سوشل میڈیا اکاؤنٹس

محمود شام

محمود شام

پاکستان کے ممتاز صحافی، شاعر، ادیب اور تجزیہ کار جناب محمود شام 5 فروری 1940

1998 میں مہنگی بجلی کمپنیوں کے خلاف قرارداد کا متن

بجلی کے بلوں نے پورے ملک کو پریشان کر رکھا ہے۔ نجی بجلی کمپنیوں سے کیے گئے معاہدوں کو آج اس کی وجہ قرار دیا جارہا ہے۔ لاہور میں ہماری گفتگو درد مند پاکستانی رانا امیر احمد خان ایڈووکیٹ سے ہورہی تھی تو انہوں نے بتایا کہ لاہور ہائی کورٹ بار کے اراکین نے تو مارچ 1998 میں ان کمپنیوں سے مہنگی بجلی معاہدوں کی منسوخی کا مطالبہ کیا تھا۔ مگر عوام دشمن حکومتوں نے اپنے مفادات کو قومی مفادات پر سبقت دی۔ آج 25 سال ربع صدی بعد حالات ثابت کررہے ہیں کہ وکلا نے بر وقت ان غیر قانونی معاہدوں کی مخالف کی تھی اب پوری قوم کو ایک اذیت کا سامنا ہے ہم رانا امیر احمد خان کے شکریے کے ساتھ ان قراردادوں کا متن شائع کررہے ہےں۔

بجلی کمپنیوں سے معاہدے غیر آئینی۔ غیر قانونی
اراکین لاہور ہائی کورٹ بار کا معاہدے منسوخ کرنے کا مطالبہ
حکمرانوں سیاستدانوں اور ان کے منظور نظر وڈیروں کے قرضے معاف نہیں وصول کیے جائیں
ایک اہم دستاویز

متن قرار دادرا نا امیر احمد خاں ایڈووکیٹ:
لاہور ہائی کورٹ بار کا یہ ایوان بینظیر حکومت کے قومی بجٹ سال 97-1996ء کو خسارے گرانی اور غریب قوم کے معاشی قتل عام کا زرداری بجٹ قرار دیتے ہوئے مستردکرتا ہے۔ حکومت نے مالیاتی ڈسپلن ،منصوبہ بندی کو بہتر بنانے اور قومی آمدنی میں اضافہ کرنے کے لئے تعلیم ، صنعت ، تجارت اور زراعت کے شعبوں میں مثبت اور موثر اقدامات کرنے کی بجائے تعلیمی شعبہ کے وسائل کم کر کے مرد اول کے محکمہ خصوصی تحفظ ماحولیات کے لیے مختص کئے ہیں۔
ٹیکسوں کی بنیاد وسیع کرنے کے نام پر غریب اور متوسط طبقے پر چالیس ارب روپے کے نئے ٹیکس عائد کئے گئے ہیں۔ جاگیرداروں پر انکم ٹیکس عائد کرنے کی بجائے شہری مکانوں پر دولت ٹیکس عائد کیا گیا ہے جبکہ جاگیر داروں اور زمینداروں کی دو گاڑیوں اور ایک مکان کو دولت ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا ہے۔ تنخواہ دار طبقے اور غریب شہریوں کو کچھ دینے کی بجائے الٹا کرایہ مکان پر بھی انکم ٹیکس لاگو کر دیا گیا ہے۔ ٹیلی فون، سیمنٹ ، کھاد، ادویات ، بجلی ، سوئی گیس مہنگی کر دی گئیں ہیں ۔ جنرل سیلز ٹیکس کی شرح میں تین فیصد اضافے سے عملا ہر چیز مہنگی ہو جائے گی۔ مختلف سبسڈیزا رعایتیں واپس لیکر زرعی اجناس اور مصنوعات کو مہنگا کر دیا گیا ہے جس سے عالمی برآمدی مارکیٹ میں ہماری مہنگی مصنوعات کے لئے مقابلہ کرنا مشکل ہو گا۔ بعض اشیاء پر درآمدی ڈیوٹیوں کی شرح کم کی گئی ہے جس سے ہماری مقامی صنعت جو پہلے ہی مشکلات کا شکار ہے مزید مصائب سے دوچار ہوگی ۔ قومی معیشت کو آئی ایم ایف کی غلامی اور قرضوں کی لعنت میں جکڑ دیا گیا ہے۔ قومی بجٹ کا ایک تہائی حصہ ایک کھرب چھیاسی کروڑ روپیہ صرف قرضوں سود کی ادائیگی میں چلا جائے گا جبکہ دفاع کے لئے مختص رقم سود کی ادائیگی کی رقم سے 45 ارب روپے کم ہے۔ گویا ہم اپنے دفاع پر اتنی رقم صرف نہیں کرتے جتنی اندرونی اور بیرونی قرضوں کے سود کی ادائیگی کی مد میں مختص کرنے پر مجبور ہیں۔
ماہرین معاشیات کے مطابق اگر ہم نے اپنی چادر کے مطابق پاؤں پھیلانے کا راستہ اختیار نہ کیا اور ہمارے سیاستدان عمومی وسائل کو لگا تارخرد برد کرنے اور انہیں اپنے اللوں تللوں میں ضائع کرنے سے باز نہ آئے تو اگلے دو تین سالوں میں دستیاب وسائل سے زائد رقم قرضوں اور ان کے سود کی ادائیگی پر خرچ ہوگی۔ اس طرح ہم قومی معیشت کو دیوالیہ کرنے کی جانب پیش رفت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس بجٹ کا سب سے زیادہ مضحکہ خیز پہلو یہ ہے کہ صدر مملکت اور وزیر اعظم اور ارکان صوبائی وقومی اسمبلی وزراء اور گورنروں کی مراعات میں کئی گنا اضافہ کر دیا گیا ہے اور ان کے لئے مفت رہائش کھانا پینا، ٹرانسپورٹ، ٹیلی فون ،مہمان داری ، بیرونی علاج معالجہ اور سیر سپاٹوں جیسے حکومت اور انتظامیہ کے غیر ترقیاتی اخراجات میں مجموعی طور پر چار ارب روپے کا اضافہ کیا گیا ہے جبکہ اخباری صنعت کے بارگراں میں اضافہ کر کے اخبارات اور جرائد کو مہنگا کر دیا گیا ہے بلکہ ان کی آزادی کو بلیک میل کیا جا رہا ہے۔ وکلاء کی فیسوں پر دس فیصد کی شرح سے ایکسائز ڈیوٹی عائد کرنے کے ساتھ ساتھ ان پر تین ہزار، چھ ہزار اور بارہ ہزار روپے تک فکسڈ انکم ٹیکس لگا دیا گیا ہے جواستی فیصد وکلاء پر جو بمشکل گزراوقات کرتے ہیں ظلم کرنے اور ان کی پیشہ ورانہ آزادی پر قدغن لگانے کے مترادف ہے۔ لہذا ہم اراکین لاہور ہائی کورٹ بار حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ بحث پر فی الفور نظر ثانی کرے۔ افراط زر، مہنگائی اور بے روزگاری کے خاتمے کے لئے مثبت اقدامات کرے۔ اپنے شاہانہ اخراجات کم کرے۔ ٹیکسوں کا سارا بوجھ غریب اور متوسط طبقے پر ڈالنے کی بجائے جاگیرداروں سے بھی ملک کے مروجہ قانون کے مطابق اسی شرح سے انکم ٹیکس وصول کرے جو ملک کا مفلوک الحال تنخواہ دار طبقہ ایک عرصہ سے برداشت کرتا چلا آ رہا ہے۔
حکمرانوں ،سیاستدانوں اور ان کے منظور نظر وڈیروں ،لٹیروں کے ذمہ واجب الادا اربوں روپے کے قرضوں کو معاف کرنے کی بجائے معہ سودان کی وصولی کو یقینی بنانے کے لئے اقدامات کرے۔ بیرونی اور اندرونی قرضوں کے ذریعے حکومت بجٹ خسارہ پورا کرنے کی فرسودہ عادت ختم کرے تا کہ وطن عزیز کو قرضوں کی لعنت سے چھٹکارا دلا کر اسے خود کفالت اور خود انحصاری کی منزل سے ہمکنار کرنے کی جانب گامزن کیا جاسکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مارچ 1998 و لاہور قرار داد را تا امیر احمد خاں
ہابت بھی پاور کمپنیوں PPS سے مہنگی بجلی معاہدے منسوخ کئے جائیں
واپڈا نے 9 مارچ سے بجلی کے نرخوں میں 12 سے 20 فیصد اضافہ کر دیا ہے۔ بجلی کے نرخ بڑھانے کا تازہ فیصلہ آئی ایم ایف کے دباؤ اور واپڈا کو مالی بحران سے بچانے کے لیے کیا گیا ہے۔
پاکستانی عوام کی آمدنیوں کا بڑا حصہ پہلے ہی بجلی کے بلوں کی نذر ہورہا ہے اور یہ سب کیا دھرا سابقہ حکومت کا ہے جس نے کمیشن کھانے کی خاطر بیرونی کمپنیوں کے ساتھ مہنگی بجلی کے سودے کئے ۔ یہ معاہدے صریحا ملک وملت کے مفادات کے خلاف ہونے کی بنا پر غیر آئینی و غیر قانونی ہیں۔ موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی عوام کو یقین دلایا تھا کہ تیل کے نرخ نہیں بڑھائے جائیں گے اور قوم دشمنی پر ان معاہدوں پر نظر ثانی کی جائے گی۔
لیکن موجودہ حکومت نے بھی ایک سال گزرنے کے باوجود نہ ان معاہدوں پر نظر ثانی کی ہے نہ بجلی پیدا کرنے کے ہائیڈل منصوبوں کالا باغ ڈیم اور بھا ٹاڈیم پر کام کا آغاز کیا ہے، نہ کشکول توڑنے کا وعدہ پورا کیا ہے نہ پہیہ جام فیکٹریوں کو چلانے کے لیے کوئی حیلہ کیا ہے۔ الٹا موجودہ حکومت کی پالیسیاں بھی ملک وملت کے لیے تعمیر مسائل ، معاشی بد حالی ، بے روزگاری اور مہنگائی میں اضافے کا باعث بن رہی ہیں۔ یہی صورت حال رہی تو ہماری انڈسٹری اور زراعت کے شعبے مزید تباہی سے دوچار ہو جائیں گے ۔ یہ کوئی جواز نہیں ہے کہ واپڈا کا خسارہ بجلی کی نرخ بڑھا کر پورا کرو۔ آخر واپڈا کا خسارہ کیوں ہے ؟ اسے دور کیوں نہیں کیا جاتا۔
سابقہ حکمرانوں اور واپڈا کے کرتا دھرتاؤں نے واپڈا کے وسائل کو جس طرح خود ہڑپ کیا ہے اور’’ ککس بیک‘‘ کی خاطر بیرونی نجی پاور کمپنیوں کی جھولی میں ڈال دیا ہے ان کا محاسبہ کیوں نہیں کیا جاتا۔ ننگِ ملت ننگ دین کے مصداق ان غیر قانونی معاہدوں کو منسوخ کر کے واپڈا کو خسارے سے کیوں نجات نہیں دلائی جاتی ؟ بجلی، سوئی گیس ، پانی کی گرانی اور دیگر اشیائے صرف کی قیمتیں بڑھ کر اس مقام پر آگئی ہیں کہ عام آدمی کا گھریلو بجٹ ان کا ساتھ نہیں دے رہا۔ بجلی کی گرانی کے ساتھ ہی گھی ، آٹے اور خورد و نوش کی قیمتوں میں بھی اضافہ شروع ہو گیا ہے۔ اندریں حالات ممبران لاہور ہائی کورٹ بار یہ محسوس کرتے ہیں کہ بجلی کے نرخوں میں بار بار اضافہ معیشت کو تباہی سے دو چار کرنے عوام دشمنی اور قوم پر ظلم ڈھانے کے مترادف ہے۔ لہٰذا ہم اراکین لاہور ہائی کورٹ بار مطالبہ کرتے ہیں کہ نجی یاور کمپنیوں سے مہنگی بجلی کے معاہدے منسوخ کئے جائیں یا مذاکرات کے ذریعے ان کے نرخ مصر اور بنگلہ دیش کی سطح پر لائے جائیں۔ نیز پاکستان میں توانائی کے میدان میں خود کفالت اور خوشحالی کے ضامن منصوبوں کالا باغ ڈیم اور بھاشا ڈیم کی تعمیر کا کام فوری شروع کیا جائے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *