر ریگل چوک کی طرف گامزن ہیں۔ 1978۔ عبدالحمید چھاپرا۔ حبیب غوری۔ احفاظ الرحمن۔ فاضل راہو۔ جی این مغل۔ جیلیں بھر رہے ہیں۔ 90 کی دہائی میں بھی یہ ہوتا رہا۔ پھر اکیسویں صدی اطلاعات کی صدی ہے۔ لیکن پاکستان میں یہ پابندیاں لے کر آرہی ہے۔ 1970 انتخابات کا سال ہے۔ پریس اینڈ پبلی کیشنز آرڈی ننس کی تلوار کتنے اخباروں رسالوں کے سر کاٹ رہی ہے۔1971ڈھاکے میں بھارتی فوج داخل ہوچکی ہے۔ مشرقی پاکستان پر بھارت نے قبضہ کرلیا ہے۔ مگر ہم ایڈیٹروں کو بلاکر بتایا جارہا ہے کہ چیف مارشل لاایڈمنسٹریٹر جنرل یحییٰ خان نے یہ نیا آئین تیار کیاہے اس کی آٹھ کالمی سرخی لگے گی۔ رات گئے دیر سے طے ہوتا ہے کہ عالم اسلام کے سب سے بڑے المیے سقوط مشرقی پاکستان کی خبر صرف سنگل اور چار سطر میں لگے گی۔یہ عجیب خوف ہے۔ اور خود کو یہ تسلی کہ ان پابندیوں سے لوگ حقائق سے بے خبر رہیں گے۔ بی بی سی سب کچھ بتارہا ہے۔ واہگہ سے گوادر تک سب ریڈیو پر ایک ایک لمحہ کی رُوداد سن رہے ہیں۔ تڑپ رہے ہیں۔ اکثریتی صوبہ الگ ہورہا ہے۔ نیا پاکستان وجود میں آگیا ہے۔ آدھے سے زیادہ کٹ گیا ہے۔ مغربی پاکستان کے دو صوبوں کی اکثریتی پارٹی کے سویلین لیڈر چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بن گئے ہیں۔1972 سندھ میں لسانی فسادات شروع ہوگئے ہیں۔ چیف سیکرٹری سندھ روئیداد خان ایڈیٹروں کو بلاکر قبل از اشاعت سنسر کے قواعد سے آگاہ کررہے ہیں۔

نظام مصطفیٰؐ کے نفاذ کا نعرہ بلند کرنے والی جماعتوں کی امید بر آئی ہے۔ مارشل لا لگ گیا ہے۔ منتخب وزیر اعظم کا تختہ الٹ دیا گیا ہے۔ پھانسی دی جاچکی ہے۔ نماز جنازہ میں عوام کو شرکت کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔ پھر قبل از اشاعت سنسر تمام رسالوں اخباروں کتابوں پر مہینوں جاری رہتا ہے۔ سب اسی طرح چپ ہیں۔ جیسے آج کل۔

کون کون سا دور یاد کروں۔ پریس اینڈ پبلی کیشنز آرڈیننس 1964کے تحت ہفت روزہ ’معیار‘۔ ہفت روزہ ’الفتح‘ اور بہت سے رسالوں کے ڈکلیئریشن منسوخ کردیے گئے ہیں۔ عوام کی اکثریت سے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے یہ وعدہ کیا تھا۔ لیکن ایوب خان کے اس سیاہ قانون کو برقرار رکھا گیا۔ روزنامہ ’جسارت‘ اور کئی رسالے بند کیے گئے۔

سیاسی قیادتیں ہوں کہ فوجی۔ رائے عامہ سے ڈرتی ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے دَور میں پرائیویٹ ٹی وی چینلز کو اجازت دی گئی لیکن پھر ایمرجنسی اور چینل کئی کئی ہفتوں تک بند کردیے گئے۔ ’جیو‘ کی اسکرین 77 روز تک سیاہ رہتی ہے۔

اب ایک منتخب حکومت ہے۔ مگر میڈیا پر سب سے زیادہ پابندیاں لگائی جارہی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ الیکٹرونک کرائم روکنے کے لیے قانون کا نفاذ کیا جا رہا ہے۔ مگر در اصل الیکٹرونک کرائم کو جنم دیا جارہا ہے۔ اگر برقی میڈیا۔ اپنے ناظرین کو اصل اطلاعات برق رفتاری سے آگاہ نہیں کرتا تو وہ برقی جرائم کا مرتکب ہورہا ہے۔ نتیجہ کیا ہے جس طرح 80-70-60 کی دہائی میں بی بی سی سنا جاتا تھا۔ اب سب یو ٹیوب سے رجوع کررہے ہیں۔

جنہیں تم سن نہیں سکتے، جنہیں ہم کہہ نہیں سکتے

وہی باتیں ہیں سننے کی، وہی باتیں ہیں کہنے کی

آئین کا آرٹیکل 19 تو کہتا ہے کہ پاکستان کا ہر شہری اپنی رائے رکھنے کا حق رکھتا ہے۔ پھر اس کے اظہار کا حق رکھتا ہے پھر اس پر تقریر کا حق رکھتا ہے۔

ہمارے قانون ساز۔ ہمارے محافظ کوشش کرتے ہیں کہ کسی کو رائے رکھنے کا اختیار ہو نہ ہی اسکے اظہار کا۔

1947پاکستان کے قیام کا سال بھی ہے۔ پنجاب کمیونٹی سیفٹی ایکٹ 1947کے نفاذ کا بھی۔ بلوچستان صوبہ نہیں ہے۔ لیکن بلوچستان پبلک سیفٹی ریگولینس 1947وجود میں آگیا ہے۔ ایم پی او یاد آرہا ہے۔ پنجاب مینٹیننس آف پبلک آرڈر 1960۔ پھر سیکورٹی آف پاکستان ایکٹ 1952۔صحافیوں کے لیے پہلا امتناعی قانون 8 اکتوبر 1949 کو نافذ ہوتا ہے۔ 1959میں پروگریسیو پیپرز لمیٹڈ کو حکومتی تحویل میں لیا جاتا ہے۔ ایڈیٹر گرفتار کرلیے جاتے ہیں۔آج کل صرف صحافی ہی نہیں۔ اساتذہ بھی سڑکوں پر ہیں۔

آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں

تو ہائے گل پکار میں چلائوں ہائے دل

آج اتوار ہے اپنے بیٹوں بیٹیوں۔ پوتوں پوتیوں۔ نواسوں نواسیوں بہوئوں دامادوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر بیٹھنے اور حالاتِ حاضرہ پر تبادلۂ خیال کا دن۔1947سے اب تک کے پابندیوں کے سفر میں یاد ہی نہیں رہا کہ دوپہر کو کچھ کھانا بھی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *