بہت ابتلائیں ہیں بہت المیے سانحے جبر قہر
مگر مجھے ایک اعتماد رہتا ہے کہ حالات بہتر ہو جائیں گے کیونکہ اس خطے کی سرشت میں مزاحمت ہے چیلنجوں سے نبرد ازما ہونا ہے صدیوں سے یہ مشکلات بھی رہی ہیں، بیرونی حملہ آور بھی اپنے لاؤ لشکر سمیت آتے رہے، اندرونی جابر بھی قیامتیں ڈھاتے رہے مگر یہاں پیدا ہونے والوں نے ہمت نہ ہاری ۔ماضی میں یہ علاقے غیر ملکی حملہ آوروں کی الگ الگ مزاحمت کرتے رہے کیونکہ زیادہ تر حاکم الگ الگ ہی رہے۔ انگریز نے ان علاقوںکی برٹش انڈیا میں شمولیت کی کوششیں جاری رکھیں کہیں کامیابی ہوئی ،کہیں منہ کی کھائی۔
میں ماضی حال مستقبل کو آپس میں ملا کر جائزہ لیتا ہوں سارے ادوار ایک دوسرے کو آباد بھی کرتے ہیں اور اجاڑتے بھی ہیں ایک دور میں بوئی ہوئی فصلیں چاہے محبت کی ہوں یا نفرت کی وہ آنے والوں کو کاٹنا پڑتی ہیں دکھ سکھ سانجھے ہوتے ہیں۔ قائد اعظم کی قیادت میں ہم نے اس خطے کے علاقوں کو ایک لڑی میں پرو دیا تاہم ہماری بدقسمتی کہ سنہرا بنگال ہماری بے بصیرتی برداشت نہ کر سکا اور اس نے اپنے لیے ایک الگ راستہ چن لیا، وہ لوگ ہم سے زیادہ مسلمان تھے، ہم سے زیادہ جمہوری، ہم سے زیادہ پڑھے لکھے۔ وہاں بڑی بڑی جاگیرداریاں، چوہدراہٹیں، سرداریاں نہیں تھیں۔ زمین کم تھی آبادی زیادہ چنانچہ پیٹ بھرنے کیلئے انہیں زیادہ محنت کرنا پڑتی تھی۔ ان کی ہماری شیرازہ بندی سے علیحدگی ہمارے لیے زیادہ نقصان دہ ثابت ہوئی، مذہبی یگانگت بھی کم ہوئی، جمہوریت سے عشق بھی۔
اب میں بات کروں گا تو صرف مغربی پاکستان کی کہ دولخت ہونے کے بعد پاکستان اب اتنا ہی رہ گیا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ خطہ اپنی زرخیزی معدنیات، بلیو اکانومی اور افرادی قوت کے حوالے سے بے مثال وحدت ہے جتنی قومیتیں یہاں بستی ہیں وہ اپنی محنت ،ندرت، تخلیقی اہلیت کے لحاظ سے دنیا میں قدیم ترین تہذیبیں مانی جاتی ہیں۔ ارضی نعمتوں کے ساتھ ساتھ اس علاقے کو صوفیائے کرام کی ہستیاں بھی عطا کی گئیں جو ایک طرف اللہ سے لو لگانے میں پیش پیش تو دوسری جانب عبد اور معبود کے درمیان رکاوٹیں ہٹانے میں آگے آگے رہیں، دوسرے مذاہب میں بھی درویش ،سادھو سامنے آئے۔ اس قسم کی روایتیں موجود ہیں جن سے گلی کوچوں تک میں دانش کی پرورش ہوتی تھی۔ تاریخ کے اوراق، صوفیاء کرام کی شاعری، اولیاء اللہ کے ملفوظات گواہی دیتے ہیں کہ سب نے خلق ِخدا کی بہتری کے لیے جدوجہد کی، سب کا بنیادی فلسفہ یہ تھا کہ انسان آزاد پیدا ہوا ہے، اپنے فیصلے کرنے کا اختیار اسی کو ہے، اپنے علاقے کا مالک بھی وہی ہے۔ کوئی زمانہ ہو آریہ، دراوڑ، اشوکا بدھ مت، مغل، افغان، انگریز مزاحمت کی ایک طویل روایت ہے۔ جدید دور میں تو لاٹھیاں ہیں، آنسو گیس، عقوبت خانے، بے لباسی آڈیوز، ویڈیوز ہیں۔ پہلے بادشاہ اپنے لشکر بھیجتے تھے مقامی گورنروں کے ذریعے غلامی قبول نہ کرنے والوں کو اٹھا لیا جاتا یا قتل کر دیا جاتا تھا۔ ملتان کے عقیدت مند شاہ عنایت شہید کو کبھی نہیں بھولتے۔
آج جس طرح یوٹیوب چینلز سوشل میڈیا پرسرگرم ہیں، بے خوفی ہے، نظام کہنہ سے بیزاری ہے، اچھے دنوں کے لیے بے تابی ہے، اس ماحول میں جاگیرداری دم توڑ رہی ہے، شخصی حکومتیں ختم ہو رہی ہیں راستے بڑے ہو رہے ہیں، شاہراہیں زیادہ وسیع ہو رہی ہیں، موٹروے انٹرسیکشن اور بہت کچھ فاصلے کم کر رہا ہے، انسانوں میں قربتیں بڑھ رہی ہیں پہلے صوفیا کا کلام، جنگ نامے، قصے کہانیاں انسانوں کو آپس میں ملاتے تھے ایک سوچ کو جنم دیتے تھے، اب یہی کام یہ جدید ترین مواصلاتی آلات کر رہے ہیں پھر سمندر پار پاکستانی جو ترقی یافتہ ملکوں میں زندگی بسر کرتے ہوئے زیادہ ذہین ہو گئے ہیں ان کو زندگی گزارنے کے نئے جمہوری طریقے بھی آگئے ہیں، انہیں انسان دوست ملکوں میں ماحول سازگار مل رہا ہے، انفراسٹرکچر موزوں میسر ہے، وہ بھی اپنے آبائی خطے کو زیادہ خوشحال اور زیادہ کامیاب دیکھنے کے لیے دامے درمے قدمے سخنے مدد کر رہے ہیں، ان تمام جہات اور کوششوں سے نظام کہنہ پر لرزہ طاری ہے کوششیں کی جا رہی ہیں کہ لیپا پوتی کر کے لوگوں کو کشتے کھلا کر، انجیکشن لگا کر چلنے پھرنے کے قابل بنایا جا رہا ہے، اس جوڑ توڑ کے خلاف بلند ہونے والی آوازوں کو دبایا جاتا ہے اور ان سارے حکمران طبقوں کو، درباری قوتوں کو خطرہ یہ ہے کہ فرد طاقتور نہ ہو جائے، خلق خدا راج نہ کرنے لگے۔ اقبال نے پہلے ہی خبردار کیا تھا
عروج آدمِ خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہ کامل نہ بن جائے
تاریخ مطمئن ہے کہ عوامی دانش کا قافلہ آگے بڑھ رہا ہے۔ صوفیا کا کلام پہلے سے ہی عوام کو ایک سمت مہیا کرتا تھا پھر کتابیں اخبار ان کی تربیت کرتے تھے۔ اقبال، جالب، فیض، شیخ ایاز، جوش، گل خان نصیر، استاد دامن ان کے ذہنوں کو صیقل کرتے تھے۔ سوشل میڈیا نے پھر اپنے جلوے دکھائے۔ غور کیجئے کہ ویسے تو یہ ضلعی لٹریری فیسٹیول، کرکٹ ٹورنامنٹ، کتاب میلے، فیشن شوز ،میلہ مویشیاں لوگوں کی حکومت کے جبر سے توجہ ہٹانے کے لیے منعقد کیے جاتے تھے لیکن یہ سب اس خطے کے افراد میں مزید سیاسی اور سماجی شعور پیدا کر رہے ہیں، محرومیاں طاقت بن رہی ہیں، اشتہارات سطحی ترقی بتاتے ہیں لیکن تحقیق گہرائی میں لے جاتی ہے۔ مصنوعی ذہانت کا غلغلہ ہے مگر وہ فطرت کے اصولوں کو روندنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔
اب میرے سامنے صدیوں کا تمدن ہے، بادشاہوں کی ،جاگیرداروں کی، مزاحمت کرتا صوفیا کا کلام ہے، حکمرانوں کی ناانصافیاں ہیں ،عالمگیریت سے پھیلتا شعور ہے، سوشل میڈیا کا حلقہ اثر ہے، ادبی تہواروں سے ولولہ پاتا ادراک ہے، عام لوگوں کے ذہن زیادہ منور ہو رہے ہیں ،ماحول زیادہ روشن خیال ہو رہا ہے، اک ذرا صبر کہ بیداد کے دن تھوڑے ہیں۔
- خطہ روشن خیال ہورہا ہے - February 20, 2025
- ہنس اور مور تو کہاں ہیں آج - February 16, 2025
- حقیقی آزادی۔ اقتصادی آزادی - February 13, 2025