چیف جسٹسس نے سپریم کورٹ کمپلیننٹ بنی تھی اور کمپلیننٹ بنی تھی اظہار رائے کے اوپر۔ ان پر اینٹی ٹیررزم کے کیسز بنے تھے۔ وہ پہلے بھی اتفاق سے اسلام آباد ہائی کورٹ نہیں تھی۔ دیکھیں ہم بحیثیت جج ہم کوئی چیز اپنی چھپا نہیں سکتے۔ تنقید ایک ایسا دور ہے اور جس طرح میں نے آپ کو کہا ایک ماحول میں ہم بات کرتے ہیں سوال جرنلسٹک ایتھکس کا یا پروفیشنلزم کا نہیں ہے سب پروفیشنل ہے سب ایتھیکل ہے کوسچن یہ بھی نہیں ہے کہ ہم کتنے پولرائزڈ ہیں۔ میں اگر جوڈیشری کی بات کروں تو جوڈیشری میں دو قسم کی میں دیکھتا ہوں جس میں تنقید ہوتی ہے۔ ایک وہ تنقید جب Allege کیا جاتا ہے کہ دانستہ طور پہ کوئی فیصلے ہو رہے ہیں۔ ایک وہ تنقید ہوتی ہے کہ جس کو میں نہیں پسند کرتا اس کو ریلیف کیوں ملے۔ لیکن وقت کے ساتھ سچائی خود سامنے آتی ہے۔ دوسرا ججوں کو انڈیپینڈنٹ ہونا چاہیے یہ بھی جو Contempt کے اصول ہیں یہ اصول بھی برطانیہ میں جج کو پروٹیکٹ کرنے کے لیے وضع نہیں ہوئے۔ وہاں پہ پروٹیکشن اس جیوری کی ہوتی ہے جو کہ آپ شہریوں سے لیے جاتے ہیں۔ جج کو تو کبھی کسی تنقید سے گھبرانا ہی نہیں چاہیے۔ ہاں تنقید ہوئی ہے ججز کی انٹگرٹی کو بھی کوسچن کیا جاتا ہے کیونکہ کسی ناپسندیدہ شخص کو جو ہے وہ ریلیف مل گیا ہے۔ لیکن اگر ہر تنقید کرنے والا اُس عدالت میں ہی اعتماد کرے یہ ایک عدلیہ کا ٹیسٹ ہے کہ تنقید ہر ایک کرے لیکن پھر تنقید کے بعد اعتماد بھی کرے۔ کیونکہ یہاں پہ بہت سارے فورسز ہیں ابھی کورٹ رپورٹرز جو ہیں ایک مقالہ میں نے لکھا تھا کہ سوشل میڈیا اور انڈیپینڈنس آف جوڈیشری پہ اس کا اثر کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ کوئی اثر نہیں ہونا چاہیے ایک جج جو انڈیپینڈنٹ ہو جس نے اوتھ لیا ہو اس پہ جتنی بھی تنقید ہو جائے اگر وہ کسی قسم کا اثر لیتا ہے تو وہ اپنے اوتھ کی وائلیشن کرتا ہے۔ کبھی اگر اظہار رائے ہو اور اس کی قدر ہوتی ہے میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ہم 1971 میں پاکستان ٹوٹتے نہ دیکھتے۔ اس وقت مغربی پاکستان میں آپ سارے اخبار نکال لیں۔
مغربی پاکستان کے لوگوں کو بالکل ایک مختلف پکچر دکھائی گئی ہے۔ یہ جو تھرو آؤٹ ہوتا رہا ہے۔ لیکن یہ ہر ایک کو اپنے آپ سے سوال پوچھنا چاہیے کہ ہم کس طرف جا رہے ہیں۔ آج بھی کیا ہم اصولوں پہ بات کر رہے ہیں۔ کیا ہم اصول پہ کھڑے ہیں یا ہم جتنے پولرائزڈ سوسائٹی ہو گئے ہیں ہم اپنی مرضی کے فیصلے بھی چاہتے ہیں ہم اپنی مرضی کی گفتگو بھی چاہتے ہیں۔ اظہار رائے بہت بڑی چیز ہے اور اظہار رائے کو کبھی بھی دبانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے اگر کوئی غلط کہتا ہے وہ خود ایکسپوز ہو جاتا ہے۔ وقت کے ساتھ ایکسپوز ہو جاتا ہے اور جو ٹیکنالوجی کا دور ہے اس میں ریاستیں اظہار رائے کو قابو نہیں کر سکتی ہیں۔ آج کوٹ رپورٹرز جو ہیں ان کے لیے ایک نیا چیلنج بھی ہے۔ کیونکہ وہ صرف کورٹ رپورٹنگ نہیں کرتے۔ وہ وی لاگز بھی کرتے ہیں۔
وی لاگز میں کمرشل انٹرسٹ بھی ہوتا ہے اس کو وہ کیسے بیلنس کریں یہ بہت بڑا چیلنج ہے۔ جوڈیشری کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے کہ جوڈیشری کو نہ گھبرانا چاہیے نہ خائف ہونا چاہیے نہ کوئی جج خائف ہو سکتا ہے بہت ساری چیزیں ہم کہہ سکتے ہیں لیکن حل ایک ہی ہے اور حل آئین ہی میں لکھا ہوا ہے اور وہ ہے اظہار رائے کا رسپیکٹ کرنا۔ یہاں پہ ہم ایسے ماحول میں رہتے ہیں کہ ایک سیاسی لیڈر اگر کمزور ہو جائے اور یہ آپ کی پوری تاریخ میں ہوا ہے اس کو عدالت سزا دینے سے پہلے یا ریاستی طور پہ یا ایک بہت بڑا سیکشن جو اس کے مخالف ہوتا ہے وہ اس کو سزا دینے سے پہلے سزا دے چکی ہوتی ہے۔ آپ اپنے پیچھے ساری جو ریکارڈڈ ہسٹری ہے اس کو دیکھیے
میں کل ایک محنت کش کیڈی سے ملا۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ جی یہ بتائیے کیا حالات ٹھیک ہو جائیں گے۔ اب یہ بالکل پڑھا لکھا نہیں ہے غریب کیڈی ہے۔ سارے دن میں جو اس کو ملتا ہے وہی اس کی مزدوری ہے۔ تو میں نے اس سے پوچھا میں نے کہا تم مجھے یہ بتاؤ تم محلے میں بھی پھرتے ہو۔ ہر جگہ جاتے ہو۔ کیا ہمارے اقدار سوسائٹی کے آج اصولوں پہ اور سچائی پہ ہیں؟
اور وہ یک دم ہنس پڑا۔ اس نے کہا یہ سچائی کا دور نہیں رہا دیکھیں سچ سب کو پتہ ہے اور سچ 75 سال سب کو پتہ تھا لیکن سچ کو ہمیشہ دبانے کی کوشش کی گئی اور اس کو دباتے دباتے 75 سال ہم یہاں تک پہنچ گئے ہیں۔ میں اپنے آپ کو اس قابل ہی نہیں سمجھتا کہ میں کسی کو کوٹ رپورٹر کو بتاؤں کہ اس کے اصول کیا ہیں۔ ان کو مجھ سے زیادہ بہتر معلوم ہے لیکن میں بحیثیت جج یہ کہہ سکتا ہوں کہ ہمیں اگر کوئی غلط بھی کہتا ہے۔ میں نے تو ٹیلی ویژن پہ دیکھا میرے بارے میں کسی نے کہا کہ جی وہ تو واٹس ایپ پہ کسی کے ساتھ تعلق میں رہتے تھے میں ہنس پڑا میں ہنس ہی سکتا ہوں۔ لیکن میں نے کبھی کسی چیز کی پرواہ نہیں کی ہے۔ ہر دور میں کسی نہ کسی نے مجھے دو فلیٹ دلا دیے۔ کسی نے کیا کیا۔ کیا اس کا کوئی فرق پڑا؟ بحیثیت جج ہم پبلک پراپرٹی ہیں ہم اچھے ہیں یا برے ہیں ہمارا فیصلہ ایک فیصلہ نہیں ہے اور اوور دا ایئرز اپنے کریئر میں جو کچھ کریں گے وہ خود بخود وہ سچائی سامنے آجائے گی۔ لیکن کبھی بھی عدلیہ کو کبھی بھی کسی جج کو سوچنا ہی نہیں چاہیے یہ Attempt ہی نہیں کرنی چاہیے کہ وہ اظہار رائے کو یا کسی رپورٹر کو منع کرے یا انفلوئنس کرے کہ اس نے کیا کرنا ہے۔ یہی ہمیں آزادی دلا سکتی ہے۔ صحیح راستے پہ ڈال سکتی ہے۔ سچائی سچائی ہی رہتی ہے جھوٹ جتنا بھی بولا جائے آخر میں سچ ہی Prevail کرتا ہے۔
اگر اظہار رائے کی ہم نے 75 سال قدر کی ہوتی۔ اگر اظہار رائے کو ہم نے صحیح معنوں میں پنپنے دیا ہوتا تو نہ پاکستان دو لخت ہوتا نہ ہمارے لیڈر جو ہیں وہ سولی پہ چڑھتے۔ اس لیے یہ صرف عدلیہ کا کام نہیں ہے یہ آپ سب کا بھی کام ہے یہ ہر شہری کا بھی کام ہے اظہار رائے ہوگا تو ہم ایک عظیم قوم بن سکتے ہیں اور یہ آئین جو ہے یہ Up ہوگا۔ اور میں آپ کی اس کاوش کو یقینا میں بہت ہی قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔ جاتے جاتے ایک آخری دو چیزیں بتا دیتا ہوں۔ اٹھارویں ترمیم جب ہوئی تو بہت ساری قوتیں اٹھارویں ترمیم کے مخالف تھیں اور اس وقت ایک تاثر ہوا کہ سپریم کورٹ اس اٹھارویں ترمیم کو سٹرائک ڈاؤن کر دے گی تو ایک کورٹ رپورٹر نے مجھے ٹیلی فون کیا میں اس وقت وکیل تھا۔ اس وقت وہ کیسز ٹیک اپ نہیں ہوئے تھے تو انہوں نے کہا آپ کے خیال میں سپریم کورٹ کیا کرے گی۔
میں نے کہا سپریم کورٹ اس لائرز موومنٹ اس تاریخی لائرز موومنٹ کے بعد ری اسٹور ہوئی ہے۔ سپریم کورٹ کو سوچنا بھی نہیں چاہیے کہ وہ کسی آئینی ترمیم کو چھیڑے۔ میں نام نہیں لینا چاہتا ہوں اس کورٹ رپورٹر کا لیکن وہ ریکارڈ کا حصہ ہے اس لیے بتا رہا ہوں۔ اس نے میرے ساتھ بحث شروع کر دی میں نے کہا دیکھیں میرے ساتھ بحث نہ کریں میرا اپنا ایک پوائنٹ آف ویو ہے۔ اگلے دن مجھے کسی نے فون کیا صبح صبح۔ اس نے کہا فلاں اخبار دیکھو اس میں ہیڈ لائن لگی ہے تمہاری میں نے کہا میں نے کیا کیا جو میری ہیڈ لائن لگی ہے۔ وہ ہیڈ لائن یہ تھی:
Athar Threatens the Supreme Court.
تو اعتزاز صاحب مجھے شام کو ملے انہوں نے یہ پوچھا کہ اٹھارویں ترمیم اگر سٹرائک ڈاؤن ہو گئی تو آپ کیا کریں گے میں نے کہا اگر سٹرائک ڈاؤن ہوئی میں وکالت چھوڑ دوں گا۔
اب آپ دیکھیے کہ
This was a court reporting from a court reporter.
تو میں نے اعتزاز صاحب کو کہا کہ میں تو مارا گیا ہوں۔ لگ تو یہی رہا ہے کہ یہ اٹھارویں ترمیم جو ہے یہ شاید سٹرانگ ڈاؤن ہو جائے تو اعتزاز صاحب نے کہا نہیں نہیں ہم اس پر سوچتے ہیں۔ میں نے کہا میں نے یہی کہا تھا اور غالبا جب اٹھارویں ترمیم سٹرائک ڈاؤن نہیں ہوئی مجھ سے زیادہ خوش انسان اور کوئی بھی نہیں تھا۔ اس لیے دیکھیں اظہار رائے اوپن ہونا چاہیے۔ اس ٹائم پہ بھی جب ہم بہت مضبوط تھے تو ایک ہیڈ لائن لگ گئی تھی:
Yesterday’s Hero Becomes Zero
سیریز آف ارٹیکل چھپے۔ اور میں اس اخبار کو کم از کم یہ کریڈٹ دیتا ہوں کہ میں نے ان کو اپنا ورژن بھیجا اور انہوں نے چھاپ دیا تو وہ اظہار رائے تھی اور اظہار رائے کو انکریج کرنا چاہیے۔ جس سوسائٹی نے بھی ای ڈی امین کی طرح ڈسکریج کیا ہے وہ سوسائٹیاں تباہ ہوئی ہیں۔
کیونکہ جو غلط کام نہیں کر رہا اس کو گھبرانا ہی نہیں چاہیے۔ لوگ سلانٹ بھی دیں گے ہم پولرائزڈ سوسائٹی میں ہیں بہت کچھ ہوگا لیکن جمہوری معاشرے میں جہاں پہ آئین کی بالادستی وہاں اظہار رائے پہ کسی قسم کی کوئی قدغن نہیں رہی اور جاتے جاتے اتنا میں کہوں گا میں چار سال ایز چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ رہا ہوں اور مجھے یہ کہنے میں کسی قسم کا کوئی عار نہیں کہ ان چار سالوں میں میرے خیال میں وہ ادھر موجود ہیں میں نے کبھی ان کو نہ کسی ہائی کورٹ کی طرف سے کبھی کوئی رپورٹنگ میں انفلوئنس کرنے کی کوشش کی کیونکہ وہ انفلوئنس کرنے کی ان کو ضرورت نہیں تھی انہوں نے پروفیشنلی جس طرح چیزوں کو ڈیل کیا میں ان کو یقینا
I can compliment for that.
لیکن اظہار رائے میں اگر انہوں نے بھی تنقید کی بے جا بھی تنقید کی وہ بھی ہمارے لیے اس لیے اچھی ہے کہ جب سچائی نکلتی ہے تو سچائی ہی پریویل کرتی ہے ان چند الفاظ کے ساتھ میں آپ سب کا بہت شکریہ ادا کرتا ہوں۔
- اگلی اننگز عوام کی ہے - October 31, 2024
- بچوں کے ادب کی الف لیلہ کی آمد - October 27, 2024
- امریکی انتخابات - October 25, 2024