سوشل میڈیا اکاؤنٹس

محمود شام

محمود شام

پاکستان کے ممتاز صحافی، شاعر، ادیب اور تجزیہ کار جناب محمود شام 5 فروری 1940

کوئٹہ انکوائری کمیشن رپورٹ (تیرہویں قسط)

30 قانون نافذ کرنے والی مختلف ایجنسیاں

30.1 پولیس، لیویز اور فرنٹیئر کور: صوبہ بلوچستان کو دو حصوں اے اور بی میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ حصہ اے میں پولیس اور بی میں لیویز حفاظتی ذمہ داریاں انجام دیتی ہیں۔ ضلع کا سربراہ ڈپٹی کمشنر لیوی فورس کا سربراہ ہے۔چیف سیکریٹری کا کہنا ہے کہ اس تقسیم سے مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ بلوچستان کے دس فی صد حصے کی ذمہ داری پولیس کے پاس ہے جو اے کہلاتا ہے۔ باقی ماندہ حصہ لیویز کے تحت ہے۔ اس کے علاوہ ایف سی بھی تعینات ہے۔

30.2 چیف سیکریٹری کا کہنا ہے کہ پولیس، مقامی انتظامیہ اور ایف سی کے درمیان تعاون کا فقدان ہے۔ایف سی انسپکٹر جنرل ایف سی کو جوابدہ ہے۔ بعض اوقات ایف سی کا لوکل کمانڈر ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں کسی اجلاس میں شریک ہونے سے انکار کر دیتا ہے حالانکہ وہ ضلعی سربراہ ہے۔ ایف سی کے عدم تعاون کی ایک مثال یہ ہے کہ جب حرومزئی میں پولیس اور لیویز نے دہشت گردوں کے ٹھکانے پر چھاپہ مارا اور انہوں نے جوابی فائرنگ کی تو ایف سی کو مدد کے لئے بلایا گیا لیکن ایف سی نہیں آئی اور پولیس اور لیویز نے اکیلے ہی یہ آپریشن مکمل کیا۔ایف سی صرف اس وقت حرکت میں آتی جب ان کا کمانڈر حکم دیتا جس سے نصف رات کو رابطہ ممکن نہیں تھا۔ چنانچہ ابھی تک بلوچستان میں ایف سی کا کردار واضح نہیں ہے۔

31 بین الاقوامی سرحد

31.1 پاکستان کی مغربی سرحد کی نگرانی نظر نہیں آتی۔ سرحد پر کوئی ریکارڈ نہیں رکھ جاتا کہ کون اندر آرہا ہے اور کون باہر جارہا ہے؟ افغانستان میں داخلے کا کراسنگ چمن ہے۔ ایران میں داخلے کا کراسنگ تفتان ہے۔ لیکن نقل مکانی کا کوئی ریکارڈ نہیں رکھا جاتا۔ افسوس ناک بات یہ کہ ایک غیر تحریری پالیسی پر اس وقت سے عمل ہو رہا ہے جب ایک جنرل حکومت کررہا تھا۔ یہ پالیسی اب بھی جاری ہے۔اب چمن میں ایسے آلات نصب کئے جارہے ہیں کہ لوگوں کی سرحدوں کے پار آمد و رفت کا ریکارڈ رکھا جائے۔ یہ نظام ممکنہ طور پر دو ماہ میں کام شروع کرے گا۔

31.2 اگر کوئی یہ چیک کرنا چاہے کہ دہشت گرد کب داخل ہوئے یا واپس گئے تو اس کا کوئی ریکارڈ نہیں رکھا جاسکتا۔چنانچہ ایمیونیشن اور دھماکہ خیز ہتھیار بھی اسی طرح ادھر سے ادھر آتے جاتے رہتے ہیں۔کیونکہ کسٹمز کی پوسٹیں یہاں نہیں ہیں۔ پڑوسی ملکوں کی انٹیلیجنس ایجنسیوں پر الزامات ہیں کہ وہ بلوچستان میں بدامنی پیدا کررہی ہیں لیکن وفاقی حکومت نے سرحد کی نگرانی کا کوئی انتظام نہیں کیا۔ قلعہ عبداللہ کے ایک ایڈووکیٹ نے چیف سیکریٹری سے سوال کیا کہ دہشت گردوں کی مالی امداد اور فنڈنگ کا سب سے بڑا ذریعہ منشیات سے آمدنی ہے۔ برخوردار خان نے کہا کہ قلعہ عبداللہ کے گلستان بازار میں منشیات  اور ہتھیار کھلم کھلا فروخت ہوتے ہیں جبکہ افیون کی کاشت عام ہے۔ آپ اس سلسلے میں کیا کہیں گے؟چیف سیکریٹری نے کہا کہ ہمیں اس کی کوئی اطلاع نہیں۔

32 حکومت پاکستان سے خط و کتابت:

32.1 کمیشن نے مختلف سرکاری اداروں اور افسران کو معلومات کے حصول کے لئے خطوط لکھے۔ جن محکموں سے جوابات وصول ہوئے وہ زیادہ تر سادے کاغذ پر تھے اور لیٹر ہیڈ پر نہیں تھے۔ ان میں اسٹبلشمنٹ ڈویژن، فنانس ڈویژن، وزارت داخلہ، وزارت مذہبی امور، وزیر مملکت برائے فرنٹیئر ریجن، ایف آئی اے، آئی ایس آئی، این اے سی ٹی اے، اور این ایس اے شامل تھے جنہوں نے سرکاری لیٹر ہیڈ کے بجائے سادے کاغذ پر جوابات دئے۔حکومت بلوچستان، گلگت بلتستان،پنجاب اور سندھ نے بھی اسی انداز میں جواب دیا۔کمیشن کو جس کا قیام سپریم کورٹ کی ہدایت پر عمل میں آیا، مختلف سرکاری وزارتوں، محکموں اور ایجنسیوں کے پتوں اور فون نمبروں وغیرہ کی تلاش میں خاصی دقت کا سامنا رہا۔یہ ادارے اگر اس طرح خود کو پوشیدہ رکھیں گے تو نہ ان سے پوچھ گچھ کی جاسکتی ہے اور نہ ان کا احتساب کیا جا سکتا ہے۔

32.2 انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی): یہ ادارہ دہشت گردی کے خلاف قابل قدر خدمات انجام دے سکتا ہے لیکن حیرت انگیز طور پر اس ادارے سے رابطہ نہیں کیا جا سکا۔ آئی ایس آئی کی کوئی ویب سائیٹ نہیں، کوئی پتہ، ای میل، یا فون نمبر نہیں۔کمیشن نے یہ جاننے کی کوشش کی کیا دوسرے ملکوں کی انٹیلیجنس ایجنسیوں سے رابطہ کیا جاسکتا ہے؟دنیا کی تمام ایجنسیوں کے فون نمبر، ای میل پتے، ان کی ویب سائیٹس پر دستیاب ہیں۔ یہاں ہم ان ایجنسیوں کی ویب سائٹس دے رہے ہیں۔

· FBI: https://www.fbi.gov/
· CIA: https://www.cia.gov/index.html
· US NSA: https://www.nsa.gov/
· MI5: https://www.mi5.gov.uk/
· SIS: https://www.sis.gov.uk
· NaCTSO: https://www.gov.uk/government/organisations/
national-counter-terrorism-security-office
CTC:
http://content.met.police.uk/Article/
Counter-Terrorism-Command/
1400006569170/1400006569170

یہ رپورٹ ماہ نامہ اطراف میں قسط وار شائع ہونے کے بعد “بلوچستان سے بے وفائی” کے نام سے کتابی شکل میں بھی دستیاب ہے۔ سینیئر صحافی اور تجزیہ کار محمود شام کی یہ کتاب اور دیگر کتابیں 03008210636 سے حاصل کی جا سکتی ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *