سوشل میڈیا اکاؤنٹس

محمود شام

محمود شام

پاکستان کے ممتاز صحافی، شاعر، ادیب اور تجزیہ کار جناب محمود شام 5 فروری 1940

کوئٹہ انکوائری کمیشن رپورٹ (دوسری قسط)

2۔ بلال کاسی اور ان کے قتل کی واردات
2.1۔ بلال انور کاسی ایک وکیل اور بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر تھے۔ ان کے عہدے کی مدت مکمل ہوگئی تھی اور بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے نئے انتخابات 13 اگست 2016 کو ہونے تھے۔
2.2۔ بلال انور کاسی پیر 8 اگست 2016 کو بذریعہ کار اپنے گھر سے روانہ ہوئے جو مانوجان روڈ، ہدی ایریا کوئٹہ میں واقع تھا۔ ان کی کار مانوجان روڈ سے مینگل روڈ پر مڑنے کے بعد  اسپیڈ بریکرزکی بنا پر ہلکی ہوئی تو 8.45 بوقت صبح انتہائی قریب سے ان پر مسلسل فائر ہوئے۔ ان کے بھائی شعیب کاسی ان کے گھر کے ساتھ ایک ہی کمپاؤنڈ میں رہتے تھے۔ انہوں نے بھی گولیاں چلنے کی آوازیں سنیں اور اپنے پڑوسی سے کہا کہ ان کے بھائی پر حملہ ہوا ہے۔ اس کے بعد وہ اپنی کار میں تیزی سے موقع واردات پر پہنچے۔ان کے گھر سے فاصلہ 160 قدم تھا۔
2.3۔ مسٹر شعیب اور ان کے چچا و دیگر کی مدد سے بلال کاسی کی لاش کو مسٹر شعیب کی کار میں منتقل کیا گیا اور وہ انہیں اسپتال لے گئے۔ بلال کاسی کے بڑے بھائی طارق کاسی بھی ایک الگ کار میں ان کے پیچھے تھے ۔
2.4۔ شعیب کاسی نے بتایا کہ ان کے اسپتال پہنچنے کے بیس منٹ بعد بھی کوئی پولیس افسر اسپتال نہیں پہنچا تھا۔
پہلا جرائم منظر
2.5۔ جب شعیب کاسی واپس ہوئے اور اپنے مقتول بھائی کی گولی کا نشانہ بننے والی کار کے قریب پہنچے تو اس وقت بھی پولیس وہاں نہیں پہنچی تھی۔ایک عینی شاہد نے بتایا کہ اس نے تین افراد کو موقع واردات سے فرار ہوتے ہوئے دیکھا تھا جو ایک ہی موٹر سائیکل پر سوار تھے۔ان میں سے دو نے آتشگیر ہتھیار اٹھائے ہوئے تھے۔حملہ آوروں نے فرار کے لئے وہی راستہ لیا جہاں بلال کاسی اور ان کے بھائیوں کے گھر تھے۔ بھائیوں میں سے ایک ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج تھا اور اس کے پاس ایک مسلح محافظ بھی تھا۔
قاتل
2.6۔ قاتلوں نے بلال کاسی کو قتل کرنے کے لئے ان کے اپنے محلے کا انتخاب کیا۔ یہ قتل دن کی روشنی میں کیا گیا اور ایسے وقت کا انتخاب کیا گیا جب کم لوگ سڑکوں پر ہوتے تھے۔قاتلوں کو اس علاقے کی مکمل معلومات حاصل تھیں۔ وہ قتل و غارتگری میں مہارت رکھتے تھے اور انہیں کسی رکاوٹ یا مداخلت کا کوئی خوف نہ تھا اور وہ انتہائی بے رحم تھے۔
ہدف کا انتخاب
دہشت گردوں نے بلال کاسی کا قتل اس لئے کیا کہ وہ وکیلوں میں انتہائی مقبول تھے اور اس وقت تک بار ایسوسی ایشن کے صدر تھے اور ان کی ہلاکت پر وکیلوں کا جمع ہوجانا فطری بات تھی۔اس سے قبل قاتلوں نے بالکل اسی انداز میں 8 جون 1916 کو بیرسٹر امان اللہ اچکزئی کو قتل کیا تھا جو لا کالج یونیورسٹی آف بلوچستان کے پرنسپل تھے۔لیکن ان کی ہلاکت پر وکیلوں کے اس اجتماع کو کسی خودکش حملے کا نشانہ نہیں بنایا گیا۔یہ امکان ہے کہ دونوں حملے قاتلوں کے ایک ہی گروہ نے کئے۔کیونکہ فارنسک ماہرین نے دونوں حملوں میں کئی مماثلتیں دیکھی تھیں۔لیکن امان اللہ اچکزئی کے قتل پر وکیلوں کا اجتماع اتنا بڑا نہیں تھا جیسا کاسی کے قتل پر ہوا۔
4۔ قتل کی ایف آئی آر4.1۔ بلال کاسی کے قتل کی ایف آئی آر ان کے بھائی شعیب کاسی نے 8 اگست کو صدر پولیس اسٹیشن، کوئٹہ 15 میں لکھوائی۔
4.2۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی غفلت کا عالم یہ تھا کہ فرسٹ کرائم سین کی نہ تو تصویریں بنائی گئیں اور نہ وڈیو بنائی گئی کہ بعد میں کسی تجزیہ میں مدد مل سکے۔
4.3۔ کار کے اردگرد پھیلے ہوئے مندرجہ ذیل سامان کو بھی وہیں چھوڑدیا گیا جن میں مندرجہ ذیل چیزیں شامل تھیں۔ (1) گولیوں کے آٹھ خالی خول جنہیں جمع نہیں کیا گیا اور انگلیوں کے نشانات ریکارڈ کرنے کے لئے محفوظ نہیں کیا گیا؛ (2) گولیوں کے آٹھ خولوں کو بعد میں فارنسک امتحان کے لئے صرف اس غرض سے بھیجا گیا کہ ہتھیار کے کیلیبر کا تعین کیا جاسکے اور دیکھا جاسکے کہ دیگر جرائم میں استعمال ہونے والے کارتوسوں سے کیا مماثلت تھی لیکن انگلیوں کے نشانات کو ریکارڈ نہیں کیا گیا؛ (3) گولیوں کو تلاش کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی حالانکہ یہ زیادہ مشکل نہیں تھا۔کیونکہ گولیاں کار پر چلائی گئی تھیں اور کار کے اندر تلاش کی جاسکتی تھیں۔ (4) پولیس نے اس کار پر ایک ماہ تک قبضہ رکھا جس میں بلال کاسی کو قتل کیا گیا لیکن اس دوران بھی کار میں گولیاں تلاش کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی؛ (5) چلائی ہوئی گولیوں کی تلاش کے لئے اردگرد کا معائنہ نہیں کیا گیا؛ (6) بلال کاسی کی کار کا فارنسک امتحان نہیں کیا گیا؛ (7) کرائم سین کا فارنسک معائنہ نہیں کیا گیا حالانکہ آئندہ ایسے واقعات کے لئے ایسا ہونا ضروری تھا؛ (8) اس کرائم سین کے سلسلے میں کوئی فارنسک اعانت کسی فارنسک ایجنسی یا ادارے یا لیب سے نہیں لی گئی؛ (9) کرائم سین کا جامع منظر آئندہ تجزیہ کی غرض سے وڈیو ٹیپ یا  فوٹو کشی کے ذریعہ محفوظ نہیں کیا گیا؛ (10) ایک عینی شہادت نے پولیس کو مطلع کیا کہ تینوں حملہ آور ایک ہی موٹر سائیکل پر ایک خاص سمت میں فرار ہوئے لیکن ان کے فرار کے روٹ  یا ٹائروں کے نشانات کو تلاش نہیں کیا گیا جو مٹی میں نہایت واضح تھے اور اس کے ساتھ دیگر عینی شاہدین پر معلومات کے لئے زور نہیں دیا گیا؛
کمیشن کی مداخلت پر فارنسک امتحانات
4.4۔ کمیشن کی مداخلت پر فارنسک امتحانات شروع ہوئے۔ اس سلسلے میں کمیشن نے 18 اکتوبر 2016 کو پنجاب فارنسک ایجنسی کو ایک خط لکھا اور ان دونوں واقعات کے فارنسک امتحانات اور تجزیہ کی درخواست کی۔ پنجاب فارنسک سائنس ایجنسی سے  یہ درخواست بھی کی گئی کہ وہ بمباروں کی شناخت، دھماکہ خیز مواد کی اقسام اور اس کے ذرائع حصول کی دریافت میں مدد کریں۔پنجاب فارنسک سائنس ایجنسی کے ڈائرکٹر جنرل اپنے ماہرین کے ساتھ کوئٹہ آئے اور مختلف جرائم کے وقوعہ مقامات تک پہنچے  جہاں بلال کاسی، بیرسٹر امان اللہ اچکزئی اور سب انسپکٹر پولیس کو قتل کیا گیا تھا۔ انہوں نے اسپتال کا دورہ بھی کیا جہاں خودکش حملہ ہوا تھا۔اس کے بعد بلال کاسی کے قتل کی باز مشق کی گئی تاکہ اس کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا جاسکے۔ اس مقصد کے لئے بلال کاسی کی کار اسی سڑک پر اسی پوزیشن میں کھڑی کی گئی جس طرح وہ ان کے بڑے بھائی شعیب کو کھڑی ملی تھی۔ڈینٹر نے کار کی مرمت کی غرض سے اس کے دروازے نکال دئے تھے چنانچہ گولیوں کے رخ کا تعین کیا گیا۔کار کی ڈرائیونگ سیٹ کے ہیڈ ریسٹ (سرہانے) سے 9 ایم ایم کی ایک گولی ملی۔ گولیوں کے خولوں کے معائنے سے پتہ چلا کہ فائرنگ دو الگ الگ 9 ایم ایم کے پستولوں سے کی گئی تھی۔ان خولوں کا دوسرے جرئم سے موازنہ کیا گیا اور ان کا ربط دیگر تین وارداتوں سے پایا گیا۔ ان وارداتوں میں پولیس کے سب انسپیکٹر مشتاق کے 4 جولائی 2016 کو قتل، 4 اکتوبر کو دو ہزارہ خواتین کے قتل، اور 14 اکتوبر 2016 کو فرنٹیئر کور کے دو کانسٹبلوں کے قتل شامل تھے۔

یہ رپورٹ ماہ نامہ اطراف میں قسط وار شائع ہونے کے بعد “بلوچستان سے بے وفائی” کے نام سے کتابی شکل میں بھی دستیاب ہے۔ سینیئر صحافی اور تجزیہ کار محمود شام کی یہ کتاب اور دیگر کتابیں 03008210636 سے حاصل کی جا سکتی ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *